بلو وھیل : Blue Whale
ڈاکٹرعزیزاحمدعُرسی، ورنگل
موبائل : 09866971375
فالتقمہ الحوت وھو ملیم۔(الصافات۔ ۱۴۲)
تو پھر انہیں مچھلی (وھیل)نے نگل لیا اور خود اپنے آپ کو ملامت کرنے لگ گئے۔
(الصافات۔ 142)
محققین کے مطابق حضرت یونسؑ کو بحکم خدا نگلنے والی مچھلی وھیل تھی۔ زمانہ قدیم میں ہر وہ جاندار جو پانی میں تیرتا تھا مچھلی کہلاتا تھا،ان میں بعض کے نام آج بھی مچھلی کے ساتھ مرقوم ہیں جیسےJelly Fish, Star Fish وغیرہ حالانکہ یہ دونوں جاندار حیوانات کی موجودہ درجہ بندی کے اعتبارسے مچھلی نہیں ہیں بلکہ یہ فائلم Echinodermata اور Coelentrata سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن حیاتیات کی رائج کتابوں میں آج بھی یہی نام لکھے ہوئے ہیں۔
اسی لئے قرآن نے عوام کو بہ آسانی سمجھانے کے لئے ’’حوت‘‘ اور ’’نون‘‘ کے الفاظ استعمال کئے ہیں جس کے معنی مچھلی کے ہیں۔عربی زبان میں بلو وھیل کو’’ حوت ازرق‘‘کہا جاتا ہے، اس تناظر میںیہ اعتراض قطعی نا مناسب ہے کہ وھیل کو مچھلی کیسے کہاجاتا ہے جب کہ وہ ایک پستانیہ ہے ۔میں وھیل کی نوع کے متعلق یقین سے نہیں بتا سکتا لیکن اکثر ریسرچ اسکالرس نے اس کی نوع ’’اسپرم وھیل‘‘ بتائی ہے، میں فی الوقت اس موقف میں نہیں ہوں کہ ذیل میں بیان کئے جانے والے واقعے سے متعلق مکمل حوالہ دے سکوں یااس کی تصدیق کرسکوں،لیکن مجھے یاد پڑتا کہ میں نے بچشم خود ایک بحری قزاق کی سرگذشت اور ایک یورپی سیاح کی خود نوشت پڑھی ہے جس میں دونوں نے علحدہ علحدہ واقعات میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ’’ ہم سمندر ی تموج کے باعث جہاز کی تباہی کے بعد وھیل کی غذا بنے اور اس کے معدے میں چند دن نامساعد حالات میں گذارے۔کچھ عرصہ بعد مختلف وجوہات کی بنا اس جاندار نے ہمیں کنارے پر اگل دیا۔ اس اثنا میں ہمیں معدے میں نجانے کیسے ہوا پہنچتی رہی کہ گھٹن کااحساس کبھی نہ ہوا۔لیکن ذہن پر ہرلمحہ بڑھتی ہوئی تاریکی نے ہمارے حوصلے ضرور پست کردیئے تھے ۔ انہوں نے یہ بھی لکھا تھاکہ وہ زندگی سے مایوس ہوگئے تھے۔ لیکن نجانے وہ کونسی طاقت تھی جو اس عظیم اورقوی الحبشہ جانور کو احکامات صادر کرتی رہی کہ ہم وھیل میں بھی کچھ دن زندہ رہ کربہ سلامت باہر نکل آئے‘‘ مجھے اس کہانی میں سچائی نظر اآتی ہے کہ قدرت کبھی کبھی کور بینوں کوراہ ہدایت عطا کر نے کیلئے ایسے واقعات کو دنیامیں برپاکرتی ہے۔
مجھے صحیح مسلم کے انگریزی ترجمے میں ایک حدیث نظر آئی جو کتاب نمبر 21 میں موجود ہے اس کتاب میں تمام احادیث جانوروں سے متعلق ہیں اس کی حدیث نمبر 4756 میں وھیل کا تذکرہ موجود ہے،بائیبل میں بھی وھیل کا تذکرہ حضرت یونس ؑ کے باب میں موجود ہے ۔ (Jonah 1:17)،اس کے علاوہ انجیل میں (Gen. 1:21; Lam. 4:3). میں بھی ذکر موجود ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ خدا نے بڑے بڑے وھیل بنائے ۔ میں جس حد تک تحقیق کی اس کے مطابق مجھے ہندو مذہب میں وھیل کا تذکرہ نظر نہیں آیا،لیکن ایک مقام پرلارڈ وشنوؔ کے اوتار Matse Avatar کو وھیل کا روپ کہا گیا۔
