یوم پیدائش کے موقع پر(۱۲ نومبر ۱۹۱۵)
اخترالایمان کی شاعری میں ہیئت اوراسلوب کے تجربے
ڈاکٹرسلیم محی الدین
Email:
Cell : 09923042739
اخترالایمان نے اپنی انفرادیت کو نہ صرف منوایا بلکہ شعوری طور پر اس کا جتن بھی کیا ہے۔ اختر الایمان جدید نظم کے ایک ایسے ترا ہے کا نام ہے جہاں ترقی پسندی فکری دھارا، حلقۂ ارباب ذوق کی فنی روش اور جدید نظم کی شاہراہ آپس میں گلے ملتے ہیں۔ وہ اشتراکی نہ ہوتے ہوئے بھی لمیٹیڈ تھے۔ حلقہ ارباب ذوق سے متعلق نہ ہوتے ہوئے بھی اپنے فن اور فن کے متعلق واضح نظریہ رکھتے تھے۔ انسان، زندگی اور اقدار کے پرستار ہوتے ہوئے بھی اپنی نظم کے لئے نئی راہوں کے متلاشی تھے۔
اختر الایمان کے ہاں زندگی اور فن کے متعلق اپنا نظریہ تھا جو کسی اور نظریے کے من و عن قبول کرنے میں مانع تھا۔ اسی لئے وہ نہ تو دھڑ ترقی پسند ہوسکے اور نہ ہی حلقۂ ارباب کے حلقہ میں شامل ہوسکے۔ اس کا ایک اور ثبوت یہ بھی ہے کہ اپنے پہلے مجموعے گرداب(1943) کا پیش لفظ میراجی اور مختار صدیقی سے لکھوایا تھا۔ بیک وقت دو افراد کا پیش لفظ لکھنا بھی اپنے آپ میں ایک ندرت تھی۔ لیکن اپنے بعد کے کسی مجموعے پر انھوں نے میراجی یا کسی اور سے پیش لفظ نہیں لکھوایا۔ میراجی اور مختار صدیقی سے انھوں نے کوئی اختلاف نہیں کیا لیکن آئندہ دیباچے خود لکھ کر یہ ضرور جتا دیا کہ زندگی اور فن کے متعلق ان کی اپنی ترجیحات تھیں جو سب سے الگ تھیں۔ اپنے دیباچوں میں اختر الایمان نے زندگی اور فن کے متعلق اپنے نظریات کو کُھل کر بیان کیا ہے۔
اختر الایمان کے لئے شاعری محض ذات کا اظہار نہیں بلکہ اپنی ذات سے خلوص اور دیانت کا نام ہے یہی وجہ ہے کہ کوئی جذبہ چاہے اس کا تعلق ذات کے اندرون سے ہو یا بیرون سے ان کی نظم میں اپنی پوری سچائی کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے اور کبھی کبھی تو اندر اور باہر کا یہ فرق بھی مٹ جاتا ہے ۔اپنی شاعری لفظو ں میں
جسے حسن سے بھ لگاؤ ہے جسے زندگی بھر عزیز ہے۔
بعینہ میر کے دل اور دلی جیسا معاملہ ہے جو دل پر بیتتی ہے وہی دلی پر اور جو دِلی پر بیت جائے اس سے دل بھلا کیسے محفوظ رہ چائے انہی کی ایک غیر مطبوعہ تحریر کے مطابق۔
’’ اخترالایمان ایک واقعہ ہے ۔ جو خود بہ کود وجود میں آگیا، اجتماعی و انفرادی شعور کے ساتھ‘‘
بے شک اختر الایمان ایک واقعہ ہے لیکن یہ خود بخود وجود میں آیا واقعہ یقیناًنہیں ہے۔ اس کے پیچھے فکری عمق اور فنی ریاضت بھی پوشیدہ ہے بقول شاعر
میریف ہاتھوں کی لکیروں کے اضافے ہیں گواہ
میں نے پتھر کی طرح خود کو تراشا ہے بہت
اپنی فکر و فن کے متعلق اخترا لایمان کے خیالات متنوع اور دلچسپ ہیں ان سے ان کی شعری شخصیت کی تشکیں اور ارتقاع ظاہر ہوتا ہے۔ ملاحظہ ہو۔
* شاعری میرے نزدیک ذات کے اظہار کا نام ہے۔(دیباچے ۔بنت لمحات(
* میری زندگی میں اخلاقی اور معاشی قدروں کا عمل درد عمل میری شاعری ہے۔(دیباچہ ۔یادیں)
* یہ شاعری مشین میں نہیں ڈھلی۔ یہ ایک ایسے انسانی ذہن کی تخلیق ہے جو دن رات بدلتی ہوئی معاشی، سیاسی اور اخلاقی قدروں
سے دوچار ہوا ہے ۔(دیباچہ ۔ آب جو)
* میری شاعری کیا ہے ؟ اگر ایک جملے میں کہنا چاہوں تو میں اسے انسان کی روح کا کرب کہونگا۔(دیباچہ۔ نیا آہنگ)
* شاعری میرے نزدیک کیا ہے اگر میں اس بات کو ایک لفظ میں واضح کرنا چاہوں تو مذہب کا لفظ استعمال کرونگا۔ کوئی بھی کام جسے
انسان دیانت داری سے کرنا چاہے اس میں جب تک وہ لگن اور تقدس نہ ہو جو صرف مذہب سے وابستہ ہے اس کام کے اچھا ہونے میں ہمیشہ شبہے کی گنگائش رہے گی۔ (پیش لفظ ’’یادیں‘‘)
* ’’ بے دین آدمی اچھی شاعری کر ہی نہیں سکتا۔یہ اس کا کام ہے جو ایمان رکھتا ہو خدا کی بنائی ہوئی حسین چیزوں پر، انسان اور اس
کی انسانیت پر۔‘‘ (دیباچہ۔ زمین زمین)
یہاں اختر الایمان کے مذہبی تصورات کا احاطہ مقصود نہیں لیکن ان کی اس فکر کو اجاگر کرنا لازم ہے جو وہ اپنے فن کے متعلق رکھتے تھے۔ انہی کے الفاظ میں کہاجائے تو یہ’’ اچھا شاعر بنیادی طور پر دیانت دار ہوتا ہے ۔‘‘ (پیش لفظ۔بنت لمحات) ۔اختر الایمان کی تمام تر شاعری اسی دیانت داری سے عبارت ہے۔ وہ اس عہد کی پیداوار کا دور دورہ تھا۔ انھوں نے ان دونوں میں سے کوئی راہ نہیں اپنائی لیکن اس کے باوجود بھی جدید نظم کے بانیوں میں شمار ہوئے۔ اور یہ کارنامہ انھوں نے ہیئت اور اسلوب میں اپنے تجربات کی مدد سے انجام دیا۔جہاں تک ہیئت کے تجربات کا تعلق ہے اختر الایمان نے ان تجربات میں توڑ پھوڑ سے گریز کیا ہے اور قدیم طرز سے علیحدگی اختیار نہیں کی ہے۔ آزاد نظموں پر انھوں نے پابند اور مصریٰ نظم ہی کو ترجیح دی ہے۔ ارکان کی تقسیم میں بھی انھوں نے کوئی بڑا پھیر بدل نہیں کیا لیکن مصرعے کے تصور کو بدل کر رکھ دیا ہے۔نظم میں مصرعے کا تصور ایک صرفی اکائی یا وحدت کا ہوا کرتا تھا اور اس کی معنوی وحدت ہی اس کا حسن ہوا کرتی تھی۔ اختر الایمان نے اس معنوی وحدت کو فارم یا ہیئت کے تابع نہ رکھتے ہوئے خیال مرکوز کردیا۔ اس طرح ایک ہی خیال ایک سے زائد مصرعوں میں بیان ہونے لگا۔ مثال
سمند ایام برق پا ہے
اٹھوکہ تاریخ ہر ورق پر
تمھارا شبھ نام ڈھونڈتی ہے
نہ دیں گے آواز اس کے شہپر
جو وقت اڑتا چلا گیا ہے
زمین آنکھوں سے مت کرید و
زمیں کا تاریک گہرا سینہ
نگل چکا ہے۔
ہیئت کے باب میں اختر الایمان کا ایک اور اجتہاد مصرعوں میں قافیوں کے استعمال میں نظر آتا ہے۔وہ اکثر قافیوں کا استعمال کسی التزام کے ساتھ نہیں کرتے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شاعر کا ذہن تکنیکی الجھنوں کے بجائے خیال اور تاثر پر مرکوز ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ چار مصرعے جن میں پہلا اور چوتھا مصرع،اور دوسرا اور تیسرا مصرع ہم قافیہ ہیں۔
نہ مل کسیں گی وہ ہڑتال جو
زمیں کا تاریک گہرا سینا
نگل چکا ہے نیا قرینہ
سکھاؤ پامال زندگی کو
(غلام روحوں کا کارواں)
اختر الایمان کی بعض نظموں میں مونتاج کی تکنیک کا استعمال ملتا ہے جس میں چھوٹی چھوٹی تصویروں کو جمع کرکے ایک بڑی تصویر بنائی جاتی ہے۔ان کی کئی نظموں مختلف مناظر با خیال پاروں کے اجتماع سے ایک مرکزی خیال کے ابھارنے کی تکنیک کا استعمال ملتا ہے اس کی عمدہ مثال ان کی نظم’’یادیں‘‘ ہے۔ وہ چونکہ فلم سے متعلق رہے اسی لئے کئی فلمی تکنیک بھی ان کی نظموں کی ہیئت اور اسلوب کو متاثر کرتی نظر آتی ہیں۔
اختر الایمان نے نظم کے اسلوب کو غزل کے اثرات سے آزاد کرنے کی شعوری کوشش کی۔ انھوں نے نہ صرف غنائیت سے احتراز کیا بلکہ زبان کو سپاٹ اور کھردری رکھنے کی بھی شعوری کوشش کی ہے۔ اس میں ان کا لہجہ تکلف سے عاری اور گفتگو سے قریب ہوتا ہے۔ مثلاً
کمخت گھڑی نے جان لے لی
ٹک ٹک سے عذاب میں ہے جینا
جب دیکھو نظر کے سامنے ہے
احساس زباں نے چین چھینا (گھڑی)
سیاسی رہنما منبر پہ چڑھ کر
زبوں حال کی مانگیں گے معافی
گلا پھاڑیں گے ہمدردی میں ان کی
کہیں گے ووٹ دو اﷲ شافی (توازن)
اختر الایمان کے اسلوب کی تشکیل میں خود کلامی اور سرگوشی بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ خود کلامی اور سرگوشی کی خفا میں بھی نظم کا سفر جاری رہتا ہے قاری کو یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ کب شاعر کے ساتھ ہی اس کے خیالات کی رَو میں بہنے لگا ہے۔ مثال
کون آیا ہے ذرا ایک نظر دیکھ تو لو
کیا خبروقت دبے پاؤں چلا آیا ہو (موت)
تم سے بے رنگی ہستی کا گلا کرنا تھا
دل پہ انبار ہے خوں گشتہ تمناؤں کا
آج ٹوٹے ہوئے تاروں کا خیال آیا ہے
ایک میلہ ہے پریشاں سی امیدوں کا
چند پر نہ مردہ بہاروں کا خیال آیا ہے
پاؤں تھک تھک کے رہے جاتے ہیں مویوسی میں
پر محض راہ گزاروں کا خیال آتا ہے
تم سے کہنا تھا کہ اب آنکھ میں آنسو بھی نہیں (جمود)
اختر الایمان کا افسانوی انداز بیان جدید اردو نظم کو بے حد راس آیا۔ وہ اپنی نظم کو ایک کہانی کی طرح شروع کرتے ہیں اور مرکزی خیال کو آگے بڑھاتے ہوئے کلائمکس تک پہنچاتے ہیں۔ اس سفر میں کہانی کے موڑ ،مناظر اور کردار بھی نظم کی روانی کا حصہ ہوتے ہیں۔ بقول عزیز قیی۔
’’ ان کے اظہار کے پیرایوں میں بہت ہی پر اثر پیرایۂ اظہار وہ افسانوی انداز بیان ہے جو ان کے اسلوب کی شناخت بن چکا ہے اور جس کی تقلید ان کے بعد کے شاعروں نے خاص طور پر نظم گو شاعروں نے بہت کی ہے۔ بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ نظم کو ایک نظر یا کہانی کی طرح ابتداء میں پھیلاؤ اور کلائمکس دینے کا انداز ہی اختر الایمان نے دیا ہے تو یہ بے جانہیں ہوگا۔‘‘
نظم کو غزل کی غنائیت سے آزاد کرنے اور افسانے کی فضا عطا کرنے کا کارنامہ اختر الایمان نے بہت ہی سہج اور فطری انداز میں انجام دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کی نسل کے نظم گو شعراء نے بڑے پیمانے پر اس انداز کی تقلید کی ہے۔ اس انداز کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ نظم اسی لئے اس میں ترسیل کا مسئلہ بھی پیدا نہیں ہوتا۔ اختر الایمان کی نظموں میں ترسیل کی یہ آسانی ان کے لئے رحمت کی بجائے زحمت ثابت ہوئی۔ ان کا سہج، سرل اور راست بیانیہ نقادوں کو چونکا نہیں سکا۔ بقول وارث علوی
’’ہماری تنقید اختر الایمان کے ساتھ انصاف نہیں کرسکی تو اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اختر الایمان جس سہجتا سے جدید احساس کے لئے جدید فارم کی تشکیل کر رہے تھے اسے تنقید نے اتنی آسانی سے دیکھا اور توجہ ان شاعروں پر زیادہ مرکوز کی جو ترسیل و ابلاغ کے مسائل ساتھ لے کر آئے تھے۔
