تحفظ شریعت اورہماری ذمہ داریاں – – – – – مولاناسید احمد ومیض ندوی

Share

shariat
تحفظ شریعت اور ہماری ذمہ داریاں

مولاناسید احمد ومیض ندوی
Email:
Mob: 09440371335

دین وشریعت میں مداخلت یا اس میں ترمیم وتنسیخ کی ناپاک کوششوں کا سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے، اس قسم کی مذموم کوششوں کا پہلا واقعہ تب پیش آیا جب نبی رحمتﷺ دنیا سے پردہ فرما گئے، اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے کندھوں پر خلافت کا بار ڈالا گیا، چنانچہ بعض جدید الایمان قبیلوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا اور کہنے لگے کہ نبی کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد زکوٰۃکی فرضیت ختم ہوگئی، ان قبیلوں کا یہ طرز عمل دوسرے معنی میں شریعت میں مداخلت ہی کی ایک شکل تھی، گویا وہ بزبان حال کہہ رہے تھے کہ ارکانِ اسلام میں سے زکوٰۃ کے فریضہ کو ساقط کردیا جائے وہ ہمیں نامنظور ہے، شریعت میں مداخلت یا ترمیم کے اس فتنہ کی سر کوبی کے لئے صدیق اکبر کمر بستہ ہوگئے اور برملا اعلان کیا کہ جو نمازاور زکوٰۃ میں فرق کرے گا میں اس کے ساتھ جہادکروں گا-

پھرحضرت صدیق اکبر کا و ہ جملہ تاریخ اسلام میں سنہرے حروف میں لکھا گیا جو در اصل آپ کی غیرت ایمانی اور حمیتِ اسلامی کا آئینہ دار ہے،انھوں نے فرمایا: ’’أ یُنقَص الدین وأنا حيٌّ‘‘ میرے جیتے جی دین میں کمی ہوجائے یہ کیسے ممکن ہے؟صدیق اکبرؓ نے پوری قوت کے ساتھ اس فتنہ کا مقابلہ کیا، پھرحضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علیؓ کے دور خلافت میں خوارج کا فتنہ بھی در اصل دین اوردین کے نصوص میں تحریف وتبدیلی کا فتنہ تھا، جس کا اس دور کے اسلامی جیالوں نے ڈٹ کا مقابلہ کیا، عباسی دور خلافت میں خلق قرآن کی شکل میں اٹھنے والا فتنہ بھی در اصل اسی نوعیت کا تھا، قرآن مجید کے تعلق سے اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ وہ اللہ کا کلام ہے، اس کی مخلوق نہیں ہے، لیکن خلیفہ مامون بعض گمراہ فرقوں سے متأثر ہوکر خلق قرآن کا قائل ہوگیا تھا، جو علماء قرآن کو مخلوق کہنے سے انکار کرتے تھے انھیں قید وبند کی صعوبتیں برداست کرنی پڑتی تھیں، علماء حق نے ہر قسم کے مظالم سہنا گوارا کرلیا، لیکن دین کو بدلنے کی اجازت نہیں دی، اس حوالہ سے حضرت امام احمد بن حنبلؒ کا کردار نہایت تابناک اور روشن ہے، امام صاحب کو جیل میں کوڑے برسائے جاتے تھے، کوڑے برسانے والے جوان تھک جاتے، مگر امام صاحب کی زبان پر یہی جملہ ہوتا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے مخلوق نہیں ہے، پھر ہندوستان کی سرزمین میں دین وشریعت میں تبدیلی کی جو سب سے بڑی تحریک شروع ہوئی اس کا بانی اکبر تھا، اکبر نے شریعت میں تبدیلی کی ایسی طاقتور مہم شروع کردی کہ دین اسلام کی جگہ اس نے ایک نئے دین دین الٰہی یا دین اکبری کی بنیاد ڈالی، نام نہاد اور ضمیر فروش علماء نے اس کا ساتھ دیا، لیکن اس عظیم فتنے کی سرکوبی کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت شیخ احمد سرہندیؒ کو کھڑا کیا، جنھیں مجدد الف ثانی کہا جاتا ہے، مجدد صاحب نے جو در اصل سلسلہ نقشبندیہ کے گل سرسبد ہیں اپنے مکتوبات اور اپنے اصلاحی وتجدیدی کارناموں کے ذریعہ وہ انقلاب برپا کیا کہ دین اسلام میں تحریف وتبدیلی کی ساری اکبری کوششیں اور اس کے اثرات ہمیشہ کے لیے دفن ہوگئے۔
