میری اردو شاعری کی بیاض ۔ قسط 14 – حالیؔ – – – – پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

Share

Haali ؔحالی
شعرالہند ۔ میری اردو شاعری کی بیاض ۔ قسط 14
(شعراء کے دواوین اور سوانح سے کشید کیا ہواآب حیات )
الطاف حسین حالیؔ(۱۸۳۷۔۱۹۱۴ء)

پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

میری اردو شاعری کی بیاض قسط ۔ 13 ۔ کے لیے کلک کریں

الطاف حسین حالیؔ عام طور پر مسدس حالی کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، وہ شاعر بھی تھے اور دانشور بھی تھے، وہ نقاد بھی تھے اور مفکر بھی تھے، انھوں نے اپنے مسدس کا نام مد وجزر اسلام رکھا ، یہ مسدس انھوں نے قوم کو جگانے اور میدان عمل میں اتارنے کے لئے دنیائے شعر وادب میں پیش کیا، وہ مسلمانوں کے ذہنی جمود کو توڑنا چاہتے تھے، اور سعی وعمل پر آمادہ کرنا چاہتے تھے، انھوں نے اپنے مسدس کے ذریعہ تحصیل علم پر زور دیا، کہ یہی زندہ قوموں کے لئے ترقی کا ذریعہ اور وسیلہ ہے-

الطاف حسین حالی کا دوسرا ادبی کارنامہ ان کا اپنے دیوان پر لکھا ہوا ہے جو مقدمہ شعر وشاعری کے نام سے مشہور ہے، اس میں شعر گوئی کا جائزہ لیا گیا ہے ، اور اس میں ہندوستان کے اردو شاعر کا ایک تنقیدی مطالعہ ہے، در حقیقت یہ مقدمہ فن تنقید پر اردو میں پہلی کتاب ہے، وہ بہترین نقاد اور مسلمانوں کی نشأۃ ثانیہ کے شاعر تھے، وہ پہلے نثر نگار ہیں جنھوں نے سوانح نگاری کے فن کو پورے طور پر برتتے ہوئے سر سید کی زندگی پر حیات جاوید لکھی ، اورغالب کی زندگی پر یاد گار غالب تصنیف کی اور شیخ سعدی کی حیات پر حیات سعدی کے نام سے کتاب لکھی، وہ بہت ہی باکمال دانشور اور بہت اچھے شاعر تھے، ان کے چند اشعار درج ذیل ہیں:
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھیئے جاکر نظر کہاں

ہوتی نہیں قبول دعا ترک عشق کی
جی چاہتا نہ ہوتو زباں میں اثر کہاں

یاران تیز گام نے محمل کو جالیا
ہم محو نالہ جرس کارواں رہے

اب بھاگتے ہیں سایہ عشق بتاں سے ہم
کچھ دل سے ہیں ڈرے ہوئے کچھ آسماں سے ہم

الطاف حسین حالیؔ دہلی کے قریب واقع پانی پت میں پیدا ہوئے تھے، ان کے آباء واجداد سات سو برس قبل آکر آباد ہوئے تھے، بچپن میں انھوں نے قرآن مجید حفظ کیا اور عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی ، اسی کے ساتھ انھوں نے فن عروض میں دستگاہ حاصل کی ، ان کا شوق مطالعہ کا اور کتب بینی کا تھا، دہلی میں قیام کے دوران حالی کی ملاقات مرزا غالب سے ہوگئی ، حالی کے کلام کو سن کر غالب نے کہا تھا : ’’اگر تم شعر نہ کہوگے تو اپنی طبیعت پر ظلم کروگے‘‘۔ حالی نے اپنی زندگی میں منطق اور فلسفہ کے ساتھ حدیث اور تفسیر کا بھی گہرا مطالعہ کیاتھا، اس کے بعد یوپی ضلع بلند شہر کے رئیس جناب مصطفی خاں شیفتہ نے ان کو اپنے یہاں بلا لیا تھا، شیفتہ خود بہت اچھے اور باذوق شاعر تھے، حالی کی شعر گوئی کے ذوق کو شیفتہ کی صحبت سے اور جلا مل گئی، اصلاح کیلئے حالی اپنی غزلیں مرزا غالب کو بھیجتے تھے، شیفتہ کے انتقال کے بعد وہ لاہور چلے گئے اور وہاں ان کو انگریزی ادب کے مطالعہ کا موقع ملا اور وہاں ان کو یہ احساس ہوا کہ مشرقی زبانوں میں یعنی اردو فارسی و عربی ادب میں بعض وہ بلندیاں نہیں ہیں جو انگریزی شعر وادب میں ہیں، لاہور میں ایسے مشاعرے منعقد ہوئے جن میں مصر ع طرح کے بجائے کوئی عنوان دیدیا جاتا تھا چنانچہ انھوں نے برسات ، امید، خوشی اور حب وطن کے عنوان پر نظمیں لکھیں، پھر جب وہ دہلی آئے تو ان کی ملاقات سرسید احمد خاں سے ہوئی، اور سر سید ہی کی فرمائش پر حالی نے طویل مسدس مد وجزر اسلام کے نام سے لکھی، جس کو سر سید اپنے لئے وسیلہ نجات سمجھتے تھے، حالی کا طرز نگارش سب سے جدا تھا، خود وہ فرماتے ہیں :

مال ہے نایاب اور گاہک ہیں اکثر بے خبر
شہر میں کھولی ہے حالی نے دکاں سب سے الگ

ان کی بہت سی نظمیں انسانوں کے لئے بہترین نصیحتیں ہیں ان کی یہ نظم دیکھئے:
بڑھاؤ نہ آپس میں ملت زیادہ
مبادا کہ ہو جائے نفرت زیادہ

کرو دوستو پہلے آپ اپنی عزت
جو چاہو کریں لوگ عزت زیادہ

کرو علم سے اکتساب شرافت
نجابت سے یہ ہے شرافت زیادہ

فراغت سے دنیا میں دم بھر نہ بیٹھو
اگر چاہتے ہو فراغت زیادہ

مصیبت کا ایک ایک سے احوال کہنا
مصیبت سے ہے یہ مصیبت زیادہ

ہے الفت بھی وحشت بھی دنیا سے لازم
نہ الفت زیادہ نہ وحشت زیادہ

فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ

حالی کے بارے میں کچھ بھی پڑھ کر دل خوش ہوتا ہے، اور حالی کا یہ شعر یاد آتا ہے:
بہت جی خوش ہوا حالی سے ملکر
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Prof.Mohsin Usmani
mohsin osmani حالیؔ

Share
Share
Share