برسی کے موقع پر
جون ایلیا : کیف وکم اورچاہتوں کا شاعر
ڈاکٹرمسعود جعفری
حیدرآباد ۔ دکن
عہد وسطی سے امر و ہہ علم و ادب اور عرفان و آگہی کا گہوارہ رہا ہے۔امروہہ کے ذرہ ذرہ میں شعر و شاعری رچی بسی رہی،انیس و دبیر کے علاوہ میر و غالب کی شاعری کی دھوم گھر گھر رہی۔ترقی پسند تحریک نے بھی امروہہ کے شعری افق پر لالی بکھیر دی۔زبیر رضوی کی شاعری میں نئے عہد کی کر وٹیں صاف دکھا ئی دیتی ہیں۔کمال امرو ہی امروہہ کے تاریخی شعور کے مشعل بردار رہے۔انہوں نے کہا نیاں بھی لکھیں اور شاعری بھی کی۔فلموں میں ادبیت اور تاریخ کے گہرے نقو ش رو شناس کئے۔
جون ایلیا بھی امروہہ کی دھرتی کے لال تھے۔ان کی پیدائش امروہہ کے ایک معزز سادات گھرانے میں گیارہ رجب14 ڈسمبر 931 1کو ہو ئی۔ان کی ابتدائی تعلیم مشرقی انداز میں ہو ئی۔انہوں نے اپنی ذا تی جستجو اور محنت سے مختلف زبانوں جیسے عبرانی ،عربی ،فارسی ،سنسکرت ،اردو اور انگریزی میں مہارت پیدا کی۔علم نجوم انہیں ان کے والد حضرت شفیق سے ورثہ میں ملا۔ستارہ شناسی میں جون طاق تھے۔وہ ترقی پسند خیالات کے حامل تھے۔وہ مذہبی مملکت پاکستان کی تخلیق کے قا ئل نہیں تھے۔لیکن حا لات سے مجبور ہو کر انہوں نے 1957میں امروہہ چھوڑ کر پاکستان چلے گئے۔کراچی کو اپنا ٹھکانہ بنا یا۔ان کی شادی کالم نگار زاہدہ حنا سے ہو ئی ۔بعد میں دونوں میں علحدگی ہو گئی۔جون ایلیا کو باز تھا کہ وہ گیارہ رجب یعنی حضرت علی کی ولا دت کے دن ہی عالم وجود میں آئے تھے۔وہ مشاعروں میں بھی اس بات کا تذکرہ کرتے تھے۔انہیں خانوادہ سادات ہونے پر بہت ناز تھا۔تاہم وہ کمیو نزم کے نظریہ سے نزدیک تھے۔انہیں تشکیک پسند Skeptic سے مو سوم کیا جا سکتا
ہے۔زمانے کے بڑے شاعروں کی طرح ان میں دنیا داری نام کو نہیں تھی ۔ان کی بے باکی و حق بیانی ان کے لئے مضرت رساں ثابت ہو ئی۔وہ بلا کے منہ پھٹ تھے۔موقع و محل سے کام لینا انہیں آتا ہی نہیں تھا۔اس میں کو ئی دو رائے نہیں کہ وہ پائے کے شاعر ،بلند مرتبت دانشور تھے۔انہوں نے اردو ادب کو اپنی انو کھی ،البیلی اور نئی غزلیات سے مالا مال کیا۔ان کا لہجہ منفرد اور ڈکشن دلفریب تھا۔ان کے شعر پڑھتے ہوئے ہمیں نئے پن کا احساس ہو تا ہے۔نئی طرح ،نئی زمین اور نئی لفظیات سے دل و دماغ سر شار ہو جا تے ہیں۔بن پیئے نشہ چڑھنے لگتا ہے۔یہ کیف یہ سرور وجدان پر طاری ہو جا تا ہے۔جون ایلیا لکیر کے فقیر نہیں رہے۔انہوں نے آنکھ بند کر کے کسی کی بھی نقالی نہیں کی۔شاعری ان کے ہاں تخلیقی اظہار کا مظہر رہی۔ان کے تخیل کی نیر نگی قوس قزح بن کر تا حد افق پھیل جا تی ہے۔قاری دل و جان سے محو کلام رہتا ہے۔جون ایلیا نے مشکل پسندی کا آہنی حصار توڑا۔شعروں کو چیستاں بنانے کے بجائے سہل اور آسان کر دیا۔روایتوں اور کلا سیکی اقدار سے ناطہ جوڑے رکھا۔اس سے ان کی غزلوں کی دلکشی ،ندرت اور جا ذبیت میں بے حد و حساب اضا فہ ہوا۔گو کہ ان کے اشعار سہل ممتنع کی تعریف میں آتے ہیں ۔ان میں فکری عمق اور گہری سوچ جا بجا جھلکتی ہے۔قاری وفور شاد ما نی سے جھومنے لگتا ہے۔شعروں میں مکا لماتی انداز پا یا جا تا ہے۔اسے شاعری میں اضافہ تصور کیا جا سکتا ہے۔ان کا یہ مشہور قطعہ دیکھیئے جس میں عاشق و معشوق کا ایک چاہت بھرا مکا لمہ ہے۔اس طرح کی بات پہلے کہیں دکھا ئی نہیں دی۔
