مولانا ابوالکلام آزاد کا تصورسماج وتہذیب
ڈاکٹرشیخ عبدالکریم
اسسٹنٹ پروفیسر
کالج آف لینگویجس ۔حیدرآباد
سلسلۂ روز و شب نے نومبر ۱۸۸۸ ء کو عرب کی سرزمین پر اس انسانی تخلیق کا مشاہدہ کیا جسے ہم محی الدین احمد ابوالکلام آزاد کے نام سے جانتے ہیں۔ جنھوں نے ہندوستان کی سرزمین پر حصولِ علم کی تکمیل کی۔ جس کی مادری زبان عربی تھی لیکن جس نے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی پروردہ زبان اردو کو اس طرح اپنا یا کہ مادری زبان کے ادیب و شاعر حسرؔ ت موہانی کو اس کی نثر دیکھنے کے بعد اپنے شعر پھیکے معلوم ہوئے۔
ابوالکلام آزاد نے انیسویں صدی کے آخری دہے کے ہندوستان (کلکتہ اور ممبئی) کی تہذیب میں شعور کی آنکھیں کھولیں۔ ان کے گھر کا ماحول مذہبی تھا لیکن کلکتہ کی شہ راہوں اور گلیوں میں انگریز حکمرانوں کے سماجی اقدار کی کارفرمائیاں تھیں۔ تہذیبی فضا پر اردو کا دور دورہ تھا اور سیاسی سطح پر کانگریس آہستہ آہستہ، دھیرے دھیرے ہندوستان کی سرزمین کو غلامی کی زنجیروں سے آزادی کی منزل کی جانب لیے جارہی تھی۔ ملک میں مذہبی عصبیت ابھی پھیلنے نہ پائی تھی لیکن انگریزوں کی کوششوں اور ایلیٹ اور ڈاوسن کی لکھی ہندوستان کی تاریخ نے ہندوستان پر بسنے والے دو اہم مذہبی گروہوں، ہندوؤں اور مسلمانوں میں شک و شبہ کا بیج بونا شروع کردیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مہاراشٹر، بنارس اور پنجاب جیسے علاقوں میں ہندوؤں میں شدھی سنگھٹن کی بنیادیں مضبوط ہونے لگی تھی۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد مسلمان انگریزوں کے عتاب کا شکار ہوچکے تھے۔ اب ان کے ہم قوم مذہبی گروہ ہندو، انگریزوں کی Divide and Role کی پالیسی کا شکار ہوکر ان کی مخالفت پر کمربستہ ہوچکے تھے ۔ بنارس اور ممبئی میں مذہبی فساد پھوٹ چکا تھا۔ ہندوستان کی تہذیب کا دامن داغدار ہورہا تھا۔ ابوالکلام آزاد خاموشی کے ساتھ لیکن تمام تر حزم و احتیاط اور فکر و شعور کے ساتھ ہندوستان کی مجروح ہوتی ہوئی تاریخ اور تہذیب کا مطالعہ کررہے تھے۔
ہندوستانی تہذیب کی بقا، ہندوستانیوں کی یکجہتی کو باقی و برقرار رکھنے، مسلمانوں کو سیاسی، معاشی اور علمی بلکہ مذہبی پستی سے نکالنے کی غرض سے جولائی ۱۹۱۲ء میں ابوالکلام آزاد نے الہلال جاری کیا جس نے ہندوستان کے ایوانوں میں رہنے والوں کی نیندیں حرام کردی، ہندوستانیوں کے دلوں میں حب الوطنی کے ولولے جگائے، مسلمانوں کے دلوں میں توقیر و جانفشانی کی گرمی پیدا کی۔۔۔ اور جب کانگریس نے انھیں آواز دی تو انھوں نے اس آواز پر لبیک کہا اور اس قومی سیاسی پارٹی کے ایک ادنی کارکن سے صدر کانگریس کے ذمہ دارانہ عہدوں کو نہ صرف بخوبی نبھایا بلکہ اپنے فرائض اس طرح نبھائے کہ عہدہ خود ان پر فخر کرنے لگا۔ ہندوستان کی آزادی سے قبل وفاقی حکومت میں وزیر تعلیم بنائے گئے۔ تعلیم کے اغراض و مقاصد کو اس طرح لاگو کیا کہ علم ان کی بصیرت کی داد دینے لگا۔ ۱۹۴۷ء میں جب ہندوستان آزاد ہوا تو وزارت تعلیم کی وزارت کے لیے ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کو کوئی دوسری شخصیت اس جلیل القدر عہدہ کے قابل نظر نہ آئی اور تقسیم ہند کے زخم سے مجروح انساٹھ (59 )سالہ بوڑھے محی الدین احمد ہی کے ناتواں کندھوں کو انھوں نے اس وزارت کے قابل سمجھا۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے گیارہ برس آزاد ہندوستان کے وزیر تعلیم کی حیثیت سے کارہائے نمایاں انجام دیئے ۔ ادب کو انھوں نے سائنس کی بنیادیں فراہم کیں اور سائنس کو ادب کی شرافت و ثقاحت سے جوڑا گویا Science with a Human Face کا نظریہ عطا کیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے دورِ وزارت میں تہذیبی اکاڈمیاں بنائیں، سائنس کے تجرباتی ادارے بنائے، فنون لطیفہ کی بقا و ترقی کے لیے اکاڈمی بنائی۔ ملک کو جوہری توانائی سے لیس کرنے کی غرض سے ادارہ بنایا اور فروری ۱۹۵۸ء میں جب اجل ان کے ناتواں جسم اور روح کی داعی ہوئی تو انھوں نے ’’سب کچھ خدا پر‘‘ چھوڑ کر اپنے فانی جسم سے روح کو ابدالاباد کے لیے لبیک کہا۔
مولانا ابوالکلام آزاد کی زندگی، مشرقی تہذیب اور سوسائٹی کا اعلی نمونہ تھی۔ ان کے شب و روز ایک متعینہ دستور العمل پر گزرتے تھے چاہے وہ ’’قیدِ فرہنگ‘‘ میں ہوں کہ غلام ہندوستان کی آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہوں۔ انھوں نے اپنے رہن سہن، آدابِ نشست و برخواست، حفظ مراتب، مطالعے کتب، تحریر و تقریر، انسان دوستی، کے عملی مظاہرہ زندگی بھر پیش کیا ہے۔ ہندوستان کی سخت کوش جنگ آزادی کے وہ ایک ایسے سپاہی تھے جنھوں نے ہمیشہ ہندوستانیوں کی مذہبی، سیاسی اور تہذیبی یکجہتی کا خواب دیکھا اسے شرمندۂ تعبیر کرنے کی شبانہ روز سعی و جستجو کی۔ انھوں نے پنڈت جواہر لال نہرو اور ہندوستان کے مردِ آہن سردار پٹیل کے برخلاف ہندوستان کی تقسیم کی حامی کبھی نہ بھری، وہ مسلمانوں کے ہندوستان کی مقدس سرزمین سے ہجرت کے سخت ترین مخالف تھے۔
مولانا ابوالکلام آزاد کا تہذیبی وژن اور ان کا سوسائٹی کا تصور ان کے متعدد مضامین، مقالات، خطبات، تقاریر، اور خطوط میں منتشر طور پر بکھرا پڑا ہے جسے تنکا تنکا جوڑ کر ذیل میں منضبط انداز میں بیان کرنے کی سعی و کوشش کی جاتی ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد کا وژن تہذیب اور سوسائٹی بیان کرنے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تہذیب، کلچر کی تعریف بیان کی جائے تاکہ مقالے کے موضوع کو سمیٹنے میں آسانی ہو۔
کلچر، کو بطور اصطلاح سب سے پہلے Leb Taylor نے استعمال کیا، اس نے اپنی تصنیف Primitive Culture میں اس اصطلاح کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی ہے۔ ( ترجمہ ملاحظہ ہو)
’’وہ پیچیدہ کل جس میں آگہی، عقیدہ، فن، اخلاقیات، قانون، رسم و رواج یا اور کوئی صلاحیت یا عادت جو انسان سماج کا فرد ہونے کی بنا پر حاصل کرتا ہے۔‘‘
لب ٹیلر کے برخلاف ایلن بیٹس، کائنبات کے مختلف مسائل اور ان کے حل کو کلچر کی بنیاد قرار دیتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ کائنات میں موجود مختلف سوال جب حل ہوجاتے ہیں تو روایت بنتی ہے اور مختلف روایتوں کے تشکیل پانے کے بعد کوئی کلچر وجود میں آتا ہے۔ وہ کلچر کی اساس بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے۔
