مولانا آزاد کی شخصیت اورخدمات
شیخ فرید (ریسرچ اسکالر)
محبوب نگر ۔ تلنگانہ
09848531966
مولانا آزاد کی شخصیت ایک بڑے سیاسی انتشار، اخلاقی بحران اور سیاسی زوال سے اس طرح برآمد ہوئی جس طرح تاریک راتوں میں تاروں کا ہجوم یا سمندروں کی طوفانی موجوں سے چند گوہر آبدار بقول خلیق احمد نظامی ’’مولانا آزاد کی جدوجہد کا میدان اتنا وسیع اور ان کی فکر میں ایسی توانائی تھی کہ ان کی ذات ایک قندیل رہبانی بن گئی ہیں‘‘۔
مولانا ابوالکلام آزاد ؔ کی شخصیت کی تعمیر وتشکیل میں جن محرکات ومؤثرات کی کارفرمائی شامل رہی ہے ان میں ان کے خاندان کا دینی اور علمی ماحول قابل لحاظ اہمیت کا حامل معلوم ہوتا ہے وہ ۱۸۸۸ء میں مکہ معظمہ کی پاک سرزمین پر پیدا ہوئے۔
جدید ہندوستانی قوم کی اجتماعی زندگی کا کوئی دائرہ کوئی نقشہ، کوئی پلان اور کوئی پروگرام ایسا نہیں جس پر مولانا آزاد کے افکار واقدامات کا عکس نہ پڑا ہو۔
بقول علامہ اقبال:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
مولانا آزاد کی شخصیت جتنی دلکش تھی اتنی ہی ہمہ گیر بھی تھی۔ وہ بیک وقت آزادی ہند کے عظیم مجاہد، مایہ ناز دانشور، دیدہ ور سیاسی رہنما مذہبی مفکر اور بے خوف صحافی تھے۔مولانا آزاد کی قیادت کا میدان بہت وسیع تھا انہوں نے جس میدان میں بھی قدم رکھا اپنی عظیم شخصیت کا نہ مٹنے والا نقش ثبت کردیا۔
علماء یہ بات بہت وثوق سے کہتے ہیں کہ مولانا آزاد اگر سیاست کی طرف متوجہ نہ ہوتے تو اپنے وقت کے امام ابن تیمیہ ہوتے۔ اس سے بڑھ کر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اگر مولانا آزاد سائنس کی طرف متوجہ ہوتے تو اپنے وقت کے آئن اسٹین یا نیوٹن جابر بن ابن حیان ہوتے۔
بقول:سراسٹیورڈ کرپس :’’ میں نے ایسا بالغ نظر ، دور رس اور دور اندیش سیاست داں نہیں دیکھا‘‘۔
مولانا آزاد کی ژرف نگاہی اور دقیقہ سنجی جس کو کام میں لاکر انہوں نے مستقبل کے پردہ میں جھانکنے کی کوشش کی اور اپنے لئے جس راہِ عمل کا انتخاب کیا اس پر پوری قوت اور صدق دلی سے آگے ہی بڑھتے رہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مولانا آزاد نے انگریز حکومت کی مخالفت اس وقت کی جب انڈین نیشنل کانگریس کے رہنما اس کی وفاداری میں قراردادیں منظور کر رہے تھے۔ پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوا تب سب سے پہلے مولانا آزاد قید وبند کا شکار بنائے گئے۔ اس وقت کے بیشتر سیاسی رہنماؤں کے سامنے مستقبل کا کوئی نقشہ نہ تھا جب کہ مولانا آزاد چشم تصور سے آزادی کا سورج طلوع ہوتے دیکھ رہے تھے۔
مولانا آزاد نے اپنی تحریروں میں جا بجا متحدہ قومیت اور اس مشترک سرمائے کو موضوع ومحور بنایا ہے جو کسی ایک قوم کا اجارہ ہے اور نہ میراث کیونکہ اس مشترک خمیر کی تشکیل میں ایک سے زیادہ اقوام نے برابر کا حصہ لیا۔ مولانا کی قیادت میں ہندوستان نے تعلیم، ٹکنالوجی اور ثقافت کے شعبہ میں غیر معمولی ترقی کی۔
