شمس الرحمٰن فاروقی کے انٹرویو : ایک جائزہ
ڈاکٹربی محمد داؤد محسنؔ
پرنسپال ،یس۔کے ۔اے ۔ہیچ ملّت کالج
داونگرے۔577001 (کرناٹک۔انڈیا)
فون : 09449202211
e-mail:
مغربی ادب میں انٹرویونگاری کا باضابطہ آغاز انیسویں صدی میں ہوا۔ابتدا میں انگریزی کے جو انٹرویو نگار افق پر ابھرے اور مشہور ہوئے ان میں رومن رولاں ،لارنس لُدوک، لوئی فشر،گائی لے ٹیز وغیرہ قابل ذکر ہیں۔’’ پیرس ریویو ‘‘ نامی رسالہ نے اس صنف کی ترقی میں اہم رول ادا کیا۔کہا جاتا ہے کہ اخباری انٹریویوز کا آغاز امریکہ میں انیسویں صدی کے وسط میں ہوا ۔یہ بات بھی عام ہے کہ امریکی صحافی جیمس گارڈن بینٹ نے پہلا انٹرویولیاتھا۔
اردو میں انٹرویو نگاری کا آغاز تاخیر سے ہوا۔ابتداً نریش کمار شادؔ نے اس صنف کو اپنایا۔حالانکہ ان کے انٹرویوز میں انٹرویو کی جملہ خصوصیات نہیں پائی جاتی ہیں اس کے باوجود ان کے تصوراتی انٹرویوز جو غالبؔ ، جوش ملیح آبادی اور فکر تونسوی سے متعلق ہیں وہ ادب میں ایک مقام رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ اردو انٹرویو نگاری کے میدان میں جو نام ابھرے ان میں حسنؔ رضوی ، سلامت علی مہدی ، م ۔افضل ، علی حیدر ملکؔ ، انور سدید ، ندا فاضلی ؔ ،فیاض رفعت ؔ ، شاہد صدیقی ، طاہر مسعود،حیدر قریشی ،مناظر عاشق ہرگانوی ،،محمد خالد عبادی،جمیل اختر، عبدالباری اور خالد سہیل اہم ہیں۔
دور حاضر میں زندگی کے ہر مرحلہ پر انٹرویو ناگزیر ہو چکا ہے اورآج یہ صنف بھی ادب میں عام ہو چکی ہے۔ادھر چند سالوں سے انٹرویوز کی کتابوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ابھی حال ہی میں ڈاکٹر انیس صدیقی اور رحیل صدیقی نے شمس الرحمٰن فاروقی کے انٹرویوز کا انتخاب کتابی صورت میں ’’ سو تکلف اور اس کی سیدھی بات ۔فاروقی: محوِ گفتگو‘‘کے نام سے مرتب کر کے شائع کیا ہے۔ 28انٹرویوزپرمشتمل یہ کتاب انٹرویو ز کی دیگر کتابوں سے مختلف ہے کیونکہ اس میں انٹرویو نگار مختلف ہیں اور انٹرویوی ایک ہے ۔یعنی تمام انٹرویو ز صرف شمس الرحمٰن فاروقی صاحب سے لیے گیے ہیں۔ان انٹرویو ز کے عنوانات بھی بڑے دلچسپ ہیں۔دراصل ڈاکٹر انیس صدیقی نے جو عنوانات تجویز کئے ہیں وہ فاروقی صاحب کے وہ جملے ہیں جو انٹرویو کے دوران فاروقی صاحب نے کہے ہیں ۔یہ کتاب اس لیے بھی اہم ہے کہ اس میں ایک ہی فن کار کے مختلف ادوار میں لیے گیے انٹرویوز سے ایک طرف اس کے عہد بہ عہد فنّی ارتقاء پر روشنی پڑتی ہے تو دوسری طرف فاروقی صاحب کے مضامین ، آرا ء اور ان کی کتابوں میں پیش کردہ نظریات پر خودان کی زبانی وضاحت ملتی ہے۔ نیز ادب میں رونما ہونے والے رجحانات کے ضمن میں فاروقی صاحب کے نظریات و خیالات پر بھی بحث ملتی ہے ۔یہ کتاب فاروقی صاحب پر کام کرنے والوں کے لیے ایک اہم دستاویز ہے جس سے انحراف نہیں کیا جا سکتا۔ اس کتاب کی ایک خوبی یہ ہے کہ ڈاکٹر انیس صدیقی نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ ضمیمہ کے طور پر ’’ اشاریۂ مصنفین‘‘ تیار کیا ہے جس میں ہر ایک مصنف ، شاعر کا نام صفحہ نمبر کے ساتھ پیش کیا ہے۔اسے دیکھ کر ان کی محنت شاقہ کا اندازہ ہوتا ہے۔