’’ بارش کیوں ہوتی ہے؟، سورج جب نکلتا ہے تو اسے صبح کیوں کہتے ہیں؟، ہم یہاں کیوں ہیں ؟۔۔۔ ان تمام مسائل کو مذہب، فلسفہ اور سائنس حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہی کی بنیاد پر روایت وجود میں آتی ہے اور یہی روایات کلچر کی اساس بنتی ہیں۔ اس میں خاندان سے لے کر سماج تک کو دخل ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔‘‘(Allens Beats "Culture in Process”, P-128, 3rd Ed. 1979)
مختلف مفکروں نے ’’کلچر‘‘ کی مختلف تعریفیں بیان کیں ہے۔ کسی نے عمرانیات کے نقطہ نظر سے تعریف بیان کی ہے تو کسی نے تاریخی نقطہ نظر سے اظہار خیال کیا ہے اس کے برخلاف معاشیات کو بنیاد بناکر بھی کلچر کی مخصوص تعریف بیان کی گئی ہے۔ (کارل مارکس اور اینجلس وغیرہ)۔ یہاں ایک اور امر کی جانب اشارہ کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ عموماً تہذیب اور کلچر کو ہم معنٰی سمجھ لیا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ نہیں۔ پروفیسر ہمایوں کبیر تہذیب اور کلچر کے فرق کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’تہذیب کوئی ایسا واحد جزو نہیں ہے جسے کلچر کا امتیازی وصف کہا جاسکے۔ تہذیب زندگی کی اس تنظیم کا نام ہے جو ایک متمدن سماج کو ممکن بناتی ہے، اس کے برعکس کلچر اس طرح کی تنطیموں کا نتیجہ ہے۔ اور زبان، فنونِ لطیفہ ، فلسفے ، مذہب ، سماجی عادات و رسوم، سیاسی اداروں اور اختصادی تنظیموں کے ذریعہ ظاہر ہوتا ہے۔ ان کے الگ الگ اجزاء کلچر نہیں ہیں بلکہ اجتماعی طور پر زندگی کے ان مظاہر کو ہم کلچر کہتے ہیں۔ تہذیب سماج کی وہ تنظیم ہے جو کلچرل کے لیے حالات پیدا کرتی ہے اس لیے بغیر تہذیب کے کلچر نہیں ہوسکتا جبکہ ایسی تہذیب کا وجود ممکن ہے جس کا اپنا کلچر نہ ہو۔‘‘(Humayun Kabir "Indian Heritage”, P-37-38)
ہمایوں کبیر نے یہاں تہذیب اور کلچر کے بنیادی فرق کو بیان کیا ہے اسی کے ساتھ انھوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ کلچر کا تعلق دراصل اجتماعی زندگی سے ہوتا ہے اور انفرادی زندگی، تہذیبی اقدار کو پیش کرتی ہے۔ تہذیب کی بنیادیں ہمارے اساطیر میں پیوست ہوتی ہیں اسی لیے اس کا تعلق اجتماعی نہیں بلکہ انفرادی ہوتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ تہذیب، طبقاتی اور فرقہ جاتی سطح پر بھی مختلف ہوسکتی ہے لیکن کلچر قوم و ملک سے تعلق رکھتا ہے۔
ہمایوں کبیر نے فنون لطیفہ کو کلچر کا جزو بتایا ہے۔ اس نقطہ کی وضاحت ہمیں راج گوپال چاری کے یہاں ملتی ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ فنون لطیفہ در اصل کلچر کا وہ حصہ ہوتے ہیں جو جذباتی تعیش پر احتساب اور پابندی عائدکرتے ہیں ۔ راج گوپال چاری کے نزدیک کلچر دراصل ’’ضبط نفس کی عادت‘‘ کا نام ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو۔
’’کلچر صرف ادب، موسیقی، نقاشی یا رقص نہیں ہے یہ عوام کے تسلیم کردہ آداب و اطوار کا نمونہ ہے جس میں آزادی کا تصور نہیں ہوتا۔ بلکہ ضبط نفس اور ذہنی تہذیب و تربیت کا تصور ہوتاہے۔ ضبط نفس اور ذہنی تہذیب و تربیت اور حکومت کی پابندیوں میں بڑا فرق ہے، فنون لطیفہ، موسیقی، رقص، نقاشی اور مختلف قسم کی تفریحات، کلچرل ذرایع، صرف مسرت اور انبساط بخشنے کے لیے نہیں بلکہ جذباتی تعیش پر احتساب اور پابندی کے لیے ہیں۔ ان سے مسرت حاصل ہوتی ہے لیکن ان کا مقصد جذباتی تعیش کا احتساب ہے ۔۔۔ کلچر ضبطِ نفس کی عادت کا نام ہے ۔۔۔۔۔۔‘‘
(Dr.Rajgopalachariya – "Our Culture” P-14)
کلچر، ضبطِ نفس کی عادت ہی کی بنا پر خارجی زندگی کے پہلوؤں پر بھی حاوی ہوتا ہے۔ جب ہم یہ لفظ ’’کلچر‘‘ استعمال کرتے ہیں تو اس سے کسی قوم یا ملک کی داخلی اور خارجی زندگی کے تمام اہم پہلوؤں سے مجموعی طور پر پیدا ہونے والی وہ امتیازی خصوصیات مراد لیتے ہیں جنھیں اس ملک کے لوگ عریز رکھتے ہیں اور جن کے حوالے سے وہ دنیا میں پہچانا جاتا ہے۔
ہندوستان کا اپنا مخصوص کلچر ہے جس کی بنیادیں یہاں کی سرزمین میں موجود ہیں۔ ہندوستان کی تہذیب اور اس کا کلچر مشرقی کلچر سے عبارت ہے۔ مشرقی کلچر میں ایرانی کلچر بھی شامل ہے لیکن ایرانی اور ہندوستانی کلچر میں بنیادی فرق دونوں ممالک کے بسنے والوں کے اعتقادات اور رسم و رواج کی بنا پر کیا جاسکتا ہے۔ ہندوستان میں بین الاقوامی معاشرت ملتی ہے یہاں مختلف مذاہب کو ماننے والے لوگ ایک کلچر کے امین ہے۔ ایران کے رہنے والوں میں مذہبی افتراق نہیں پایا جاتا، وہاں ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کے مختلف گروہ ملتے ہیں۔
ہندوستان جس کلچر کا امین ہے۔ مولانا ابواکلام آزاد نے اسی کلچر کی ہندوستان کی سوسائٹی میں ازسر نو ’’تجدید‘‘ کی سعئ بلیغ انجام دی تھی۔ یہاں ایک لمحہ کے لیے توقف کرتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ ’’ہندوستانی کلچر‘‘ سے ہم کونسا کلچر مراد لیتے ہیں۔ آج اکیسویں صدی کے سیاسی تناظر میں یہ سوال بڑی اہمیت حاصل کرلیتا ہے۔ کیا ’’ہندوستانی کلچر‘‘ سے مراد وہ کلچر ہے جسے ’’ہندو کلچر‘‘ قرار دیا جاتا ہے؟ ’’ہندو کلچر‘‘ دراصل ایک مبہم اصطلاح ہے۔ یہاں ’’ہندو‘‘ کا لفظ محل نظر ہے۔ ہندو سے کیا مراد ہے ؟ کسی خاص عقیدے سے تعلق رکھنے والے یا ہندوستان میں رہنے بسنے والے ہندو کہلاتے ہیں۔ اگر کسی خاص عقیدے کے ماننے والے مراد ہوں تو بقول ڈاکٹر سرواپلی رادھا کرشنن ’’ہندوازم ایک طرح کا طرزِ زندگی ہے۔‘‘ اور اگر ہندو سے مراد ہندوستان کے رہنے والے ہیں تو پھر انھیں ’ہندوستانی‘‘ کہنا چاہیے۔ غالباً اسی غلط انتساب کی وجہ سے پنڈت جواہر لال نہرو نے لکھا ہے کہ ’’ ہندوستانی کلچر کے لیے لفظ ہندو کا استعمال درست نہیں ۔‘‘
(Jawaharlal Nehru "Discovery of India”, P-75)
پنڈت جواہر لال نہرو نے ’’ہندوستانی کلچر‘‘ کو ’’ہزار ہا برس کی تاریخ میں روایات کا تسلسل‘‘ قرار دیا ہے۔
(Jawaharlal Nehru "Discovery of India”, P-52)
