مولانا آزاد کی صحافتی علمی وادبی خدمات
ڈاکٹررضوانہ بیگم
اسسٹنٹ پروفیسر‘شعبہ اردو
کالج آف لینگویجس ۔ ملے پلی۔حیدرآباد
مولانا ابوالکلا م آزاد ایک ممتازدانشور ‘مفکر ‘مدیر ‘ادیب ‘شاعر‘صحافی ‘سیاستدا ں‘مفسر‘عالم دین مقرر اورآزاد ہندوستا ن کے او لین وزیر تعلیم مولانا محی الدین احمدابوالکلام آزاد ۱۱ نومبر ۱۸۸۸ ء کو مکہ معظمہ میں ایک علمی گھرانے میں پیداہوئے ۔آپ کا آبائی وطن دہلی اورمادری وطن مدینہ تھا ۔والد مولانا خیرالدین دہلی کے رہنے والے تھے ۔ اورجنگ آزادی کے بعد مکہ میں مقیم ہو گئے تھے ۔انہوں نے آپ کی والدہ سے مدینہ میں نکا ح کیا
آپ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے ۔ آپ کا تاریخی نام فیروزبخت رکھا گیا ۱۸۹۸ ء میں مولانا خیر الدین کلکتہ چلے آئے۔ یہیں پر مولانا آزاد کی والدہ فوت ہوگئیں ۔والدنے آپ کومشرقی علو م کی گھریلو ماحول مذہبی اور دینی عظمت سے رچاں تھا‘ میں تربیت کی تھی ۔اس لئے مولاناآزاد قبل ازوقت سنجیدہ ہو گئے تھے۔ کتابیں کھلونابن گئیں ۔ والد نے عربی اور فارسی کی تعلیم دینا شروع کی ۔اردوکتب پڑھناممنوع قراردے دیاتاہم مولاناچوری چھپے اردوکتابیں بھی پڑھتے رہے ۔ اسی زمانے میں مولاناکو شاعری کاشوق شروع ہو ا پہلے اردوپھر فارسی میں شعرکہنے شروع کئے پہلی غزل جو دوسروں کو سنائی اس کاطرحی مصرعہ یہ تھا۔ ع
’’جو پوچھی زمیں کی تو کہی آسماں کی‘‘
بچپن عرب اورمصر میں گزراجامع الازہر قاہر ہ میں تعلیم حاصل کی۔پھر خاندان کے ساتھ ہندوستان آگئے اورکلکتہ میں سکونت اختیارکی بارہ سال کی عمر میں انہوں ایک سوسائیٹی قائم کرلی تھی۔ پھر دارالارشاد نامی تعلیمی ادارہ قائم کیا۔جہاں وہ اپنی عمر سے دوگنی عمر کے طلبہ کودرس دیا کرتے تھے۔دریں اثنا انہوں نے نیرنگ عالم نامی جریدہ نکالا ۔اسی دوران ۱۹۰۰ میں وہ ہفت روزہ المصباح کے مدیر بھی تھے۔ اردو‘عربی ‘فارسی ‘انگریزی ‘ہندی اوربنگلہ زبانیں جانتے تھے ۔ ۱۹۰۳میں ماہنامہ لسان الصدق جاری کیا اردوکی محبت میں انہوں نے اس رسالے کو انجمن ترقی اردوکاترجمان بنادیا۔مولاناآزادکی عمر انیس سال تھی جب ان کی شادی آفتاب الدین کی صاحبزادی زلیخا بیگم سے ہوگئی ۔
مولاناکی ادبی زندگی کاآغازشعر گوئی سے ہوا گیار ہ برس کی عمر میں شعر کہنا شروع کیا۔نثرکی طرف بعد میں توجہ کی ۔مولانا کی عمر سترہ تھی۔ان کی سیاسی خیالات میں تبدیلی شروع ہوگئی ۔برطانوی سامراج کے خلا ف ان کے دل میں نفرت کاجذبہ پیداہوگیا۔
مولانا کی نثری کتابوں میں ان کی علمی قابلیت ‘ذہانت اوردانشوری جلو ہ گر ہے ۔ مولانا کی نثر کایہ اندازہمیشہ یکساں نہیں رہا ۔وہ وقت اورموقعوں ‘مصلحتوں کے مطابق اپنی نثرکارنگ بدلتے رہتے تھے ۔رانچی میں مولانا تصنیف وتالیف اوردرس وتدریس کے کاموں میں مصروف رہے ۔کچھ عرصہ بعد انہیں اسی شہرمیں نظر بند کردیا گیا ۔اس شہر میں مولاناکو فرصت اورذہنی سکون ملا ۔مولانا کے لئے یہ بہت بڑی نعمت تھی ۔بقول ان کے ایک مدت سے جس فراغ خاطر اورآزادی فکر وعمل کو طبیعت ڈھونڈتی رہی وہ ملی بھی جلا وطنی اور نظر بندی کی شکل میں بقول مولانا