مولانا آزاد ہندوستان کے گیارہ سال ۱۹۴۷ء تا ۱۹۵۸ء وزیر تعلیم کے جلیل القدر منصب پر فائز رہے انھوں نے تعلیم کو قومی حالات وروایات کے تناظر میں دیکھا اورملک کے مفادات کے تحت اس کی اہمیت ان کے عہد وزارت میں تعلیمی منصوبہ بندی کا آغاز ہوا۔ اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کا قیام عمل میں آیا۔ وہ تعلیم کا ایک جامع اور ارفع تصور رکھتے تھے۔ اقتدار عالیہ کی پرستاری، حب وطن سے سرشاری اور مسلک انسانیت کی پیروی ہی مولانا آزاد کے فلسفہ تعلیم کے نمایاں عناصر ہیں۔ ان کی رہنمائی اور دلچسپی کی بناء پر اعلی تعلیم میں سائنسی اور تہذیبی ترقی کی طرف رجوع کیا گیا نیز سائنس اور سائنسی تحقیق کو خصوصی طور پر فروغ حاصل ہوا۔
مولانا آزاد نے ایک بہت ہی پرخطر ماحول میں مسلمانوں کی سیاست اور اجتماعی زندگی کی شیرازہ بندی اس مدبرانہ انداز سے کی کہ ملت اسلامیہ کا وہ انتشار دور ہوگیا جس میں مبتلا ہو کر وہ اپنے وجود سے مایوس ہونے لگی تھی۔ مولانا آزاد ان نادر شخصیتوں میں تھے جن کا دامن دریائے سیاست میں غوطہ زنی کے باوجود ’’تر‘‘ نہ ہوسکا۔ بادی النظر میں تو کہا تو کہا جاسکتا ہے کہ تر ہوا مگر دیدۂ بینا کے لئے یہ تری کچھ یوں تھی کہ۔
’’دامن نچوڑدیں تو فرشتے وضو کریں‘‘۔
مولانا آزاد ایک نڈر صحافی تھے۔ ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ ان کا صحافتی کرشمہ تھا۔ الہلال خالص اسلامی اخبار تھا محض مسلمانوں کے مسائل اس کے پیش نظر رہتے تھے۔ ’’تحریک الہلال‘‘ کے بارے میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی کا یہ قول بہت مشہور ہے کہ ’’ہم سب اپنا کام بھولے ہوئے تھے الہلال نے یاد دلایا ‘‘۔
الہلال کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے علی گڑھ کے طلسم کو توڑدیا۔ یہ اردو کا پہلا سیاسی، سماجی، مذہبی اور معاشرتی جریدہ تھا جس نے مسلمانان ہند کو بیدار کیا اور ان کے کانوں میں آزادی کا صور پھونکا۔
بقول رشید احمد صدیقی:
’’مولانا آزاد کی تحریر صحافتی نہیں تخلیقی ہوتی تھی نظر حکیمانہ، انداز خطیبانہ، اور آہنگ ملہمانہ،ان کی تحریروں، تقریریوں نیز ان کے سراپا کا جب بھی خیال آتا ہے تو ایسا محسوس ہونے لگتا کہ جیسے ازمنہ قدمیم میں حونان کے کئی رزمیہ نگار معروف کار ہوں۔ اپنے زمانے اور اپنے دیار میں مولانا یونانی دیوتاؤں سے کم نہ تھے ‘‘۔
ان کی مادری زبان عربی تھی، اور ان کا خانوادہ دینی وعلمی خدمات کے لئے مشہور تھا۔ ابوالکلام کے مولد مکہ معظمہ ہی کو نزولِ کلام الٰہی کا اولین مہبط ہونے کا شرف حاصل ہے۔ کلام الٰہی کو غور وفکر سے سمجھنا اور سمجھانا ابوالکلام کا وہ محبوب مشغلہ تھا جو عمر بھر ان کا رفیق رہا۔ منازلِ زیست کے نشیب وفراز طے کرنے میں آزاد نے قرآنِ مجید سے روشنی اور رہنمائی حاصل کرنے کی جو کوشش کی تھی اس کے تابناک نقوش ان کی تحریروں اور تقریروں میں جگہ جگہ جلوہ گر نظر آتے ہیں۔ ان کے مشہور ومقبول جریدوں’الہلال‘ اور ’البلاغ‘ کے اوراق پر جا بجا قرآنیات کے مباحث ملتے ہیں۔ ان کی تحریروں اور تقریروں میں آیات قرآنی کے حوالوں کی جو فراوانی نظر آتی ہے، وہ نہ صرف اس امر کی ترجمانی کرتی ہے کہ قرآن مجید پر مولانا کو زبردست عبور حاصل تھا بلکہ اس بات کی بھی غماز ہے کہ مولانا آزاد کے قلب وذہن پر قرآن مجید کی گرفت کتنی مضبوط تھی۔ مولانا کی بوقلموں شخصیت اگر جلوۂ صد رنگ کا ایک روشن ودل کش مرقع تھی، تو اس رنگا رنگ مرقعے کا سب سے زیادہ دل کش اور تیز رنگ وہ روشنی تھی جو انھوں نے اپنے برس ہا برس کے وسیع وعمیق مطالعے میں قرآن مجید سے حاصل کی تھی اور جسے بہ آسانی ان کا حاصل زندگی قرار دیا جاسکتا ہے۔
مولانا ابوالکلام آزادؔ کے ادبی آثار میں ’’ترجمان القرآن‘‘ نہ صرف اپنی ضخامت کے اعتبار سے بلکہ اپنی قدر وقیمت کے لحاظ سے بھی ایک یادگار اور سدا بہار کارنامہ ہے۔ اس کی تحریر میں آزادؔ نے جس قدر کد وکاوش کی ہے یا جتنا وقت صرف کیا ہے وہ ان کی دوسری کسی بھی کتاب پر صرف نہیں ہوا ہے۔ ’’ترجمان القرآن‘‘ کی تحریر کی داستان اپنے دامن میں جن انبار در انبار مشکلات کی حامل ہے ان کا بیان بجائے خود ایک طویل مقالے کا عنوان بن سکتا ہے۔ ’’ترجمان القرآن‘‘ وہ روشن آئینہ ہے جس میں مولانا آزاد کی دینی اور علمی سرگرمیوں کا پرتو پوری آب وتاب کے ساتھ جلوہ گر نظر آتا ہے۔
انشاء عربی کا لفظ ہے جس کا مادہ ن ش ء ہے۔ انشاء کے معنی مادۂ تخلیق کے بھی ہیں۔ عربی لغات میں اس کے معنی نئی چیز بنانا، بلند کرنا، عنفوانِ شباب اور انشائے کلام کے معنی میں نئی بات وضع کرنا ہے۔ اردو میں انشائیات نثر کی وہ ہیئت ہے جو مقالوں یا مستقل اصناف کی پابندیوں سے آزاد ہو۔ مثلاً ناول ، ڈرامہ، سوانح عمری مقالات، تفاسیر وغیرہ لیکن مکاتیب مستقل صنف ہونے کے باوجود انشائیات میں شمار کئے گئے ہیں۔
ابوالکلام کی انشائیات میں جمالیات فن کی شکل میں نغمہ زن ہے اور عقل کی وادی میں گامزن ہے۔ اس مرد خدا نے جس معاشرت اور ماحول میں آنکھیں کھولیں اور جس جرأت اور جمال پرستی سے رسمی اخلاق اور روایتی مذہب کی بنیادیں منہدم کیں اور جس کے رد عمل کے طور پر اس مردِ آزاد کو سخت مخاصمانہ اور مجنونانہ معاشرے کا مقابلہ کرنا پڑا، اسے دیکھتے ہوئے اور اس کے شدید صدمات کو گنتے ہوئے مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں ہے کہ بلاشبہ نہ صرف اپنے عہد کے بلکہ ہر عہد کے مسلم معاشرے میں وہ پہلا مرد مومن تھا جسے صحیح معنوں میں مرد انقلابی کا لقب دیا جاسکتا ہے۔
’’تذکرہ ‘‘ کے علاوہ مولانا آزاد کی آپ بیتی کا ایک حصہ وہ کتاب ہے جو ’’آزاد کی کہانی خود آزاد کی زبانی‘‘ کے نام سے مولانا کی وفات کے بعد ۱۹۵۸ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب بھی ’’انڈیا ونس فری ڈم‘‘ کی طرح مولانا کے قلم سے نہیں نکلی ڈکٹیشن ہے جو مولانا کے رفیق اور جیل کے ساتھی مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی کو ۱۹۲۱ء میں مولانانے علی پور سنٹرل جیل کلکتہ میں املا کرائی تھی۔ یہ کتاب بھی مکمل نہیں، کیونکہ کتاب کے آخر میں فٹ نوٹ میں ملیح آبادی لکھتے ہیں۔’’مولانا یہاں تک لکھا چکے تھے کہ جیل سے رہا ہوگئے اور یہ دل فریب داستان افسوس یہیں پر رک گئی‘‘۔