ہزارہا برس کی ان تاریخی روایات میں سرزمین ہندوستان کے رہنے والوں کی روایات بھی شامل ہیں اور بیرون ممالک سے آکر اس سرزمین کو اپنے سجدوں سے منور کرنے اور اسی خاک کو اپنی آخری آرام گاہ بنانے والوں کی روایات بھی شامل ہیں۔ اور انہی دونوں کی روایات سے ایک نیا کلچر وجود میں آیا جسے ہندوستان کے عظیم مورخ ڈاکٹر تاراچند ’’ نئی تہذیب کی داغ بیل‘‘ قرار دیتے ہیں۔ اقتباس دیکھئے ۔
’’ ایک نئی زندگی کی تلاش کی کوشش میں ایک نئی تہذیب کا جنم ہوا جو نہ خالص ہندو تھی اور نہ خالص مسلمان، یہ ایک ہندو مسلم تہذیب تھی۔ اس دور کو تہذیب کا تشکیلی دور سمجھنا چاہیے۔ جب دو تہدیبوں کے اختلاط سے ایک نئی تہذیب کی داغ بیل پڑ رہی تھی۔‘‘
( ڈاکٹر تاراچند ’’اسلام کا ہندوستانی تہذیب پر اثر ‘‘۔ ص۔ 289 )
ڈاکٹر تارا چند نے یہاں ’’تہذیب‘‘ کا لفظ کلچر ہی کے معنوں میں باندھا ہے۔ دراصل ڈاکٹر تاراچند کی انگریزی کتاب میں لفظ ’’کلچر‘‘ موجود ہے مترجم جناب عابد حسین نے اس کے معنٰی تہذیب بیان کیئے ہیں۔ (واضح رہے کہ راقم الحروف نے پچھلے صفحات میں ڈاکٹر ہمایوں کبیر کے حوالے سے تہذیب اور کلچر کو مختلف النوع معنٰی اصطلاح لکھا ہے)
ہندوستان میں ساتویں، آٹھویں صدی عیسوی میں جس کلچر کی داغ بیل پڑی تھی اسی کو بعدازاں مغل کلچر سے موسوم کیا گیا جسے ’’ہندلمانی‘‘ کلچر کا خوبصورت نام سید سلیمان ندوی نے دیا ہے اور جو سارے ہندوستان میں اپنی مقدس دریاؤں کے نام سے موسوم ہوکر ’’گنگاجمنی‘‘ کہلاتا ہے۔ یہی وہ کلچر ہے جسے زندگی بھر مولانا ابوالکلام آزاد نے ہندوستان کے گوشے گوشے میں ازسر نو زندہ کرنے کا فرض ادا کیا کہ ان مقدس دریاؤں کی طرح یہ کلچر بھی انسانی عظمت و تقدس کا حامل ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد کے تصور تہذیب کے اہم عناصر اگر ہم واضح انداز میں بیان کرنا چاہیں تو انھیں حسبِ ذیل چار عنوانات کے تحت یکجا کرسکتے ہیں۔
۱ ۔ رواداری
۲۔ وسیع النظری
۳۔ باہمی احترام ، اور
۴۔ کثرت میں وحدت
انسانی فطرت کی تعمیر اس کی ماں کی گود سے شروع ہوتی ہے۔ مولانا آزاد کی فطری صلاحیتوں کو بھی انسان دوستی اور رواداری کی تعلیم ان کی ماں ہی سے ملی تھی۔ اپنی والدہ محترمہ کا تعارف انھوں نے اپنی تصنیف تذکرہ میں کروایا ہے۔ ماں کے اخلاق اور ان کی بصیرت کا بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ ان کی اخلاق اور دماغی بصیرت پر جس قدر غور کرتا ہوں مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہر اعتبار سے وہ بلند درجے خاتون تھیں۔ وہ نہایت فیاض اور سیرچشم تھیں۔ مفلس اورمصیبت زدہ آدمیوں کی تکالیف ان سے دیکھی نہ جاتی تھی۔
والد مرحوم نے ایک نہایت قیمتی دو شالہ ان کے لیے منگوایا جس دن انھوں نے اوڑھا اسی دن اُمِ حبیب ان سے ملنے آئیں۔ یہ ایک غریب بیوہ تھی جو ہمارے گھر کے قریب رہتی تھی۔ اس نے ایسا قیمتی دو شالہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کا پلو ہاتھ میں لے کر نہایت طمع کی نگاہوں سے دیکھنے لگی اور بار بار کہنے لگی کہ ایسی چیز ہم غریبوں کو کہاں نصیب ہوسکتی ہے۔ والدہ نے فوراً دو شالہ کاندھے سے اٹھایا اور اس کے کاندھے پر ڈال دیا ۔۔۔‘‘ (آزاد ’’تذکرہ‘‘ ص۔ ۲۸۱ ، مکتبہ جدید ۔ لاہور)
مولانا آزاد کے ذہن پر ان کی والدہ محترمہ کے اس طرزِ زندگی، ایثار و قربانی اور اقربا پرستی کا نہایت گہرا اثر پڑا تھا جس کی وجہ سے خود ان کی فطرت میں انسان دوستی کے جذبات پیدا ہوگئے تھے۔ مولانا آزاد نے ایک اور واقعہ اپنے ’’تذکرہ‘‘ میں قلم بند کیا ہے ملاحظہ ہو۔
’’میرے والد مرحوم نے ایک خوشنویس حافظ مبارک بخاری کو گھر پر ہی رکھ لیا تھا تاکہ ان کی تصنیفات کی کتابت کریں۔ وہ اپنے کپڑوں کی صفائی کا ذرا خیال نہیں کرتے تھے۔ ایک دن میں نے کہہ دیا کہ وہ بڑے گندے آدمی ہے۔ میری والدہ نے نہایت دھیمی آواز میں مجھے تادیب تو نہیں، تلقین کی اور کہا، میری جان ایسا نہ کہو، ہوسکتا ہے کہ وہ خدا کی نظر میں تم سے اور ہم سے عزیز تر ہوں۔ ‘‘
اس اقتباس میں چند باتیں بڑی اہم ہیں۔ پہلی بات جو ہماری توجہ کھینچتی ہے وہ خدا کا خوف ہے ۔ دوسری بات مولانا آزاد کی والدہ محترمہ نے ان کی اس دل آزار حرکت پر ان کی تادیب نہیں کی، تلقین کی اور وہ بھی دھیمی آواز میں ۔۔۔ دراصل نصیحت کا یہی انداز زیادہ پر اثر ہوتا ہے اور زندگی بھر گرہ میں بندھ جاتا ہے۔
مولانا آزاد کے تصور کلچر میں انسان کی دل آزادی اسی لیے ایک عیب قرار دی گئی ہے۔ وہ اسی لیے روح و دل کی پاکی کو ترجیح دیتے ہیں اور جسم و لباس کی پاکی کو نظر انداز کرنے کی بات کرتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کا بیان کرتے ہوئے دل و روح کی صفائی و پاکی کو معہ مثال اس طرح بیان کیا ہے۔
’’ ہندوستان میں آنے کے بعد مسلمانوں میں یہ عیب بھی پیدا ہوگیا ہے کہ نسلی افتخار سے بھی اگے بڑھ کر وہ اکثر جماعتوں کو اپنے سے نیچا ہی نہیں بلکہ ناپاک سمجھنے لگے ہیں۔ اسلام کسی کے جسم کو ناپاکی سے ملبوث ہوئے بغیر ناپاک نہیں سمجھتا۔
وہ جسم کی ناپاکی کو نہایت کم وقعت دیتا ہے وہ تو دلوں کی ناپاکی کو ناپاکی سمجھتا ہے۔ اور وہ اسی بات کو اہمیت دیتا ہے اس لیے تمھارا فرض ہے کہ اس برائی کو جو تم میں دوسروں کے دیکھا دیکھی پیدا ہوگئی ہے دور کرو اور بہت جلد دور کرو۔
ایک مسلمان مہتر کو تم اس لیے اپنے ساتھ بیٹھانے کے لیے تیار نہیں کہ وہ ظاہراً ناپاک کام کرتا ہے اور خستہ حال رہتا ہے ۔۔۔ خواہ وہ تہجد گزار عابد ہی کیوں نہ ہو۔ اس کا دل ایمان کی شعاعوں سے منور ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے برخلاف تم ایک سفید کپڑے پہنے ہوئے آدمی کو اپنے ساتھ بٹھاکے کھلانے کے لیے بھی تیار ہو خواہ اس کی روح کتنی ہی میلی ہو ۔۔۔ اس کا دل کتنا ہی تاریک اور اس کے اعمال کتنے ہی ناپاک کیوں نہ ہو ۔۔۔ ‘‘ ( ’’صدائے حق ‘‘۔ ص۔۲۷۔۲۸)
مولانا آزاد کی تہذیب میں انسان، انسانیت اور انسانی عظمت سب سے اونچے درجہ پر نظر آتی ہے۔ ان کا یہ نظریہ دراصل اسلام کی تعلیمات پر مبنی ہے وہ ہمیشہ قرآن و حدیث کی روشنی میں حالات حاضرہ کا جائزہ لیتے ہیں۔ اوپر کے اقتباس میں بھی انھو ں نے رواداری کی مثال اسی تناظر میں پیش کی ہے۔ اپنے ایک مضمون میں وہ سانپ اور شیر سے زیادہ خطرناک جاہل انسان کو قرار دیتے ہیں کہ وہ اپنے ہی ہم جنسوں کا خون بہاتا ہے۔ اقتباس دیکھئے۔
