ماہنامہ ادبِ لطیف پر ایک طائرانہ نظر-ابنِ عاصی

Share

adab-e-lateef
ماہنامہ ادبِ لطیف پر ایک طائرانہ نظر

تبصرہ: ابنِ عاصی
جھنگ

ادبی پرچے ،ماہنامہ ادبِ لطیف سے کون واقف نہیں ہے؟ایسا پرچہ جس میں سعادت حسن منٹو جیسا بڑا افسانہ نگار چھپتا رہا تھا۔کیا ایسے کسی پرچے کے لیے تعارف میں مزید کچھ کہنے کی ضرورت ہے؟خاکسار کی خوش قسمتی ہے کہ اس کے ،80 سالہ خصوصی نمبر، میں میرا ایک افسانچہ شائع کیا گیا اور اب اس کے ،اکتوبر 2016کے شمارے میں بھی خاکسار کا کیا گیا ڈاکٹر وزیر آغا کا ایک انٹرویو لگایا گیا ہے۔بتاتے چلیں کہ اس انٹرویو کے لیے ہم نے اردو کے نوجوان نقاد(اور اب افسانہ نگار بھی)جناب ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی ،خصوصی اور ہنگامی مدد، حاصل کی تھی۔

ڈاکٹرناصر عباس نیر صاحب تعاون نہ فرماتے تو شاید خاکسار ڈاکٹر آغا کا انٹرویو کبھی نہ کر پاتا(ان دنوں ڈاکٹر آغا کی صحت ٹھیک نہ رہتی تھی اور اسی لیے وہ کسی کو انٹرویو دینے سے تیار نہیں ہوتے تھے ۔لیکن ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی وجہ سے ڈاکٹر آغا نے ہمارا سوالنامہ قبول فرمایا اور پھر ڈاکٹرناصر عباس نیر ہی نے اس کے جواب ہمیں جھنگ ایک نوجوان کے ذریعے پہنچائے تھے۔جس پر خاکسار آ ج بھی ان کا شکر گزار ہے)۔خیر یہ انٹرویو ہماری کتاب ،مسائلِ ادب اور اہلِ نظر، میں بھی شامل ہے(اس کتاب کا ،فلیپ،ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے لکھا تھا)۔ادبِ لطیف، میں اسے چھپوانے کا مقصد ایک بڑے رائٹر کے خیالات سے آپ کو آگاہ کرنا ہے اور کچھ نہیں۔جن لوگوں نے خاکسار کی کتاب کا ابھی تک مطالعہ نہیں فرمایاہے یہ صرف ان کے لیے نہیں ہے۔یہ ان کے لیے بھی ہے جنہوں نے پہلے بھی اسے پڑھ رکھا ہے۔ڈاکٹر وزیر آغا جیسے لوگوں کو باتیں سننا اور پڑھنا تو شاید ،ثواب، کی بات ہے؟ہر دم تازگی کا احساس لیے ان کے نظریات پر ایک نظر ڈالنا اردو ادب کے کسی بھی طالبِ علم کے لیے یقیناًکسی نعمتِ خداوندی سے کم نہیں سمجھا جانا چاہیے۔
شروع میں جھنگ سے تعلق رکھنے والے استاد شاعر گستاخ بخاری کی حمدِ باری تعالیٰ لگائی گئی ہے گستاخ بخاری صاحب کے کئی دواوین شائع ہوچکے ہیں ان کی انفرادیت یہ ہے کہ ان کے غزلیہ، حمدیہ اور نعتیہ سبھی طرح کے دیوان شائع ہو چکے ہیں اور اردو ادب میں شاید ہی کسی اور نے یہ ،انوکھا کارنامہ،سر انجام دیا ہو؟ان کا یہ شعر خاکسارکو بہت پسند ہے۔
تم میرے ہو چکے ہو مدت سے
تم سا بھی بے خبر نہیں دیکھا
