مولانا آزاد کا ‘ تذکرہ ‘ ایک مطالعہ – – – – – – – ڈاکٹر جی.عظمت اللہ

Share

Maulana Azad تذکرہ
مولانا آزاد کا ‘ تذکرہ ۔ ایک مطالعہ

ڈاکٹر جی.عظمت اللہ
اسسٹنٹ پروفیسراردو
ناگارجنا گورنمنٹ ڈگری کالج (خود مختار)
نلگنڈہ ۔ تلنگانہ

امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد ایک شخص کا نام نہیں بلکہ ایک انجمن کا نام ہے۔ وہ مجاہد آزادی، جید عالم دین ، ادیب، شاعر، صحافی اور اعلیٰ درجہ کے خطیب تھے۔ آزادی کے بعد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم بنے اور ہمارے تعلیمی نظام میں کئی اصلاحات کیں۔ انھوں نے صحافت کے میدان میں ’’الہلال‘‘ کے ذریعہ قدم رکھا تو ہندوستان بھر میں ایک انقلاب برپا کردیا۔ مذہب کے بہت سارے پرانے مسلمات رد کرکے خود اپنے لئے نئی شاہراہیں نکالیں۔ الہلال کے توسط سے انھوں نے قومی و ملکی بیداری میں حصہ لیا۔ ایک عالمِ دین اور مفکر اسلام کی حیثیت سے انھوں نے مسلمانوں کے انحطاط کو محسوس کیا تھا اور اس نتیجہ پر پہونچے تھے کہ اس اُمت کی اصلاح اُسی وقت ممکن ہے جب خدا کا کلام اور نبی ﷺ کی سنت انسانی اعمال کو آئینہ دکھائے۔ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ان کا جانی دشمن بن گیا تو انگریز بھی مولانا آزاد سے خوش نہ تھے۔ ان کا قلم حق کے اظہار میں بہت بے باک تھا جس کی وجہ سے انگریزی حکومت نے الہلال اور البلاغ کو بند کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آخرکار مولانا کو صوبہ بنگال چھوڑنے کا فرمان جاری کردیا گیا۔ افراط و تفریط کے اس مذہبی اور سیاسی سیلاب میں بھی وہ اپنے سیاسی و مذہبی عقیدے کی مضبوط چٹان پر زندگی بھر استقامت سے کھڑے رہے۔