’’شیر خون خوار ہے، مگر غیروں کے لیے ، سانپ زہریلا ہے مگر دوسروں کے لیے، چیتا درندہ ہے مگر اپنے سے کمتر جانوروں کے لیے، لیکن انسان دنیا کا اعلیٰ ترین مخلوق ، خود اپنے ہی ہم جنسوں کا خون بہاتا ہے اور اپنے ابنائے نوع کے لیے درندہ خوار ہے۔ ‘‘( حدیث الفاشیہ ۔ ص ۔ ۵۸)
’’اپنے ہی ابنائے نوع‘‘ اور ’’ہم جنسوں کا خون بہانا‘‘ کو مولانا ابوالکلام آزاد، غیر تمدن معاشرے کی علامت قرار دیتے ہیں۔ اسی کے ساتھ علم کے فقدان کو بھی وہ ان حادثات کا سبب بتاتے ہیں۔ تنگ نظری بھی اس کی ایک وجہ ہوسکتی ہے۔ دراصل اقوام کی ترقی میں تنگ نظری کو وہ ایک ’’سنگِ گراں‘’ قرار دیتے ہیں۔ اور امن عالم کے لیے بقائے باہمی کا یہ نسخہ تجویز کرتے ہیں۔
’’ ہر شخص اس اصول کو تسلیم کرتا ہے کہ تمام اقوام کو حق خود اختیاری حاصل ہے۔ اب نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ہر ملک کو اپنے ہی طرز کی سوسائٹی اور حکومت پسند کرنے کا حق بھی حاصل ہے اور اس معاملے میں کسی دوسرے ملک کو اپنا حکم جتانے کا حق نہیں ہے۔ ‘‘(آزادی کی تقریر یں ۔ ص۔۲۷۲)
مولانا آزاد کے نزدیک زمین پر کھینچی ہوئی لکیریں کوئی معنٰی نہیں رکھتے اور نہ ہی رنگ و نسل کی وجہ سے ایک انسان کو دوسرے پر فوقیت دی جاتی ہے۔ ان کے ویژن میں تمام انسان آزاد ہیں اور صرف اپنے خدا کے آگے جوابدہ ہیں۔ وہ فریضہ حج کی ادائگی کے مقصد کو ’’نسل انسانی کے بکھیرے ہوئے دلوں اور برگشتہ روحوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دینا ‘’ قرار دیتے ہیں ۔ اقتباس دیکھئے۔
’’لیکن اب سے تیرہ سو برس پہلے جب دنیا موجودہ زمانے کے تمام قرب و اجتماع سے محروم تھی، بحراحمرکے کنارے ریگستان عرب کے وسط میں حجاز کے چٹیل اور بے زراعت وادی کے اندر ایک صدائے اجتماع بلند ہوئی، اور نسل انسانی کے منتشر افراد کا ایک نیا گھرانہ آباد کیا گیا۔ انسانی اجتماع و یگانگت کی یہ پکار صرف اتنا ہی نہیں چاہتی تھی کہ ملکوں کی سرحدیں اور جغرافیہ کی حدیں ایک دوسرے سے قریب ہوجائیں بلکہ اس کا مقصد نسل انسانی کے بکھرے ہوئے دلوں اور برگشتہ روحوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دینا تھا۔ ‘‘( حقیقتہ الحج ۔ ص۔۱۰)
دنیا میں مختلف ملکوں کی تقسیم، اور انسانی رشتوں کی تفریق کو وہ اللہ کی بنائی ہوئی نہیں بلکہ خود انسانوں کی بنائی ہوئی بتاتے ہیں اور تمام انسانوں کے صرف ایک رشتہ کی بات کرتے ہیں جو انسان کو پروردگار سے متصل کرتا ہے۔ اقتباس دیکھئے ۔
’’ پس درحقیقت اسلام کے نزدیک وطن و مقام اور رنگ و زبان کی تفریق کوئی چیز نہیں۔ رنگ اور زبان کی تفریق کو وہ ایک الہی نشان ضرور تسلیم کرتا ہے۔ ’’ مومن آیا تہ اختلاف التتکم والوانکم‘‘ لیکن اس کو وہ کسی انسانی تفریق و تقسیم کی حد قرار نہیں دیتا۔ انسان کے تمام دنیاوی رشتے خود انسان کے بنائے ہوئے ہیں۔ اصلی رشتہ صرف ایک ہے اور وہ وہی ہے جو انسان کو اس کے خالق اور پروردگار سے متصل کرتا ہے ۔ ‘‘
(نگارشاتِ آزاد ۔ ص ۔ ۹۲)
انسان کو خالق اور پروردگار سے متصل کرتے ہیں اس کے نیک اعمال، تقویٰ انسان دوستی، صلۂ رحمی انصاف اور مولانا ابوالکلام آزاد اسلام کے حوالے سے انسانوں کو اسی کو اپنانے کا پیام دیتے ہیں اور یہی چیز عالمی کلچر اور امن عالم کی ضامن اور امین قرار دی جاتی ہے ۔۔۔ لکھتے ہیں :
’’انصاف کا نہ تو کوئی وطن ہے، نہ کوئی قومیت اس کی قومیت اگر ہوسکتی ہے تو وہ صرف بالاتر اور عالمگیر انسانیت ہے۔ ‘‘
( ’’خطباتِ آزاد ‘‘ ۔ ص ۔ ۱۶۴)
جس کلچر یا جس سوسائٹی میں انصاف کا خون کیا جائے اور نا انصافی کو ہوا دی جائے اس تہذیب میں تنگ نظری راہ پاتی ہے جو انسانیت سوز ہوتی ہے جس کے نتائج قوم کو بھگتنے پڑتے ہیں۔ مولانا آزاد لکھتے ہیں :
’’اقوام کی ترقی کے راستے میں تنگ نظری ایک سنگِ گراں کا مقام رکھتی ہے۔ سیاسیات میں یہ روگ قومیت کا چولا پہن کر آتا ہے۔ علم و فضل اور تہذیب و ثقافت کی اقلیم میں یہ خرابی قومیت اور وطنیت کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے۔ ‘‘( ’’آزادی کی تقریریں‘‘ ، مرتبہ انور عارف ۔ ص۔۱۸۱)
مولانا آزاد نے تنگ نظری کے زہر کو برے ہی فلسفیانہ انداز میں یہاں بیان کیا ہے۔ اور انفرادی اور اجتماعی تنگ نظری سے علم و فضل، تہذیب و ثقافت اور سیاسیات میں در آنے والی رکاوٹوں اور خرابیوں کا بیان کیا ہے۔ تنگ نظری کی وجہ سے جب اجتماعی زندگی متاثر ہوتی ہے تو فرد کی اپنی ذات اہمیت حاصل کرلیتی ہے اور پھر تہذیب و ثقافت میں غیر تہذیبی غیر سماجی عناصر سر اٹھانے لگتے ہیں۔ ایسی ہی سوسائٹی میں سود کا کاروبار بھی فروغ پاتا ہے۔ مولانا آزاد، اسلامی تعلیمات کے پیش نظر سود کو حرام اور ناجائز قرار دیتے ہیں اورسود خور کو سماج کا بدترین انسان کہتے ہیں۔ دیکھئے کہ مولانا آزاد نے کن سخت الفاظ میں سود کے کاروبار کرنے والوں کو مخاطب کیا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ ایک سود خوار زندگی کو لاؤ، وہ چور نہیں ہے۔ وہ ایک ڈاکو کے نام سے حقیر و ذلیل نہیں کیا جاتا۔ لوگ اس سے پناہ نہیں مانگتے بلکہ اس کو ڈھونڈتے ہیں وہ پہاڑی کے غاروں اور جنگلوں کے گنجان گوشوں میں مجرموں کی طرح نہیں چھپتا۔ وہ سوسائٹی سے مردود و مطرود نہیں ہے۔
وہ ایک شہری ہے جو مثل ایک شریفانہ باشندۂ شہر کے انسانوں میں رہتا ہے۔ اس کے اعمال کا کیا حال ہے ؟ وہ ڈاکو سے بڑھ کر آبادی کو غارت کرتا ہے، وہ قاتل سے زیادہ انسانی حیات کو موت سے تبدیل کرتا ہے۔ وہ عادی مجرم سے زیادہ سوسائٹی کو تباہ کرتا ہے۔ وہ ایک درندہ سے بھی خوفناک تر خون آشام اور بھیڑیئے اور جنگلی سور سے بھی بڑھ کر حیات انسانی کا دشمن ہے ۔ ‘‘( ’’طنزیات آزاد‘‘ ۔ ص۔ ۹۰)
سود خور، یقیناًغریبوں کا خون چوستا ہے وہ غریبوں کا Blood Succur ہوتا ہے چوں کہ سود کی کمائی میں محنت مشقت کی ضرورت مطلق نہیں ہوتی اس لیے آرام طلبی کے ساتھ ہی اس کا ذہن شیطان کا گھر بن جاتا ہے اور ایک مہذب سوسائٹی کے لیے وہ کسی بھیڑیئے یا جنگلی سور سے یقیناًبڑھ کر خطرناک ہوتا ہے۔
