ممتازمفتی : ممتازادیب و صحافی – – – – – – مہرافروز کا ٹھیواڑی

Share
mumtaz-mufti
ممتاز مفتی

۲۱ ویں برسی کے موقع پر
ممتاز مفتی : ممتاز ادیب و صحافی

مہر افروز کا ٹھیواڑی
صدر شعبہء انگریزی ضلع تربیتی و تعلیمی ادارہ
ڈایٹ دھارواڑ.کرناٹک

پچھلے دنوں ایک پاکستانی مفکر سے بات ہورہی تھی انہوں نے کہا برصغیر کوئی بڑا ادیب پیدا نہیں کرسکا.نہ کرسکے گا .میں نے پوچھا کیا وجہ ہے ؟؟؟
انہوں نے جواب دیا بڑے ادب کو لکھنے کے لئے ٹیابوز کو توڑنا ضروری ہے جاری اور عایئز کردہ نظام اور ازم کے خلاف بغاوت کرنی ہوتی ہے .نیا نظام سامنے لاکر بات کرنی ہوتی ہے تب کہیں جاکر ادب کی پیدائیش ہوسکتی ہے ورنہ نہیں .

میرے خیال سے اپنے زمانے کا ہر ادیب دو چیزوں کوضرور آزماتا ہے ایک وہ اپنے ازم کے خلاف بغاوت کرتا ضرور ہے جب اس میں کامیاب نہیں ہوتا تو پھر سیاسی اور ستائیشی سائیبان کی پناہ گاہ میں ضرور آجاتا ہے جہاں اسے نہ صرف پناہ ملے بلکہ پشت پناہی بھی ملے .پھر اگر وہ اپنی بغاوت اور ازم سے یو ٹرن ہی کیوں نہ لے لے …..
ہر زمانے کا ادیب اگر ان فارمولوں کو آزماتا ضرور ہے .پھر اسکے اپنے قلم کی طاقت ,صداقت خلوص یا سچائی ہی ہے جو اسے منواتی ہے ازم سے جڑنا یا بچھڑنا نہیں ممتاز مفتی اپنی نام کی طرح ممتاز اور الگ بننے میں کس وجہ کامیاب رہے اسکی ایک لمبی بحث ہوسکتی ہے ممتاز مفتی کا نام بحرحال اردو کے نمائیندہ ادیبوں میں لیا جاتا رہیگا جنہوں نے اردو ادب میں افسانوں ،خاکوں ،سفر ناموں ،اور نئی سمت و جہت کے متعارف کرانے کے لئے لیا جاتا رہیگا… ممتاز مفتی کی پیدایش 11ستمبر 1905بٹالہ ضلع گورداس پور مشرقی پنجاب کی ہے جو ایک مدرس مفتی محمد حسین کے گھر میں ہوئی
ممتاز حسین نے 1932سے 1945تک پیشہء درس و تدریس کو اپنایا .دوسری جنگ عظیم نے جہاں پرانے سارے ازم کے چھیتڑے اڑا دئے وہیں نئے ازمس کی بنیاد رکھی اور بنیاد پرستی عقیدت اور ایمانی جذبوں کو کھدیڑ بھی دیا.ایسے وقت اگر شاعر ادیب اور لکھاری روزی روٹی کے لئے مذہب بیزاری اور فنون لطیفہ کی طرف رجوع کرتے ہیں تو یہ تو فیشن کہلاییگا شخصی بے راہ روی نہیں .
اپنے وقت کے دیگر شعراء و ادیبوں کی طرح مفتی ممتاز نے بھی ریڈیو اسٹیشن کا رخ کیا فلموں میں بھی قلم آزمائی کی .پھر جب سرپرستی ملی تو 1951میں حکومت پاکستان کی انفارمیشن سروس سے وابستہ ہوئے .مختلیف عہدوں پر فائیز رہنے کے بعد 1962میں سبکدوشی پائی مگر قلم بدستور چلتا رہا.
آپکا ناول "علی پور کا ایلی” ،پہلا افسانوی مجموعہ "ان کہی "خاکوں کا مجموعہ "پیاز کے چھلکے "انتہائی مشہور ہوئے .
غیر معروف ادب کے دلداہ فرائیڈ کی جنسی نفسیات کے دلدادہ مفتی کا قلم مذہب بیزاری اور نفسیاتی تہہ داریوں میں چھپی گنجلک نفسیاتی الجھنوں کے شکار کردار وں کے ارد گرد گھومتی کہانیوں سے ہوئی .جو کافی مقبول بھی ہوئیں .کیونکہ وہ اپنے زمانے کے روش سے ہٹ کر. تھیں