’’دنیائے جلاوطنی اورنظربندی کی خبر سنی اوردل نے خلوت گزینی گوشہ گیری کی دولت وسعادت پائی ‘‘
(مولانا ابوالکلا م آزاد غبارطر )صفحہ 273
اس شہر میں مولانا کی قابل ذکر تصنیفات ان کی آپ بیتی ‘تذکرہ ترجمان ‘القرآن وجودمیں آئیں عربی‘فارسی اوراردو تینوں زبانوں میں ان کی اردو نثر بہت روا ں دواں اوربر جستہ ہے اوراس میں دریا کا سا بہاؤ ہے ۔ابتدامیں انہوں نے بہت آسان زبان میں مضمو ن لکھے اوردوستوں کو خطوط لکھے لیکن بہت جلد حالات کے تقاضے اوربعض مصلحتوں کی وجہ سے انہیں اپنی زبان کے عربی اور فارسی کے موٹے موٹے الفاظ سے بوجھل بنانا پڑا۔
مولاناحسرت موہانی اردوکے ایسے ممتاز شاعر اورنثر نگار تھے ۔جنہیں نظم اورنثر دونوں پر قدرت حاصل تھی ۔مگر وہ مولاناآزاد کی نثر سے بہت متاثر تھے ۔اورکہتے تھے کہ ان کی شاعری میں وہ مزانہیں جو مولانا کی نثر میں ہے ۔
مولاناحسرت موہانی کاایک شعر ہے :
ْجب سے دیکھی ہے ابوالکلام کی نثر
نظم حسرت میں کچھ مزا نہ رہا
اس شعر میں حسرت موہانی مولانا آزادکی نثر کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ان کی شاعری میں وہ مزانہیں ہے جو مولانا کی نثر میں ہے وہ مولانا کی نثر سے بہت متاثر تھے ۔حالانکہ حسرت موہانی خود اردو کے ایسے ممتازشاعراورنثرنگار تھے ۔جنہیں نظم ونثر دونوں پر قدرت حاصل تھی ۔
مولانا آزاد کی شخصیت ہمہ جہت تھی۔جنگ آزادی کے مجاہدین میں ان کانام گاندھی جی اورپنڈت جی دونوں مولانا آزاد کی دانشوری اورسیاسی بصیرت کے قائل تھے ۔
مولانا کاشماراپنے عہد کے ممتازترین مقرروں میں ہوتا تھا ۔وہ تقریرکے ذریعے عوام کے جذبات سے نہیں کھیلتے تھے بلکہ سننے والوں کے دل ودماغ کواپنی تقریروں سے متاثرکرتے تھے ۔ان کی تقریریں پر جوش اورولولہ انگیزنہیں بلکہ فکر انگیزاوربصیرت افروزہوتی تھیں ۔وہ سننے والوں کو غورکرنے پر مجبور کردیتے تھے ۔عبدالواحدخاں نے ’’ آزاد‘‘ تخلص تجویزکیا ۔آپ کی سب سے پہلی غزل بمبئی کے رسالے ’’ارمفا ن فرخ ‘ ‘میں شائع ہوئی۔اس کے علاوہ پیا م یار ‘‘ لکھنؤ میں باقاعدہ طورپر آپ کی غزلیں چھپنے لگیں ۔۱۹۰۰میں آپ نے فارسی تعلیم مکمل کرلی ۔۱۹۰۳ میں درس نظامیہ سے فارغ ہوگئے بعد ازاں دیگرعلوم میں خود بخود دسترس حاصل کرلی ۔پہلے فرانیسی اوربعد میں انگرینری کی بہت سے علمی وادبی کتابیں پڑھ ڈالیں ۔کیونکہ شاعری کاشوق بڑھ گیا تھا اس لئے خود ایک رسالہ نکالنے کاخیال کیا ۔
اس وقت آپ کی قوت بیان اس قدر غضب کی ہوتی تھی کہ لوگ آپ کی عمر کے بارے میں شہبات ظاہر کر تے ۱۹۰۴ ء میں جب مولانا شبلی سے ملے توانہوں نے کہا۔ ’’توابوالکلام آزاد آپ کے والدہیں ‘‘