ادبی دنیا میں فاروقی صاحب کا ایک بلند و بالا مقام ہے جس سے ہرکوئی واقف ہے ۔ان سے لیے گیے انٹرویوزبے شمار ہیں ۔ان انٹرویوز کا ایک انتخاب فاروقی : محو گفتگو2004 میں شائع ہوا تھا ۔ جس کے مرتب رحیل صدیقی تھے ۔اب فاروقی صاحب جیسی عظیم ا لمرتبت شخصیت کے مصاحبات پر مشتمل دوسری بسیط کتاب ’’ سو تکلف اور اس کی سیدھی بات‘‘ (فاروقی: محوِ گفتگو) شائع ہوئی ہے ۔جو ریاستِ کرناٹک کے متحرک اور فعال نوجوان ،مشہور و معروف ادیب ڈاکٹر انیس صدیقی اور مولانا آزاد اردو نیشنل یونیورسٹی حیدرآباد کے ریجنل سنٹر میں کارگذار رحیل صدیقی کی محنت شاقہ کا نتیجہ ہے۔
ڈاکٹر انیس صدیقی کا تعلق سر زمینِ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز ؒ گلبرگہ سے ہے ۔وہ ایک خاموش خادمِ زبان و ادب ہیں جوہمیشہ علمی و ادبی کاموں میں منہمک رہتے ہیں ۔انیس صدیقی حددرجہ سنجیدہ بے حد مخلص اور متوازن شخصیت کے مالک ہیں ۔وہ ایک منجھے ہوئے فن کار ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت متین و فتین ، ذکی و فہیم ،مہذب و شائستہ اور مشفق و مہربان شخص ہیں۔ان کی کتاب’’ کرناٹک میں اردو صحافت‘‘ کے نام سے بہت پہلے منظر عام پر آکر مقبولیت حاصل کرچکی ہے ۔علاوہ ازیں انہوں نے’’ گلبرگہ میں شعر وادب ‘‘کے نام سے جو کتاب حامد اکمل کی مدد سے مرتب کی ہے وہ سر زمینِ خواجہ بندہ نوازؒ کے ادبا ء و شعراء پر ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے اور تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوسکتی ہے۔اسی طرح انجمن ترقی اردو شاخ گلبرگہ سے نکلنے والے رسالہ ’’ انجمن‘‘ کی ادارت میں بہترین رسائل بھی مرتب کرتے رہتے ہیں ۔ساتھ ہی وہ تین مرتبہ کرناٹک اردو اکادمی کے رکن رہ چکے ہیں۔ اس کے زیر اہتمام نکلنے والے سہ ماہی رسالے’’ اذکار ‘‘ کی ادارت بھی ان کے ذمہ رہی ہے۔لہذا وہ ریاستِ کرناٹک کے ادبی افق پر اپناایک الگ مقام اور اپنی ایک الگ شناخت رکھتے ہیں۔انہوں نے ایک صحافی کی حیثیت سے نہایت کم عمری میں اپنے طالبِ علمی کے زمانے میں ایک رسالہ جاری کیا تھا۔اس کے علاوہ ایک عرصہ تک گلبرگہ کے مشہور و معروف روز نامہ کے بی ین ٹائمز کے ادبی مدیر بھی رہ چکے ہیں۔اس کے علاوہ وہ ایک بہترین منتظم بھی ہیں اردو کی کوئی بھی تقریب ہو وہ نہایت ذمہ داری کے ساتھ نہ صرف منعقد کرتے ہیں بلکہ اسے کامیاب بھی بناتے ہیں۔ساتھ ہی وہ نیشنل پری یونیورسٹی کالج گلبرگہ میں ایک فرض شناس اردو لکچرر کی حیثیت سے برسر روزگار ہیں اور نہایت مشقت و محبت کے ساتھ پڑھاتے ہیں۔اس کے علاوہ انجمن ترقی اردو ہند (شاخ گلبرگہ )کے سکریٹری کا عہدہ بہ حسن و خوبی سنبھالے ہوئے ہیں۔ایسی بے لوث ، فعال اورمتحرک شخصیتیں اردو زبان و ادب کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں ہیں۔ کتاب کے ایک اور مرتب رحیل صدیقی الہ آباد سے متعلق ہیں اس سے قبل ان کی کتابیں انتظار حسین کے افسانے ، حیات نامہ پریم چند ، اردو میں لوک گیت، کلیات پریم چند منظر عام پر آچکی ہیں۔