سود کے اسلامی نقطہ نظر سے ہٹ کر ثقافتی نقطہ نظر سے بھی اگر سود کے کاروبار کا جائزہ لیا جائے تو اس کے منفی اثرات کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ مولانا آزاد نے یہاں سود خور کو دو خطرناک حیوانوں سے تشبیہ دی ہے۔ ایک ’’ بھیڑیا ‘‘ اور دوسرے ’’جنگلی سور‘‘۔۔۔ یہ دونوں حیوان انسانی خون کے پیاسے ہوتے ہیں اور دونوں طبعی موت سے قبل کسی ہتھیار سے نہیں مرتے، جنگلی سور کے لیے تو مشہور ہے کہ اس کے جسم پر بندوق کی گولی بھی اثر انداز نہیں ہوتی۔ تلوار کا وار بھی کارگر نہیں ہوتا۔۔۔ مولانا آزاد نے انسانی کلچر میں ، مہذب سوسائٹی میں سود اور سود خور کی فطرت اوراس کی ہولناکی کو بڑی اچھی طرح ان دو حیوانوں کی مثال سے واضح کیا ہے۔
ہندوستان ایک غریب ملک ہے جہاں کے غریبوں کو اکثر دو وقت پیٹ بھر کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا۔ ایسے میں سود کی ادائیگی ان کے لیے عذاب بن جاتی ہے اور اسی سود خوری کی وجہ سے وہ اپنی ماباقی سرمائیے حتٰی کہ زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ مولانا آزاد کے ویژن میں کلچر کا جو تصور تھا اس میں سود اور سودخور کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اسی طرح جس طرح افلاطون نے شاعروں کے لیے اپنی ریاست میں کوئی جگہ نہیں رکھی تھی۔
ایک اچھے اور متمدن سماج میں ظلم کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ مہذب قومیں ظلم کو روا رکھنا مناسب نہیں سمجھتی اور جہاں ظلم کو قانون کا ہتھیار بنالیا جاتا ہے وہاں کسی تہذیب و تمدن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ظلم کرنے سے زیادہ، ظالم کے ظلم کو خاموشی کے ساتھ برداشت کرنا بڑا جرم ہوتا ہے جو ظالم کی جرأت کو اور بڑھاوا دیتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ظلم کرنے والے سے زیادہ، ظلم سہنے والا ملزم و مجرم ہوتا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے ثقافتی دائرے کار میں حق گوئی و بے باکی کا چلن تو ملتا ہے لیکن ظلم سہنے کی کوئی روایت نظر نہیں آتی اسی لیے انھوں نے جب قولِ فصیل لکھا تو ظالم کو بتایا کہ تم ظلم کر رہے ہو ، تم ظالم ہو۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ یقیناًمیں نے کہا ہے ۔ ’’موجودہ گورنمنٹ ظالم ہے ‘‘ لیکن اگر میں یہ نہ کہوں تو اور کیا کہوں؟ میں نہیں جانتا کہ کیوں مجھ سے یہ توقع کی جائے کہ ایک چیز کو اس کے اصل نام سے نہ پکاروں، میں سیاہ کو سفید کہنے سے انکار کرتا ہوں۔
میں کم سے کم اور نرم سے نرم لفظ جو اس بارے میں بول سکتا ہوں، یہی ہے۔ ایسی ملفوظ صداقت جو اس سے کم ہو ، میرے علم میں کوئی نہیں۔ میں یقیناًیہ کہتا رہا ہوں کہ ہمارے فرض کے سامنے دو ہی راہیں ہیں! گورنمنٹ ناانصافی اور حق تلفی سے باز آجائے۔ اگر باز نہیں آسکتی تو ہٹادی جائے۔ میں نہیں جانتا کہ اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے ؟ یہ تو انسانی عقائد کی اتنی پرانی سچائی ہے کہ صرف پہاڑ اور سمندر ہی اس کے ہم عمر کہے جاسکتے ہیں۔ جو چیز بری ہے اسے یا تو درست ہوجانا چاہیے یا مٹ جانا چاہیے۔ تیسری بات کیا ہوسکتی ہے؟ جب کہ میں اس گورنمنٹ کی برائیوں پر یقین رکھتا ہوں، تو یقیناً یہ دعا نہیں مانگ سکتا کہ درست بھی نہ ہو اور اس کی عمر بھی دراز ہو۔
میرے اور میرے کروڑوں ہم وطنوں کا یہ اعتقاد کیوں ہے۔ اس کے وجوہ و دلائل اب اس قدر اشکار ہوچکے ہیں ۔۔۔ تاہم میں کہنا چاہتا ہوں کہ میرا یہ اعتقاد اس لیے ہے کہ میں ہندوستانی ہوں، اس لیے ہے کہ میں مسلمان ہوں، اس لیے ہے کہ میں انسان ہوں۔۔۔ میرا اعتقاد ہے کہ آزاد رہنا ہر فرد اور قوم کا پیدائشی حق ہے، کوئی انسان یا انسانوں کی گھری ہوئی بیوروکریسی یہ حق نہیں رکھتی کہ خدا کے بندوں کو اپنا محکوم بنائے ۔ ‘‘
(’’قولِ فیصل‘‘ ۔ ص ۔ ۱۱۵ ۔ ۱۱۶)
مولانا ابوالکلام آزاد انگریزوں کی حکومت کو غاصب اور ظالم حکومت سمجھتے تھے جو ظلم کے بل بوتے پر قایم تھی جس نے ہندوؤں اور مسلمانوں میں افتراق پیدا کرتے ہوئے حکومت حاصل کی تھی۔ اس انگریز حکومت کو ہندوستان کے نقشے سے ہمیشہ کے لیے نکال باہر کرنے کے لیے وہ ضروری سمجھتے تھے کہ مسلمان و ہندوؤں کے ساتھ ہو جائیں تاکہ ملک کو آزادی نصیب ہو، مولانا آزاد نے صرف سیاسی نقطہ نظر سے اس اتحاد کو ضروری قرار نہیں دیا بلکہ انھوں نے قرآن کی آیات اور احادیث کی روشنی میں آپنے ہم مذہب لوگوں کو سمجھایا کہ یہی ٹھیک عمل ہے۔ اقتباس دیکھئے :
’’ہندوستان کے مسلمانوں کا یہ فرض شرعی ہے کہ وہ ہندوستان کے ہندوؤں سے کامل سچائی کے ساتھ عہد و صحبت کا پیمان باندھ لیں اور ان کے ساتھ مل کر ایک نیشن ہوجائیں۔ میرے الفاظ یہ تھے کہ ہندوستان کے سات کروڑ مسلمان، ہندوستان کے بائیس کروڑ ہندو بھائیوں کے ساتھ مل کر ایسے ہوجائیں کہ دونوں مل کر ہندوستان کی ایک قوم اور نیشن بن جائیں۔ اب میں مسلمان بھائیوں کو سنانا چاہتا ہوں کہ خدا کی آواز کے بعد سب سے بڑی آواز جو ہوسکتی ہے وہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز تھی، اس وجود مقدس نے عہد نامہ لکھا۔ بجنسہ یہ اس کے الفاظ ہیں ’’الہ امتہ واحدۃ ‘‘ہم ان تمام قبیلوں سے جو مدینہ کے اطراف بستے ہیں، صلح کرتے ہیں ، اتفاق کرتے ہیں اور ہم سب مل کر ایک امتہ واحدۃ بننا چاہتے ہیں۔ امتہ کے معنی ہیں قوم اور نیشن اور واحدۃ کے معنی ہیں ایک۔
اگر میں نے اپنی اپیل میں کہہ دیا کہ ہندوستان کے مسلمان اپنا بہترین فرض اسی وقت انجام دیں گے جب وہ ہندوؤں کے ساتھ ایک ہوجائیں گے تو یہی وہ لفظ ہے جو اللہ کے رسولؐ نے بھی اس وقت لکھوایا تھا کہ ہم سب مل کر قریش کے مقابلے میں ایک نیشن ہوجائیں گے۔ جن مقاصد کی بنا پر جناب سرورِ کائناتؐ نے یہ عہد کیا تھا، اس سے زیادہ وجوہ آج آپ کے لیے موجود ہیں۔ اگر اس وقت صرف قریش مکّہ کی ایک جماعت تھی، جو اسلام کو غربت میں دھمکی دے رہی تھی، تو آج اس غربتِ ثانیہ میں صرف مٹھی بھر قریش نہیں، بلکہ کرۂ ارض کی دو تہائی بسنے والی قومیں، اسلام کو مٹانا چاہتی ہیں۔ اگر رسولؐ خدا مٹھی بھر قریش مکّہ کے مقابلے میں، ابوسفیان کے مقابلے میں، اطراف مدینہ کے تمام قبائل سے اتفاق کرسکتے تھے، تو آج اس عظیم الشان قوت کے غرور، گھمنڈ، خونخواری کے مقابلے میں جو تمام مشرق کی ازادی کو پامال کرنا چاہتی ہے، کیا ہندوستان کے مسلمانوں کا یہ فرض نہیں ہے کہ اپنے بائیس کروڑ ہندوؤں کے ساتھ مل کر ایک ہوجائیں۔۔۔