’’تذکرہ‘‘ ستمبر 1919 ء میں فضل الدین احمد نے شائع کروایا تھا، یہ ان کی مولانا آزاد کی پہلی مستقل تصنیف ہے جس میں انھوں نے اپنے اسلاف کا تذکرہ بڑی آن بان کے ساتھ کیا ہے۔ انھوں نے یہ کتاب شہر رانچی سے باہر مولابادی نامی ایک گاؤں میں لکھی جہاں وہ اپنی نظربندی کے دوران مقیم تھے۔ اس کتاب کی تصنیف کے بارے میں فضل الدین احمد کے الفاظ ملاحظہ کیجئے جنھوں نے مولانا آزادؔ کو اس کتاب کے لکھنے پر راضی کیا تھا۔
’’۱۹۱۴ء میں جب الہلال کی شہرت کمال درجہ تک پہونچ چکی تھی اور ہر شخص اس عجیب و غریب شخضیت کے حالات معلوم کرنے کا خواہش مند تھا جس نے یکایک ظاہر ہوکر قوم میں انقلاب عظیم پیدا کردیا تو مجھے پہلی مرتبہ خیال ہوا کہ ان کے حالاتِ زندگی قلم بند ہوجائیں۔ چنانچہ میں نے یہ خیال ان پر ظاہر کیا لیکن انھوں نے اول تو کئی بار عادت کے مطابق مذات میں بات ٹال دی اور صاف صاف انکار کردیا اور کہا، کتنی بزرگ اور عظیم الشان زندگیاں ہمارے سامنے ہیں جن کے سوانح و حالات نہیں لکھے گئے۔ ان کو چھوڑ کر میری زندگی کے حالات مرتب کرنا محض ایک تمسخر انگیز حرکت ہوگی‘‘۔ ۱؂
تذکرہ اسلام کے اُن فرزندوں کی داستانِ حیات ہے جو عالم اسلام پر چھائی ہوئی تاریکیوں میں روشن قندیلوں کی طرح زندہ و تابندہ ہے۔ اس میں ان کے خاندان کے علمائے حق کی سوانح حیات زیادہ اور مولانا آزاد کی کم ہے۔ انھوں نے اپنا تذکرہ چھیڑا بھی ہے تو استعارات و کنایات کے پیرائے میں اور شاعرانہ اُسلوب اتنا اُبھار دیا ہے کہ قارئین کی توجہ اُن کی ذات سے ہٹ کر اُن کے طرز تحریر کی رنگینیوں میں دلچسپی لینے لگتی ہے۔ مولانا آزاد کی شخصیت کی تشکیل میں خاندانی اور نسلی وراثت کا بھی حصہ ہے۔ اُنھوں نے خود ایک جگہ لکھا ہے :
’’مجھے معلوم ہے کہ میری عادات و خصائل کی مورتی بھی اسی مٹی سے بنی۔ ہر خاندان اپنی روایتی زندگی کی ایک انفرادیت پیدا کرلیتا ہے اور وہ نسلاً بعد نسلٍ منتقل ہوتی رہتی ہے۔ میں صاف محسوس کرتا ہوں کہ اس روایتی زندگی کے اثرات میرے خمیر میں رچ گئے ہیں۔ میں ان کی پکڑ سے باہر نہیں جاسکتا۔ میری عادات و خصائل، چال ڈھال، طور طریقہ، امیال و اذواق سب کے اندر خاندان کا ہاتھ صاف صاف دکھائی دے رہا ہے‘‘۔ ۲؂
’’تذکرہ‘‘ کے مطابق ان کے جدّی سلسلہ نسب میں شیخ جمال الدین کا نام بہت ممتاز نظر آتا ہے جو عہد اکبری کے مشاہیر علماء اور اصحابِ سلوک و طریقت میں سے تھے۔ موصوف امربالمعروف اور نہی عن المنکر میں تیغِ بے نیام تھے اور علم طریقت اور ظاہر و باطن کے جامع تھے۔ ان کے خاندان کے ایک اور بزرگ جن پر تصوف و سلوک کا غلبہ تھا، شیخ محمد تھے۔ یہ شیخ جمال الدین کے فرزند اور حضرت سید احمد سرہندی مجدد کے خلیفہ تھے۔ انھوں نے شہزادہ خرّم کو تخت و تاج کی بشارت دی تھی۔ سجدۂ تعظیمی کے مسئلہ پر جب مجدّد صاحب کا جہانگیر سے اختلاف ہوا تو شیخ محمد نے ان کے ساتھ وابستگی کا اعلان کیا۔ مولانا آزاد کے دادا کا نام شیخ محمد ہادی تھا جنھوں نے مفتی صدرالدین سے تکمیل علوم کیا تھا۔ ان کا حافظہ غیر معمولی تھا۔ کہا جاتا ہے کہ پوری قاموس اور تمام درسی کتب، ان کے حواشی اس طرح ازبر تھے کہ ان کے اساتذہ کہا کرتے تھے کہ اگر یہ کتابیں کم ہوجائیں تو یہ اپنے حافظہ سے پھر لکھ دے سکتے ہیں۔ ابوالکلام آزاد کے والد مولانا خیرالدین کی پرورش ان کے نانا مولانا منورالدین نے کی تھی۔ ۱۸۵۷ء کی تباہی کے بعد انھوں نے دیگر علماء کی طرح مکہ معظمہ ہجرت کی، بلند پایہ عالم تھے۔ زمانہ قیام میں مولانا خیرالدین نے علمائے ازہر سے مناظرے کئے تھے۔