’’فاروقی: محوِ گفتگو‘‘میں شامل 28 انٹرویوز میں سے اکیس انٹرویوزالگ الگ انٹرویو نگاروں نے انفرادی طور پر لیے ہیں، چار انٹرویوزدو دو افراد نے مل کرلیے ہیں دو انٹرویوز تین افراد اور ایک انٹرویوآٹھ افراد نے مل کر لیا ہے یہ کہ ایک پینل انٹرویو Panel interview ہے۔تما م انٹرویوز میں سوالات کی نوعیت جداگانہ اور مختلف ہونے کے باوصف اکثر مقامات پر ان کی ناول اور افسانوں پر ان کی تنقید کو زیرِ بحث لایا گیا ہے اور ہر جگہ سوال کی نوعیت بدلتی دکھائی دیتی ہے ۔ اس کتاب میں شامل بیشتر انٹرویوز کافی طویل ہیں ۔ان میں بھی سب سے بڑا انٹرویورحیل صدیقی کا ہے جو 66 صفحات پر مشتمل ہے اور سب سے چھوٹے انٹرویوزاطہر معز ،رشید انصاری اور ندیم صدیقی نے سوال و جواب کی بجائے مضمون کی صورت میں تحریر کئے ہیں۔دراصل یہ انٹرویو لکھنے کا ایک نیا طرز ہے جو دورِ حاضر میں عام ہورہا ہے۔
فاروقی صاحب کے تعلق سے دو باتیں مشہور ہیں۔پہلی یہ کہ وہ ہر کسی کو انٹرویودینے کے لیے راضی نہیں ہوتے اور دوسرے یہ کہ وہ بغیر ٹیپ ریکارڈر کے کوئی انٹرویو نہیں دیتے۔جس کی واضح مثال مناظر عاشق ہرگانوی کی ہے جن کو فاروقی صاحب نے کئی دنوں تک انٹرویو صرف اس بنا پر نہیں دیا تھا کہ ان کے پاس ٹیپ ریکارڈر نہیں تھا۔مگراس کتاب میں شامل انٹرویوز سے ایک بات یہ محسوس کی جا سکتی ہے کہ اکثر انٹرویوزباضابطہ طور پر روبہ رو یا آمنے سامنے بیٹھ کر لیے گیے ہیں ان میں محمد ظفر اقبال کا ایک انٹرویو ان تمام سے ہٹ کر ہے جومراسلاتی ہے ۔جس میں سوال نامہ ارسال کر کے جوابات طلب کیے گیے ہیں اور فاروقی صاحب نے تحریری شکل میں جوابات ارسال کیے ہیں۔اس قسم کے انٹرویو میں انٹرویو نگار کی حیثیت صرف سوال نامہ تیار کرنے والے کی رہ جاتی ہے ۔ایسے انٹرویوز میں انٹرویوی بڑے غور و فکر اور اطمینان و سکون کے ساتھ جوابات دیتا ہے اور وہ خود اس انٹرویو کالکھنے والا بھی ہوتا ہے۔ جس میں انٹرویو نگار کا عمل دخل کم ہی ہوتاہے اور محنت بھی کم لگتی ہے۔ علاوہ ازیں انٹرویو جتنی محنت سے لیا جاتا ہے اس سے کہیں زیادہ محنت انٹرویو تحریر کرنے میں لگتی ہے۔وہی انٹرویوز مشہور و مقبول ہوئے ہیں جن کی تحریر دلچسپ اور اثر آفرین ہوتی ہے۔اس کتاب میں شامل بیشتر انٹرویوز قارئین،محققین،ناقدین اور اسکالرز کے لئے ایک بیش بہا اور نادر و نایاب تحفہ ہیں۔کیونکہ یہ انٹرویوز فکر انگیز مکالمات پرمشتمل دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔انٹرویو نگاروں نے جتنی محنت سے یہ انٹرویو لیے ہیں اتنی ہی دلجمعی کے ساتھ انہیں قلمبندبھی کیا ہے۔
شمس الرحمٰن فاروقی کا نام اردو زبان و ادب میں تاریخ ساز اورعالمی شہرت کا حامل ہے۔انھوں نے اپنے فکرو فن اور علم و عمل کے ذریعہ ادب کی بیشتر اصناف کو نہ صرف جلا بخشی بلکہ ان کی از سرِ نو تجدید کاری کی ہے ۔اس اعتبار سے انہیں دورِ جدید کا مجدّدِ اردو قرار دیا جا سکتا ہے۔وہ تخلیقی ادب کے ساتھ ساتھ تنقید و تحقیق کے شہسوار ہیں اور اس فن میں اپنے جدیدنظریات و تصورات کی بنیاد پر اپنا ایک خصوصی اور منفرد مقام رکھتے ہیں۔ نظری اور عملی تنقید ، تاریخِ زبان و ادب ، عروض و بیان ، لسانیات ، لغت نگاری میں انہیں کمال حاصل ہے۔ساتھ ہی وہ بیک وقت ایک ممتاز شاعر ، منفرد فکشن نگار ، معروف مترجم ، مشہور مدیر اور بہترین مبصر کی حیثیت سے اپنا لوہا منوا چکے ہیں ۔اس طرح ان کی شخصیت ایک ہے مگران کے فکر و فن کی جہتیں انیک ہیں۔ان کے فکر و فن کا دائرہ اتنا وسیع و عریض ہے کہ اس کا احاطہ کرنا مشکل امر ہے۔