شرم دہشت جھجک پریشانی
ناز سے کام کیوں نہیں لیتیں
آپ وہ جی مگر یہ سب کیا ہے
تم مرا نام کیوں نہیں لیتیں
یہ شاعری کا خوبصورت پیرہن تھا۔جون کا دلنواز سخن دلوں اترتا چلا گیا۔جب وہ یہ قطعہ جھوم جھوم کے سناتے تو سا معین کی تا لیوں او رواہ واہ سے مشاعرہ گاہ کی چھت اڑنے لگتی۔جون کے شعر پڑھنے کا انداز ڈرا مائی ہو تا تھا۔سفید پو شاک ،آنکھوں پر سیاہ چشمہ اور اس پر ان کی درد بھری آواز ۔کھویا کھو یا اظہار ،کوثر و تسنیم میں دھلا تحت اللفظ مجمع کو پاگل کر دیتا تھا۔ داد و تحسین کے گلاب برسنے لگتے تھے۔وہ مشاعرہ لوٹ لیتے تھے ۔ غزل کے بے تاج با د شاہ مجروح سلطان پوری نے انہیں شاعروں کا شاعر کہا ہے۔ ان کی شاعرانہ عظمت کا یہ کھلا اعتراف ہے۔مجروح نے بڑا Complimentنذر کیا ہے۔جون اس لقب کے مستحق تھے۔جون کی غزلیں دیکھنے میں نہایت آساں لگتی ہیں۔در حقیقت ان میں معنی کی ایک دنیا آباد رہتی ہے۔اہل ذ وق اس سے لطف اندوز ہو تے ہیں۔جون ایلیا کی غزل کے کچھ شعر ملا حظہ کیجیئے اور سر دھنئے۔
بیمار پڑوں تو پو چھو مت
دل خوں بھی کروں تو پو چھو مت
میں شدت غم سے حال اپنا
کہہ بھی نہ سکوں تو پوچھو مت
میں شدت غم سے عا جز آکر
ہنسنے بھی لگوں تو پو چھو مت
آتے ہی تمہارے پاس اگرمیں
جانے بھی لگوں تو پو چھو مت
جون ایلیا کا جدت پسند ذہن نئے الفاظ بھی ترا شا ہے۔انہیں دیکھ کر ایک عجیب سی مسرت آمیز حیرت ہو تی ہے۔ان کا لسانی اجتہاد دیکیئے۔بے ضرورتی ،بے شکا یتی ،بیکرانہ ، گدازاں ،آشوب کناں ،گلہ کناں
،فرنگن ،زنگ خور دہ ،بے خلوتی ،شرم کیفیعت ،نیم گام ،مجلس نشیں وغیرہ یہ اور اس طرح کے بہت سے الفاظ کو روشناس کیا گیا ہے۔سب تراکیب یا لفظ فارسی آمیز ہیں۔بعض مقامات پر جون نے قدیم اردو جیسے کجیو ،بو جھیو کو بھی برتا ہے ۔یہ اب متروک ہو چکے ہیں۔
جون ایلیا کے کئی شعری مجموعے شا ئع ہو چکے ہیں۔شاید ،گویا ،لیکن ،یعنی اور گمان چھپ چکے ہیں۔ان کے مضامین اور انشا ئیوں کا مجموعہ فر نود2012 میں زیور طباعت سے آراستہ ہو چکا ہے۔پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر کراچی سے شا ئع ہونے وا لے روز نامہ انگریزی اخبار ڈان Dawn نے جون ایلیا پر ایک مضمون Jaun Elia The Imtimate Stranger جانا پہچانا اجنبی شا یع کیا۔اس سے جون ایلیا کی عوامی مقبولیت کا پتہ چلتا ہے۔ایک اور خاکہ جون ایلیا اور جنون چھاپا۔وہ اردو دنیا ہی کے نہیں انگریزی حلقوں کی معروف شخصیت رہے۔اب ہم جون کے چیدہ چیدہ شعروں کو پیش کر تے ہیں تاکہ ان کی ادبی قدو قا مت کا اندازہ ہو سکے۔
کر رہا ہوں میں عمر فن برباد
لوگ کہتے ہیں کام کر تا ہوں
یہ تو عالم ہے خوش مزاجی کا
گھر میں ہر شخص سے ا لجھتا ہوں
جون ایلیا کی شعری کا ئنات کی چہل قدمی کرتے ہیں۔آپ بھی ساتھ ہو جا یئے۔
تم کو جہان شوق و تمنا میں کیا ملا
ہم بھی ملے تو درہم و بر ہم ملے تمہیں
تم نے ہمارے دل میں بہت دن سفر کیا
شر مندہ ہیں کہ اس میں بہت خم ملے تمہیں
شہر لے جا رہے ہیں مجنوں کو