مولانا آزاد نے تذکرہ میں صرف اپنے اسلاف کے کارنامے ہی بیان نہیں کئے بلکہ ان بزرگوں کے دور کے دیگر علمائے حق کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس کتاب کی ایک فصل مقامِ دعوت و عزیمت پر مشتمل ہے جن میں انھوں نے امام احمد بن حنبلؒ ، علامہ ابن تیمیہؒ ، علائی اور نیازی کی حق گوئی و بے باکی کا ذکر کیا ہے۔ مولانا نے یہ سلسلہ حضرت مجدد الف ثانی، شیخ سرہندی اور شاہ ولی اللہ تک بڑھادیا ہے۔ اس مقام پر بقول ڈاکٹر سید عبداللہ ’’ان کا قلم ایک عاشقانہ کردار اور مجنونانہ اندازِ حیات کا جلال دکھاتا ہے‘‘۔ ان علماء نے دینی معاملات میں بادشاہِ وقت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے شدید مصیبتیں جھیل کر بھی دین اسلام اور حق کو مقدم رکھا تھا۔
ہر دور میں علمائے حق کے ساتھ ساتھ علماء سوء کا گروہ بھی ہوا کرتا تھا جس نے بادشاہ کی قربت، منصب اور مال و دولت کی ہوس میں دین اسلام کو شدید نقصان پہنچایا۔ مولانا نے ایسے علماء کا بھانڈہ پھوڑا ہے۔ مولانا کا اندازِ بیان ملاحظہ ہو :
’’دنیا کی تاریخِ ہدایت و اصلاحِ اُمم کی نصف گتھیاں اسی سوء فہم اور تاویل و تعبیر باطل کی الجھائی ہوئی ہیں۔ پہلوں نے کچھ کہا تھا اور پچھلوں نے کچھ سمجھا، معتقدین نے غلو کیا اور مخالفین نے تعصب و تشدد ۔ اور اس تاریکی میں اصل حقیقت گُم ہوگئی‘‘۔ ۱؂
اسلوب بیان کسی حد تک مصنف کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ مولانا آزاد کا اندازِ بیان بہت دلچسپ اور عالمانہ شان لئے ہوئے ہوتا ہے۔ ان کی زبان اور علم کی سطح اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے۔ اوسط درجہ کا قاری حقیقی معنی و مفہوم سمجھ نہیں پاتا۔ تذکرہ میں عربیت کی فراوانی ہے اور اصطلاحاتِ علمیہ کی بہتات ہے۔ پورا تذکرہ برمحل اور چست اشعار سے بھرا پڑا ہے اور ان کے عربی و فارسی ادب کے ذخیرے پر ماہرانہ عبور کے ساتھ ان کے ذوقِ سلیم کی غمازی کرتا ہے۔
تذکرہ کا کوئی جائزہ اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے آخری ابواب پر روشنی نہ ڈالی جائے جن میں انھوں نے خود اپنا تذکرہ کیا ہے جس سے ان کے اسلوب بیان، ان کی اشاریت، ان کے روحانی وفور پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ فضل الدین احمد کے اصرار پر انھوں نے یہ حصہ لکھا مگر اپنی شخصیت کو شاعرانہ اشارات کے مزین پردے کے اندر چھپاکر اپنے وجود کو ایک روحانی مہم بنالیا اور اس طرح کی مادی زندگی بڑی حد تک موضوعِ کلام سے خارج ہوگئی۔ ملاحظہ کیجئے :
’’اپنی سرگزشت و روئداد عمر لکھوں تو کیا لکھوں؟ ایک نمود غبار و جلوۂ سراب کی تاریخِ حیات قلم بند ہو تو کیوں کر ہو؟ دریا میں حباب تیرتے ہیں، ہوا میں غبار اُڑتا ہے، طوفان نے درخت گرادیئے۔ سیلاب نے عمارتیں بہادیں، مرغ آشیاں پرست نے کونے کونے سے تنکے تنکے جمع کئے۔ خرمن و برق کا معاملہ، آتش و خس کا فسانہ ان سب کی سرگزشتیں لکھی جاسکتی ہیں تو لکھ لیجئے۔ میری پوری سوانح عمری بھی انھیں میں مل جائے گی۔ نصف افسانۂ اُمید اور نصف ماتم یاس‘‘۔ ۱؂
جب ہم مولانا کے تذکرہ کا بحیثیت ایک خود نوشت سوانح حیات یا محض سوانح حیات جائزہ لیتے ہیں تو اس کے اندر ہم کو بہت سی خامیاں نظر آتی ہیں۔ سب سے بڑی خامی تو یہ ہے کہ ان کے اسلاف کا تذکرہ خاصا طویل ہوگیا ہے جس کی وجہ سے مولانا کی شخصیت دب کر رہ گئی۔ دوسری بڑی خامی یہ ہے کہ مولانا نے حالات و واقعات کے دھارے میں بہہ کر درس دینے اور نصیحت و تلقین کو اپنا مطمع نظر بنالیا ہے۔ تذکرہ کی ان خامیوں کا احساس خود مصنف کو بھی تھا چنانچہ انھوں نے بعد میں ’’اعتذار‘‘ کے عنوان سے مزید چار صفحات شامل کرکے بہت خوبصورتی سے خامیوں کی تاویل کردی۔
———-
azmt

Share
Share
Share