کئی قلم کاروں نے فاروقی صاحب کی علمی، ادبی اور فنّی کاوشوں کا بھر پور جائزہ لیا ہے۔اس طرح اب وہ ادب کا ایک مستقل باب بن گیاہے جسے’’ فاروقیات‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ان کی تحریروں میں پائی جانے والی گہرائی و گیرائی میں غوطہ زن ہوکر دو چار موتی نکال لانا ،ان کی رمق کی کیفیت کو ادبی منچ پراجاگر کرنا ، ان کے مقام ومرتبہ اور قدر و منزلت کا احاطہ کرنا دشوار کن امر ہے۔ادب کے کسی بھی نکتہ یا مسئلہ پر جب وہ اظہارِ خیال کرتے ہیں تو وہ مستقل ایک موضوع بن جاتا ہے اور بحث و مباحثہ کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔کلا سیکی ادب کی تجدید کاری کے علاوہ جدید رجحانات کو اردو میں متعارف کرنے میں ان کا اہم رول رہا ہے۔ اس ضمن میں مرتبین پیش لفظ میں رقم طراز ہیں کہ ؛
’’بیسویں صدی کے نصف آخر کے ایک بڑے عرصے پر ان کے نظریات حاوی رہے اور آ ج تک ان کے خیالات و تصورات کے بغیر کوئی بحث مکمل نہیں سمجھی گئی ہے۔بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ نظری مباحث ، ادبی تہذیب و تاریخ ، ادبی تصورات کے بارے میں امیر خسروؒ کے بعد شمس الرحمٰن فاروقی نے سیر حاصل بحث کی ہے۔فاروقی صاحب ایک عرصہ سے ہماری ادبی روایت کا مرکزی حوالہ بن چکے ہیں اور روز بروز یہ صورتِ حال مزید روشن ہوتی جا رہی ہے ۔اردو شعر و ادب سے متعلق کوئی بحث ایسی نہیں ہے ، جس میں فاروقی صاحب کے خیالات کو بطورِ حوالہ نہ لایا جاتا ہو۔‘‘
دورِ حاضر میں ایک مکتبۂ فکر کا یہ موقوف ہے کہ فاروقی صاحب اردو زبان و ادب کے موجودہ دور میں محمد حسن عسکری کے ہم پایہ فنکار ہیں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ محمد حسن عسکری نے جہاں اپنا سفر ختم کیا ، فاروقی صاحب نے اپنا سفر وہاں سے شروع کیا۔اس کے علاوہ عسکری صاحب کی تحریروں میں جواشارے پائے جاتے ہیں انہوں نے ان کی شرح پیش کی وغیرہ وغیرہ ….اب یہ ہر ایک کی سوچ و فکر کے زاوئیے ہیں۔اس میں اتفاق و اختلاف لازمی ہے۔حالانکہ فاروقی صاحب نے کبھی اپنے آپ کو اس مقام و مرتبہ پر رکھ کر خود کو بڑا یا عظیم تصور نہیں کیا۔جب کہ خود عسکری صاحب نے فاروقی صاحب کو ایک خط میں لکھا تھا کہ ’’ لوگ آپ کا نام اب حالی ؔ کے ساتھ لینے لگے ہیں‘‘ فاروقی صاحب اور محمد حسن عسکری دونوں کے ایک عرصے تک مراسلاتی تعلقات تھے اور عسکری صاحب کے فاروقی صاحب کے نام لکھے خطوط ہندوستان اور پاکستان دونوں جگہ شائع ہو چکے ہیں۔
فاروقی صاحب کی تحریروں میں جہا ں ایک طرف کلاسیکی ادب کی تجدیدہوتی ہے وہیں جدیدنظریات اور تصورات کی کار فرمائی بھی ہوتی ہے۔ ان کے تصورات و نظریات نئے نئے مفاہیم اور نئے نئے نکات کے ساتھ ساتھ ایک بحث کے متقاضی ہوتے ہیں ۔رد وقبول کا سلسلہ ادب میں پہلے سے چلا آتا رہاہے اور ہم اردو والوں کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم بعض روایات کو اس طرح گلے لگائے بیٹھے ہیں کہ نئے رجحانات اور نئے نظریات کو جلد قبول نہیں کرتے ۔جب بھی کوئی نیا مسئلہ چھیڑا جاتا ہے توپہلے بحث کرتے ہیں،پھر الجھتے ہیں ،مسائل کھڑے کرتے ہیں، تکرارکرتے ہیں ، دلائل طلب کرتے ہیں اوربڑی دیر بعد آہستہ آہستہ اس رجحان یا نظریہ کونہ چاہتے ہوئے بھی ماننے یا قبول کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔تب تک ایک زمانہ گذر جاتا ہے۔اس دوران دوسری زبانوں کے ادب میں اور بسا اوقات ہماری ہی زبان میں کوئی نیا نظریہ یا کوئی نیا رجحان جنم لینے والا ہوتا ہے ۔