آج سے ہو رہا ہے بن تنہا
یہ تو عالم ہے خوش مزاجی کا
گھر میں ہر شخص سے الجھتا ہوں
مری جاں ائے مری جاں تو مجھے بھی
ہر اک سے مت ملا ہر اک سے مت مل
ہم کو بھی کچھ سراغ دے ائے دل
تو ہوا تھا بھلا خراب کہاں
اس کی گلی سے اٹھ کے میں آن پڑا تھا اپنے گھر
ایک گلی کی بات تھی اور گلی گلی گئی
کرلیا تھا میں نے ترک عہد عشق
تم نے پھر با ہیں گلے میں ڈال دیں
جون ایلیا کے قطعات کا بھی جواب نہیں۔
اپنی انگڑایؤں پہ جبر نہ کر
مجھ یہ قہر ٹوٹ جانے دے
ہوش میری خوشی کا دشمن ہے
تو مجھے ہوش میں نہ آنے دے
پر دہ داری کے ساتھ ہم دونوں
کتنے خاکوں میں رنگ بھرتے ہیں
نام لیتے ہوئے محبت کا
میں بھی ڈرتا ہوں وہ بھی ڈر تے ہیں
جون ایلیا نے پر اثر نظمیں بھی لکھی ہیں جو تا دیر جذبات و احساسات میں ہلچل پیدا کر دیتی ہیں۔ان کی کامیاب نظموں میں جوانی ،وہ ، بے معنی اور فیصلہ ہے۔ان نظموں کا تھیم چونکا دینے وا لا ہے۔پیرایہ بیان دل کو چھو لیتا ہے۔روح میں ارتعاش ہو نے لگتا ہے۔سوچ میں گہرائی پیدا ہو تی ہے۔ادراک کی آنکھیں کھل جا تی ہیں۔شاعری جز وئے پیمبری بن جا تی ہے۔جون ایلیا کی فکر اور نقطہ نظر آفاقی ہو جا تا ہے۔ان کی شخصیت سر تاپہ شاعرانہ تھی۔سفید لباس میں وہ خوبرو دکھائی دیتے تھے۔ان کی غزل سرائی سووزو گداز میں ڈو بی رہتی تھی۔وہ ماہر علم عروض بھی تھے۔اس سے ان کے کلام میں غیر معمولی آہنگ پیدا ہوا ہے۔وہ لفظوں کے پارکھ تھے۔ان کے بر تاو میں وہ بہت محتا ط رہتے تھے۔ان کے ہاں ایک لفظ بھی فضول اور بھرتی کا نہیں ہو تا تھا۔انہیں اپنے دل کی بات کہنے کا ہنر خوب آتا تھا۔ناصر کا ظمی ،پر وین شاکراحمد فراز اور فیض کے درمیان ان کی آواز اور لئے اچھوتی رہی۔ان کی شاعری کا رنگ جدا رہا۔ان کے مو ضوعات الگ رہے۔جذبہ و احساس کی شدت ان کی شاعری کا امتیازی وصف رہا۔ کسے سن گن تھی کہ 8 نومبر 2002 ان کی زندگی کا آخری دن اور آخری سال ہو گا اور وہ چپکے سے سب کو چھوڑ کر راہی ملک عدم ہو جا ئیں گے۔ہم اشکوں کا نذرانہ دینے لگیں گے۔ان کی باتیں یاد کرتے رہیں گے۔ان کے شعروں کا ورد کرتے رہ جا ئیں گے۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Dr.Masood Jafery
Shaikhpet Hyderabad 500008 TS
09949574641
One thought on “جون ایلیا : کیف وکم اورچاہتوں کا شاعر- – – – – ڈاکٹرمسعود جعفری”
اردو کے شعراء میں جون ایلیاء کی شناخت سب سے الگ اور منفرد ھے انکی برسی کے مؤقع پر اس مضمون کے ذریعہ بہترین خراج عقیدت پیش کیا گیا ھے جسکے لئے معزز مضمون نگار ڈاکٹر مسعود جعفری صاحب اور جہانِ اُردو قابل مُبارکباد ھیں ۔۔
؎ عمر گزرے گی امتحان میں کیا
داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا
مری ہر بات بے اثر ہی رہی
نَقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
خود کو دنیا سے مختلف جانا
آگیا تھا مرے گمان میں کیا
ہے نسیمِ بہار گرد آلود
خاک اڑتی ہے اس مکان میں کیا
یوں جو تکتا ہے آسمان کو تُو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
معززمضمون نگار جون ایلیاء کی اس سب سے زیادہ مشہور و معروف غزل کا حوالہ دینے سے رہ گئے جو آج بھی مقبول ھے ۔۔