اختر الایمان کے لئے شاعری ایمان کا درجہ رکھتی تھی اور دیانت شرط اول یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں فنی اہنماک اپنی انتہا پر ہے ۔ وہ اپنے آس پاس کی روشنیوں سے نہ متاثر ہوتے ہیں اور نہ ہی توجہ دیتے ہیں۔ ان کا رہنما ان کا ضمیر ہے جو فن کے تقاضوں کے لئے ان کے اندرون سے مطالبہ کرتا ہے ۔ اختر الایمان کی شاعری انہی مطالبوں کی تکمیل ہے عبارت ہے لیکن اسے بھی ان کے نقادوں نے دیڑح اینٹ کی مسجد کا نام دیا۔ بقوم شمیم فیضی
’’ اختر الایمان کا اپنی دیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنانا، اس سے الگ رخ اپنانا، شاعری کی رسوم و روایات کے سایے سے بچ بچ کر چلتے رہنا،زبان یا آہنگ اور اسلوب کے چناؤ میں صرف اپنی تخلیقی ضرورتوں کا لحاظ رکھنا اور کسی مقبول و مانوس رنگ کو خاطر میں نہ لانا ان کے حیران کن فنی انہماک اور کود اعتمادی کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘
اختر الایمان کا فنی انہماک اور خود اعتمادی ان کے لہجے سے صاف جھلکتی ہے ۔ ان کا طنزیہ اسلوب اس کی عمدہ مثال ہے۔ اپنی ذات سے لے کر معاشرہ تک زندگی کا کوئی پہلو ان کے طنزیہ اسلوب کا شکار ہونے سے بچ نہیں پایا ہے۔ بقول ابوالکلام قاسمی
’’ اگر ہماری نگاہ اختر الایمان کے تصور زندگی کی نوعیت پر مرکوز رہے تو اس بات کا اندازہ لگانے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی کہ علامت آمیز طنزیہ اسلوب ہی ان کے تصور حیات کی پیش کش کے لئے موزوں
ترین طریقہ کار ہے۔‘‘
یہا اس طنزیہ اسلوب کی چند مثالیں اشعار کے ساتھ
اٹھاو ہاتھ کہ دست دعا بلند کریں
ہماری عمر کا اک اور دن تمام ہوا
خدا کا شکر بجالائیں آج کے دن بھی
نہ کوئی واقعہ گزرا نہ ایسا کام ہوا
زباں سے کلمۂ حق راست کچھ کہا جاتا
ضمیر جاگنا اور اپنا امتحاں ہوتا (شیشے کا آدمی)
ہم کو زندہ رہنا ہے جب تک موت نہیں آئی
آو چلو کتوں کا دربار سجائیں،کووں کی بارات نکالیں (آثار قدیمہ)
یہ کہا جاسکتا ہے کہ اختر الایمان کا اسلوب اپنے آپ میں منفرد ہے اور اس کی تقلید تو ممکن ہے لیکن اس کی نقل ممکن نہیں (۶) ان کی زبان ، لہجہ ، ڈرامائی عنصر، طنزیہ اسلوب اور ترسیل کا انداز کی تقلید تو کی جاسکتی ہے لیکن نقل نہیں۔
۱): مظفر حسین سیّد۔ مضمون ’’ آباد خرابے کا باسی ایک ضدی لڑکا‘‘ ۔ مشمولہ سہ ماہی ’’ اردو ادب‘‘ ۔ شمارہ 236/7 ص287
۲): عزیز قیسی ۔ مضمون اختر الایمان ایک مطالعہ۔ مشمولہ۔ اختر الایمان عکس اور جہنیں۔ شاید ماہلی۔ ص 235
۳): وارث علوی۔ مضمون ۔ ’’ اختر الایمان کی شاعری کے چند پہلو‘‘۔ اختر الایمان عکس اور جہنیں۔ شاید ماہلی۔ ص 184
۴): شمیم حنفی۔ مضمون ۔ اختر الایمان کی شاعری کے چند پہلو۔ اختر الایمان عکس اور جہنیں۔ شاید ماہلی۔ ص 508
۵): ابو الکلام قاسمی۔ شاعری کی تنقید ۔ 2001 ص 132
۶): شمس الرحمٰن فاروقی۔ مضمون اختر الایمان ۔ ۔ مشمولہ سہ ماہی ’’ اردو ادب‘‘ ۔ ص287
***
Dr.Saleem Mohiuddin
Asso.Prof. & Head,
Dept. of Urdu Shri Shivaji College,
Parbhani – 431 401(M.S.)
Email:
Cell : 09923042739