فاروقی صاحب کے نظریات پر عمل و رد عمل کا سلسلہ چلتا رہااورہمارے فن کاروں میں نئی فکر ، نئی ذہنیت، نیا شعور ، نیا آہنگ،نیا خیال اور صحتمندتنقید ، مدلل اور ٹھوس تحقیق کی عادت پڑی اورسنجیدہ اور فرحت بخش گفتگو کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا۔
اس کتاب میں شامل پہلا انٹرویو آصف فرخی کا’’ فکشن اور نقدِ فکشن: ایک گفتگو‘‘ کے عنوان سے ہے ۔انٹرویوکی تمہید میں آصف فرقی ، فاروقی صاحب کے تعلق سے لکھتے ہیں ؛
’’ فاروقی صاحب کو صحیح معنوں میں رجحان ساز نقاد کہا جا سکتا ہے کہ ان کے مضامین اور ان کی ادارت میں الہ آباد سے نکلنے والے ادبی رسالے ’’ شب خون‘‘ کی تحریک کے لیے نظریاتی اور اصولی مباحث کے ذریعے زمین ہموار کی ، نئے ادب کی تفہیم کا آغاز کیا اور نئے کی روشنی میں پرانے کو از سر نو دریافت کرنا شروع کیا ۔فاروقی صاحب نے اگرچہ زیادہ تر شاعری کے بارے میں لکھا ہے اور شاعری ان کی پہلی محبت کا درجہ رکھتی ہے لیکن انہوں نے افسانے پر بھی توجہ کی ہے۔افسانے کی ontology پر جن مباحث کو انہوں نے چھیڑا ہے ، وہ ہماری تنقید میں ایک نیا باب ہیں۔‘‘
اس انٹرویو میں افسانے اور افسانے کے بارے میں فاروقی صاحب کے نظریات سے متعلق بھر پور بحث کی گئی ہے۔انٹرویوکا پہلا سوال ہی ’’افسانے کی حمایت میں‘‘ مضمون سے متعلق ہے۔فاروقی صاحب یہاں بھی اپنے موقوف پر اٹل دکھائی دیتے ہیں اورافسانے کو بہت بڑا آرٹ فارم ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں اور نہ ہی وہ یہ قبول کرنے کے لیے تیار ہیں کہ شاعری کے سامنے افسانہ کی کوئی وقعت ہے۔ان کا یہی خیال ہے کہ افسانہ بعض چیزوں کا پابند ہے اور ہمارے فن کار اس سے باہر نکلنا نہیں چاہتے۔ان کے خیال میں افسانہ نگار کے ذہن میں کوئی پلاٹ گھومنے لگتاہے تو وہ کہانی لکھنے بیٹھ جاتا ہے اور کرداروں کو جیسا چاہے استعمال اور استحصال (Manipulate and exploit) کرتا ہے اور ایک حد میں رہ کر افسانہ لکھ دیتا ہے۔چنانچہ وہ افسانہ کے Time Factorکے تعلق سے کہتے ہیں۔
’’ Ultimately فکشن در اصل ٹائم کے Cut off کی علامت ہے ، کہ آپ نے کوئی واقعہ لیا ، کہیں شروع کیا ، کہیں ختم کیا اس واقعے کو آپ نے تو ظاہر کیا ہے کہ ٹائم Cut off ہے۔شروع میں ٹائم نہیں ہے ، آخرمیں ٹائم نہیں ہے۔اس Particular چوکھٹ میں بند ہوگئے آپ۔شاعر کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ اس میں ٹائم کا Cut offیا Cut on ہو۔اب یہ Shock کرنے والی بات معلوم ہوتی ہے ۔اکثر لوگوں نے اس بات کو سمجھا بھی نہیں۔‘‘
اس انٹرویو میں فاروقی صاحب کی افسانے کی تنقید پر بھی بحث کی گئی ہے علاوہ ازیں اس میں پریم چند، بیدی ،انتظار حسین ،قرۃ العین حیدر کی افسانہ نگاری پر سیر حاصل اور معلوماتی گفتگو ملتی ہے۔