احمد نگر قلعہ کی نظر بندی نے دو اہم کتابیں لکھوادیں۔ ابوالکلام آزاد کی ’’غبار خاطر‘‘ اور جواہر لال نہرو کی ’’ڈسکوری آف انڈیا‘‘۔
’’غبار خاطر ‘‘ کی ایک خاص بات یہ ہے کہ بیک وقت وہ ادب، تاریخ، ثقافت اور سیاست کا ایک حسین اور دل نواز پیکر ہے۔ اس کا اسلوبِ بیان مولانا کی دوسری تحریروں سے بالکل جدا ہے۔ اس میں نہ الہلال، اور البلاغ جیسی خطیبانہ گھن گرج اور کڑک چمک ہے، نہ ’’تذکرہ‘‘ جیسے پرشکوہ الفاظ اور ترکیبوں کے آبشار گرتے اور گرجتے ہیں۔ یہ نسبتاً ایک عام فہم اور سلیس ادبی زبان میں ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مولانا پر ہر اسٹائل نے سے لکھنے پر کامل قدرت رکھتے تھے۔ وہ کسی ایک طرز انشاء کے موجود ومالک نہ تھے جس انشاء کو مولانا چاہتے اپنالیتے اور وہ صرف ان کا ہوجاتا، اس کی کاپی کرنا بھی دوسروں کے لیے آسان نہ ہوتا۔ یہاں یہ بات کہنا بھی ٹھیک ہوگا کہ مولانا اوائل عمر میں جو زبان لکھی وہ حد درجہ دشوار ہے جسے آج اور کل کے زمانے میں نئی نسل کے لیے صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھنا اور سمجھنا کافی دشوار ہوگا، کیوں کہ اردو تعلیم میں کمی آتی جارہی ہے۔ مولانا اس بات کے قائل ہوگئے تھے کہ آسان اور سلیس اردو لکھی جانا چاہئے۔
علی گڑھ یونیورسٹی کی بقا، جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ترقی، سکنڈری ایجوکیشن کمیشن، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن اور انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ٹکنالوجی کھڑک پور کا قیام ان کی قابل ذکر تعلیمی خدمات ہیں۔
مولانا آزاد کے ’’الہلال‘‘ نے ایک طرف ایک بین الاقوامی سطح پر اسلام کا تصور دیا تھا۔ اس نے ہندوستان میں پہلی بار خلافت عثمانیہ اور بلاد اسلامیہ کی تازہ خبریں ہندوستانی مسلمانوں تک پہنچائیں اور عالم اسلام اور ہندوستان کے درمیان ایک خوبصورت رابطہ کا ذریعہ بنا۔ عالمی تحریکوں کو اپنے قلم کی طاقت سے تقویت پہنچائی اور ہندوستانی مسلمانوں کی نبضوں کو عالم اسلام کے ساتھ دھڑکنا سکھایا۔
مولانا آزاد ۱۱ ؍برس تک وزیر تعلیم رہے یہ جلیل القدر منصب اس طرح گذارا کہ نہ کہیں گھر بنایا اور نہ بنک بیلنس چھوڑا۔ بعد وفات احباب کے قرض کی ادائیگی ذاتی موٹر فروخت کر کے کی گئی جب کہ زمانہ وزارت صرف تین شیروانیوں میں گذارا۔ جو پرانی پڑ کر جابجا روفودار ہوگئی تھیں۔
یہ بات بہت کم ہوگ جانتے ہیں کہ مولانا آزاد نے ہندو مسلم اتحاد کے لئے قرآنی آیات وہدایات کی وکالت بھی کی تھی۔ انتہائی زور دے کر کہا کرتے تھے کہ ہندو مسلم اتحا دکی نشاندہی پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات زندگی میں نمایاں طور پر موجود ہے۔ یہ کارنامہ ان کی زندگی کا عظیم ترین کارنامہ کہا جاسکتا ہے۔ ہم لوگوں کے ساتھ پریشانی یہ ہے کہ ہم مولانا آزاد کو سمجھے بغیر ہی ان کا احترام کرتے ہیں۔
آج قومی اتحاد، سیکولرازم، مشترکہ تہذیب، جمہوریت، اور اقلیت نوازی کا نام لینا فیشن بن گیا ہے مگر اس کی روح غائب ہوگئی ہے۔ یہ چند سوال ایسے ہیں جو آج ہمیں دعوت فکر وعمل دیتے ہیں۔
***