بہرحال ہندو مسلمانوں کے اتفاق کے سلسلے میں آپ کے سامنے میں یہ حقیقت لانا چاہتا تھا کہ اگر مسلمانوں نے محبت کا ہاتھ، یکجہتی کا ہاتھ، رفاقت کا ہاتھ ، اپنے ہمسایوں کی طرف بڑھایا ہے، تو ان کا یہ عمل محض کوئی وقتی اور دفاعی نہیں ہے۔ پولٹیکل چال نہیں ہے۔ بلکہ ان کو یقین کرنا چاہیے کہ مسلمانوں نے محبت کا آغوش خود نہیں کھولا ہے، بلکہ ان کے خدا نے ان کے قوانین شریعت نے کھلوایا ہے، چونکہ اس کی بنیاد شریعت پر ہے۔
دوستو! میں اپنی زندگی کا اگر کوئی کام سمجھتا ہوں تو وہ یہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میں ہندوستان کے ان انسانوں میں ہوں، جن کو خدا نے کتاب اللہ کی طرف بلایا ہے۔ میں اپنے لیے کوئی خدمت سمجھتا ہوں، تو وہ صرف یہی ہے کہ کتاب اللہ کی طرف لوگوں کو بلاؤں۔ مسلمان اپنے ہندو بھائیوں سے تمام کاموں میں الگ تھلک تھے۔ علی گڑھ کی پالیسی، مسلمہ قومی پالیسی سمجھی جاتی تھی کہ وہ ہندوؤں سے علحدہ رہیں۔ میں نے دعوت دی کہ اگر مسلمان ہندوستان کی زندگی میں بحیثیت مسلمان ہونے کے اپنے عظیم الشان فرایض انجام دینا چاہتے ہیں تو ان کا فرض ہونا چاہیے کہ اتفاق کا قدم بڑھائیں اور بائیس کروڑ ہندوؤں کے ساتھ ایک ہوجائیں۔ مسلمانوں کے لیے ایسا کرنا ان کے مذہبی عمل میں سے ہوگا۔ ‘‘
(’’خطباتِ آزاد‘‘ ۔ مرتبہ مالک رام ۔ ص۔ ۷۴۔۴۵)
مولانا ابوالکلام آزاد کا تہذیب عالم کا یہ تصور تھا کہ اسلام کی اخوت عمومی ’’تمیز قوم و مرزیوم سے پاک ہے‘‘ اور چونکہ اسلام کے ماننے والے خدائے واحد پر ایمان رکھتے ہیں اور خدا کے یہاں ایک انسان اور دوسرے انسان میں تمیز یا تفریق نہیں ملتی یہاں تو ’’محمود و ایاز‘‘ برابر ہوتے ہیں اور پھر خدائے پیروان توحید کو ایک جسم واحد کی تصورت میں رہنے کا حکم دیا ہے۔ اسلام کے اس آفاقی تصور انسانیت کے تحت مولانا ابوالکلام آزاد ’’خدمت عالم و خدمتِ وطن‘‘ کو ایک دوسرے کے ساتھ فطری طور پر ہم آہنگ سمجھتے ہیں۔ اللہ نے ساری دنیا کی زمین کو مسلمانوں کی ملک قرار دیاہے اور ساری دنیا کی زمین کو ان کے لیے پاک کردیا گیا ہے جہاں وہ نماز جیسا مذہبی فرض ادا کرسکتے ہیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد، اپنے ہم وطن مسلمانوں کو اللہ کی عطا کردہ ان نعمتوں کا حوالہ دے کر سمجھاتے ہیں کہ جس سرزمین پر تم پیدا ہوئے اس کی خدمت تمہارا اولین فرض ہے۔ وطن کی خدمت کے بارے میں وہ لکھتے ہیں۔۔۔
’’اگر تمام عالم ہمارا وطن ہے اور اس لیے محترم ہے، تو وہ خاک تو بدرجہ اولی ہمارے احترام محبت کی مستحق ہے جس کی آب و ہوا میں ہم صدیوں سے پرورش پارہے ہیں۔ اگر تمام فرزندانِ انسانیت ہمارے بھائی ہیں تو وہ انسان تو بہ درجہ اولی ہمارے احترام اخوت کے مستحق ہیں جو اس خاک کے فرزند اور مثل ہمارے اسی کی سطح پر بہنے والے پانی کے پینے والے اور اسی فضاء محبوب کو پیار کرنے والے ہیں۔۔۔ ‘‘
( ’’مضامین ابوالکلام آزاد‘‘ حصہ چہارم ۔ ص۔ ۷۵)
مولانا ابوالکلام آزاد ہندوؤں اور مسلمانوں کے اتفاق کو ہندوستان کے لیے، ہندوستانی تہذیب کے لیے، عالمی اخوت کے لیے ضروری سمجھتے تھے اسی لیے انھوں نے جس طرح ممکن ہوا ہندوستان کے ان دونوں گروہوں کو تلقین کی ہے آپس میں ایک ہوجائیں اور ظالم کا ہاتھ پکڑیں، ملک کی آزادی کی جنگ لڑیں۔ انھوں نے مسلمانوں کو قرآن اور حدیث کے حوالے سے سمجھایا کہ یہ راستہ ’’عین ایمان‘‘ ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد کو یہ احساس تھا کہ مسلمانوں کی ہندوؤں سے دوری اور ہندؤں کی مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایک وجہ ان کے ماننے والوں کی تعلیم سے دوری بھی ہے۔ مولانا آزاد نے حصول علم کو اپنی زندگی کا جزو بنالیا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ ہندوستانی عوام بھی ہر حال میں علم حاصل کریں تاکہ اعلی تہذیب اور تمدن و کلچر کی تشکیل میں معاون ہو۔ لیکن زندگی بھر علم حاصل کرنے کی تلقین کرنے کے بعد جب انھوں نے بحیثیت وزیر تعلیم ہندوستان، ملک میں حصول علم اور تعلیم کی صورتِ حال کا جائزہ لیا تو انھیں بڑی مایوسی یہ دیکھ کر ہوئی کہ ہندوستانیوں کے نزدیک علم کاحصول صرف علم حاصل کرنے کے لیے نہیں ہے بلکہ ’’ایک مٹھی گیہوں اور ایک پیالہ چاول‘‘ کے لیے علم حاصل کیا جارہا ہے اور اس طرح خدا کی پاک امانت میں خیانت کی جارہی ہے۔ اقتباس دیکھئے :
’’ہندوستان میں سرکاری تعلیم نے جو نقصانات ہمارے قومی خصائل و اعمال کو پہنچائے ہیں، ان میں سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ تحصیل علم کا مقصد اعلی ہماری نظروں سے محجوب ہوگیا ہے۔ علم خدا کی ایک پاک امانت ہے اور اس کو صرف اس لیے ڈھونڈنا چاہیے کہ وہ علم ہے لیکن سرکاری یونیورسٹیوں نے ہم کو ایک دوسری راہ بتلائی ہے۔ وہ علم کا اس لیے شوق دلاتی ہے کہ بلا اس کے سرکاری نوکری نہیں مل سکتی ۔ پس اب ہندوستان میں علم کو علم کے لیے نہیں بلکہ معیشت کے لیے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ بڑی بڑی تعلیمی عمارتیں، جو انگریزی تعلیم کی نوآبادیاں ہیں، کس مخلوق سے بھری ہوئی ہیں؟ مشتاقان علم اور شیفتگانِ حقیقت سے ؟ نہیں، ایک مٹھی گیہوں اور ایک پیالہ چاول کے پرستاروں سے، جن کو یقین دلایا گیا ہے کہ بلا حصول تعلیم کے وہ اپنی غذا حاصل نہیں کرسکتے۔ ‘‘ ( دیباچہ ترجمان القرآن)
مولانا ابوالکلام آزاد نے تہذیب و تمدن اور ثقافت کے فروغ اور اس کی اعلی اقدار کے لیے ضروری قرار دیا ہے کہ منزل کی جستجو میں قدم بڑھائیں جائے اور ’’قدم میں حرکت اور ہمت میں اقدام‘‘ ہو تو کبھی نہ کبھی منزل مقصود تک پہنچ ہی جاؤ گے۔
اور مولانا کی منزل مقصود عظمتِ انسان ہے وہ اقبال ہی کی طرح چاہتے ہیں کہ انسان اپنے لیے اسی اعلی مقام کو حاصل کرلے جس کے آگے فرشتے سجدہ کیا کرتے تھے۔ جس دن انسان اس مقام پر پہنچ جائے گا تب ہی مولانا کا کلچر اور سوسائٹی کا ویژن مکمل ہوگا۔ وہ کلچر کو اس اعلی مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں رواداری، وسیع النظری باہمی احترام اور کثرت میں وحدت مثالی بن جائے جہاں سوسائٹی میں ظالم کے ہاتھ پکڑے جائیں جہاں ظالم کو ظالم کہتے ہوئے کوئی جھجکے نہیں جہاں انصاف کو اولیت حاصل ہو۔