دوسرا انٹرویواطہر فاروقی کا ہے ۔جس میں آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد ملک میں اردو زبان کی حالتِ زار، ہندوستان میں اردو کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک،ترقی پسند وں کااردو رسم الخط بدلنے کا خیال ،یو پی والوں کا سوتیلا رویہ ،سیاسی سازشیں ، آزادی کے بعدہندوؤں کا اردو تعلیم سے ترکِ تعلق اور خود مسلمانوں کا اس زبان سے بے رخی اختیار کرنا ،شمال اور جنوب والوں میں اردو سے متعلق وابستگی اور نا وابستگی کے علاوہ اردو تعلیم اور دینی تعلیم وغیرہ پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے ۔
’’ اردو کو طرز حیات اور طرزِ فکر کا حصّہ ہونا چاہیے ‘‘ ایک پینل انٹرویو ہے جسے ساقی فاروقی ، افتخار قیصر اور رضا علی عابدی نے لیا ہے ۔تمہید میں ساقی فاروقی نے فاروقی صاحب کو محمد حسن عسکری کے ہم مرتبہ اور برصغیر ہند و پاک کا سب سے بڑا نقاد قرار دیا ہے۔اس انٹرویو میں فاروقی صاحب سے ان کے امریکہ اور لندن کے قیام اور ان ممالک میں اردو کی صورت حال پر بحث کی گئی ہے ۔اس ضمن میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فاروقی صاحب فرماتے ہیں؛
’’ اگرچہ اردو ایک چھوٹی زبان ہے اور عمر بھی اس کی ابھی بہت کم ہے ، اس کے بولنے والوں کی کوئی سیاسی قوت نہیں ہے جیسی کہ عربی بولنے والوں کی ہے۔لیکن پھر بھی اردو اس وقت دنیا کی چند ایک زبانوں میں ہے جوا بھی حقیقی طور پر بین الاقوامی ہیں ۔یعنی آپ کو اردو بولنے والا ، اردو لکھنے والا، اردو میں لکھنے والا ، اردو میں شعر کہنے والا اور تخلیقی کام کرنے والا دنیا کے ہر کونے میں مل جائے گا اور یہ لوگ اکثر ملکوں میں اتنی تعداد میں مل جائیں گے کہ وہ اپنی ایک حیثیت ، اپنی جماعت ، اپنی انجمن قائم کر سکتے ہیں۔‘‘
اس انٹرویو میں اس بات پر بھی بحث ملتی ہے کہ ہند و پاک کے علاوہ دیگر ممالک میں تخلیق پانے والے ادب کو پرکھنے کے پیمانے کیسے ہونے چاہیے اوراسے فن کی کونسی کسوٹی پر پرکھا جانا چاہیے۔ فاروقی صاحب نے واضح کیا ہے کہ ادب پارہ جس ماحول اور کلچر میں تخلیق پاتا ہے اسے اسی انداز میں دیکھنا چاہیے۔
فاروقی صاحب ایک منفرد و ممتاز شاعر بھی ہیں مگر وہ ادبی دنیا میں ایک نقاد کی حیثیت سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں وہ مشاعروں میں کم ہی دکھائی دیتے ہیں اور ان کا موقوف یہ ہے کہ مشاعروں سے اردو زبان سے زیادہ فائدہ شاعروں کو ہوتا ہے۔فاروقی صاحب کی تنقید کے سامنے ان کی شاعری مدھم اور پھیکی نظرآتی ہے اور نقاد شاعر پر حاوی ہوتا دکھائی دیتا ہے۔لہذا پریم کمار نظر نے اپنے انٹرویو میں پہلا سوال اسی نوعیت کا کیا ہے۔جواب میں فاروقی صاحب کا کہنا ہے کہ؛
’’ میں تو یہ نہیں کہوں گا کہ میرے اندر کے نقاد نے میرے اندر کے شاعر کو دبا لیا یا اس پر حاوی ہوگیا۔ایسا نہیں کہ ، بلکہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ میرے اندر کے شاعر نے کسی نہ کسی طرح مجھے اس طرح کا نقاد بننے میں مدد کی ، جیسا کہ میں بنا۔‘‘
اس انٹرویو میں ان کے تنقیدی مزاج میں پائی جانے والی رعونت، خود پسندی اور تلاطم آمیزی، کلاسیکی ادب کی تنقید،ان کا اردو شاعری کو مغربی اصولِ نقد کے تحت پرکھنے کا انداز اور فراق گورکھپوری پر ان کی کڑی اور متعصبانہ تنقید پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں اورجدیدیت کی موت اور مابعد جدیدیت سے متعلق بھی کھل کر بحث کی گئی ہے ۔مابعد جدیدیت سے متعلق فاروقی صاحب کہتے ہیں۔