اس پرمولانا نے کہا نہیں میں خود ہوں آپ کی حاضر جو ابی دیکھ کر مولانا شبلی حیرت زدہ رہ گئے ۔اسی زمانے میں مولانا ابن ارشد ‘امام غزالی ‘سرسید اورمولوی محمد حسین آزاد جیسے مصنفین کامطالعہ شروع کیا ۔اورمختلف علوم کی کتابیں اکٹھا کرناشروع کیں ۔چنانچہ عبدالرحیم دہلوی اور مولوی کبیرالدین مالک اردوگائیڈ پریس کلکتہ کے کتب خانے آپ نے خرید لئے ۔تحصیل علم کے ساتھ ساتھ تحریر وتقریر اورترجمہ بھی شروع کر دیا۔
۱۹۰۱ ء میں مولوی رضاعلی وحشت نے ’’انیس الاسلام ‘‘کے نام سے ایک انجمن قائم کی اس میں پہلی بار باقاعدہ لیکچر دیا مولاناکی صحافتی اگرچہ ’’نیرنگ عالم ‘‘سے شروع ہو چکی تھی ۔لیکن باقاعدہ طور پر ماہنامہ لسان لصدق کلکتہ کو آپ کی صحافتی زندگی کا سنگ میل کہا جاتاہے ۔یہ رسالہ ۲۰ نومبر ۱۹۰۳ ء کوجاری ہوا ۔
اس رسالے نے اہل علم کے دلوں پرآپ کی فضیلت کا سکہ بٹھادیاتھا ۔چنانچہ مولانا شبلی نے رسالہ الندوۃ ‘کی ادارت کے لئے آپ کومنتخب کیا ۔یہا ں آپ کو بلابھیجا۔چونکہ الندو ہ میں آپ کو اپنے خیالا ت بیان کرنے کی پوری آزادی نہ تھی۔اس لئے آپ نے ’’وکیل ‘‘کی ادارت قبول کرلی۔
کچھ عر صہ کے بعد آپ کے بڑے بھائی ابونصر کا انتقال ہوگیااس لئے آپ والد کے اسرار پر کلکتہ واپس چلے گئے ۔یہا ں کچھ عرصہ اخبار ‘دارالسلطنت ’ کی ادرات بھی کی ۔اوراس کے بعد پھر وکیل ‘‘ کوہاتھ میں لے لیا ۔لیکن ذاتی آرا کی خاطراپنا اخبارنکالنے پر مجبورہوگئے ۱۳جولائی کو آاپ نے اپنا ذاتی اخبار’’الہلا ل ‘‘جاری کردیا۔
الہلال کے صفحات پرایسے قومی اور مذہبی مسائل زیر بحث آئے جن سے ملت اسلامیہ کے ذہنی نقشے بدل گئے مولانا نے قدماء کے طرزسے ہٹ کر آزاد صحافت کو جنم دیا۔اس میں حدیث وصداقت کا پیغام دیا ۔اس پرحکومت وقت کی نظروں میں آپ کاوجود کانٹے کی طرح کھٹکنے لگا ۔ ’’الہلا ل ‘‘ کے مضامین نے حکومت کو بوکھلاکردیا۔ ۱۶نومبر ۱۹۱۴ کو الہلا ل کی ضمانت ضبط کرلی ۔۱۹۱۵ میں مولانا کو بنگال بھی سے خارج کردیا۔ مولانا نے’’ البلاغ‘‘ کو نئے رخ پر نکالا ۔اس میں عملی نفیسات کادرس اورفکر وبصیرت اورروحانی عزم وثبات کاپیغا م دینا شروع کیا۔ البلاغ کا سلسلہ بند ہواتو ۱۹۲۱میں مولانا نے کلکتہ سے ایک اوراخبارپیغام جاری کردیا۔۱۹۲۱ میں الہلال بھی دوبارہ جاری ہوگیا ۔بنگال سے نکالنے کے بعد مولاناکورانچی میں نظر بندکردیاگیا ۔ ۱۹۲۰ میں آپ نظر بندی سے باہرآئے اورگاندھی جی عدم تشدداورعدم تعاون کی تحریک کاآغازکرچکے تھے ۔۱۸جنوری ۱۹۲۰ کو آپ کی ملاقات گاندھی جی سے ہوئی ۔یہیں سے گاندھی جی سے آپ کی عقید ت اور خلوص کارشتہ قائم ہوا ۔
۱۹۲۰ اور ۱۹۲۱ کے دوران میں مولانا نے سیکڑوں تقریریں کیں ۔اکتوبر ۱۹۲۱ کو آپ نے صوبائی خلافت کانفرنس آگرہ میں ہندوستان کے مسلمانوں کوگاندھی جی کے ترک موالات کے اصول اختیارکرنیکی دعوت دی۔اسی سال علمی برادران پرمقدمہ چلایا گیا۔ چنانچہ تمام لیڈرگرفتارہوئے آپ کوایک سال کی سزادی گئی ۔