مولانا آزاد نے ایک اعلی کلچر کی تشکیل اور ترویج کے لیے ایمان، عمل صالح، حق یا سچائی اور صبر کو ضروری قرار دیا ہے۔ وہ قرآن کی سورۃ ’’والعصر‘‘ کے حوالے سے انسان کو ان چاروں اوصاف سے مزین ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ قرآن کی اس پاک سورۃ کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں۔
’’ میں دنیا کی تمام قوموں سے قطع نظر کرلیتا ہوں اور مسلمانوں کو دکھانا چاہتا ہوں کہ وہ دنیا کے طرح طرح کے اعلانات کی پرستش کررہے ہیں۔ مگر انھیں یاد کرنا چاہیے کہ ان کے پاس ایک الہامی اعلان بھی ہے۔ جب تک وہ اس تعلیم کو اپنے سامنے نہ لائیں گے ان کی کامیابیاں سود مند نہیں ہوسکتیں۔ وہ اعلان قرآن مجید میں جابجا دہرایا گیا ہے۔ وہ ایک مختصر سبق ہے، جسے دہراتے ہوئے میں خاص طور سے خطاب کروں گا اپنے مسلمان بھائیوں سے، اور التجا کروں گا اپنے ہندو بھائیوں سے کہ وہ خاص اصطلاح سن کر کبیدہ خاطر نہ ہوں، بلکہ اس حقیقت کو ڈھونڈھیں کہ جس طرح بہت سے کنول ہیں ، مگر روشنی ایک ہے۔ سرخ رنگ کے کنول سے روشنی سرخ نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح خدا کی سچائی ایک ہے، اگرچہ طرح طرح کے ناموں میں پیش کی جائے، میں یقین دلانا چاہتا ہوں کہ دنیا میں کوئی چھوٹی سے چھوٹی کامیابی بھی دنیا کا کوئی وجود، کوئی روح، کوئی آتما، بلکہ کوئی ذرّہ اس آسمان کے نیچے نہیں پاسکتا جب تک وہ اس پروگرام پر عمل نہ کرے، جو قرآن نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ اگرچہ قرآن نے اس بارے میں نہایت تفصیلی بیانات دیے ہیں لیکن ایک بہت ہی چھوٹا سا بیان بھی ہے، جس کی نسبت تاریخِ اسلام کے ایک بہت بڑے امام نے جن کا نام امام شافعی ہے، یہ کہا تھا کہ اگر قرآن کے صرف یہی چند جملے نازل ہوجاتے، تو تمام کرۂ ارضی کی ہدایت کے لیے کافی تھے:
والعصر ان الانسان لفی خسر۔ الا الذین امنوا وعملوا الصلحت وتواصوا بالحق و توا صوا بالصبر
آپ کی تحریکِ خلافت ہندوستان کی آزادی کی تحریک ہے! یہ ایک مقصد ہے، جو فتح چاہتا ہے۔ عمل چاہتا ہے۔ جو لوگ مقصد اور عمل کے ڈھنوڈھنے والے ہیں، جو مقصد کے عشق میں آنسو بہانے والے ہیں، تو میں کہنا چاہتا ہوں کہ قرآن کا ہر اچھے مقصد کے لیے یہ اعلان ہے کہ اس آسمان کے نیچے، نوعِ انسان کے لیے، انسانوں کی تلاشوں کے لیے جستجوؤں کے لیے، امیدوں کے لیے بڑی بری ناکامیاں ہیں، بڑے بڑے گھاٹے ٹوٹے ہیں لیکن دنیا کی اس عام نامرادی سے کون انسان ہے ، کون جماعت ہے، جو بچ سکتی ہے، اور ناکامی کی جگہ کامیابی پاسکتی ہے۔ نا امیدی کی جگہ امید اس کے دل میں اپنا آشیانہ بناسکتی ہے، وہ کون انسان ہے؟ وہ انسان ہے، جو دنیا میں ان چار شرطوں کو فوراً اور عملاً اپنے اندر پیدا کرلے۔ جب تک یہ شرطیں پیدا نہ ہوں گی، اس وقت تک دنیا میں نہ کوئی قوم کامیاب ہوسکتی ہے، نہ ملک ۔ حتی کہ ہوا میں اڑنے والا پرندہ بھی دنیا میں کامیابی نہیں پاسکتا۔
ان چار شرطوں کے نام سے گھبرانہ جانا! اگر ایک چیز عربی بھیس میں آجائے، تو کیا تم انکار کردو گے، چاہے وہ پہچانی ہوئی ہو؟
پہلی شرط وہ ہے جس کا نام قرآن مجید کی بولی میں ایمان ہے الا الذین امنو ۔ تم جبھی کامیابی پاسکتے ہو، جب تمھارے دلوں کے اندر، روح کے اندر، وہ چیز پیدا ہوجائے جس کا نام قرآن مجید کی زبان میں ایمان ہے۔ ایمان کے معنی ہیں عربی میں زوالِ شک کے یعنی کامل درجے کا بھروسہ اور علم ، کامل درجے کا اقرار تمہارے دل میں پیدا ہوجائے۔ جب تک کامل درجے کا یقین تمھارے دلوں کے اندر نہ پیدا ہو، اللہ کی صداقت پر، اللہ کی سچائی پر، اللہ کے اصولوں پر، جس وقت تک کامل درجے کا یقین تمھارے قلب کے اندر پیدا نہ ہوگا، کامیابی کا کوئی دروازہ تمھارے لیے نہیں کھل سکتا۔ شک کا اگر ایک کانٹا بھی تمھارے دل میں چبھ رہا ہے، تو تمھیں اپنے اوپر موت کا فیصلہ صادر کرنا چاہیے۔ تم کو کامیابی نہیں ہوسکتی۔ سب سے پہلی شرط یہی ہے کہ تمھارے اندر ایمان، اطمینان ، یقین، جماؤ اور تمکن اور اقرار پیدا ہو۔ لیکن کیا محض دل کا یہ کام، دماغ کا یہ فعل ، تصور کا یہ نقشہ ہی کامیابی کو پورا کردے گا؟ نہیں ۔
فرمایا ایک دوسری منزل بھی اس کے بعد آتی ہے جب تک وہ دوسری منزل بھی کامیابی کے ساتھ طے نہ کرلو گے تو اس ایک منزل کو طے کرکے کامیابی نہیں پاسکتے۔ اس دوسری منزل یا شرط کا نام قرآن کی بولی میں عمل صالح ہے ( وعملو الصلحت ) یعنی وہ کام جو اچھا ہے، اسے اچھائی کے ساتھ کیا جائے۔ جس کام کو جس صحت اور جس طریقے کے ساتھ کرنا چاہیے جو طریقہ اس کے لیے سچا طریقہ ہوسکتا ہے اس کام کو اس کے ساتھ انجام دینا۔
قرآن کا یہ اصول تو عام ہے۔ ایمان کے معنی ہیں، وہ یقین وہ کامل اطمینان ، وہ کامل اقرار، جو عمل سے پہلے پیدا ہوتا ہے۔ جس وقت یہاں اس کانفرنس کی جگہ، ایک چٹیل میدان تھا، کوئی وجود اس شامیانے کا نہ تھا۔ تمھاری خلافت کمیٹی کے ارکان نے اس وقت یہ شامیانہ نصب نہیں کیا تھا، لیکن اس وقت بھی یہ شامیانہ مع ان چمکتی ہوئی لالٹینوں کے موجود تھا۔ کہاں؟ ان کے دماغ میں ۔ وہ چیز جو ان کے دماغ میں موجود تھی، وہ ارادہ جو ان کے ذہن میں پیدا ہوا تھا، وہ پہلی منزل ہوئی ، جو مذہب میں آکر ایمان کا نام اختیار کرلیتی ہے۔ پہلی چیز عمل دماغ ہے، عمل تصور و یقین ہے۔ اسی بنا پر سب سے پہلی منزل ایمان کی ہے۔ پہلی چیز یہ ہے کہ تمھارے دل کے اندر سچا ارادہ پیدا ہو، سچا عزم پیدا ہو۔ دوسری منزل عمل الصلحت کی ہے۔ صرف دماغ کی منزل طے کرکے قدم نہ رک جائیں، بلکہ عمل بھی کرو۔ وہ عمل جو صالح ہو۔ جو صحیح طریقہ ہے اس کام کے انجام دینے کا جب اس کو پورا کرلیا تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ فتح مندی اور کامیابی کی دو منزلیں تم نے طے کرلیں۔
