ڈیبٹ کارڈ دھوکہ دہی‘احتیاطی تدابیر کی ضرورت
ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
صدر شعبہ اردو گری راج کالج نظام آباد
ای میل:
ملک کے کروڑوں عوام ا س وقت ڈر اور خوف کا شکار ہوگئے جب ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے یہ خبر عام ہوئی کہ ہندوستان میں ذائد از 32لاکھ لوگوں کے ڈیبٹ کارڈ (اے ٹی ایم کارڈز) کا ڈاٹا چرالیا گیا ہے۔ اور ان کے نقلی کارڈ بنا کر اور پاس ورڈ کو ہیک کرکے تقریباً دیڑھ کروڑ کی رقم ہندوستانی صارفین کے کھاتوں سے ناجائز طریقے سے نکال لی گئی ہے۔ یہ رقم چین اور امریکہ کے اے ٹی ایم مراکزسے نکالی گئی۔
معاملہ یوں سامنے آیا کہ دہلی کے تیس ہزاری کورٹ میں کام کرنے والے جھارکھنڈ کے مدن موہن نے جب اپنا اے ٹی ایم کارڈ استعمال کیا تو ان کا کارڈ غیر کارکرد دکھایا گیا۔ جب کہ ان کے کھاتے میں وافر رقم تھی۔ جب انہوں نے اپنے بنک ایس بی آئی سے رابطہ کیا تو بنک والوں نے کہا کہ ان کے سمیت چھ لاکھ کھاتہ داروں کے اے ٹی ایم یا ڈیبٹ کارڈ احتیاطی اقدامات کے تحت بلاک کردئیے گئے ہیں۔ اور انہیں دوسرا کارڈ مفت میں دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی پریس میں یہ خبر عام ہونے لگی کہ ہندوستان میں اپنے وقت کی سب سے بڑی بنک دھوکہ دہی ہوئی ہے جس میں بیرونی ملک کے ہیکرس نے آئی سی آئی سی آئی‘ ایکسس بنک‘ایچ ڈی ایف سی بنک‘ایس بنک ‘ویزا کارڈ والوں کا بڑی تعداد میں ڈاٹا چرالیا ہے۔ اور نقلی اے ٹی ایم کارڈز بنائے گئے ہیں۔ ان کارڈز کے پاس ورڈ چرائے گئے اور ان سے رقم نکال لی گئی۔ ابتدائی تحقیقات میں بتایا گیا کہ اے ٹی ایم مرکز سے رقم منتقلی کے ادارے نیشنل پیمنٹ کارپوریشن آف انڈیا کا ایک درمیانی مرکز گیٹ وے ہوتا ہے ۔جس میں مالویر وائرس داخل کیا گیا۔ کسی ایک خانگی اے ٹی ایم مرکز میں دھوکے سے ایسا آلہ لگادیا گیا جس سے صارفین کے کارڈ نمبر اور پن نمبر حاصل کرلیے گئے۔ اور ہیکرس نے کمپیوٹر ٹیکنالوجی سے سائبر جرم کرتے ہوئے مال ویر نامی وائرس کی مدد سے چھ لاکھ صارفین کے ڈیبٹ کارڈ کا ڈاٹا اس انداز میں چرالیا کہ ان سے نقلی کارڈز بنائے گئے جنہیں کارڈز کی کلوننگ کہا جارہا ہے اور ان کے پاس ورڈ حاصل کرتے ہوئے دیڑھ کروڑ کی رقم چین اور امریکہ سے نکال لی گئی۔ جن لوگوں کا نقصان ہوا وہ ایک ایک کرکے اپنے اپنے بنکوں سے رجوع ہونے لگے۔ ایس بی آئی کا کہنا ہے کہ اس کے چھ لاکھ صارفین کے کارڈز کا ڈاٹا چوری ہوا ہے لیکن رقم محفوظ ہے ۔صرف641صارفین کی 1.6 کروڑ رقم چرائی گئی ہے۔ جو عام آدمی کے لیے بہت بڑا نقصان ہے۔ تاہم احتیاطی اقدامات کے طور پر اس نے متاثرہ کارڈ گیرندوں کے کارڈ بلاک کردئے ہیں۔ اب اطلاع مل رہی ہے کہ مجموعی طور پر 32لاکھ ڈیبٹ کارڈ متاثر ہوئے ہیں۔ ریزرو بنک آف انڈیا نے اس معاملے میں جانچ شروع کردی ہے۔ اور اندازہ لگایا جارہا ہے کہ خانگی بنکوں کے اے ٹی ایم مراکز میں کسی نے سیکوریٹی سے سمجھوتہ کیا ہے اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ دولت کے لالچ میں آکر کسی اے ٹی ایم کے آؤٹ سورسنگ ملازم نے سائبر چوروں کو موقع فراہم کیا تاکہ وہ اپنا آلہ اس میں لگا سکیں اور اپنا کام کرسکیں۔ اس دوران ایس بی آئی نے اے ٹی ایم استعمال کرنے والوں کو چوکنا کیا ہے کہ وہ صرف ایس بی آئی کے معروف اے ٹی ایم مراکز سے ہی رقم نکالیں۔ اے ٹی ایم کارڈز کو کچھ دن تک کم ہی استعمال کریں۔ اور مقناطیسی پٹی والے کارڈز کو نئے چپ لگے کارڈز سے بدل لیں ۔ کہا جارہا ہے کہ مقناطیسی پٹی والے کارڈ کے ڈاٹا کو آسانی سے چرایا جاسکتا ہے۔ عوام خریداری کے لیے بڑے بڑے شاپنگ مالس ‘پٹرول پمپ اور دکانوں میں لگے کارڈ سوائپنگ مشین بھی استعمال کرتے ہیں۔ عوام کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ ان مقامات پر چوکنا رہیں اور اپنے سامنے کارڈ سوائپ کریں۔ دھوکہ سے رقم نکالنے کے ایسے معاملے بھی پیش آئے جب فون پر نا معلوم افراد اپنے آپ کو بنک کے ملازم کہتے ہوئے آپ سے آپ کے کارڈ کی تفصیلات پوچھتے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ آپ قطعی کسی کو فون پر اپنے کارڈ کی تفصیلات نہ دیں۔ اگر اس طرح کے فون آئیں تو پولیس یا بنک سے رابط کریں۔ عوام کو یہ بھی رائے دی گئی ہے کہ اپنے اے ٹی ایم کارڈ کے پاس ورڈ کو ہر تین مہینے میں ایک مرتبہ بدلتے رہیں۔ اور یہ نمبر کسی سے شئیر نہ کریں۔ ہندوستان میں نوجوان طبقہ اور تعلیم یافتہ طبقہ اب بنکوں کے چکر لگانے کے بجائے ڈیبٹ کارڈ ‘کریڈٹ کارڈ اور آن لائن انٹرنیٹ بنکنگ اور ٹیلی فون بنکنگ کا عادی ہورہا ہے۔ انٹرنیٹ بنکنگ میں اوٹی پی نمبر کی سہولت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دہری حفاظت ہے جو بیرون ملک نہیں ہے اس کے باوجود انٹرنیٹ بنکنگ بھی خطرے سے خالی نہیں ہے اور آپ کا اکاؤنٹ ہیک ہوسکتا ہے۔ ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملک اور معیشت کے لیے اس طرح کے دھوکہ دہی کہ واقعات افسوس ناک ہیں۔ اور اس سے ذیادہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ آر بی آئی ‘ حکومت اور متعلقہ بنک خاطیوں کو تلاش کرنے اور انہیں سخت سزائیں دینے میں آگے نہیں آرہے ہیں ۔ بنک کی نا اہلی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ یہ دھوکہ دہی کا معاملہ مئی جون سے شروع ہوا اور چار مہینے گذرنے کے بعد جب تک عوام حرکت میں نہیں آئی حکام نے کچھ نہیں کیا۔ میڈیا کے ذریعے کہا جارہا ہے کہ ایسے قوانین ہیں جن کی بدولت جن کا نقصان ہوا ہے ان کی پابجائی کی جاتی ہے لیکن میڈیا سے بات کرتے ہوئے ایسی ہی رقمی دھوکہ دہی کاشکار ایک نوجوان نے کہا کہ اس کے کھاتے سے سائبر کرائم کے ذریعے آٹھ لاکھ روپئے نکال لیے گئے۔ وہ بنک سے رقم کی واپسی کا کاروائی کر رہا ہے۔ چھ مہینے ہوگئے۔ پچاس ہزار روپئے خرچ ہوگئے لیکن اب تک اس کے مسئلے کو حل نہیں کیا گیا۔ایک طرف ہندوستان ڈیجیٹل انڈیا کی مہم زوروں پر چلا رہا ہے دوسری طرف اس طرح کے مالیاتی دھوکہ دہی کہ معاملوں سے عوام کا اعتبار ڈیجیٹل رقمی لین دین سے اٹھنے لگا تو وزیر اعظم مودی کا کرنسی فری معیشت کے خواب ادھورا رہ جائے گا جب کہ حکومت کی یہ خواہش ہے کہ وہ ڈیجیٹل رقمی لین دین کو فروغ دے اس سے کالے دھن کو خابو میں رکھنے کی سہولت ملے گی۔ جب کہ لوگ جو بھی رقمی لین دین کریں گے اس کا ریکارڈ بنک میں محفوظ ہوگا ۔ کاغذی کرنسی کا استعمال کم ہوگا۔ تو نقلی نوٹ کا کاروبار بھی کم ہوتا جائے گا۔ ان تمام معاملات میں یہ دھوکہ سامنے آیا ہے۔ اب تک میڈیا اور بنکوں کے ذریعے جو کچھ بیانات آئے ہیں وہ مبہم ہیں اور عوام کو ان کے روپئے کی حفاظت کی فکر لگی ہوئی ہے۔ ابھی بھی ہندوستان کے کروڑوں عوام کے پاس قدیم طرز کے مقناطیسی پٹی والے کارڈ ہیں۔ ان کی جگہ چپ لگے کارڈ کب تبدیل ہونگے کوئی کچھ نہیں کہہ رہا ہے۔ خانگی بنکوں کے اے ٹی ایم سے کہاں سمجھوتہ ہوا ہے اور کس نے چوروں کو یہ دھوکہ دہی کی راہداری دکھائی ہے کوئی کچھ نہیں کہہ رہا ہے۔ وزیر قانون ارون جیٹلی نے تحقیقات کی بات کی ہے دوسری طرف اپوزیش کانگریس نے ایس بی آئی کے چیف ارون بھٹا چاری کے استعفے کی مانگ کی ہے۔ لیکن عوام جب تک احتجاج نہیں کرے گی ان کی رقم کی حفاظت کے لیے یہ بنک کچھ نہیں کریں گے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں حکومت کی نظروں کے سامنے کروڑوں روپئے قرض باقی رکھنے والا وجئے مالیا ملک چھوڑ کر فرار ہوسکتا یہ اور بڑے بڑے تجارتی گھرانوں کی جانب سے قرض کی رقم بنکوں کو ڈبادئے جانے کے واقعات سامنے آتے ہیں ویسے میں عوام کے ساتھ دھوکہ دہی کچھ عام بات نہیں ۔ لیکن ہندوستان کو واقعی ترقی کرنا ہے اور سنجیدہ ہونا ہے تو اسے اپنے بنکنگ نظام کو بہتر بنانا ہوگا۔ بھلے ہی آربی آئی عوام سے یہ کہنے لگے کہ اس کا نظام خطرے سے خالی ہے اور عوام کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں لیکن بین الاقوامی سطح پر ہیکرس کے سائبر جرائم سے دنیا پریشان ہے۔ ابھی حال ہی میں بنگلہ دیش میں دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی رقمی دھوکہ دہی ہوئی تھی جب کہ اس کے مرکزی بنک سے سائبر کرائم کے ذریعے چھ ہزار کروڑ روپئے نکال لیے گئے تھے۔ دنیا کہ ممالک جب اپنے دیگر مسائل کے حل کے لیے بین الاقوامی سطح پر باہمی تعاون کی بات کرتے ہیں جیسے دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ہو ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرنا ہو تو سائبر کرائم کے حل کے لیے بھی بین الاقوامی سطح پر باہمی تعاون وقت کا اہم تقاضہ ہے۔صرف یہ کہہ دینے سے کہ حالیہ فراڈ کا معاملہ چین اور امریکہ سے ہوا اور چپ رہ جانا عوامی مفاد میں نہیں ہے ۔حکومت کو چاہئے کہ وہ چین اور امریکہ سے سفارتی سطح پر اس معاملے کو اٹھائے اور مجرمین کی کھوج اور انہیں انصاف کے کٹہرے تک لانے کی بات کی جائے۔ اسرائیل میں حال میں ایک نوجوان کو پھانسی کی سزا دی گئی تھی جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ ہیکر تھا اور اس نے کروڑوں روپئے کی رقم ہیک کرتے ہوئے فلسطین کاز کو دی تھی۔ لیکن جب اسے پکڑا گیا تو اسے سخت سزا دی گئی۔ کسی بھی جرم میں اگر مجرم کو کھلی چھوٹ دی گئی تو جرائم کی شرح بڑے گی اور عوام کے مسائل میں اضافہ ہوگا۔ ہندوستان میں عصمت ریزی کے واقعات پر سخت سزا دینے کے مباحث زور پکڑ رہے ہیں اسی طرح سائبر کرائم کے جرائم کی بروقت کھوج ہو اور خاطیوں کو سخت سزا دی جائے۔ اس کے علاوہ بنکوں کو چاہئے کہ وہ ڈیبٹ کارڈ نظام میں پائی جانے والی خامی کو دور کرے۔ اور بائیو میٹرک طرز کو رائج کرے کہ جب تک کوئی فرد اپنی انگلی کا نشان کمپیوٹر اسکرین یا بائیو میٹرک مشین پر نہیں لگائے گا اس کی رقمی منتقلی کا عمل شروع نہیں ہوگا۔ جب سے اے ٹی ایم کارڈ کا نظام شروع ہوا اس وقت سے ہی عوام میں خدشات تھے کہ جس کمپنی میں اے ٹی ایم کارڈ بنتے ہیں اس کی کیا گیارنٹی ہے کہ اس کی نقل نہ بنائی جاتی ہو۔ بہر حال اب یہ دھوکہ دہی کہ معاملہ حکومت اور بنک کے اعلیٰ حکام کے لیے آنکھ کھولنے کے مترادف ہے کہ موجودہ نظام کی خامیوں کو اجاگر کیا جائے اور جنگی پیمانے پر ان کو دور کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔ بنکنگ نظام میں اصلاحات لائی جائیں۔ جن کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے ان کے نقصان کی پابجائی فوری کی جائے۔ اور باقی لوگوں کی رقم کی حفاظت کے اقدامات کیے جائیں۔ عوام میں اس ضمن میں شعور بیداری کو عام کیا جائے۔ بنک کے فون نمبر دئے جائیں اور چوبیس گھنٹے سرویس فراہم کی جائے۔ عوام کو یہ سہولت دی جائے کہ وہ فون یا کمپیوٹر کے ذریعے اگر کوئی دھوکہ دہی کہ واقعہ معلوم ہو تو اپنے آپ سے اپنے کارڈ کو بلاک کرسکیں۔ ورنہ رات میں یہ کام ہو اور صبح بنک کھلنے تک ساری رقم کھاتے میں سے نکال لی جائے تو نقصان زیادہ ہوسکتا ہے۔ آن لائن بنکنگ نظام میں مزید شفافیت اور اصلاحات لائے جائیں۔ خاطیوں کو سخت سزا دی جائے۔ تب ہی عوام کے خدشات دور ہوں گے اور حکومت کے ڈیجیٹل انڈیا کے عزائم ترقی پاسکیں گے۔