ٍ،مضامین، کے حصہ میں جمیل یوسف کا مضمون،سراج الدین ظفر، اچھا اورمعلوماتی ہے ۔کسی شخصیت کے بارے ایسا ہی عمدہ مضمون لکھنا چاہیے۔علی گڑھ انڈیا سے شہناز رحمن نے انتظار حسین کے افسانوں کا بین المتونی تجزیہ، کے عنوان سے خوب تحریر لکھی ہے۔ان کا مضمون انتظار حسین کے ،ایک پہلو، کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔انہوں نے اپنی تحریر میں انتظار حسین کے افسانوں میں موجود متن کے اندر ایک اور متن کی طرف ،اشارے، کیے ہیں۔اور انتظار حسین کو ،مشکل لکھنے ولا، قرار دینے والوں کے لیے اس مضمون میں ایسا ،مصالحہ، موجود ہے کہ جس کی وجہ سے ان کی ،برسوں کی تشنگی، دور ہو سکتی ہے۔لیکن اس کے لیے انہیں شہناز رحمن کے اس خوبصورت مضمون کو آنکھیں اور دل کھول کر پڑھنا ہو گا۔آگے چلیں تو معروف افسانہ نگار نیلم احمد بشیر ،عصمت چغتائی ۔۔کل اور آج، کے ساتھ چہکتی اورلہکتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔
وہ ایک بہادر لکھنے والی ہیں اس تحریرمیں انہوں نے اس کا بھرپور اظہار بھی کیا ہے۔اور عصمت کے افسانہ،لحاف، پر اسے باقی لوگوں کی طرح ،بعد از مرگ، بھی سخت شرمندہ کرنے کی سعی نہیں کی ہے بلکہ اس کی اس ،حرکت، پر اسے کھلے لفظوں میں سراہنے کی راہ اپنائی ہے،ایک عورت کی طرف سے اپنی ایک ہم جنس کو اس سے زیادہ ،خراجِ تحسین، اور کیا پیش کیا جا سکتا ہے؟اور سچ بات کہہ کر نیلم احمد بشیر رکی اور فوری طور پر بھاگ نہیں جاتی ہے بلکہ وہ بانو قدسیہ اور عمیرہ احمد پر یہ ،الزام ،دھرنے سے بھی باز نہیں آتی ہے کہ عصمت چغتائی اورمنٹووغیرہ نے عورت کو ،آزاد، کرنے کے لیے جتن کیے اور یہ خواتین پھر سے اسے اسی ،پنجرے، میں قید کرنے کے لیے بے چین ہوئی پھر رہی ہیں۔سوال یہ ہے کہ ،کیا واقعی بانو قدسیہ اور عمیرہ احمدپہیہ الٹا گھمانے کے چکروں میں ہیں؟نیلم بشیر کا ،الزام، خاصا سنگین ہے اور لگتا ہے کہ اس کی گرد جلد بیٹھنے والی نہیں ہے۔اب ،دوسری طرف، سے کیا جواب آتا ہے؟یہ ہم اور آپ ،ٹکٹکی باندھ، کر دیکھتے ہیں۔کوئی نہ کوئی بولے گی ضرور۔بانو قدسیہ نہ سہی عمیرہ احمد تو چپ نہیں رہنے والی۔نیلم بشیر بھی کسی شیرنی سے کم نہیں ہے۔مگر اتنا بڑا الزام ،ہضم، ہونے سے تو رہا؟اور پھر اپنی ہی کسی ہم جنس پر اپنی ہی جنس کے خلاف،سازش، کا الزام؟دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے؟ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ
نظموں میں ہمیں موصول ہونے والے پرچے میں ایوب خاور کے نظم ،زندگی لعنت ہو تم پر،کمال ہے۔شاعر زندگی سے بے پناہ نفرت اور اکتاہٹ کا اظہار جس پیرائے میں کرتا نظر آرہا ہے۔ایسا اظہارِ بیاں قسمت والوں ہی کو نصیب ہوتا ہے۔نیلم بشیر کی نظم ،آج، بھی اعلیٰ درجے کی ہے۔