مغلیہ دور میں اسلامی قانون ہی ہندوستان کا ملکی قانون تھا، نہ صرف عائلی معاملات میں شریعت اسلامی کے مطابق فیصلے کیے جاتے تھے،بلکہ فوجداری قانون بھی شرعی حدود کے مطابق چلایا جاتا تھا، البتہ غیر مسلموں کو ان کے عائلی مسائل میں اپنے مذہبی قوانین پر عمل کرنے کی مکمل آزادی حاصل تھی، ہندوستان پر انگریزی تسلط کے بعد بھی انگریز جج اسلامی قانون کے مطابق فیصلہ کرتے تھے، بعد میں رفتہ رفتہ انگریزی قانون رائج ہوتا گیا، حتی کہ ۱۸۶۲ء ؁ میں اسلام کے فوجداری قانون کو ختم کرکے انڈین پینل کوڈ نافذ کردیا گیا، اور نکاح، طلاق ، وراثت وغیرہ مسائل میں اسلامی قانون باقی رہنے دیا گیا، لیکن مسلمان عائلی مسائل میں دیگر اقوام سے متأثر ہونے لگے، اور اسلامی تہذیب کی جگہ غیر اسلامی تمدن جڑ پکڑنے لگا، جس کی وجہ سے ۱۹۳۷ء ؁ میں علماء اور عام مسلمانوں کے مطالبہ پر انگریز دور حکومت میں مسلم پرسنل لاء کا نفاذ عمل میں آیا، ملک کی آزادی کے بعد انگریزوں کے مرتب کردہ مسلم پرسنل لاء کو باقی رہنے دیا گیا، آزادی کے بعد ملک کا سیکولر دستور بنا جس میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے مذاہب پر عمل کی کھلی چھوٹ دی گئی، لیکن روز اول سے ملک میں ایک ایسا طبقہ سرگرم رہا جس کا مقصدمسلمانوں کے مذہبی تشخص کو ختم کرکے انھیں ملک کی تہذیب میں ضم کرنا تھا، چنانچہ یہ طبقہ ہمیشہ سے دستور کی دفعہ ۴۴ کا سہارا لیکر شریعت میں مداخلت یا تبدیلی اور یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا مطالبہ کرتا رہا، یکساں سول کوڈ کے حامیوں کو اس وقت زبردست شہ ملی جب ملک کے وزیر قانون ایچ آر گوکھلے نے پارلیمنٹ میں لے پالک بل پیش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ یہ یکساں سول کوڈ کی تدوین کی سمت پہلا قدم ہے، اس اعلان کے ساتھ ملت ا سلامیہ ہند میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور عروس البلاد ممبئی میں ایک نمائندہ کنونشن منعقد کیا گیا، جس میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کی تشکیل کا فیصلہ کیا گیا، ۱۹۷۲ء ؁ میں منعقد ہونے و الے ممبئی اجلاس میں تمام مکاتب فکر کے علماء ودانشوران نے شرکت کی، اور سب کے اتفاق سے حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صلخب علیہ الرحمہ کو مسلم پرسنل لاء بورڈ کا صدر منتخب کیا گیا، بورڈ اپنے قیام سے تا حال تحفظ شریعت کے لیے کوشاں ہے، اور ہر اس سازش کا مقابلہ کرتا آرہا ہے، جس کا مقصد شریعت میں تبدیلی یا تنسیخ ہو ، اس حوالے سے بورڈ کی خدمات روز روشن کی طرح واضح ہیں، بورڈ نے جہاں سیاسی وقانونی سطح پر شریعت کے تحفظ کا سامان فراہم کیا اور شریعت پر ہونے والے ہر حملے کا دفاع کیا، وہیں داخلی سطح پر اس بات کی کوشش کی کہ خود مسلمان شریعت کی بھر پور پابندی کریں، اس کی لیے اصلاح معاشرہ مہم ،تفہیم شریعت مہم اور تحفظ شریعت مہم کے نام سے بورڈ نے مسلسل اصلاحی سرگرمیاں جاری رکھیں، اور یہ حقیقت ہے کہ شریعت پر ہونے والے بیرونی حملے اسی وقت کامیاب ہوتے ہیں جب اندرون مسلم معاشروں میں خود مسلمان شریعت پر عمل کرنا چھوڑ دیتے ہیں، سپریم کورٹ یا دیگر فسطائی طاقتوں کو شریعت میں تبدیلی کے مطالبہ کا موقع اسی وقت ملتا ہے جب خود مسلمان اپنے نزاعات کو قرآن وشریعت کی روشنی میں حل کرنے اور قرآن وشریعت کا فیصلہ قبول کرنے کے بجائے عدالتوں میں لے جاتے ہیں، حالیہ طلاق ثلاثہ کا مسئلہ بھی مسلمانوں کے غیر شرعی طرز عمل کے سبب پیدا ہوا، سائرہ بانو یا دیگر چند خواتین نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا کر طلاق ثلاثہ کو کالعدم قرار دینے کی جو درخواست کی ہے اس کا اصل محرک ان کے شوہروں کا غیر شرعی طرز عمل تھا، کیا یہ حقیقت نہیں کہ اس وقت عام مسلمان طلاق کا مطلب تین طلاق ہی سمجھتا ہے، بیشتر مسلمانوں کا خیال ہے کہ جب تک طلاق طلاق طلاق تین مرتبہ نہ کہا جائے طلاق پڑتی ہی نہیں، کیا یہ واقعہ نہیں کہ عائلی مسائل ونزاعات میں اکثر مسلمان اسلامی دارالقضاؤں سے رجوع ہونے کے بجائے عدالتوں کے چکر کاٹتے ہیں،ذرا پولیس اسٹیشنوں کا جائزہ لیجئے، ہر جگہ برقع پوش خواتین کی بھیڑ نظر آئے گی، جب دو مسلمانوں کے درمیان آپس میں نزاع پیدا ہوجائے یا میاں بیوی میں ناچاقی ہو تو کیا وہ دونوں اسلامی شریعت کے مطابق اپنے مسئلہ کو حل کرنے کے پابند نہیں ہیں؟ کیا مسلمانوں کا ہر معاملہ قرآن وسنت سے جڑا ہوا نہیں ہے؟ کیا ہم نے قرآن مجید کی وہ آیت نہیں پڑھی جس میں صاف الفاظ میں کہا گیا کہ مسلمان اس وقت تک کامل مسلمان نہیں ہوسکتے جب تک وہ اپنے معاملات میں نبیﷺ کو حکم نہ بنائیں، اور آپ کے فیصلے کو دل سے قبول نہ کریں؟ کیا اللہ تعالیٰ نے یہ بات قسم کھا کر نہیں فرمائی؟ کیا قرآن میں خدا کے فیصلہ کے خلاف فیصلہ کرنے والوں کو کافر ، ظالم اور فاسق نہیں کہا گیا ؟ کیا نبی کا یہ ارشادہم نے نہیں سنا کہ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہش اس دین وشریعت کے تابع نہ ہوجائے، جسے میں لیکر آیا ہوں۔(لا یؤمن أحدکم حتی یکون ہواہ تبعا لما جئت بہ)
ان سارے حقائق کے باوجود ہماری شریعت سے رو گردانی اور دشمنوں کی جانب سے شریعت میں مداخلت پر واویلا مچانا کہیں ہمارے مناقفانہ کردار کی نشاندہی تو نہیں کررہا ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ شریعت کو دوسروں سے کہیں زیادہ اپنوں سے خطرہ ہے، خود مسلمانوں نے شریعت کو کنارے لگا دیا ہے، مسلمان خود آمادہ نہیں کہ ان کے نزاعات میں شریعت کا عمل دخل ہو، اس وقت طلاق ثلاثہ کے مسئلہ میں حکومت کے خلاف ملت اسلامیہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کھڑی ہوگئی ہے، ہر جگہ دستخطی مہم عروج پر ہے، تمام مکاتب فکر کے مسلمان ببانگ دہل اعلان کررہے ہیں کہ وہ شریعت میں مداخلت کی کسی بھی کوشش کو ہر گز قبول نہیں کریں گے، یہ ایک خوش آئند بات ہے، لیکن اس کے ساتھ ہر مسلمان کو اس بات کا عہد کرنا ہے کہ وہ ازدواجی اور عائلی معاملات میں شریعت کی پابندی کرے گا، وہ چھوٹی موٹی باتوں پر طلاق کا خیال تک ذہن میں نہیں لائے گا، اگر طلاق ناگزیر ہوجائے تو طلاق کے شرعی طریقہ کے مطابق طلاق دے گا، تین طلاق دے کر دین وشریعت کا مذاق نہیں اڑائے گا، اس وقت حکومت سے اظہار برہمی کے لیے جس قدر احتجاج کیا جارہا ہے یا ریالیاں نکالی جاری ہیں، اس سے کہیں زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم ایک ایک مسلمان کے پاس پہونچ کر اس کی ٹھوڑی پر ہاتھ رکھ کر گذارش کریں کہ بھائی طلاق، نکاح، خلع اور دیگر عائلی مسائل کا ضروری شرعی علم حاصل کرو، اور خدا کے واسطے زندگی کے ہر معاملہ میں شریعت کی پابندی کرو، جب تک مسلمان شریعت پر مضبوطی کے ساتھ عمل کرکے خود کو نہیں بدلیں گے تب تک غیروں