1942 میں کانگریس نے بر طانوی حکو مت سے مطالبہ کیا کہ وہ ہندوستان چھو ڑدے ۔اس تحریک کا نام ہندوستان چھوڑ دو تحریک تھا۔حکو مت نے کانگریس کے تمام اہم رہنماؤں کو گر فتار کر لیا ۔مو لا نا کو /19اگست 1942 کو گرفتار کر کے احمد نگر کی جیل میں بھیج دیا گیا ۔15جون 1945 ء کو مو لا نا کو رہا کر دیا گیا ۔
احمد نگر کی جیل میں مو لا نا نے وہ خطوط لکھے جو بعد میں غبار خاطر کے نامہ سے شائع ہو ئے۔اردو نثر میں اُ ن کے بہت سے کار نامے ہیں جن میں اُن کا اہم ترین کا ر نامہ ’’غبار خاطر ‘‘ہے جو اُ ن کے خطوط کا مجمو عہ ہے ۔
مو لا نا ابو الکلام آزاد زبر دست قوت حافظہ و سعت مطا لعہ اور قادرالکلامی جیسی صلاحیتوں کے حامل تھے ۔وہ اپنے عہد کے ممتاز نثر نگار ہیں۔انہوں نے مذ ہب ‘ادب ‘صحافت ‘سیا ست اور سما جیات کے مختلف مو ضو عات پر طبع آزمائی کی ہے غبار خاطرکا اسلوب مو لانا کی تمام تحریروں سے مختلف ہے ۔غبار خاطر کی نثر میں بے تکلفی ‘شگفتگی اور گفتگو کا انداز و بیان پر مو لا نا کی قدرت اور کہیں کہیں مذ احیہ انداز نے نثر کو بہت دل کش اور خوب صو رت بنا دیا ہے۔ مو لا نا ابو الکلام آزادنے نثر کو ایسا انگین بنا دیا ہیکہ ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو جا تے ہیں کہ مو لا نا محمد حسین آزاد کے بعد نثر پر یہ قدرت مو لا نا ابو الکلام آزاد ہی کو حاصل ہوئی۔مو لا نا نے خطوط میں اپنی زندگی کے تجربوں کو اور اپنی ذاتی حالات کو شاعرانہ انداز میں بیا ن کیا ہے ۔
قید کی حالت میں انھوں نے حبیب الرحمن شیر وانی کو جو خطوط لکھے وہ علم و ادب کے زبر دست فن پا روں میں شمار ہو تے ہیں۔دیگر تصانیف میں تذ کرہ اور تر جمان القرآن شامل ہیں۔ اپنی سوانح انڈیا ونس فریڈم کے نام سے لکھی ۔ آزادی کے بعد پنڈت جو اہر لال نہرو کی کا بینہ میں وہ زیر تعلیم ہو ئے اور ملک میں عام انسان کو حق تعلیم کا نظریہ پیش کیا۔
انڈ ین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی(آئی آئی ٹی ) انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اور یو نیور سٹی گرانٹ کمیشن کا قیام ان کے عظیم کار نامے ہیں اس دوران انھوں نے کئی ممالک کادورہ کیا تاکہ ملک میں جدید تعلیمی نظام قائم ہو سکے ۔22فر وری 1958 ء کو دہلی میں ان کی وفات ہوئی اور وہیں ان کی تدفین ہوئی حکو مت ہند نے 1992 ء میں انھیں بعد از مر گ بھا رت رتن ایوارڈ دیا ۔ 2008میں قو می سطح پر ان کے یو مِ پیدا ئش کو یو مِ تعلیم کے طور پر منا ئے جا نے کا اعلان کیا گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔
Dr.Rizwana Begum From:
Asst. Prof. Urdu
College of Lanageus , Mallepally, Hyd.