’’ بلو وھیل ‘‘ دنیاکا سب سے بڑا جاندار ہے سائنسدانوں کے مطابق آج تک دنیا میں اس سے بڑا جاندار دکھائی نہیں دیا۔ زمانہ قدیم کے ایک عہد ’’جیوراسک دور‘‘ (Jurassic period)کے ڈائنو سارس(Dinosaurs) بھی ’’بلو وھیل‘‘ کے مقابلے میں بہ اعتبار جسامت چھوٹے تھے۔ جبکہ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دنیاکے سب سے بڑے جاندار ڈائینو سارس ہی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ڈائینو سارس نہایت زیادہ لحیم شحیم ہوا کرتے تھے،ویسے یہ جاندار اب معدوم ہوچکے ہیں لیکن ان کے محفوظ ڈھانچوں کے رکاز کے مطالعے سے پتہ چلتاہے کہ ’’بلووھیل‘‘ بشمول ماضی وحال آج تک کی دنیاکا سب سے بڑا جاندار ہے۔ عام طور پرBlue Whale کے جسم کی لمبائی 30 میٹر یعنی 100 فٹ سے زیادہ ہوتی ہے۔ آج تک کی سب سے بڑی وھیل کو 1920 میں پکڑا گیا تھا۔ جو تقریباً 34میٹر یعنی 111 فٹ لمبی تھی۔ اور جس کاوزن155 ٹن تھا۔ ویسے یہ قدرت کی عجیب کاریگری ہے کہ چھوٹی وھیل بھی 22 میٹرسے کم نہیں ہوتی۔ بلو وھیل کا وزن اوسطاً135 ٹن یعنی ایک لاکھ 35 ہزار کیلو سے زیادہ ہوتا ہے۔ ان کے مادائیں (Females) نر کے مقابلے میں چھوٹی ہوتی ہیں۔وھیل کی زبان کاوزن ایک ہاتھی کے وزن اوران کا دل ایک کار کے برابر ہوتا ہے اور اس جانور کی بڑی شریانوں کی اندرونی گولائی میں ایک آدمی بلا مزاحمت، بآسانی تیر سکتا ہے
’’بلووھیل‘‘ ایک پستانیہ ہے جو جماعت Cetecea سے تعلق رکھتاہے۔جس کوسائنسی زبان میں Balaenoptera musculus کہاجا تا ہے۔ایک اندازے کے مطابق یہ جانور 110 بر س تک زندہ رہتا ہے۔ ان میں مدت حمل گیارہ مہینوں پر مشتمل ہوتاہے۔ لیکن یہ جاندار دویاتین سال میں ایک بچہ دیتے ہیں، ان میں Parental careمثالی ہوتا ہے اسی لئے یہ اپنے بچوں کی تقریبا سات یا آٹھ مہینوں تک دیکھ بھال کرتے ہیں ،غذا حاصل کرنے کی تربیت دیتے ہیں اوردوسرے جانوروں پر حملہ آور ہونے کے طریقے بتاتے ہیں۔ چونکہ یہ پستانیے ہیں اسی لئے وہ اس عرصے میں اپنے بچوں کودودھ پلاتے ہیں۔یہ اپنے پستان سے بچوں کے منہ میں دودھ انڈیلتی ہے، قدرت نے ان کے دودھ کی مقدار کوبھی ان کے جسم کے تناسب سے مقرر کیاہے۔یہ روزانہ600 لیٹر دودھ دیتے ہیں ۔ اگر ہم ان کے دودھ کامقابلہ گائے کے دودھ سے کریں تو پتہ چلے گا کہ گائے کے دودھ میں صرف3 تا5فیصد چربی پائی جاتی ہے۔ جبکہ وھیل کے دودھ میں25 تا 50 فیصد چربی پائی جاتی ہے ۔یہ انسان کے دودھ سے دس گنا گاڑھا ہوتا ہے۔ اسی لئے ان کے بچوں کا وزن ا بتدائی مدت میں تقریبا 90 کیلوروزانہ بڑھتا ہے۔ ویسے بوقت پیدائش بھی ان کے بچے کا وزن 3 ٹن سے زیادہ ہوتاہے اور ان کی لمبائی 30 فٹ کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ وھیل کے جسم کارنگ ہلکانیلا یامٹیالا ہوتا ہے جن پر ہلکے دھبوں جیسی ساختیں پائی جاتی ہیں ان جانداروں کانچلا حصہ زردی مائل ہوتا ہے۔