کی جانب سے شریعت کو بدلنے کا دروازہ کھلا رہے گا، اور جس وقت مسلمان اپنے ہر مسئلہ کو اسلامی دارالقضاء سے رجوع کرکے شریعت کے مطابق حل کرنے لگیں اس طور پر کہ عدالتوں سے رجوع ہونے والے برائے نام رہ جائیں، اس وقت دشمن شریعت میں تبدیلی کے تعلق سے ہمیشہ کے لیے مایوس ہوجائیں گے، قرآن وسنت میں مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ شریعت کا تحفظ کریں، ارشاد نبوی ہے: إن اللہ فرض فرائض فلا تضیعوہا وحرم حرمات فلا تنتہکوہا وحد حدودا فلا تعتدوہا.(مشکوٰۃ، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)اللہ نے چند چیزوں کو فرض فرمایا ہے، تم انھیں ضاع نہ کرو، اور چند باتوں کو حرام کو ٹھہرایا ہے، ان کی خلاف ورزی نہ کرو، اور چند حدیں مقرر کی ہیں، ان سے تجاوز نہ کرو، نیزقرآن مجید میں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کی تاکید کی گئی ہے: ’’واعتصموا بحبل اللہ جمیعا‘‘ کیاہمیں معلوم ہے کہ اللہ کی رسی کیا ہے؟ اللہ کی رسی اس کی شریعت اور اس کی کتاب ہے۔
مسلمانوں میں تحفظ شریعت کا شعور بیدا رکرنے اور انھیں اپنے ہر معاملہ میں شریعت سے رجوع کروانے کے لیے درج ذیل اصلاحی سرگرمیوں کو تیز کرنا ہوگا:
۱۔ عام مسلمانوں کو عائلی وازدواجی مسائل کے شرعی علم سے آراستہ کرنے کے لیے شہر شہر ، بستی بستی اور محلہ محلہ جلسوں کا انعقاد عمل میں لایا جائے۔
۲۔ مسلم نوجوانوں کی دینی تربیت کے لیے منصوبہ بند نظام العمل بنایا جائے، دعوتی واصلاحی تحریکوں سے انھیں مربوط کیا جائے، علماء اور ائمہ کرام سے استفادہ کی انھیں تلقین کی جائے۔
۳۔ ہر بڑے شہر میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے تحت اسلامی دارالقضاء کا قیام عمل میں لایا جائے،اور اس کے ساتھ شہر کے عام مسلمانوں میں عائلی ونزاعی معاملات میں اسلامی دارالقضاء سے رجوع ہونے کا شعور بیدار کیا جائے۔
۴۔ خوفِ خدا اور آخرت میں جواب دہی کا احساس پید ا کرنے کے لیے عامۃ المسلمین میں دعوت واصلاح کا کام مؤثر انداز میں کیا جائے کہ اس کے بغیر شریعت پر عمل کی فکر پیدا نہ ہوگی، زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو دعوتی واصلاحی کوششوں سے مربوط کرنے کی مہم چلائی جائے۔
۵۔ ملتِ اسلامیہ کے عام افراد میں یہ احساس پیدا کیا جائے کہ ملک کی فرقہ پرست طاقتیں شریعتِ اسلامی میں مداخلت کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہیں،ایسے میں ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی فرقہ پرست طاقتوں کی سازشوں سے آگاہ رہے، اور اپنی کسی حرکت سے دشمنوں کو شریعت میں مداخلت کا موقع نہ دے۔
۶۔ حضرات علماء کرام مسلم و کلاء کے لیے تربیتی پروگراموں کا انعقاد کرتے رہیں، تاکہ انھیں شریعت کے عائلی وازدواجی قوانین سے بھر پور واقفیت ہو، اور ان سے رجوع ہونے والے مسلمانوں کو وہ شریعت کے مطابق فیصلہ کروانے کی تلقین کرسکیں۔
۷۔ اہل علم اور دانشوروں کی ذمہ داری ہے کہ طلاق، تعدد ازواج اور ورواثت وغیرہ کے اسلامی قوانین سے متعلق غیر مسلم دانشوروں اور میڈیا سے وابستہ افراد کو جو بدگمانیاں ہیں ان کا ازالہ کریں، اس کے لیے باقاعدہ مختلف پروگرام منعقد کیے جائیں جن میں انھیں مدعو کیا جائے۔
۸۔ اس وقت مسلمان بچوں کو دینی تعلیم وتربیت سے آراستہ کرنے کے لئے جگہ جگہ مکاتب قائم کرنے کی بھی مزید ضرورت ہے۔

Share
Share
Share