افسانے؟کچھ زیادہ نہیں بھائے۔ہاں آدم شیر تراجم کہانیوں کے ساتھ رنگ جماتے دکھائی دئیے۔غزلوں میں ڈاکٹر ضیاء الحسن،لطیف ساحل اور یوسف مثالی نے مزا دیا۔
یادَرفتگاں، میں پروفیسر ڈاکٹر غلام ابنِ سلطان نے ،ندا فاضلی پر بھرپور مضمون لکھا۔ہم سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے ندا فاضلی کی شخصیت اور فن کا کوئی گوشہ خالی نہیں چھوڑا ہے۔ڈاکٹر غلام ابنِ سلطان جب بھی اور جس پر بھی قلم اٹھاتے ہیں ۔صحیح معنوں میں اس کا حق ادا کرد یتے ہیں۔ان کے بارے میںیہی کہہ سکتے ہیں کہ
اللہ کرے زورِقلم اور زیادہ
صدیقہ بیگم صاحبہ نے لگا قلم اٹھایا اور پھر اسی وقت رکھ بھی دیا۔ایسا نہیں ہونا چاہیے ۔امید ہو وہ جلد ،کچھ یادیں ،کچھ باتیں،کا سلسلہ دراز کریں گی؟فاروق خالد نے بہرحال ان کی کمی پوری کرنے کی ،پوری، کوشش کی ہے۔ہالینڈ ہمارا پسندیدہ ملک ہے(وہاں گئے نہیں یہ الگ بات ہے۔لیکن پسندیدگی بتانے میں کوئی حرج ہے کیا؟)اس کا سفرنامہ خوب لگا۔ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے ،شعری مغالطے، کے عنوان سے مشہور اشعار کے ،اصل مالکوں ، کے نام بتائے ہیں۔اصل مالکوں کی بے سری اور بھدی سی بات اس لئے کی ہے کہ اب بھی یار لوگ انہیں ،غلط مالکوں ،سے منسوب کرنے سے باز نہیں آرہے ہیں ۔ایسے میں ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے کام تو اچھا کرنے کی کوشش کی ہے۔لیکن عرض یہ ہے کہ ایسا ہی کام کئی اور لوگ بھی کئی بار کر چکے ہیں۔ناصر زیدی کا نام اس حوالے سے خاصا معروف ہے شاید؟ہمارا خیال ہے کہ بار بار ایسا کام لوگوں کی کمزور یادداشت کی وجہ سے کیا جاتا ہو گا؟آخری صفحات پر جناب عباس خان کے افسانچے درج ہیں ۔مختصر الفاظ میں اپنی بات کہنا کمال درجے کا فن سمجھا جاتا ہے۔عباس خان صاحب کی افسانچوں پر مشتمل تین کتب شائع ہوچکی ہیں ۔لیکن انتہائی افسوس کے عرض کریں گے کہ ان کے پندرہ افسانچوں میں سے خاکسار کو ایک بھی پسند نہیں آیا ہے۔عباس خان صاحب کو ہلکی پھلکی بات نہیں کرنی چاہیے،وہ اس صنف کا اچھی طرح سے مطالعہ کریں اور پھر لکھیں۔خاکسار کی اس صنف کے حوالے سے کتاب،نامعلوم افراد کی معلوم کہانی،ابھی حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔کوئی ،افلاطونی دعوٰی، نہیں کرتے۔لیکن اگر وہ ہماری کتاب پڑھ لیں تو شاید انہیں معلوم ہو جائے کہ ،دراصل افسانچہ ہوتا کیا ہے؟معاف کیجئے گا وہ افسانچہ کے نام سے پتہ نہیں کیا لکھ رہے ہیں؟خیر وہ کون سے اکیلے یہ کام کر رہے ہیں؟اب تو اس صنف کے ساتھ یا ر لوگ جی بھر کے ،کھلواڑ، کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔اللہ اس صنف کو ہمیشہ اپنی ،پناہ، میں رکھے(آمین)

Share
Share
Share