ان کی اوپری جانب کی Fin چھوٹی ہوتی ہے لیکن انکی دم نہایت مضبوط اور موٹی ہوتی ہے جوتیرنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ دنیا کے تقریبا تمام ہی سمندروں میں پائے جاتے ہے۔ یہ خدا کی عجیب شان ہے کہ اس قدر بڑی جسامت کے باوجود ان جانداروں کی غذا سمندری Krill ہے۔ Krill) یعنی سمندر کے چھوٹے چھوٹے Crustacians ،یہ کیڑے جیسے جانور ہیں جو جوڑ دار پیر رکھتے ہیں ان کاسائز 20 تا 90 ملی میٹر ہوتاہےKrillلاکھوں کی تعداد میں ایک ہی جگہ جتھے کی صورت میں پائے جاتے ہیںیہ چھوٹے چھوٹے اجسام 90 مختلف انواع پرمشتمل ہوتے ہیں)۔ بلووھیلس روزانہ 2500 کیلو سے زیادہ Krill استعمال کرتے ہیں جب بلووھیل اپنا بڑامنہ کھولتی ہے توپانی کے بہاؤ کے ساتھ یہ Krill بھی اس کے دہانے میں داخل ہوجاتے ہیں۔ بلو وھیل میں دانت نہیں پائے جاتے بلکہ Baleen پایا جاتا ہے یعنی اس کے منہ کے چھت سے سخت ہڈی نماساختیں نکلی رہتی ہیں جو ان کے ہضمی نظام کا ایک اہم حصہ ہیں۔ ان ہڈی جیسی ساختوں کی تعداد270 تا390 تک ہوتی ہیں جو ایک خاص ترتیب میں جمع ہوکر چھنی جیسی شکل بناتے ہیں اور غذا کوچھاننے کاکام انجام دیتے ہیں۔ وھیل کے حلق میں 600 سے زائد بلعومی تہیں پائی جاتی ہیں جسکی وجہ سے ان تہوں کے سامنے کا حصہ تھیلی نمانظر آتا ہے۔ وھیل کی غذا صرف آبی جانداروں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق وھیل روزانہ 2 تا7ٹن صدفیوں اور دوسرے چھوٹے جانداروں کو غذا بناتی ہے لیکن ان کا معدہ اس قدر بڑا ہوتا ہے کہ اس میں زائد از17 ٹن غذا کی زخیرہ اندوزی کی جاسکتی ہے۔ اس مقصد کے لئے یہ جاندار زیادہ مقدار میں پانی منہ میں لیتا ہے تاکہ زیادہ مقدار میں غذا اندر
داخل ہوسکے ،پھربعدمیں زائد پانی کوہوا کے ساتھ باہر خارج کردیا جاتا ہے۔
روئے زمین کی سب سے بڑی زندہ مخلوق کے بارے میں ماہرین زیادہ معلومات نہیں رکھتے۔ کیونکہ اس جانور کی عجیب وغریب فطرت پر انسانوں کی نظر بہت ہی کم گئی ہے۔ اسی لئے کتب میں ان کے عادات و اطوار کا مکمل بیان نسبتاً کم ملتا ہے ۔وھیل اپنے دوسرے ہم نوع جانداروں سے مل جل کررہتے ہیں عام طور پریہ دویاتین کی تعداد میں سمندر کی ہرگہرائی میں تیرتے رہتے ہیں۔ا نکے تیرنے کی رفتار عموماً 30تا 35 کیلومیٹر ہوتی ہے ان کی دم مچھلی کی طرح ہوتی،ویسے ان کی دم ہوائی جہاز کے ماننداوپر اورنیچے بھی حرکت کر سکتی ہے تاکہ تیرنے کے دوران سمت کے تعین اور ہر گہرائی میں پہنچنے میں مدد مل سکے ۔ کبھی کبھی ان کے گروپ یا جتھے میں وھیلس کی تعداد بڑھ بھی جاتی ہے ان کے بڑے گروپس کو’’مدرسہ‘‘ یا اسکول اور چھوٹے گروپس کو Pods کہاجاتا ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق ’مدرسہ‘ میں انکی تعداد 65 سے زیادہ ہوسکتی ہے ۔ چونکہ یہ سمندر کی ہر گہرائی میں تیرتے ہیں۔ اسی لئے جب کبھی زیادہ گہرائی میں جانا ہو تو یہ اپنے شش(Lungs) میں تازہ ہوابھر لیتے ہیں اور اسی مقدار ہو اسے درکار مدت کے لئے تنفسی افعال انجام دیتے ہیں۔(وھیل چونکہ ایک پستانیہ ہے اسی لئے اس میں عمل تنفس ہوائی آکسیجن کے ذریعہ انجام پاتا ہے)۔ عام الفاظ میں یہ جاندار زائد از 50 منٹ تک سانس روک سکتے ہیں ۔ یہ بھی خدا کا عجیب نظام ہے کہ ان کے خون کے تنفسی مادوں یاخلیوں میں آکسیجن کی ذخیرہ اندوزی کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ جب وھیل سمندر میں بے پناہ گہرائی تک غوطہ لگاتی ہے تو اس کے دل کی رفتار دھیمی ہوجاتی ہے اوردل ایک منٹ میں صرف تین تا پانچ مرتبہ دھڑکتا ہے۔بعض خون کی نالیاں بندہوجاتی ہیں جسم کے غیرضروری حصوں تک خون کا بہاؤ منقطع ہوجاتا ہے ۔خون کی نالیوں کی ساخت میں تبدیلی واقع ہوتی ہے تاکہ خون میں موجودآکسیجن تیزی سے ختم ہونے نہ پائے اور جاندار کے جسم کے بلڈ پریشر اور فعلیاتی افعال کو اعتدال پررکھا جاسکے۔یہ ایک سائنسی اصول ہے کہ اگر کوئی جاندار کسی بھی وجہ کم مقدار میں آکسیجن استعمال کرتا ہو تو اس کے جسم میں لیکٹک ترشہ (Lactic Acid)بنتا ہے جو اپنے منفی اثرات کے باعث اس جاندار کے جسم کو مضمحل کردیتا ہے لیکن قدرت نے وھیل کو ایک اورعجیب خصوصیت سے بھی نوازا ہے کہ ان میں بننے والا یہ لیکٹک ترشہ ان کو نقصان نہیں پہنچاتا۔حالانکہ یہ ترشہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ضرر رساں ہونا چاہیے لیکن یہ قدرت ہی تو ہے کہ ایک ہی کیمیائی تناسب وساخت رکھنے والا مرکب کہیں نقصان دہ ہوجاتا ہے اور کہیں بے ضرر بن جاتا ہے۔ حالانکہ دنیوی ضابطے کے مطابق یہ مرکب ان جانداروں کو نقصان پہنچانا چاہیے لیکن قدرت نے اس مرکب سے یہ صفت چھین لی جوخالق کا اختیار اور اس کی شان قدرت کاغمازہے۔ یہ تمام حقائق اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ یہ دنیا کسی چانس کایا اتفاق کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ خالق کا ایک منصوبہ بند پروگرام ہے جوروزازل سے شروع ہوا اورروز ابد تک جاری رہے گا۔ وھیل جانوروں کی دنیا کاسب سے زیادہ تیز آواز نکالنے والا جاندارہے ، جس کی آواز سمندر کی گہرائی میں بھی0 160 کیلو میٹر یعنی تقریباً 1000میل دورتک سنی جاسکتی ہے۔ اس آواز کو Moans کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل ان کا مواصلاتی ذریعہ ہے ۔ ان کی آواز تیز سیٹی کے مانند ہوتی ہے۔ یہ آواز عموماً غذا کی تلاش کے دوران نکالی جاتی ہے ۔لیکن یہ جاندار اسی وقت آواز نکالنے پر قادر ہوتے ہیں جبکہ وہ حرکت کررہے ہوں۔ وھیل کی آواز دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک وہ آواز جس کو انسان کے کان نہیں سن سکتے کیوں کہ ان کے تعدد (Frequency) کی شدت زیادہ ہوتی ہے۔دوسری وہ آواز جس کی تعدد کی شدت کم ہوتی ہے جس کے باعث وہ آواز انسانی سماعت کے دائرے میںآجاتی ہے۔ یہاں پر پھر خالق کی شان ملا حظہ فرمائے کہ ہروھیل کی آواز میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ کبھی یہ آواز بدبدانے جیسی ہوجاتی ہے یا کبھی تیز سیٹی جیسی سنائی دیتی ہے۔ اس آواز کا اخراج دراصل دوسرے وھیلس کومتوجہ کرنے کے لئے کیا جاتا ہے اگر یہ آواز یں زمانۂ تولید میں سنائی دیتی ہیں تو ان کو خشک سائنسداں بھی شاعرا نہ نام دیکر’’ملن کے گیت‘‘ (Whale Songs) کہتے ہیں یہ گیت دراصل تولیدی اشارے ہیں۔