محمد حسن کی نظریاتی تنقید
ڈاکٹراسمٰعیل خان
شعبہ اردو انوارالعلوم ،
ڈگری کالج، ملے پلی، حیدرآباد
اردو کی ترقی پسند ادبی تنقید میں محمد حسن کا شمار اہم نقادوں میں ہوتاہے۔ انھوں نے ایک مارکسی نقاد کی حیثیت سے تنقید نگاری کے میدان میں قدم رکھا، لیکن نئے علوم اور اثرات کے تحت اردو تنقید کا مطالعہ بھی کیا ہے، اور ترقی پسند نظریہ تنقید کو ایک نئی سمت عطا کی ہے۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے نظریاتی اور ادبی تنقید و مسائل پر غور و فکر کی ایک نئی طرح ڈالی ہے۔ محمد حسن نے اپنی تنقید میں ادب، زندگی، سماج ، ماحول یا زمانے کے کسی بھی پہلو کو نظرانداز نہیں کیا اور نہ ہی کسی فن پارے کو صرف اچھایا خراب کا خطاب دے کر چھوڑدیا بلکہ وہ اس کی خوبیوں اور خامیوں کا اس کے سماجی، تاریخی اور تہذیبی محرکات کے پس منظر میں تجزیہ کیاہے۔
محمد حسن نے فن پارے میں جمالیاتی و فنی اقدار کو بھی اہمیت دی ہے لیکن ا سکا جواز سماجی اور تہذیبی قدروں سے پیش کرتے ہیں۔ محمد حسن کے نزدیک فن سماج کا معمار ہے وہ اسے کسی بھی تنگ دائرے میں قید کرنے کے قائل نہیں ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہم ان قدروں کو کبھی نظر انداز نہیں کرسکتے جس سے فن کو ابدیت اور آفاقیت عطا ہوتی ہے اسی لیے محمد حسن ہر دور کے ادب کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ مصنف کا مطالعہ، عصر کا مطالعہ اور آفاقی اقدار کا مطالعہ ضروری سمجھتے ہیں اس طرح سے انھوں نے تنقید کا ایک وسیع اور ہمہ گیر تصور پیش کرتے ہوئے ترقی پسند تنقیدی نظریہ میں اضافہ کیا ہے۔ محمد حسن کی اس نظریاتی تنقید کی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر شارب ردولوی نے لکھا ہے:
انھوں نے نظریاتی اور ادبی مسائل پر جو کچھ لکھا ہے وہ اردو تنقید کا بیش قیمت سرمایہ ہے۔ انھوں نے ادب، زندگی اور سماج کے رشتوں کو اچھی طرح سمجھا ہے اور ترقی پسند تحریک اور مارکسی فلسفہ کی خوبیوں کو اپنے اندر سموکر ادبی مطالعہ کے لیے ایک نقطہ نظر پید اکیا ہے۔ وہ تناسب ہم آہنگی ، ادب کی عصریت ، انفرادیت اور آفاقیت پر یکساں زور دیتے ہیں۔ وہ اعلیٰ اور عظیم ادب کی اقدار و ترقی پسند ادب کی اقدار میں کوئی تضاد اور تناقص نہیں پاتے۔ شعر و ادب کے جدید رجحانات اور افکار و مسائل کے بارے میں احتشام حسین کے بعد سب سے زیادہ گہرائی اور بصیرت سے جس نے مطالعہ کیا ہے وہ محمد حسن ہیں۔
(جدید اردو تنقید اصول و نظریات، ص 383)