’’مابعد جدیدیت ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو لازمی طور پر جدیدیت کے بعد آئے اور نہ کوئی ایسی چیز ہے جسے جدیدیت کی ترقی یافتہ شکل یا جدیدیت کا اگلا قدم کہیں۔در اصل ما بعد جدیدیت تو ذہن اور احساس کی ایک صورت حال ہے۔‘‘
نیلابھ کے انٹرویو میں ہندی اور اردو سے متعلق فاروقی صاحب کی کتا ب پر بحث ہوئی ہے جس میں ان دو زبان والوں کے باہمی ارتباط و اختلافی پہلوؤں کو تاریخی حوالوں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے ۔یہاں فاروقی صاحب کا یہ موقوف ہے کہ انگریزوں نے جس طرح پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کی پالیسی اختیار کی تھی وہی پالیسی انہوں نے ان دو زبان والوں کے ساتھ بھی اختیار کی جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
’’ ادب کو کسی فلسفہ ، کسی پابندی کا محکوم نہیں ہونا چاہیے ‘‘ کے عنوان والا انٹرویو عارف ہندی اور جاوید انور نے لیا ہے۔جس میں ترقی پسند نظریات کی پر زور مخالفت کی وجہ اورجدیدیت ، مابعد جد یدیت کے تعلق سے فاروقی صاحب کے نظریات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ جدیدیت کے ضمن میں فاروقی صاحب کہتے ہیں کہ؛
’’ جدیدیت نے سب سے پہلے یہ کہا کہ ادب کو کسی فلسفہ ، کسی نظریے ،کسی پابندی کا محکوم نہیں ہونا چاہیے۔ترقی پسند ادب کہتا تھا کہ ادیب کو ایک خاص نظریے کا محکوم ہونا چاہیے۔‘‘
اسی انٹرویو میں فاروقی صاحب جدیدیت کے متعلق گوپی چند نارنگ کے اس خیال سے بھی انحراف کرتے ہیں کہ
’’جدیدیت ہمارے یہاں اس وقت پہنچی جب مغرب میں اس کا دور ختم ہو چکا تھا۔
فاروقی صاحب کا کہناہے کہ
’’ میرے لیے اس بات کا ماننا ذرا مشکل ہے کیونکہ جدیدیت سے اگر یہ مراد لی جائے کہ انسان اپنی تخلیقی قوت پر کائنات فہمی کا مدار رکھے ، ذہن کو انسان کی آخری پناہ گاہ قرار دیں تو یہ تصور یقینا1960 میں موجود تھا۔‘‘
یہ انٹرویو دو انٹرویو نگاروں نے لیا ہے مگر تحریر کے دوران صرف سوال اور جواب درج کیے گئے ہیں۔سوال کرنے والے کا نام درج نہیں ہے ۔اس سے یہ پتہ نہیں چلتا ہے کہ کونسا سوال کس نے کیاہے۔جب کہ انٹرویو کا یہ اصول ہے کہ اگر دو یا دو سے زیا دہ انٹرویو نگار ہوں تو تحریر کے دوران ضروری ہے سوال کرنے والے کانام درج ہو تا کہ ہر سوال سے پہلے یہ واضح ہو جائے کہ وہ سوال کس کا ہے۔
اس کتاب میں شامل واحد پینل انٹرویو بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔اس پینل میں دور حاضر کی ممتاز علمی و ادبی شخصیات شامل ہیں۔ جن میں وزیر آغا اور انتظار حسین عالمی شہرت رکھتے ہیں۔ان کے علاوہ اسی پینل میں آغا سہیل، سلیم اختر ، انور سدید ، احمد ظفر ، اصغر ندیم سید اور حسن رضوی بھی معروف شخصیتیں ہیں۔اس طرح یہ پینل کل آٹھ افراد پر مشتمل ہے۔اس انٹرویو میں ہر سوال کے آگے سوال کرنے والے کا نام لکھا گیا ہے جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ کونسا سوال کس نے کیا ۔اس انٹرویو کے آغاز میں حسن رضوی نے واضح کر دیا ہے کہ؛