تقسیم ہند کے خلاف ذہنیت والے اس شخص نے بعد میں اپنے ازم سے یو ٹرن ماری اور اسلامیہ کالج لاہور سے ڈگری حاصل کرنے والے اس گریجویٹ نے "ان کہی”” کے علاوہ” گہما گہمی ” "چپ ” "روغنی پتلے "اور "سمے کا بندھن” جیسے افسانوی مجموعے بھی دیئے.
"الکھ نگری” اور” علی پور کا ایلی” آپ کے سوانحی ناولوں میں شمار ہوتے ہیں.” ہند یاترا "اور "لبیک "سفر نامے ہیں .خاکہ نگاری میں” اوکھے لوگ، "پیاز کے چھلکے ” ،اور” تلاش”،جیسی کتابوں کے خالق نے منشی پریم چند ایوارڈ کے علاوہ ستارہء امتیاز بھی اپنی جھولی میں گرا لیا.اور 27اکتوبر 1995کو اس دار فانی کو لبیک کہا .
بعد میں آپ پر حسب معمول تحقیق بھی ہوئی عقیل روبی نے ان پر علی پور کا مفتی لکھا اور ڈاکٹر نجیبہ عارف نے ممتاز مفتی کا فکری ارتقا کے عنوان سے اپنا تحقیقی مقالہ بھی لکھا .
جو ممتاز مفتی کی تہہ داری نفسیاتی گھتیوں میں الجھے کرداروں سے بہت متاثر نظر آتی ہیں .ممتاز مفتی پر ابتداء میں فحش نگاری کا الزام بھی تھا.مگر افراتفری کے عالم میں مبتلا زندگی میں جہاں برہنگی کے نظارے عام ہوں وہاں اگر یہ ادب میں بھی در آئیں تو یہ فحش نگاری نہیں کہی جاسکتی .یہ ڈاکٹر نجیبہ کا جواز ہے . اردو افسانے میں نفسیاتی تحلیل نفسی کی بنیاد رکھنے والے اس نقیب کو کسی بھی طرح سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا .جنھوں نے کردار کی نفسیاتی گھتیاں سلجھاتے ہویےء نہ صرف کہانی پن کو,مقدم رکھا بلکہ انکو نفسیاتی کیس ہسٹری بننے سے بھی شعوری طور پر بچالیا.یہ بعد میں آگے چل کر شعور کی رو والی تکنیک کو بڑھانے کا سبب بھی بنے .
انکے کرداروں کا جب گہرا مطالعہ کریں تو یہ اندازہ لگانے میں دشواری نہیں پیش آتی کہ یہ وہ کردار تھے جو مفتی کے آس پاس ہی کہیں گھومتے نظر آتے اور خود ممتاز مفتی ایک نفسیاتی کیس نظر آتے ہیں .مگر یہ بھی سچ ہے جب تک کوئی لکھاری خود ایبنارمل نہ ہو وہ نارملٹی سے ہٹ کر کچھ لکھ ہی نہیں سکتا .
ممتاز مفتی کی زندگی کا معائینہ کریں تو یہ بات کھل کر ہمارے سامنے آتی ہے کہ ممتاز کی اپنی شخصیت کبھی اتنی جاذب نہیں رہی کہ وہ کسی کو متاثر کرپاتے .انکی اپنی ایک عمر رسیدہ کئی بچوں کی ماں سے بھاگ کر شادی کرنا انکی اپنی تحریریں اس بات کی شاہد ہیں کہ وہ کسی کی توجہ پانے کے لئے کچھ بھی کرسکتے تھے .یہ بھی ایک نفسیاتی گھتی ہے جو ممتاز کو ممتاز بناتی ہے دیگرے یہ کہ انکے باپ کے معاشقوں والے سارے بولڈ اور بازاری کردار ان کی کئی کہانیوں کا اٹوٹ حصہ بن گئے .
شیکسپیئر کی ابنارمل زندگی نے جہاں عظیم کردار اور ڈرامے انگریزی ادب کو دئے وہیں وقت کے اتار چڑھاؤ اور بے اماں زندگی نے ممتاز مفتی سے بھی لازوال کردار لکھوادئے .خانگی زندگی معمول کے مطابق اور سکون میں گزرے تو شاید کوئی بھی کچھ الگ لکھ ہی نہیں سکتا یہی بات ممتاز کو ممتاز کرنے کے لئے کافی ہے…….
mehar afroz

Share

One thought on “ممتازمفتی : ممتازادیب و صحافی – – – – – – مہرافروز کا ٹھیواڑی”

Comments are closed.

Share
Share