محمد حسن کی اہم تنقیدی تصانیف میں ادبی تنقید، شعرِ نو، اردو ادب میں رومانوی تحریک، ہندی ادب کی تاریخ دہلی میں اردو شاعری کا تہذیبی اور فکری پس منظر، جدید اردو ادب، عرض ہنر، ادبی سماجیات، شناسا چہرے، قدیم اردو ادب کی تنقیدی تاریخ، مطالعہ سودا، معاصر ادب کے پیش رو ، مشرق و مغرب میں تنقیدی تصورات کی تاریخ، ہیئتی تنقید اور طرز خیال وغیرہ ہیں۔ ان کی ان تصانیف کے مطالعہ سے یہ صاف واضح ہوتاہے کہ انھوں نے ادبی تنقید کو نئے علوم اور نئی راہوں سے آشنا کرتے ہوئے ذاتی تعصبات سے بالکل پاک رکھا اور ادبی تنقید کو ایک ایسا فلسفیانہ آہنگ عطا کیا جس میں بے پناہ لچک کے ساتھ وسعت بھی ملتی ہے۔
محمد حسن کا خیال ہے کہ ہر ادب اپنے اندر اپنے ماحول کے اثرات کے ساتھ ساتھ اپنے ماضی کی ادبی روایات و اقدار سے بہت کچھ حاصل کرتاہے۔ ساتھ ساتھ ہر ادیب انفرادی طور پر اپنے ذہنی کشمکش اور اپنے نجی تجربات و مشاہدات کو مختلف انداز میں بیان کرتا ہے، بیان کی اس قوت میں خارجی عوامل اور داخلی عوامل دونوں برسرپیکار ہوتے ہیں اس کے علاوہ ان کے نزدیک ہر ادب زمانے، ماحول، تاریخ سیاست اور اپنے حال کے اندازِ فکر سے کسی نہ کسی طور پر جڑا ہوتاہے۔
ادب کا کام ایک بہترین زندگی کے لیے راستہ ہموار کرنا ہے اس لے وہ اسے اجتماعی عمل کہتے ہیں گوکہ انفرادی پہلو کا مضبوط عنصر اس میں شامل رہتاہے۔
محمد حسن کے تنقیدی نظریات میں ہمیں ادب، زندگی اور سماج کے رشتوں کو سمجھنے کا رجحان بھی ملتا ہے۔ انھوں نے ترقی پسند تحریک اور مارکسی فلسفہ کی خوبیوں کو اپنے اندر سمویا اور ادب کا مطالعہ کیا۔ ان کے نزدیک ادب کا اعلیٰ ترین حصہ زندگی کو براہِ راست نہیں بدلتا۔ وہ نعروں میں باتیں نہیں کرتابلکہ وہ دیرپاعناصر سے بحث کرتاہے چنانچہ انھوں نے ادب کے فنی اقدار اور صحت مند نقطۂ نظر کی وکالت کی اور سائنٹفک تنقید یا عمرانی تنقید کو اپنایا۔ محمد حسن کی یہ تنقیدی بصیرت اور ہمہ گیر فکر کا ثبوت ہمیں ان کی تقریباً تمام تنقیدی تحریروں میں ملتاہے۔
محمد حسن کی تنقید کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ انھوں نے تنقید کو تحقیق سے ہم آہنگ کرنے کی بنیاد ڈالی۔ ان کی تنقید کی اس خصوصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ظفر ادیب نے لکھاہے کہ:
ان کے غور و فکر کا انداز سائنسی ہے وہ عوامل کو پیش نظررکھتے ہیں، محرکات کے سرچشمے کاپتہ لگاتے ہین اور ان کے نتائج کی بھی کڑی جانچ کرتے ہیں کہ یہ ہوا تو کیوں ہوا، اگر کچھ اور ہوتو اس کی صورت کیا رہتی اور اس کے عناصر کا عمل کس ڈھب پر ہوتا یا اس کے اجزاء کی نشوونما میں کون کون سے خارجی یا باطنی اثرات کام کرتے رہے ہیں وغیرہ ۔ یہی سبب تو ہے کہ ان کی تنقید میں گہرائی، وسعت اور بلندی پائی جاتی ہے۔ چونکہ انھوں نے تحقیقی مزاج پایا ہے، اس سے ان کی تنقید کی آب اور بھی بڑھ جاتی ہے بلکہ حد تک تحقیقی ہی ہوجاتی ہے، جب تنقید تحقیق کے معیار پر پہنچتی ہے تو اس کی کچھ اور ہی شان ہوتی ہے۔ ان کے یہاں بیشتر اسی قسم کی تنقیدیں دیکھنے میں آتی ہیں۔