اسی لئے یہ ملن کے گیت ہجر کے لمحات کے دوران ہی گائے جاتے ہیں۔ ان جانداروں میںآواز نتھنوں سے پیدا نہیں ہوتی۔ یہاں خدا کے وجود پریقین نہ رکھنے والوں کے لئے لمحہ فکر یہ ہے کہ جس طرح ازل سے لے کر ابد تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں کے ہاتھ کے نقوش یاانگشت ابہام میں اختلاف پایاجاتا ہے۔ اسی طرح ہر وھیل کی آواز میں بھی تنوع پایاجاتا ہے یعنی ہر جاندار میںآواز کا ایک خا ص تعدد ہوتا ہے جو اس جاندار کی انفرادیت ہوتی ہے۔ ا س موڑ پر اگر ٹھنڈے دل سے جائزہ لیاجائے اور اپنی سونچ کی اڑان کو احکامات خداوندی کے تابع رکھا جائے تو دیدہ بینار کھنے والے انسانوں کوخدا کی طرف بلانے اور خداکو خالق کی حیثیت سے ماننے کے لئے خدا کی صرف یہی نشانی کافی ہے۔ اگر دنیا ارتقا کا نتیجہ ہوتی تو تمام وھیلس کی آواز میں مشابہت پائی جاتی کی ان کے ارتقائی ماحول میںیکسانیت ہے۔لیکن یہ آواز میں اختلاف بتاتا ہے کہ اس کارخانہ حیات کو چلانے والا وہی ہے جس نے اس دنیا کو پیدا فرمایا ہے۔
سمندر میں درکار وسائل کی کمی اور سائنس دانوں کی عدم توجہی کے باعث آج تک وھیل کی عمرکاصحیح اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکا ہے ویسے ایک عام احساس یہ ہے کہ یہ جاندار 60 تا90 سال تک زندہ رہتے ہیں۔ ا نکی تولید کے طریقے اور مقا م تولید کے بارے میں بھی سائنسدانوں کے پاس بہت کم اطلاعات ہیں۔ سمندر میں ان کی موجودگی کی اطلاع بحری جہاز میں سوار افراد کو اس وقت ہوتی ہے جب بہت زوردار آواز سے سمندر کاسینہ دہل جاتا ہے اور ایک نہایت اونچی آواز میں سطح سمندر سے ایک فورہ ابل پڑتا ہے ۔اس فوارے کی اونچائی زائد از دس میٹرہوتی ہے۔ اس فوارے کی شکل میں خوبصورت منظر دراصلBlue Whale کے غیرآکسیجنی ہوا کااخراج ہے، جو ان دونوں نتھوں یعنی Blowholes کے ذریعے نہایت قوت سے خارج ہوتی ہے۔ چونکہ وھیل کسی قدراپنے ظہری حصے کو پانی میں ڈبوئے رکھتی ہے اسی لئے خارج ہونے والی ہوا پوری قوت کے ساتھ پانی کو اوپر کی جانب ڈھکیلتی ہے ۔جس کی وجہ سے وقتا فوقتا بلووھیل سے دس میٹر اونچا فوارہ نکلتا دکھائی دیتا ہے۔ اس جاندارکے شش (Lungs) میں بہت زیادہ مقدار میں ہواکو ذخیرہ کرنے کی سہولت پائی جاتی ہے اور اس کے شش تمام جانداروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہو اکی ذخیرہ اندوزی کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق اس میں زائد از 5000لیٹر پانی سما سکتا ہے۔ جب غیر آکسیجنی ہوا شش سے باہر خارج کی جاتی ہے تو یہ عمل Expiration کہلاتاہے اس عمل کے دوران ان کے شش سے 90 فیصد ہوا باہر خارج کردی جاتی ہے اور یہی خارج ہونے والی ہوا فوارہ بن کر لوگوں کو نظر آتی ہے۔ چونکہ بلو وھیل Baleen Whale ہے اسی لئے اس میں دو Blowholes پائے جاتے ہیں جبکہ Toothed Whale میں صرف ایک ہی سوراخ پا یا جاتا ہے۔