مگر کیا تمھارا کام ختم ہوگیا؟ اس کے بعد کیا تم منزل مقصود تک پہنچ جاؤ گے ؟ قرآن کی عالمگیر صداقت بتاتی ہے کہ نہیں۔ بلکہ ان دو منزلوں کے بعد دو منزلیں اور بھی باقی ہیں۔ اپنی ہمت کو آزماؤ کہ ان کے لیے تمھارے تلوے تیار ہیں یا نہیں! تمھاری کمر ہمت مضبوط ہے یا نہیں! اگر نہیں ہے، تو ممکن ہے کہ یہ دو منزلیں تمھارے لیے سود مند نہ ہوں۔ وہ دو منزلیں یہ ہیں : قرآن مجید نے فرمایا کہ ایمان اور عملِ صالح آدمی کے اندر پیدا ہوا۔ یعنی یہ ہوا کہ انسانیت کی جو ایک زنجیر ہے، اس کی ایک کڑی نے اپنے آپ کو درست کرلیا۔ لیکن کیا ایک کڑی کے درست کرلینے کے بعد زنجیر کا پورا کام ہوگیا۔ ایک منٹ کے لیے بھی نہیں۔ تم کیا ہو؟ افراد کا مجموعہ، بکھری ہوئی کڑیوں کا ڈھیر۔ اس بکھری ہوئی شکل میں بیکار ہوتے اس میں تمھارا کوئی وجود نہیں۔ قرآن وجود مانتا ہے اجتماعی کا، قوم کا۔ اس کے نزدیک وجود کڑیوں کا نہیں، بلکہ زنجیر کا ہے۔ تم میں سے ہر وجود ایک کڑی ہے۔ اس کا کام پورا نہیں ہوسکتا۔ جب تک وہ باقی کڑیوں کی خبر نہ لے۔ جب تک باقی کڑیاں مضبوط نہ ہوں گی، زنجیر مضبوط نہیں ہوسکتی۔ اس لیے فرمایا کہ کامیابی کا سفر کامیاب نہیں ہوسکتا۔ جب تک تیسری منزل تمھارے سامنے نہ آئے۔ وہ تیسری منزل فصیح و بلیغ لفظوں میں وتواصوابالحق وتواصوابالصبر ہے۔ یعنی تم جو ایک کڑی تھے، تم نے اسے ایمان کی مضبوطی سے استوار کیا۔ لیکن تمھارا کام ختم نہیں ہوا۔ تمھارا فرض ہے کہ دوسری کڑیوں کو بھی درست کرو، اور انھیں اس طرح درست کرسکتے ہو کہ جس سچائی کو تم نے اپنایا ہے، اسے دوسروں میں بھی پھیلاؤ۔ جب تک تم میں یہ بات نہ ہوگی کہ تمھارا دل سچائی کے اعلان کے لیے تڑپنے لگے۔ جب تک تم راضی حق نہ کروگے، کامیابی تم کو نہیں مل سکتی۔
لیکن اگر اس تیسری منزل کے لیے تم تیار ہو گئے، اگر توفیق الٰہی نے تمھاری دستگیری کی، تو پھر آخری منزل کون ہے؟ وہ ہے جو صبر کی منزل کے لیے لازم و ملزوم ہے۔ اس کے ساتھ اس کی گردن اس طرح جڑی ہوئی ہے کہ جدا نہیں کی جاسکتی۔ فرمایا کہ حق کی وہ وصیت کریں گے، حق کا وہ پیغام سنائیں گے، حق کی دعوت پہنچائیں گے، مگر حق کا یہ حال ہے کہ اس کی راہ میں کوئی قدم نہیں اٹھ سکتا، جب تک وہ قربانیوں کے لیے بھی نہ اٹھے۔ فرمایا کہ مومن صرف حق ہی کا پیام نہ پہنچائے ۔ تم نے اپنی بدبختی سے نہ صرف شریعت کے حکم کو بدلا ہے، بلکہ اپنے طریقِ عمل سے شریعت کے لفظوں کو، بولیوں کو بھی بدل ڈالا ہے۔ صبر کے معنی کیا ہیں؟ تم سمجھتے ہو کہ صبر کے معنی ہیں بے غیرتی اور باطل کی پرستش اور پوجا۔ تم صبر کے معنی یہ سمجھتے ہو لیکن جو شخص صبر کے یہ معنی سمجھتا ہے، اس سے بڑھ کر قرآن مجید کی تحریفِ لفظی کرنے والا کوئی نہیں۔ تحریف معنوی تو بہت سے علماء کررہے ہیں۔ لیکن تحریف لفظی یہ ہے کہ اگر صبر کے معنی یہ ہیں کہ تمھارے حق کے مقابلے میں مصیبت آجائے، تو تم کو چاہیے کہ صبر کے گوشہ میں پناہ لو یعنی ہر طرح کی بے غیرتی کو، بیچارگی کو، باطل پرستی کو قبول کرلو۔ تو میرے بھائیو ! تم سے بڑھ کر قرآن کی تعلیم کو بدلنے والا کوئی نہیں۔
صبر کے معنی اس سے بالکل مختلف ہیں۔ صبر کے معنی ہیں برداشت کے، صبر کے معنی ہیں جھیلنے کے، صبر کے معنی ہیں تحمل کے، جو قدم تم مقصد کی راہ میں اپنے محبوب اور پیارے مقصد کے لیے اٹھاؤ اور اس میں طرح طرح کی مصیبتیں آئیں، طرح طرح کی ڈراؤنی صورتیں آئیں، زنجیریں اور ہتھکڑیاں آئیں بلکہ ممکن ہے کہ تمھارے سامنے تختہ آوے اور اس پر ایک پھندا جھول رہا ہو۔ یہ سب تمھارے سامنے آسکتا ہے۔ لیکن اگر تم حق کے پرستار ہو، تو تمھارا فرض ہونا چاہیے کہ تمھارے اندر صبر ہو، تمھارے اندر برداشت کی وہ اٹل طاقت، برداشت کا وہ پہاڑ موجود ہو، جس پر دنیا کی کوئی شوکت، کوئی تاج و تخت فتح یاب نہ ہوسکے۔ یہ معنی صبر کے ہیں۔ ‘‘ (’’خطبات آزاد‘‘ ۔ ص ۔ ۵۸ تا ۶۲)
کسی بھی کلچر میں اگر مولانا ابوالکلام آزادکے بیان کردہ ان اصولوں پر عمل ہو تو اس سے بہتر کلچر کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ مولانا آزاد کا کلچر اور سوسائٹی کا یہی ویژن تھا جہاں صابر انسان کے آگے دنیا کی شوکت، تخت و تاج مفتوح ہوجائیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت کے بہت سے پہلو تھے وہ مذہبی رہنما تھے، عالم تھے۔ صاحب طرز ادیب تھے۔ شعلہ نوا مقرر تھے اور سیاست دان تھے۔ سب سے زیادہ انسان دوست تھے۔ رنگ نسل اور مذہب کے تعصب سے پاک۔ وہ ہمشہ قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے خواب دیکھتے رہتے تھے۔ کانگریس کا ۵۴ واں اجلاس رام گڑھ میں ہوا تھا۔ مولانا نے اس کے صدارتی خطبہ میں کہا تھا۔
’’ہماری گیارہ صدیوں کی مشترک تاریخ نے ہماری ہندوستانی زندگی کے تمام گوشوں کو اپنی تعمیر سامانیوں سے بھر دیا ہے۔ ہماری زبانیں، ہماری شاعری ہمارا ادب، ہماری معاشرت، ہمارا ذوق ، ہمارا لباس، ہمارے رسم و رواج ہماری اواخر کی زندگی کی بے شمار حقیقتیں، کوئی بھی گوشہ ایسا نہیں جس پر اس مشترک زندگی کی چھاپ نہ لگی ہو۔ ہماری بولیاں الگ الگ تھیں۔ مگر ہم ایک زبان بولنے لگے۔ ہمارے رسم و رواج ایک دوسرے سے یگانہ تھے۔ مگر انھوں نے مل جل کر ایک نیا سانچہ پیدا کیا۔ ہمارا پرانا لباس تاریخ کی پرانی تصویروں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ مگر اب وہ ہمارے جسموں پر نہیں مل سکتا۔ ‘‘
اقبال اپنی نظم مسجد قرطبہ میں کہتے ہیں :
اول و آخر فنا باطن و ظاہر فنا
نقش کہن ہو کہ نو منزل آخر فنا
ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات و دوام
جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام
مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی اقبال کی طرح اس رمز کو پالیا تھا کہ سب کچھ فنا ہونے والا ہے اور صرف اس نقش کو رنگ ثبات دوام حاصل ہوسکتا ہے۔ جس کو کسی مرد خدا نے اپنے خون دل و جگر سے تمام کیا ہو ایسے ہی مرد خدا کے لیے ایسے ہی مرد مومن کے لیے ماضی اور حال کوئی تقسیم نہیں رہ جاتی ہے اور نہ مستقبل ان سے پوشیدہ ہے۔ ابوالکلام آزاد بھی ماضی ، حال اور مستقبل کی تقسیم سے آزاد ہوگئے تھے جس کا مظہر ترجمان القرآن ہے۔
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستان والو!
تمہاری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔
Dr. Shaik Abdul Kareem