(محمد حسن افکار و اسالیب مرتب، عبدالحق، ص121)
محمد حسن کا شمار اس لحاظ سے بھی اردو نقاوں میں اہم ہیں کہ انھوں نے جدید اور قدیم ادب دونوں پر گہری نظرڈالی ہے اور اپنے مطالعہ میں قدیم ادبی روایات سے استفادہ بھی کیا اور ان کا مقام بھی متعین کیا ہے۔ محمد حسن کا کہناہے کہ ایک نقاد پر دوہری ذمہ داری ہوتی ہے۔ ایک تو اسے تہذیبی تاریخ بھی لکھنی ہوتی ہے اور دوسری ادبی اقدار کے متعین کرنے کے لیے اصول بھی بنانے ہوتے ہیں۔ محمد حسن نے ادبی تخلیق کے مطالعہ کے لیے جو اصول پیش کئے ہیں وہ ترقی پسندانہ اور سائنٹفک ہیں جس میں تحقیق، نفسیات، سیرت، عمرانیات، سماجی علوم اقتصادیات، جمالیات اور تاریخ سب ہی شامل ہیں جیسے ایک جگہ محمد حسن نے ادبی تخلیق کے مطالعہ کے اصولوں پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھاہے۔
تخلیق دراصل تین سطحوں سے ہوکر گذرتی ہے وہ اپنے مصنف کی ذات کا اظہار بھی ہوتی ہے اس کے عصری شعور کی آواز بھی اور اس دور سے پیدا ہونے والی آفاقی اقدار کی گونج بھی، اس لیے ہر دور کے سنجیدہ ادب کا مطالعہ لازمی طور پر مصنف کا مطالعہ (تحقیق ، سیرت اور نفسیات کی مدد سے) عصر کا مطالعہ (عمرانیات، اقتصادیات، اور سماجی علوم سے) اور آفاقی اقدار کا مطالعہ (جمالیات اور تاریخ کی مدد سے بن جاتاہے۔
(بحوالہ، جدید اردو تنقید اصول و نظریات ، ص 385)
محمد حسن اپنے نظریہ تنقید میں ہمیشہ اس بات پر زوردیا ہے کہ ادبی تنقید کا اہم ترین فریضہ یہ ہونا چاہیے کہ کسی بھی ادبی فن پارے کا مطالعہ تہذیبی پس منظر میں ماضی کے سماجی اور جمالیاتی شعور کے ساتھ ساتھ حال کے سماجی، اقتصادی، معاشی، عمرانی مطالعہ کے لیے ساتھ کیاجائے تبھی ہم تنقید کے اصل منصب تک پہنچ سکتے ہیں۔ محمد حسن کے یہاں ادب کے مطالعہ کے لیے سماجی اور تہذیبی رشتوں پر بھی زیادہ زور ملتاہے، ان کا خیال ہے کہ بغیر سماجی و تہذیبی تاریخ کے نہ تو ادب اور ادیب کی اقدار کا تعین کیا جاسکتاہے اور نہ صحت مندادبی تنقید کے اصول مرتب ہوسکتے ہیں، محمد حسن اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ادب انسانی زندگی اور اس کے ڈھانچہ پر اثراندا زہوتاہے اس لیے اس کا تاریخی سیاسی و تہذیبی مطالعہ دلچسپی سے خالی نہیں ہوسکتا۔
یہ حقیقت بھی ہے کہ ادب تاریخ وواقعات کے ذریعے سماجی حقیقت نگاری کرتاہے کسی بھی ملک کا ادب ایک سماجی دستاویز کی حیثیت رکھتاہے جس کے ذریعہ انسان اور اس کے معاشرے کے حقائق پر روشنی پڑتی ہے جیسے ایک جگہ محمد حسن نے لکھا ہے:
ہر دور کا ادب عصری تقاضوں کا عکاس ہوتاہے اور اسی لیے اس کے آئینے میں کسی ملک اور قوم کے درد و داغ، جستجو و آرزو کا مطالعہ کیاجاسکتاہے وہ سماج کا پروردہ بھی ہوتاہے اور اس کا خالق اور اسی لیے ادب کا مطالعہ وسیع تر تہذیبی پس منظر میں کرنا ضروری ہے۔ ادب کے ذریعے تاریخ کی جیتی جاگتی تصویر اور عہد ماضی کے مزاج اور کردار کا مطالعہ کیاجاسکتاہے۔ مختلف سماجی علوم کی مدد سے کسی مخصوص عہد کے مطالعے سے یہ راز بھی منکشف ہوسکتاہے کہ دور میں چند تصورات کے ابھرنے اور چند عقائد و اقدار کے نمایاں ہونے کے اسباب کیا تھے؟ گویا ادب کے کیا اور کیوں کا جواب تہذیبی تاریخ کی مدد ہی سے فراہم کیاجاسکتاہے اور اس ضمن میں نسلی وراثت، معاشرت اور اس کی اقدار، معتقدات اور فلسفے، تاریخ اور سیاست کے ہنگامے، اقتصادیات کے پیچ درپیچ اثرات سبھی کا مطالعہ معاون ثابت ہوتاہے۔
(بحوالہ، محمد حسن افکار و اسالیب، مرتب عبدالحق، 186)
سماجی، سیاسی اور تہذیبی اسباب و عوامل کے ساتھ ساتھ محمد حسن ادب میں اسلوب و آہنگ زبان اور پیرایہ اظہار، صوتیات اور فنی اقدار کے مطالعے پر بھی یکساں طور پر زور دیتے ہیں۔ انھوں نے اپنی کتاب ’’عرض ہنر‘‘ کے دیباچے میں لکھا ہے کہ:
’’ہیئت پر زور دینے والے نقادوں نے آہنگ و اسلوب کے تجزیے، صوتیات کی درجہ بندی تشبیہوں اور استعاروں کے شمار اور زبان اور پیرائیہ اظہار کے ہر پہلو پر اس درجہ توجہ کی کہ تخلیق کے پیکر میں ڈھلنے والی روح عصر کو فراموش کردیااور متعن میں گم ہوکر رہ گئے۔ عمرانی تنقید کے ریسا نقاد نفس ممون کی اسی ادھڑبن میں لگے۔ شاعر کے دور کو سمجھنے اور اس کے سیاسی اور تہذیبی عوامل و محرکات کی بحث میں کچھ اس طرح محو ہوئے کہ ا سکو اسلوب وآہنگ کا بدل سمجھ بیٹھے اور فن پارے کے فن اور اسلوبیاتی تجزیے سے غافل ہوگئے۔
(محمد حسن ، عرض ہنر، دیباچے، ص 7,8)
محمد حسن کا خیال ہے کہ ادب کی خالص جمالیاتی اور فن اقدار، سیاسی، سماجی اور تہذیب عوامل و محرکات سے قطعی الگ اور بے نیاز نہیں ہوسکتی ہے ، بلکہ انھیں خارجی اسباب و عوامل کی ہی پیداوار ہوتی ہے ا سلیے ان کے نزدیک اسلوب و آہنگ کے خالص جمالیات مطالے اور ہیئتی تجربے کی مدد سے بھی عصری حقیقتوں تک پہنچا جاسکتاہے اور ان میں روح کی جلوہ گری، سماج میں طبقہ واری کشمکش کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔
محمد حسن بحیثیت ترقی پسند نقاد کسی بھی فن پارے کو اس کے حسن، اس کے ماضی حال اور مستقبل کی روشنی میں پرکھاہے اور مارکسزم کو سمجھنے میں انھوں نے کوئی کوتاہی نہی کی ۔ صرف خارجی عوامل اور صرف میکانیکی عمل کو بروئے کار لایا، بلکہ وہ صاف طور ر ادب کے داخلی حسن سے انکار نہیں کیاہے۔ ادب کو انھوں نے دانش و آگہی ، فکر و احساس، جذبہ اور حسن و جمال کے تانے بانے کاحصہ قراردیاہے۔ مارکسی تنقید کو وہ فن کا کوئی بندھا ٹکا آدرش نہیں مانگتے اسکا آدرش تو ہمیشہ ان جزوی و افرادی ادبی تخلیقات ہی میں ملتاہے، اسے علیحدہ نہیں کیاجاسکتا۔ ادب کا کام خیال و شعور کی آبیاری کرناہے اور اس خیال کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ فن اور زندگی کا باہمی رشتہ ایک طرف ادب اور زندگی کے رطب باہمی کو نظر میں رکھتاہے تو دوسری طرف ادب کے دارے کے اندر رہ کر اسے ایک نئے تضاد سے آشنا بھی کرتاہے۔
محمد حسن ادب میں انفرادیت اور شخصیت کے مسئلہ کو بھی اکثر و بیشتر اٹھاتے رہے ہیں۔ لیکن وہ اسے تاریخ اور تہذیب کے رشتوں سے الگ نہیں سمجھتے وہ شخصیت کی شناخت معاشرے اور دور کی شناخت کے بغیر ممکن نہیں سمجھتے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ادب میں اظہار پانے والے تمام خیالات اور جذبات کے رشتے متعلقہ دور کے دیگر خیالات و جذبات سے مل جاتے ہیں۔ ایسے میں ادب کا مطالعہ فرد ہی کا نہیں بلکہ دور کا مطالعہ بن جاتاہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ محمد حسن ادیب کی انفرادیت اور شخصیت کو اس کے عہد کی اجتماعی زندگی سے الگ نہیں سمجھتے۔
الغرض محمدحسن ادب میں نظریے کی اہمیت کے قائل تھے اور اس کے تحت وہ ادب کا مطالعہ کرتے تھے۔ انھوں نے کبھی شعر و ادب کو پرکھنے میں بے جا جانب داری سے کام نہیں لیا اور نہ ہی اپنے قلم کو ذاتی تعصبات و ترجیحات سے آلودہ ہونے دیا بلکہ انھوں نے تنقید کے اعلیٰ معیار کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی بات کو واضح و مدلل انداز میں پیش کیاہے۔ محمد حسن نہ صرف ترقی پسند و ادب کے نظریہ سازوں میں شمار ہوتے ہیں بلکہ بیسویں صدی کے ممتاز دانشوروں اورادیبوں کی صف میں ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے بہت زیادہ لکھا اور معیاری لکھا ان کے موضوعات میں تنوع نظرآتاہے۔ ایک جگہ ڈاکٹر انور سدید نے محمد حسن کی تنقید نگاری پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھاہے کہ
محمد حسن عظیم ادب کی تخلیق میں نقطۂ نظر کی ضرورت سے انکار نہیں کرتے وہ نقطۂ نظر کی وسعت، گہرائی اور کشادگی کو اہمیت دیتے ہیں اور شعر و ادب میں انھیں کے رنگ و نواسے کیف و اثر پیدا کرنے کے آرزو مند ہیں۔ ڈاکٹرمحمد حسن کی تنقید ترقی پسند نظریے کے آزادانہ استعمال کی مثال ہے۔
(محمد حسن افکار و اسالیب، مرتب عبدالحق، 191)
***
مضمون نگار: ڈاکٹر اسمعیل خان
اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو انوارالعلوم ، ڈگری کالج، ملے پلی، حیدرآباد