’’ شمس الرحمٰن فاروقی صاحب ! آج ہم آپ کے فن اور شخصیت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے پاک و ہند کے ادبی منظر نامے کا جائزہ لیں گے۔‘‘
اس سے یہ واضح ہوجا تا ہے کہ انٹرویو کی غرض و غایت کیا ہے۔لہذا اس انٹرویو میں فاروقی صاحب کی شخصیت کے کئی گوشے سامنے آئے ہیں ساتھ ہی اس میں ان کی تنقیدپر بھی کافی بحث ملتی ہے۔یہاں بھی فاروقی صاحب کی تنقید نگاری پر کئی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔جن کا جواب نہایت سنجیدگی کے ساتھ فاروقی صاحب نے دیا ہے اور سب کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے۔
فاروقی صاحب کراچی گئے تو وہاں شمیم نوید نے آصف مالک اور اشرف میمن کے ساتھ ایک ملاقات کی اس موقع پر جو گفتگو ہوئی اسے انہوں نے انٹرویو کا روپ دیا ہے ۔یہاں دراصل تین افراد موجود تھے جنہوں نے فاروقی صاحب سے تبادلۂ خیال کیا مگر انٹرویو لکھتے وقت کس نے کونسا سوال کیا اسے پیش نہیں کیا۔یہ نہایت مختصراور جامع انٹرویو ہے اور گفتگو کی صورت میں موجود ہے ۔اس انٹرویو میں سوالات بھی مختصر اور جامع اور جوابات بھی جامع ، معنی خیزاور معلوماتی ہیں۔
اطہر معز کا انٹرویوفاروقی صاحب کی گلبرگہ آمدکے دوران ان کی باہم گفتگوپر مشتمل ہے۔ جس میں ان کے فن پر بحث کے علاوہ ،ان کی اہلیہ کی وفات کا ذکر اور غم، حضرت تقدس مآب سید شاہ محمد محمد الحسینی صاحب قبلہ مرحوم و مغفور سے قلبی لگاؤ اور حضرت قبلہ کی رحلت پر ان کا آبدیدہ ہونے وغیرہ کا ذکر ملتا ہے ۔ یہ انٹرویو مضمون کے فارم میں ہے اور اسے اس انداز سے تحریر کیا گیا ہے جیسے’’ ….سے متعلق شمس الرحمٰن فاروقی صاحب سے جب سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایاکہ …….‘‘
اس انٹرویو میں بھی ناول کی تنقید پر سوال اٹھایا گیا ہے مثلاً؛
’’ شمس الرحمٰن فاروقی سے یہ پوچھے جانے پر کہ آپ نے ناول کی تنقید سے پہلو تہی کیوں کی ؟ پروفیسر موصوف کا جواب تھا کہ ناول کا دامن بہت وسیع ہے ۔اس میں واقعات اور سانحات کی تعداد افسانے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتی ہے ، جب کہ افسانہ 1960 کے بعد نئی کروٹ لے رہا تھا …….افسانے کی تنقید اس میں ہو نے والی تبدیلیوں اور اٹھان کے باعث وقت کی اہم ضرورت تھی اسی سبب افسانے کو ناول پر ترجیح دی گئی………‘‘
مذکورہ بالا انٹرویو کے علاوہ زیر نظر کتاب میں سراج اجملی، احمد محفوظ، پریم کمار نظر، گلزار جاوید، قاسم ندیم، مشتاق صدف، اجمل سراج ، اختر سعید ، رشید انصاری، ندیم صدیقی، اکرم نقاش، خالد بہزاد ہاشمی ، صفدر رشید کے انٹرویوز بھی شامل ہیں۔ جو اردو زبان اور شعرو ادب کے مختلف النوع موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں اور یہ تمام انٹرویوز اپنی جگہ نہایت اہم اور معلوماتی ہیں۔ایک مضمون میں ان تمام انٹرویوز کا جائزہ لینا ممکن نہیں ہے ۔میں نے تو بس چند انٹرویوز کا ماحصل پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔جب کہ پوری کتاب ایک بحر بے کنار ہے جس میں بیش قیمتی موتی موجود ہیں اورجنھیں چن کر لانا ایک ماہر غواص کا کام ہے۔
Dr.B M Davood Mohsin
M.A,Ph.D
Principal
SKAH Millath College
Basha nagar Davangere-577001
(Karnataka)
Cell:09449202211
e-mail: