نورالحسنین کے ریڈیائی ڈرامے اورفیچرز ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سید امجد الدین قادری

Share
noorul-husnain
نورالحسنین

نورالحسنین کے ریڈیائی ڈرامے اورفیچرز

سید امجد الدین قادری
ریسرچ اسکالر،شعبہ اُردو،
ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی، اورنگ آباد

ریڈیو نشریات کا آغاز تقریباً سوسال قبل ہوا جب مارکونی نے ۱۸۹۵ء ؁ میں ریڈیوٹرانسمیٹر ایجاد کیا۔ا س کے بعد ریڈیو کے نظام نے بتدریج ترقی کے مراحل طے کئے ۔ظاہر ہے کہ ریڈیو کی یہ ترقی سائنس اور ٹکنالوجی کی مرہون منت ہے۔لہذا جیسے جیسے ٹکنالوجی نے ترقی کی اسی مناسبت سے ریڈیو کو بھی فروغ حاصل ہوا۔
ہندوستان میں ریڈیوکاآغاز۱۹۲۱ء ؁ میں ممبئی سے ممبئی اسٹیٹ کے گورنر کو پونا میں موسیقی کا ایک پروگرام سنایا گیا۔ا س کے بعد تجرباتی طورپر نشری پروگرام شہروں میں شروع کئے گئے۔اس میں کلکتہ ریڈیوکلب نے ۱۹۲۳ء ؁ میں اور ممبئی ریڈیو کلب نے ۱۹۲۴ء ؁ میں پروگرام پیش کئے۔اس کے بعد ریڈیو سروسیس برابر ترقی کے منازل طے کرتارہا اور آج بھی کی اس کی اہمیت وافادیت سے ہم سبھی بخوبی واقف ہیں۔

ڈرامہ نہ ہمحض مکالمے میں لکھی تحریرکا نام ہے نہ محض واقعات وکردار کا مجموعہ ،نا محض تفریح اور نامحض فلسفہ،اس کے اجزا میں پلاٹ،کردار،مکالمہ اور زبان شامل ہیں تو رنگ ،صوت،روشنی،سایہ اور سکوت بھی اسی کے عناصر ہیں۔ ڈرامہ ایک فن ہے۔یوں تو اس کا تعلق ادب سے بھی ہے مگراس کا زیادہ قریبی رشتہ تھیٹرکے فن سے بھی ہے۔بقول عبدالمغنی۔۔۔
’’یہ مضمون کی تحریر نہیں،تماشا سے عبارت ہے۔لہٰذا تماشائیت اس کے رگ وپے میں ساری ہے۔‘‘
دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں ڈرامے کا وقیع ذخیرہ پایا جاتاہے۔پھرعوامی روایت کی شکل میں بھی ہر زمانے اور علاقے میں اس کا وجود رہاہے۔ڈرامے کی روایت اسی قدر قدیم ہے جتناخود انسان۔زمانہ قدیم سے ہی وہ سوچتا،سمجھتا،محسوس کرتا اور مختلف قسم کے تجربات سے گزرتاتھا۔مگر اس وقت اُس کے پاس ان چیزوں کے اظہار کے صرف دوذرائع تھے ایک آواز اوردوسرا اشارات وحرکات اور یہی قدیم وسائل اظہار ڈرامے کی بنیاد ہیں۔انسان کے جذبات وتجربات کے یہ اظہار ڈرامے کے دھندلے نقوش اولین ہیں جو تہذیب وتمدن کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ نکھرتے اور واضح ہوتے چلے گئے۔
ڈرامے کی مختلف دانشوروں نے لاتعداد تعریفیں پیش کی ہیں اُن کے مطالعہ سے جو تعریف بنتی ہے وہ اس طرح ہے۔۔۔
’’کسی قصے یا واقعے کو کرداروں کے ذریعے تماشائیوں کے روبرو پھرسے عملاً پیش کرنے کو ڈرامہ کہتے ہیں۔‘‘
ریڈیو ایک ایسا میڈیم ہے جس میں مخصوص تکنیک استعمال کرکے خیالات ،الفاظ اور ایکشن کو ایک ایسے سانچے میں ڈھالاجاتاہے کہ سننے والے کے ذہن میں ایک واضح تصویر ابھرتی ہے۔اس مخصوص ریڈیائی تکنیک کا بہترین مظاہرہ ڈراموں میں ہوتاہے۔ڈرامے کی کہانی ایک ایسا ڈھانچہ پیش کرتی ہے جس میں واقعات کے تعلق سے ساری باتیں سامع کی سمجھ میں آجاتی ہیں۔آئینے میں جب ہم اپنی شکل دیکھتے ہیں تو وہ ہو بہو ویسی ہی نظرآتی ہے جیسے ہم ہوتے ہیں۔ہماری ہر جنبش اور ہرایکشن بھی آئینے میں منعکس ہوتاہے۔ریڈیوڈرامے کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ آوازوں کے ذریعے پوری کہانی ہمارے سامنے لاتاہے۔کرداروں کے ایکشن اور انداز گفتگوسے سامع اپنے ذہن میں تخیل کی مددسے ان تمام کرداروں کو اپنے سامنے کھڑاپاتاہے۔یہ ڈرامے زندگی کے واقعات ،دکھ سکھ تضاد اور دوسرے حقائق کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ سامع خودبخود کہانی میں دلچسپی لینے لگتاہے اور اس کے اختتامی منظر کا انتظار کرتاہے۔
بصری(Visual)آرٹ میں مناظر براہِ راست پیش کئے جاتے ہیں۔ہر چیز ہماری نظروں کے سامنے ہوتی ہے لیکن ریڈیو کا معاملہ یہ ہوتاہے کہ سامع نشرہونے والے مواد کی بنیاد پر اپنے تخیل کے سہارے تصویریں بناتاہے۔اس لیے ریڈیوڈرامے میں کچھ حدبندیاں بھی ہوتی ہیں۔یہ حد بندیاں حقائق ،مقامات اور موڈ وغیرہ کے حوالے سے ہوتی ہیں۔اگر واقعات ،مقامات اور کرداروں کی بھر مار ہوگی تو سامع کی دلچسپی کم ہوجائے گی۔اس کے لیے کہانی کا سمجھنا مشکل ہوجائے گا۔لہٰذا ڈرامے کی کہانی لکھنے والے کو اپنے سامعین کے تئیں حساس ہونا چاہیے۔دراصل سامع ڈرامے سے اس طرح جڑجاتاہے کہ ڈرامے میں پیش کئے گئے واقعات کی وہ اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کوئی تصویر وضع کرتاہے۔ڈرامہ نگارکو کہانی کا تانابانا اس طور پر تیارکرنا چاہیے کہ وہ سامع کی گرفت میں آسانی سے آجائے۔ریڈیو ڈرامہ لکھنے والے کو ریڈیوکی ضروریات اور سامعین سے اس کے رشتے کا پورا ادراک ہونا چاہیے۔ایسا بھی ہوتاہے کہ کہیں کہیں ڈرامہ نگار خود پروڈیوسرہوتاہے ۔ظاہر اس صورت میں اس کی ذمہ داریاں دہری ہوجاتی ہیں۔ایک طرف ریڈیوکے سامعین کے لیے اسے ڈرامہ لکھنے کا پورا تجربا ہونا چاہیے تو دوسری طرف پروڈکشن سے متعلق خصوصی تکنیک کا علم ہونا چاہیے۔لیکن جہاں پروڈیوسر اور ڈرامانگار دومختلف شخصیتیں ہوں تو ان دونوں کے درمیان بھرپور تال میل اور مفاہمت ہونی چاہیے۔دونوں کومل کر مکالمے ،موسیقی، صوتی مناظر اور خاموشی کے توسط سے ایک ایساماحول بنانا پڑتاہے کہ سامع خود بخود اپنے تخیل کے سہارے تصویریں بناسکے۔
ریڈیوڈرامے میں دوسری سب سے اہم بات یہ ہے کہ ڈرامے کے کرداروں کو لے کر سامع تذبذب کا شکار نہ ہو اس لیے ڈرامے کے ابتداء میں ہی مکالمے کے ذریعے سے کرداراوراُن کے نام واضح کردئیے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ ڈرامے کے دوران غم اور خوشی کے ماحول کو مناسب موسیقی کے ذریعے ابھاراجاتاہے۔خوشی کا ماحول ہوگا تو وہاں شوخ موسیقی ہوگی،غم کاماحول ظاہر کرنے کے لیے ایسی موسیقی کا استعمال کیا جائے گا جس میں غم کا عنصر شامل ہو۔اس کے علاوہ منظر بدلتے وقت چند سیکنڈ کی ہلکی موسیقی استعمال کی جائے گی۔
اس تمہیدی گفتگو کا مقصدیہ ہے کہ قاری کو ریڈیائی ڈرامے کی باریکی ونزاکت سے واقفیت ہو۔آئیے اب ہم نورالحسنین اور اُن کے ریڈیائی ڈراموں کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔۔۔
نورالحسنین اُردو ادب کا ایک ایسانام ہے جس نے اپنی ڈگر چلتے ہوئے اپنی منفرد شناخت قائم کی۔وہ ادب کے ہرمیدان کے غازی ہیں۔افسانہ لکھا تو جدیدیت کی انگلی تھامی مگر اپنی ڈگر آپ قائم کی،ناول لکھے تو پہلے ہی ناول’’آہنکار‘‘ سے اپنی شناخت میں چار چاند لگادئیے اور ثانی پریم چند کہلائے،مگر نورالحسنین کویہ پسند نہیں آیا اس لیے اُن کا دوسرا ناول منظرعام پر آیا ’’ایوانوں کے خوابیدہ چراغ‘‘ روایت سے ہٹ کر ،اَن چھوئے موضوع پر ناول لکھ ڈالا۔اس ناول پراُردو ادب کے ناقد عش عش کراُٹھے۔ایسا اچھوتا موضوع جس پر کسی نے اپنی قلم کو جنبش نہیں دی تھی۔تیسرا ناول ’’چاند ہم سے باتیں کرتاہے‘‘جو کے حال ہی میں زیورطبع سے آراستہ ہوا ہے اس ناول کے ذریعے نورالحسنین ناقدین کا امتحان لینا چاہتے ہیں۔اس ناول میں نورالحسنین نے ناول کے اجزائے ترکیبی سے بغاوت کی اور ناول کو نئی وسعتیں عطا کی۔
نورالحسنین نے صرف افسانے اور ناول ہی نہیں لکھے بلکہ خاکہ نگاری بھی کی اور تنقید میں بھی اپنے جوہر دکھلائے۔اُن کی تنقید پراب تک دو کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔اور خاکہ نگاری پر ایک کتاب’’خوش بیانیاں ‘‘کے عنوان سے دادوتحسین حاصل کرچکی ہے۔اس کے علاوہ ڈرامے ،فیچرز،ریڈیائی ڈراموں پر ’’انسان امر ہے‘‘کتاب بھی قارئین سے دادوتحسین حاصل کرچکی ہے۔
نورالحسنین بنیادی طور پر ایک افسانہ نگار ہیں۔اُن کے افسانے کا مطالعہ کرنے پر قاری داددئیے بغیر نہیں رہ سکتا۔وہ نہایت دلچسپ انداز میں اپنے افسانے کا تانا بانا بنتے ہیں۔اُن کے افسانے میں پلاٹ ،کردار،اسلوب اور منظرنگاری سب کچھ بہت ہی عمدہ ہوتی ہے جسے پڑھ کر قاری اُس ماحول کو اپنے سامنے چلتاپھرتا محسوس کرتاہے۔کیونکہ نورالحسنین اپنے ہر افسانے کے کردار میں خود جیتے ہیں۔۔۔
’’ڈرامہ ‘‘میری پہلی شناخت ہے۔لیکن بحیثیت ڈرامہ نگار نہیں بلکہ ڈرامہ آرٹسٹ۔اسی آرٹسٹ نے مجھ سے کئی کام کروائے۔بچپن میں شرارتیں ،تو بامعنی گفتگو کی چاہ میں مطالعے کا شوق پیداکیا۔جوانی میں قدرم رکھا تو وہ سارے اسرار مجھ پرکھول دئیے جس کا سحر مقابل کو باندھے رکھتاہے۔اگر میں یہ کہوں کہ مجھے افسانہ نگار بنانے میں بھی اسی آرٹسٹ کا ہاتھ ہے تو شاید غلط نہ ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ میں اپنے افسانوں کے ہرکردار میں خود جیتاہوں ،جوجھتاہوں،الجھتا ہوں،کبھی سمٹ جاتاہوں اور کبھی بکھر جاتاہوں۔‘‘
(نورالحسنین،انسان امر ہے،ص:۵)
نورالحسنین نے بے شمار اسٹیج ڈرامے اور ریڈیائی ڈرامے لکھے۔اُن کا خوب چرچا بھی ہوا ،اور آکاش وانی اورنگ آباد کے سامعین نے خوب سراہا بھی مگر شوق اور جنون میں لکھے یہ ڈرامے نہ انھوں نے شائع کروائے اور نہ محفوظ رکھے ۔جب ضرورت پڑی ڈرامہ لکھ ڈالا ، اُدھر وہ اسٹیج ہوا ،اور معاملہ ختم ہوگیا۔اس طرح سے ڈراموں کااہم ذخیرہ ضائع ہوگیا۔ شاید اس کا افسوس نوالحسین کو بھی ہے ۔
’’میں نے بے شمار اسٹیج ڈرامے لکھئے ۔ لیکن نہ ان کی اشاعت پر توجہ دی اور ناہی انھیں محفوظ رکھ سکا۔‘‘ (نورالحسنین،انسان امر ہے، ص:۵)
مگر فطرت کی دی ہوئی صلاحیتوں سے وجود میں آنے والے ادب کا یوں ضائع ہوجانا شاید قدرت کو بھی پسند نہیں آیا ۔قدرت نے اُس ادب کی بقا کے لیے کچھ ایسا انتظام کیا کہ نورالحسنین آکاش وانی اورنگ آباد سے منسلک ہوگئے اور اُن کے لکھے ڈرامے کچھ حد تک محفوظ ہوگئے۔اس امرکو نورالحسنین خوبی قسمت سے تعبیر کرتے ہیں۔۔۔
’’وہ تو خوبی قسمت کہئے کہ اورنگ آباد میں ریڈیواسٹیشن کا دوبارہ قیام عمل میں آیا اور روزانہ آدھا گھنٹہ اُردو نشریات کا وقت مقررہوا اور میرے کچھ مسودے محفوظ ہوگئے۔‘‘(نورالحسنین،انسان امر ہے،ص:۵)
نورالحسنین نے آکاش وانی اورنگ آباد کے لیے سب سے پہلا ڈرامہ’’انتظار ‘‘کے عنوان سے تحریرکیا۔اس ڈرامہ میں کلیدی کردار خود انھوں نے ادا کیا اور اُن کا ساتھ دیا تھا رضیہ بیگم نے جو کہ ایک ریڈیوآرٹسٹ تھیں۔یہ ڈرامہ آکاش وانی کے سامعین نے خوب پسند کیا ۔ اس ڈرامے کے نشر ہونے کے بعد خطوط پر خطو ط پسندیدگی کے اظہار کے لیے آئے۔اس کے بعد نورالحسنین کے ڈرامے اور فیچرز ایک کے بعد ایک نشر ہونے لگے۔اُس دور میں نورالحسنین کے نشر ہوئے ڈراموں میں’’بھاگ متی،رشتہ،زندگی،سویرا،بندھن انسانیت کا،چیخ،اور عدالت ‘‘وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔اس کے علاوہ بھی نورالحسنین نے بہت سارے ڈرامے لکھے مگر ستم ظریفی وقت کہیے کہ وہ تمام محفوظ نہ رہ سکے۔
نورالحسنین کا ایک ڈرامہ ’’بیگم صاحبہ‘‘بہت زیادہ پسند کیا گیا۔جو آج بھی آکاش وانی اورنگ آباد سے گاہے بگاہے نشر ہوتا رہتا ہے۔اس ڈرامہ کونورالحسنین نے خود پروڈیوس کیا تھا۔اس ڈرامے کا پلاٹ محبت ہے اور مرکزی کردار، ایک اصول پسند سخت مزاج جاگیر دار خاتون ہے۔ جسے بیگم صاحبہ کا نام دیا گیا ہے۔پورے ڈرامے کو اسی خاتون کے اطراف بُنا گیا ہے۔جو اپنے خاندانی وقار سے کھلواڑ کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دیتیں۔اپنے اصولوں کو کسی قیمت پر ٹوٹنے نہیں دیتیں۔توڑنے والوں کوسخت سزا دیتیں ہیں چاہے وہ کوئی ہو۔تودوسری طرف دوسروں کی صلاحیتوں کا اعتراف بھی کرتیں ہیں اور انھیں جلا بخشنے کی کوشش بھی کرتی ہیں۔۔۔۔
بیگم صاحبہ:حیدر ہم تمہاری صلاحیتوں کے قائل ہوگئے۔تم نے واقعی اپنی کوششوں سے ہماری جاگیر میں تعلیمی انقلاب پیدا کیا۔
حیدر :یہ سب کچھ آپ ہی کی سرپرستی اور فیاضی کا نتیجہ ہے۔بیگم صاحبہ!
بیگم صاحبہ:حیدر!اس میں ہماری فیاضی کو اتنا دخل نہیں جتنا تمہاری ایمانداری کو ہے اور ہم ایماندار ی کو بے حد پسند کرتے ہیں۔حیدر !ہماری ایک فطرت ہے۔بے ایمانی کرنے والا،اصولوں کو توڑنے والا،ہمیں بالکل پسند نہیں۔آج ہم تمہیں اپنی اصول پسندی کا وہ واقعہ سناتے ہیں جسے شاہ بانو بھی نہیں جانتی۔حیدر!آج سے برسوں پہلے ہمارے گھر میں ایک دکھیاری عورت آئی تھی۔اس پر ترس کھاکر ہم نے اسے اپنے محل میں ملازم رکھ لیا۔وہ بڑی خطامہ تھی۔اس نے شاہ بانو کے والد پر ڈورے ڈالنے شروع کئے۔ہم خاموش تماشائی بنے حالات کا مشاہدہ کرتے رہے اور جس دن ہمیں احساس ہوا کہ یہ ہمارا منصب،ہماری زندگی ،یہ سب یہ خطامہ چھیننا چاہتی ہے تو ایک روز خو دہم نے ہی۔۔۔تم سن رہے ہو نہ حیدر!
حیدر:جی۔جی بیگم صاحبہ۔
بیگم صاحبہ:تو ایک دن ہم ہی نے ان دونوں کو قتل کرادیا۔حیدر ہمارا ،ایک اصول ہے۔ایک انداز ہے۔ جو بھی ہمارے اعتماد کو ٹھیس پہچانے کی کوشش کرتاہے۔ہمارے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے اور ہم اُس وقت تک خاموش نہیں رہتے جب تک اسے نیست ونابود نہ کردیں۔
(نورالحسنین ،انسان امرہے،ص:۱۹۰)
بیگم صاحبہ کے کردار میں نورالحسنین نے تمام اوصاف مجتمع کردئیے ہیں۔ جہاں وہ اُصول پسند وسخت گیر ہیں وہیں وہ ہمدردی کا جذبہ بھی رکھتی ہیں۔اپنے ماتحتین کی خوشیوں میں شامل بھی ہوتی ہیں۔اُن کی ہرطرح سے مددبھی کرتی ہیں۔۔۔
بیگم صاحبہ:کون!مرلی دھر!آؤ اتنی دورکیوں کھڑے ہو!یہاں آؤ،کرسی پر بیٹھو۔۔۔ہوں کہو!تمہاری منجوکیسی ہے۔۔۔؟
مرلی دھر:آپ کی دعائیں ہیں بیگم صاحبہ۔۔۔اب تو وہ سیانی ہوچکی ہے اور میں آپ سے اُس کی شادی کی اجازت لینے آیاہوں۔
بیگم صاحبہ:لڑکا کیساہے؟
مرلی دھر:ہماری جماعت کا ہے۔ہماری برادری کا ہے۔اور سب سے بڑھ کر ہماری حیثیت کا ہے بیگم صاحبہ۔
بیگم صاحبہ:بہت خوب اس سے بڑھ کر اور خوشی کیا ہوسکتی ہے۔مرلی دھر!لیکن منجوکی شادی ہم کریں گے۔
ڈرامہ آگے بڑھتا ہے۔شاہ بانو ،حیدرعلی سے محبت کرنے لگتی ہے ،حیدرعلی بھی شاہ بانو کو چاہنے لگتا ۔اس بات کا پتہ بیگم صاحبہ کو بذریعہ دیوان کے معلوم ہوتاہے ۔بیگم صاحبہ حیدرعلی کو گولی ماردیتی ہیں اور بعد میں شاہ بانو کو بھی اور اس طرح ڈرامہ اختتام پذیر ہوتاہے۔۔۔ملاحظہ کریں۔
بیگم صاحبہ:دیوان صاحب!ان دونوں کو سپردخاک کردو۔بہ خدا ہم محبت کے دشمن نہیں۔لیکن اپنی خاندانی وجاہت کو کسی قیمت پر داؤ پر نہیں لگاسکتے۔ہم سنگ دل سمجھے جاتے ہیں۔لیکن دیوان صاحب!ان حقائق کے پیچھے ہماری آنکھیں کتنے آنسو بہاتی ہے کوئی نہیں جانتا۔
دیوان صاحب:جی بیگم صاحبہ
(غمگین موسیقی کی لہریں ابھر کر فیڈ آوٹ )
بیگم صاحبہ:آؤ مرلی دھر!ہاں ہم ہی نے تمہیں بلایا ہے۔تمہیں یاد ہوگا۔ہم نے کہا تھا منجو کی شادی کی تاریخ اور وقت ہم اپنی فرصت سے دیں گے۔
مرلی دھر:جی بیگم صاحبہ
بیگم صاحبہ:کل سے شادی کا اہتمام شروع کردو۔اب ہمیں فرصت ہی فرصت ہے۔۔۔ فرصت ہے۔۔
مرلی دھر:جی بیگم صاحبہ
نورالحسنین کا یہ ڈرامہ ’’بیگم صاحبہ‘‘اُردو ڈرامے کی ایک بہترین مثال ہے۔اس میں محبت بھی ہے ،جاگیردارانہ نظام کی جھلک بھی ہے ،سماجی مسائل بھی ہے ،ہندوستانی تہذیب کے عناصر بھی ہیں اور ہمدردی کا جذبہ بھی ہے۔
نورالحسنین کا ایک اور مثالی ڈرامہ ’’بندھن‘‘ہے ۔یہ ڈرامہ گنگاجمنی تہذیب کی علامت ہے۔راکھی جیسے پوتر تہوار پر بہن ،بھائی کو راکھی باندھتی ہے۔ بھائی راکھی کے اُس دھاگے کے بندھن میں بند ھ جاتاہے اور اپنی بہن کی حفاظت کی ذمہ داری قبول کرتاہے۔راکھی کے اُس بندھن کو برتتے ہوئے نورالحسنین نے یہ مثالی ڈرامہ رقم کیا ہے۔اس کا مرکزی کردار ڈگمبر(ڈاگا)ہے ۔جوکہ ایک غنڈہ ہے ۔اُس کی ایک بہن گیتاہے ۔ایک سیلاب آنے کے سبب سے اُن کا سب کچھ برباد ہوجاتاہے بچتے ہیں تو صرف یہ بہن بھائی۔جنھیں ایک شخص بچا لیتاہے جسے یہ دونوں بہن بھائی ماما کہتے ہیں۔ ڈگمبر اپنی بہن کی اچھی پرورش کے لیے خود پڑھائی نہیں کرتا اور ڈگمبر سے ڈاگا بن جاتاہے۔مگر اپنی بہن کی پرورش اچھے سے کرتاہے اُسے اپنے سے دور رکھتاہے تاکہ اُس کے غلط کاموں کے سبب اُس پر کوئی غلط اثر نہ پڑے۔ڈاگا اپنی بہن کو بے انتہا چاہتاہے۔اُس کی ہر چھوٹی سے چھوٹی خوشی کا خیال رکھتاہے ۔مگر حالات کچھ ایسے آتے ہیں کہ گیتا،کرشن کے ساتھ شادی کرلیتی ہے اور اپنے بھائی کو نہیں بتاتی۔ ڈاگا کو جب معلوم پڑتاہے تو وہ دونوں کی جان کا دشمن بن جاتاہے۔ایسے میں یوسف اُن کی مدد کرتاہے۔یوسف ،ڈاگا کی گینگ کا آدمی ہے۔اور گیتا کو اپنی بہن کہتاہے۔یوسف اور ڈاگا کے مکالمے ملاحظہ کریں۔۔۔
ڈاگا:کب تلک بچتے پھریں گے۔۔۔جس دن بھی میرے ہاتھ لگیں گے۔۔۔میں ان کو۔۔۔۔
یوسف:(بات کاٹتے ہوئے ،ڈرکر)مارڈالے گا۔۔۔؟
ڈاگا:ہاں!مارڈالوں گا ختم کردوں گا۔۔۔
یوسف:باس۔۔۔!تم اپن کو گلط نہیں سمجھا تو اپن تم کو ایک بات بولتاہے۔۔۔
ڈاگا:میں کسی کی کوئی بات سننا نہیں چاہتا،اور پھر میں جانتاہوں تم کیا کہوگے یوسف۔۔؟یہی نہ کہ میں اُسے معاف کردوں۔۔؟ یوسف! اگر تمہاری کوئی بہن تمہاری ساری محبتوں کو لات مارکر ،تمہاری مان مریاداکاگلا گھونٹ دیتی،تو بولو۔۔۔کیا تم اُسے معاف کردیتے۔۔۔؟
یوسف:باس!
ڈاگا:میں نے گیتا کی خاطر کیا کچھ نہیں کیا یوسف۔۔؟پوچھو مجھ سے ،میں نے کیا نہیں کیا۔۔۔؟آج بھی مجھے گوداوری کا وہ سیلاب یادہے۔ جب میرے ماں باپ مرا گھر بار سب کچھ بہہ گیاتھا، اس وقت اگر کچھ بچا تھا تو وہ صرف میری بہن گیتا تھی یوسف۔۔۔ میں نے اس کی خاطر اسکول کا بستہ پھینک کر ہاتھوں میں چاقوسنبھالا،چوریاں کیں،ڈاکے ڈالے،لیکن اسے اچھے سے اچھے اسکول میں پڑھایا، اپنے سے دور رکھا،تاکہ میری بدنام زندگی کا سایہ بھی اس پر نہ پڑے،اور ۔۔۔اور مرے اس سلوک کا اس نے کیا بدلا دیا۔۔؟میرے ہی منہ پر تھوک دیا۔میری راتوں کی نیند ،دن کا سکون سب کچھ چھین لیا ۔۔یوسف ۔۔۔اب تو میری محبت نفرت کا لاوابن چکی ہے۔میرے اندر کا وحشی جاگ اٹھاہے ،یوسف جب جب بھی میں اپنی محبت اور گیتاکے سلوک کو یادکرتاہوں تو میری آنکھوں میں خون اترآتاہے۔نفرت کے شعلے بھڑکنے لگتے ہیں۔جی چاہتاہے سب کچھ تباہ کرکے رکھ دوں۔یوسف۔۔۔میں تم سے پھرایک بار کہتاہوں ،تم میری گینگ کے ساتھی ہی نہیں میرے بھائی سے بڑھ کر ہو،لیکن مجھے روکنے کی کوشش مت کرنا،میں اس وقت تک خاموش نہیں بیٹھوں گا جب تک گیتااور کرشن کو ختم نہ کردوں۔۔۔سمجھے۔۔۔؟
اس بیچ یوسف گیتا اور کرشن کو دوتین بار ڈاگا سے بچاتاہے۔گیتا بھی ڈاگا کو بہت چاہتی ہے۔اس لیے کرشن کے باربار پولیس سے مددلینے کی بات کو رد کردیتی ہے ۔کرشن کہتاہے کہ آخر ہم کیا کرسکتے ہیں ،گیتا کہتی ہے کہ ایسے انسان کی تلاش جس کی بات بھیا کبھی نہ ٹال سکے۔اور تب وہ اُسے ماما کے بارے میں بتاتی ہے۔وہ ماماکے پاس جاتے ہیں اُسے پوری تفصیلات بتاتے ہیں ۔ماما ڈاگا کے پاس جاتاہے اور اُسے سمجھانے کی کوشش کرتاہے ۔ڈاگا غصے میں ماماسے گیتا کا پتہ پوچھتاہے اور اُسے مارنے کے لیے چلتاہے۔یہیں سے ڈرامے کا کلائمکس شروع ہوتاہے ۔نورالحسنین نے یہاں بڑی چابکدستی سے راکھی کے بندھن کا استعمال کیااور گنگاجمنی تہذیب کی جو مثال پیش کی ہے ۔یہ لطف تو ڈرامہ’’بندھن‘‘ سننے یا پڑھنے کے بعد ہی آسکتاہے۔
’’کھل جا سم سم‘‘نورالحسنین کاایک بہترین ڈرامہ۔یہ سوشل میڈیا اور آج کی نوجوان نسل کو مدنظر رکھ کر رقم کیا گیا ہے۔آج کی نوجوان نسل سے اخلاقی قدریں عنقا ہوگئیں ہیں۔رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کردی ہے۔سوشل میڈیا کا ہماری یہ نوجوان نسل بے دریغ استعمال ہی نہیں کررہی ہے بلکہ غلط استعمال کررہی ہے۔کس طرح سے نوجوان ایک دوسرے کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ جھوٹے محبت کے دعوے ہورہے ہیں ۔اس کے پس منظر میں کیا کچھ گل نہیں کھلائے جارہے ہیں ۔اس پر نورالحسنین نے اس ڈرامے کے توسط سے بھرپور روشنی ڈالی ہے۔سرپرست اور سماج کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے ۔
نورالحسنین نے اپنی ڈرامہ نگاری کے ذریعے سے سماجی اصلاح ،اخلاقی فکر وسوچ،تہذیب وتمدن ،قومی یکجہتی ،گنگا جمنی تہذیب ، بھائی چارگی جیسے اقدار کو پروان چڑھانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔وہ ماضی کی تاریکی میں بھٹکتے ہیں تووہیں سے مستقبل کی نوید بھی سناتے ہیں۔وہ مٹتی اخلاقی قدروں کے نوحہ گر بھی ہیں مگر اخلاقی قدروں کو پروان چڑھانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔اُن کے افسانوں کی طرح وہ ڈراموں میں بھی خود جیتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔اُن کے ڈراموں کا مرکزی خیال محبت ہے ۔وہ دنیا کو محبت کادرس دینا چاہتے ہیں اور محبت کے ذریعے سے ہی درج بالا تمام اقدار کا درس بھی دیتے نظرآتے ہیں۔
نورالحسنین نے یوں تو سیکڑوں ریڈیائی ڈرامے لکھے ہیں ۔اگر اُن تمام کاذکر کرتاچلوں تو پھر اسٹیج ڈرامے اور فیچرز اپر بات نہیں کرپاؤں گا۔حالانکہ مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ یہ الگ الگ عنوانات ہیں جن پر تفصیلی گفتگو کی جاسکتی ہے۔نورالحسنین نے بے شمار اسٹیج ڈرامے بھی لکھے مگر اُن کا مقدر بھی وہی ہوا کہ وہ محفوظ نہیں رہ سکے۔چند اسٹیج ڈراموں کو انھوں نے اپنی کتاب’’انسان امرہے‘‘میں شامل کیا ہے ۔اُنہی کے پس منظر میں اپنی بات کو آگے بڑھاتاہوں۔
’’انسان امر ہے‘‘نورالحسنین کا ایک ایساڈرامہ جس میں بے شمار سوالات ہمارے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں۔آزادی سے پہلے جو حسین خواب ہم نے دیکھے تھے ،اُن کی تعبیر کیا ہوئی۔روٹی ،کپڑا ،مکان آج بھی ہمارے پاس نہیں ہے۔کیوں سماج، مذہب اور فرقے کے بنیا د پربٹاہوا ہے۔کیوں حیوان آج بھی سراُٹھائے گھوم رہے ہیں اور مظلوم سرچھپائے رہنے پر مجبور ہیں۔کیوں عورتوں کی عصمتیں آج بھی محفوظ نہیں ہے۔کہاں ہے وہ امن سکون والا ملک جس کا ہم سے وعدہ کیا گا تھا۔شاید نورالحسنین اس ڈرامے کے ذریعے سے کہنا چاہتے ہیں۔۔۔
آؤ کہ آج غور کریں اس سوال پر
دیکھے تھے ہم نے جو ،وہ حسیں خواب کیا ہوئے
دولت بڑھی تو ملک میں افلاس کیوں بڑھا
خوش حالیِ عوام کے اسباب کیا ہوئے
کیا مول لگ رہا ہے شہیدوں کے خون کا
مرتے تھے جن پہ ہم وہ سزایاب کیا ہوئے
بے کس برہنگی کو کفن تک نہیں نصیب
وہ وعدہ ہائے اطلس وکمخواب کیا ہوئے
جمہوریت نواز، بشر دوست، امن خواہ
خود کو جو خود دئیے تھے وہ القاب کیا ہوئے
مذہب کا روگ آج بھی کیوں لا علاج ہے
وہ نسخہ ہائے نادر و نایاب کیا ہوئے
ہرکوچہ شعلہ زار ہے، ہر شہر قتل گاہ
یک جہتیِ حیات کے آداب کیا ہوئے

یہ نظم ساحر لدھیانوی کی لکھی ہوئی مگر نورالحسنین کے اس ڈرامہ کی بھرپور عکاسی میں اس میں پاتاہوں اسی لیے اس کو یہاں رقم کیا ہے۔ اس ڈرامہ میں نورالحسنین کے مکالمے چست اور برجستہ ہیں۔منظرنگاری بھی خوب ہے ۔ڈرامہ کا مطالعہ کرنے کے بعدجب قاری ، پچھلے چند سالوں کے دور پرنظرڈالتاہے تو وہ تمام مناظر جو اس ڈرامے میں نورالحسنین نے برتے ہیں اُس کے آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں۔ ڈرامہ کے اختتام پر نورالحسنین نے ابن آدم پر مقدمہ دائر کیا اُس پر طرح طرح کے الزامات عائد کئے ہیں ۔اس طرح نورالحسنین نے سماج کی برائیوں اور اُن کی وجوہات کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی ہے ۔ابن آدم کو پھانسی کی سزاد سنائی جاتی ہے مگر ابن آدم خود مستقبل سے نااُمید نہیں ہے ۔اُس کے الفاظ سے نورالحسنین نے اُمید بندھائی ہے کہ آنے والی نسلیں شاید اُن خوابوں کی تعبیر کرسکیں جو ہم نے دیکھے تھے۔۔۔
ابن آدم:جج صاحب!تم مجھے سزائے موت دے سکتے ہو،لیکن اس دنیاسے ابن آدم کو ختم نہیں کرسکتے۔ کیونکہ قدرت ابھی مجھ پر اعتماد کرتی ہے میں دیکھ رہاہوں ۔بچوں کے چہروں پر ابھی معصومیت زندہ ہے ابھی باغوں میں پھول کھلتے ہیں۔اور پھولوں سے خوشبومہکتی ہے،ابھی کھیتوں میں فصلیں لہلہاتی ہیں۔ ابھی دریاؤں میں روانی ہے ۔۔یادرکھئے۔۔۔میراختم ہونا آدم کا خاتمہ نہیں۔۔ابھی قدرت کے پیدائی کے سارے ہی کارخانے اسی طرح باقی ہیں،ابھی آسمان میں چاند اور سورج موجود ہیں۔ابھی روشنی زندہ ہے۔ جج صاحب!یہ سچ ہے کہ میں قاتل ہوں لیکن اب میں اپنے ہی مقتول سے محبت کرنے لگاہوں، محبت کرنے لگا ہوں۔۔۔یہ محبت بے لوث ہے۔۔یہ محبت پھر ایک بار پروان چڑھے گی۔۔یہ فضاء پھر ایک بار مہکے گی۔۔نغمے گونجیں گے۔۔میں زندہ رہوں یا مرجاؤں یہ دنیا آباد رہے گی۔۔یہ دنیا آباد رہے گی۔۔۔
جیساکہ میں نے کہا کہ نورلحسنین ماضی کے نوحہ گرہیں مگر اُسی ماضی سے وہ روشنی بھی پاتے ہیں۔مستقبل کی رمق دمق بھی دکھاتے ہیں وہ مایوس نہیں ہوتے بلکہ آگے بڑھنے ،اور حالات سے مقابلہ کرنے کا درس دیتے ۔اُن کا ماننا ہے کہ مسلسل محنت کے بعد کامیابی یقینی ہے۔
’’قیدی‘‘ایک ایسا ڈرامہ ہے جس میں شوہر کے معذور ہونے پر بیوی کمائی کرتی ہے۔وہ نوکری کے لیے گھر سے باہر نکلتی ہے تو لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں۔عورت اُن مسائل سے کس طرح گذرتی ہے۔اُس کی بھر پور عکاسی نورالحسنین نے کی ہے۔ایک ہندوستانی عورت کی ترجمانی بھی کرنے کی انھوں نے کوشش کی ہے۔ہندوستان میں عورت شوہر کو پتی پرمیشور مانتی ہے اور ہر طرح سے اُس کی خدمت کرتی ہے۔شوہر جب مایوس ہوجاتاہے ،پریشانی میں مبتلاہوجاتاہے تب عورت اُس کی ڈھارس بندھاتی ہے۔مگر بدلے میں اُسے سوائے ذلت ورسوائی اور شکوک کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔نورالحسنین کے پاس عورت مظلوم ہے مگر نڈر ،بہادر ،حالات سے مقابلہ کرکے اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہوئی عورت نورالحسنین کا پسندیدہ کردار ہے۔
’’مرض پکڑا گیا‘‘ڈرامہ آج کے ڈاکٹروں نے جو اپنے مقدس پیشے کو تجارتی پیشہ بنالیا ہے اُس کے پس منظر میں ہے ۔ہر جگہ ڈاکٹرس کے کمیشن مقررہے ،چھوٹے مرض کو بڑھانا اور بعد میں علاج کے نام پر لاکھوں روپیہ اینٹھنا،آج کے ڈاکٹروں کا شیوا ہوگیا ہے۔ ’’آیا ہوا مریض واپس نہیں کیا جائے گا۔‘‘اس ڈائلاگ کے ذریعے بار بار اسی نظریہ پر چوٹ کی گئی ہے۔
’’حضور کا اقبال بلند رہے‘‘۱۸۵۷ء ؁ کی جنگ آزادی کے پس منظر میں لکھا گیا ڈرامہ ہے۔جس میں مجاہدین نے دلی پر قبضہ کرکے بہادرشاہ ظفر کو انقلاب کی کمان سنبھالنے کی گذارش کی تھی اور بادشاہ نے قبول بھی کرلیا تھا۔مگر کچھ غداروں کے سبب سے یہ آزادی کا خواب، خواب ہی رہ گیا۔اور بہادرشاہ ظفر کو کالے پانی کی سزا سنائی گئی ۔تمام شہزادوں کے سرقلم کردئیے گئے۔مغل خاندان کا چراغ بجھادیا گیا۔اس میں نورالحسنین نے ڈرامے کے تمام اجزائے ترکیبی کے ساتھ انصاف کیا ہے۔اس ڈرامہ کو نورالحسنین کا شاہکار ڈرامہ کہا جاسکتاہے۔اور شاید اسی لیے اس ڈرامے کو ممبئی یونیورسٹی نے گریجویشن کے نصاب میں جگہ دی ہے۔
نورالحسنین کے پاس ریڈیائی سیریل کا ایک لامتناہی سلسلہ ملتاہے۔جن میں میرامن کی ’’باغ وبہار‘‘حیدر بخش کی ’’آرئش محفل‘‘ یعنی حاتم طائی، سند باد جہازی،علی بابا چالیس چور،میر حسن کی مثنوی’’سحرالبیان‘‘دیا شنکرنسیم کی مثنوی’’گلزار نسیم‘‘داستان گل بکاؤلی،تاریخ کے زندہ کردار،۱۸۵۷ء ؁ کی جنگ آزادی پر مبنی پورے تیرہ ،تیرہ (۱۳۔۱۳)ایپی سوڈڈرامے کی شکل میں نشر کئے گئے ۔ اس کے علاوہ اُردو کے کلاسیکی شعراء کی حیات اور فن پر ’’غزل اُس نے چھیڑی‘‘اور ’’میں غزل ہوں‘‘۔اہم نثر نگاروں کے فن اور حیات پر سیریل ’’فن کی عدالت میں‘‘اس کے علاوہ بہت سے فیچرز نورالحسنین کے پاس ہمیں ملتے ہیں۔اُن کے ہر سیریل پر تفصیلی گفتگو ناممکن تو نہیں مگر مشکل ضرورہے ۔اور مضمون کی طوالت کا ڈر بھی۔
میرامن کی ’’باغ وبہار‘‘حیدر بخش کی ’’آرئش محفل‘‘یعنی حاتم طائی، سند باد جہازی،علی بابا چالیس چور،میر حسن کی مثنوی ’’سحرالبیان‘‘ دیا شنکرنسیم کی مثنوی’’گلزار نسیم‘‘داستان گل بکاؤلی،یہ تو کلاسیکی ادب کا حصہ ہے مگر نورالحسنین نے انھیں ڈرامائی شکل میں تبدیل کردیا۔اور اُردو کے بیش بہاخزانے کو سامعین تک پہنچا دیا ۔آج بھی یہ تمام سیریل آکاش وانی اورنگ آبادسے نشر کئے جاتے رہتے ہیں۔اس کے علاوہ اُردو کے مشہور شعراء اور ادیبوں پر ’’فن کی عدالت میں‘‘مقدمہ چلاکر نورالحسنین نے اُن شعراء اور ادیبوں کی حیات اورفن سے سامعین کو واقف کرانے کی کوشش کی ہے ۔اُن ادیبوں کے مشہور کرداروں کو بھی نورالحسنین نے اس سیریل کے ذریعے سے عدالت کے کٹ گہرے میں لاکھڑا کیا ہے۔اور جواعتراضات اُس ادیب پر اٹھائے گئے تھے اُن کا جواب انھوں نے اُن کے کرداروں کے ذریعے سے دینے کی کوشش کی ہے۔’’غزل اُس نے چھیڑی‘‘کے ذریعے سے نورالحسنین نے غزل کے زبانی غزل کی تاریخ پر ،اُس کے آغاز وارتقاء پر اور شعراء واُن کے کلام پر بھی بھر پور روشنی ڈالی ہے۔اس کے علاوہ ’’آگہی کے خزانے ‘‘کے عنوان سے نورالحسنین نے ایک ریڈیائی سیریل شروع کیا تھا جس میں انھوں نے مختلف زبانوں کے شاہکار آفسانوں کو ڈرمے میں تبدیل کرکے آکاش وانی اورنگ آباد سے نشر کئے تھے۔نورالحسین کے یہ تمام شاہکار ڈرامے اورفیچرز سننے اور پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں اوریہ اُردو ادب کا بیش بہا خزانہ ہے ۔۔۔امید کہ تنقید نورالحسنین کی ڈرامہ نگاری کے ساتھ انصاف کرے۔
اور خاص بات یہ کہ ان تمام سیریل کو نورالحسنین نے خود پروڈیوس بھی کیا ہے اور اپنی صداکاری کے جوہر بھی دکھائے ہیں۔یہ اُن کی انفرادیت ہے ۔اور اگر میں یہاں نورالحسنین کی صداکاری کا تفصیلاً نہ سہی مختصراً ذکر نہ کروں تو ایک بڑے صداکارکی صداکاری کے جوہر سے ناآشنا رہیں گے۔
نورالحسنین کی صداکاری کے تعلق سے یہ کہاجائے کہ وہ صداکاری میں یدطولیٰ رکھتے ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔کیونکہ راقم کو نورالحسنین کے ساتھ ڈراموں میں کام کرنے کا اتفاق ہوا ہے اور وہ بھی اُن کے سبکدوشی کے آخری سال میں۔نورالحسنین ایک ہی ڈرامہ میں دودو اور بعض دفعہ تین کردار کرتے ہوئے میں نے دیکھا ہے۔ اور اُن کی خاص بات یہ ہے کہ ہر آواز دوسری آواز سے منفرد اور انداز بھی جداگانہ ہوا کرتا تھا۔کبھی وہ ایک ضعیف کی آواز میں مکالمہ اداکررہے تھے تو تبھی وہ ایک منچلے نوکر کی بھی آواز نکالاکرتے تھے ۔کبھی کسی معصوم بچے کی آواز نکالنے کا ہنر بھی وہ جانتے تھے۔اُن کے ریڈیائی ڈرامہ کے ساتھیوں سے جب میری گفتگو ہوئی تو انھوں نے مجھ کو بتایا کہ نورالحسنین پانچ الگ الگ طرح کی آواز یں نکالنے کا ہنر جانتے ہیں۔کبھی وہ بادشاہ کے کردار میں ہوتے تو نقیب بھی بن جایا کرتے تھے ۔کبھی مرکزی کردار میں ہوتے تو بعض دفعہ فوراً ضمنی کردار کی صداکاری بھی انجام دے دیتے تھے ۔ہم سب حیران وپریشان نورالحسنین صاحب کی طرف دیکھا کرتے تھے۔میں جب اُن سے دریافت کیا تو انھوں نے کہا کہ میاں کردار میں اترکر اُسے جینا سیکھو۔وہاں تم کو یہ بھولنا ہوگا کہ تم امجد ہو بلکہ جو کردارکی تم صداکاری کررہے ہو اُسی کو بھر پور طریقے سے جیو،صداکاری آسان ہوجائے گی۔مگر میرے لیے یہ بہت مشکل تھا۔۔۔
کاش میں یہاں نورالحسنین کی صداکاری کے نمونے پیش کرسکتا۔آکاش وانی اورنگ آباد سے ہر بدھ کو ایک گھریلو سیریل نشر کیا جاتاہے ’’باتو ں باتوں میں‘‘۔اس سیریل میں تین کردار ہوتے ہیں مگر تیسرا کردار سب سے اہم ہوتاہے ۔وہ تیسرا کردار کبھی ایک تجربہ کاربوڑھا ہوتاہے ،تو کبھی ایک نوجوان،کبھی ایک کندذہن انسان،کبھی سٹھیایا ہوا بوڑھا،کبھی پاگل،غرض طرح طرح کے انسانوں کی صداکاری اس تیسرے کردار کو کرنی ہوتی ہے۔اور اس سیریل سے جو سبق یا درس دینا ہوتاتھا وہ یہی تیسرا کردار ہی کے ذریعے سے دیا جاتا تھا۔نورالحسنین اس کردار کو بخوبی نبھایا کرتے تھے۔کبھی کبھی تو میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ بجٹ نہ ہونے کے سبب سے صداکاروں کو نہیں بلایا جاسکتاتھا تو مرکزی کردار کے ساتھ ساتھ نورالحسنین یہ تیسرا کردار بھی خود ہی ادا کردیا کرتے تھے وہ بھی آواز کے تنوع کے ساتھ کے آسانی سے پہچانے بھی نہیں جاتے تھے۔
ڈراموں میں رومانی کردارکی صداکاری اکثر نورالحسنین اداکیا کرتے تھے۔دوسرا کوئی بھی اچھی اور پختہ صدارکاری نہیں کرپاتا تھا ۔ مگر بعض دفعہ نورالحسنین اسرار کرکے اپنے ساتھی آرٹسٹوں سے رومانی صداکاری کرواتے تھے ۔مگر اُن میں کی صداکاری میں وہ بات پیدا نہیں ہوتی تھی۔تب نورالحسنین صاحب کے اداکئے ہوئے الفاظ مجھے یا د ہے۔کہتے تھے۔۔۔’’یارو کیا تم لوگ اپنی بیوی سے کبھی پیار محبت کی باتیں نہیں کرتے ۔جب تک نہیں کروگے یہ رومانی صداکاری تم نہیں کرسکتے۔‘‘سب اس پر ہنس پڑتے ۔مگر کتنی گہری بات پوشیدہ تھی ان الفاظوں میں۔خوش حال زندگی کا ایک بہت بڑا درس حسنین صاحب نے اتنی آسانی سے دے دیا تھا۔
نورالحسنین نے آکاش وانی اورنگ آباد کے لیے صرف اُردو پروگرام ہی نشر نہیں کئے بلکہ اُن کا ایک بہت مشہور پروگرام ’’فون فرمائش ‘‘ہوا کرتا تھا ۔لوگ اُس کا انتظار کیا کرتے تھے۔کیونکہ لوگوں کو بذات خود اپنے پسندیدہ شخصیت سے بات کرنے کا موقع ملتاتھا۔ فون پر گفتگو کرتے ہوئے نورالحسنین لوگوں سے بے تکلف باتیں کیا کرتے تھے ۔یہاں میں نے انھیں ایک ماہر نفسیات کی حیثیت سے دیکھا ہوں کیونکہ فون کرنے والا کبھی نوجوان ہوتا،کبھی بوڑھا،کبھی کسان،کبھی نائی غرض کہ طرح طرح کے لوگ فون کرتے اور نورالحسنین اُن سے وہ گفتگو کرتے جووہ کرنا چاہتے تھے اور وہ گفتگو اُن کی پریشانی میں معاون وہ مددگارہوتی تھی۔بات کرنے والا اُن سے اپنے ذاتی مسائل میں اُن سے مشورہ کرتا اور وہ خود بڑی دلجوئی کے ساتھ اُن سے بات کرتے ،اُن کی بات کو رد نہیں کرتے تھے ،انھیں مناسب مشورہ دیتے ۔
آج بھی مراٹھواڑہ ڈویژن میں نورالحسنین اپنی صداکاری کی بدولت بہت جلد پہچانے جاتے ہیں۔چند مثالیں پیش کر کے اپنی بات ختم کرتاہوں۔۔۔ابھی چند دن پہلے نورالحسنین صاحب کسی کام کی غرض سے میرے اسکول آئے۔ہمارے پاس ایک صاحب کا نیا تقرر ہوا ہے ۔حسنین صاحب کی آواز سن کر انھوں نے کہا کیا آپ وہ فون فرمائش والے نورالحسنین ہیں۔حسنین صاحب نے کہا ہاں میں وہی ہوں۔ مگر قابل ذکر بات یہ ہے کہ نورالحسنین کو آکاش وانی سے سبکدوش ہوئے آٹھ سال کا عرصہ بیت چکاہے مگرآج بھی اُن کی آواز لوگوں کے ذہن ودل میں جگہ بنائے ہوئے ہے۔
ایک اور دلچسپ واقعہ ہے۔ایک دفعہ کسی مقام سے اسکول کے طلباء سیر وتفریح کے لیے اورنگ آباد آئے تھے۔ آکاش وانی اورنگ آباد کو بھی وزِٹ کرنا چاہتے تھے۔پر اجازت نہ ہونے کے سبب سے وہ اندر نہ جاسکے۔حسنین صاحب پان کھانے کی غرض سے باہر نکلے اتنے سارے بچوں اور اساتذہ کو وہاں باہر کھڑا دیکھا تو استفسار کیا کہ کہاں سے آئے ہیں ،یہاں کیوں رک گئے وغیرہ وغیرہ اساتذہ نے جواب دیا کہ ہم آکاش وانی دیکھنا چاہتے تھے ۔حسنین صاحب نے کہا یہاں دیکھنے لائق کوئی چیز نہیں ،ریکارڈنگ روم ، براڈ کاسٹنگ آفس وغیرہ ہیں ۔تب اُن اساتذہ نے کہا کہ بچے نورالحسنین کو دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔شاید نورالحسنین نے دل میں یہ سوچا ہوگا کہ کیا میں کوئی آثارقدیمہ ہوں جسے بچے دیکھنا چاہتے ہیں۔خیر حسنین صاحب نے اسٹیشن ڈائریکٹر سے اجازت نامہ لے کر انھیں آکاش وانی دکھائی اور باہر لاکر چھوڑ ا اور خداحافظ کہا۔تب بچے اور اساتذہ عجیب تذبذب کاشکار نظر آئے تو حسنین صاحب نے کہا کیا بات ہے ؟تو انھوں نے جواب دیا کہ صاحب آپ نے تو سب بتادیا مگر نورالحسنین تو بتایا ہی نہیں۔۔۔تب نورالحسنین صاحب نے ہنستے ہوئے جواب دیا ’’ناچیز کو ہی نورالحسنین کہتے ہیں۔۔۔‘‘اساتذہ تو اساتذہ تمام بچے نورالحسنین سے ہاتھ ملانے کے لیے ٹوٹ پڑے۔۔۔
اسی طرح کا ایک اور واقعہ حسنین صاحب کے ساتھ تب پیش آیا جب وہ نانڈیڑ یا پھربھنی سے اپنے چند احباب جن میں بشر نواز بھی تھے واپس اورنگ آباد آرہے تھے ۔ناشتے کی غرض سے بسمت شہر کے قریب کسی دھابے پر رُکے۔حسنین صاحب اپنے دوستوں سے باتیں کررہے تھے ۔وہاں ایک بچہ بڑے غورسے نورالحسنین صاحب کی باتیں سن رہا تھا۔کچھ دیر باد حسنین صاحب کے پاس آیا اور کہا کیا آپ وہی ہیں جو ریڈیو پر آتے ہیں۔۔۔حسنین صاحب نے کہاہاں میں وہی ہوں۔۔۔تو اُس بچے کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا اور خوشی کے مارے اپنے ساتھیوں کو چیخ کر کہا۔۔۔’’ارے اپنے ڈھابے پہ پیش کش نورالحسنین آئے ہیں۔‘‘اتنا سنتے ہیں تمام ڈھابے والے دوڑ پڑے حسنین صاحب سے ہاتھ ملائے اور ضیافت شروع ہوگئی ۔طرح طرح سے کھانے لاکر پروسے گئے۔بشر صاحب نے حسنین صاحب سے مخاطب ہوکر کہا’’ میاں واپس کرو ۔۔۔ورنہ سب کے پیسے دینے پڑیں گے۔‘‘حسنین صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کھائیے آگے کا آگے دیکھا جائے گا۔۔
– – – – – – –
از: سید امجدالدین قادری
ریسرچ اسکالر،شعبہ اُردو،
ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی،اورنگ آباد
Syed Amjaduddin Quadri
Research Scholar,
Dept. Of Urdu
Dr. Baba Saheb Ambedkar Marathwada University, Aurangabad – 431001
Mob:- 9028831692
E-mail:-

pp_amjad
سید امجدالدین قادری
Share

One thought on “نورالحسنین کے ریڈیائی ڈرامے اورفیچرز ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سید امجد الدین قادری”

Comments are closed.

Share
Share