وھیل میں ماحول سے واقفیت حاصل کرنے کا نظام ترقی یافتہ ہوتا ہے۔یہ نظام اس نظام سے بہت زیادہ مشابہت رکھتا ہے جس کے ذریعہ آبدوز کشتی کے افراد اطراف کی دنیا سے واقفیت حاصل کرتے ہیں اس نظام کو مقاحد (Sonar) نظام کہاجاتا ہے انسان نے اس نظام کو شاید وھیل کے Echolocation نظام سے متاثر ہوکر بنایا ہے کیونکہ Sonar سے مشابہ نظام ان وھیلوں میں بھی پایا جاتا ہےEcholocation کانظام چمگادڑ میں بھی نہایت زیادہ ترقی یافتہ ہوتا ہے۔جس طرح Bat الٹراسانک آواز کے اخراج کے ذریعے غذا کی تلاش کا کام انجام دیتی ہے اسی طرح وھیل بھی اسی نظام کو بروئے کارلا کر غذا کی تلاش کاکام انجام دیتے ہیں۔ یہ ذہین جاندار ہے کیونکہ اس جاندار میں بھی ہاتھی اور کتے کی طرح دماغ کے اوپری حصے Cerebral Cortex میں تہ دار ساختیں پائی جاتی ہیں۔ بلکہ ماہرین کاخیال ہے کہ ان میں پائی جانے والی یہ تہہ دار سا ختیں انسانی دماغ کے تہوں سے کسی قدر مشابہت رکھتی ہیں ۔ اسی لئے ان جاندروں میں احساس خوداری زیادہ پایا جاتا ہے جس کی کئی ایک مثالیں دیناکے سامنے ہیں۔ احساس خوداری ہرذہین جاندارکی خصوصیت ہے لیکن ذہین ترین جاندا ر انسان کے بارے میں کہنامشکل ہے کہ کن حالات میں احساس خوداری اس میں کتنے درجے کی پائی جاتی ہے کیونکہ انسان ان دنوں اپنے اصل منصب کو بھولتا جارہاہے ، حالانکہ اے۔۔۔ انسان تو…..
خدائے لم یزل کا دست قدرت تو زباں تو ہے
یقین پیدا کراے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے
Whales کو انکے گوشت، ہڈیWhale oil اورBlubber کے لئے شکار کیاجاتا ہے، لیکن دنیا کے تقریباً تمام علاقوں میں 1986 سے ان کے شکار پر پاندی عائدکردی گئی ہے۔ زمانہ قدیم میں ان جانداروں سے دنیا کے تمام ہی سمندر بھرے ہوئے تھے لیکن دنیا کی نیرنگی اورسمندر کی بڑھتی ہوئی آلودگی نے ان کی تعداد کو بڑھنے نہیں دیا اسی لئے ماہرین کے مطابق ان کی تعداد جو کبھی دوچار لاکھ سے زیادہ تھی وہ آج صرف 6 تا 10 ہزار تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ انکی اس قدر قلیل تعداد کی وجہ بھی حضرت انسان ہی ہیں جو اپنی اغراض کے لئے انہیں شکارکرتے ہیں اور اس کے جسم کے مختلف حصوں کو کئی اشیاء کی تیاری میں لے آتے ہیں۔وھیل کے معدے میں ایک خاصل کیمیائی مادہ بنتا ہے جس کو Ambergris کہا جاتا ہے۔ یہ مرکب خوشبوؤں کو مستقل ، دیر پا اور Fix رکھنے میں مدد دیتا ہے۔اسی لئے خوشبوؤں کی دنیامیں اس کا استعمال زیادہ کیا جاتا ہے انکی یہی صفت بآخر ان جانداروں کو معدوم کرنے کا ذریعہ بنتی جارہی ہے کہ انسان کو خوشبوؤں میں بسائے رکھنے اور دنیا میں خوشبوؤں کوبکھیر نے کاانعام ان جانداروں کی منصۂ شہود سے نابودی ہے۔
حضرت یونس ؑ کے واقعہ میں جس مچھلی یا وھیل کا ذکر ہے اس کے متعلق اکثر محققین کی رائے یہی ہے کہ وہ اسپرم وھیل تھی اسی لئے یہاں ذیل میں اس جانور کے متعلق بیان کیا جاتا ہے جو نہ صرف دنیا کے تمام جانداروں میں سب سے بڑا دماغ رکھتی ہے بلکہ اسی نے بحکم خدا مقررہ دنوں تک حضرت یونس ؑ کو اپنے شکم میں رکھا۔