ماہنامہ تخلیق لاہور۔ مدیر: سونان اظہر ۔ ۔ ۔ ۔ مبصر:ابنِ عاصی

Share

Takhleeq تخلیق
ماہنامہ تخلیق (سپٹمبر 2016)
مدیر: سونان اظہر

مبصر:ابنِ عاصی

خوبصورت اور دیدہ زیب ٹائٹل سے مزین جناب سونان اظہر کا ماہنامہ ،تخلیق، (ستمبر2016) میرے سامنے موجود ہے۔
سونان اظہر نے ،پہلی بات کے تحت نہایت شاندار الفاظ میں انہوں نے ہمارے دل کی بات کہی ہے اور اردو ادب کے ،لیجنڈز،کو ڈھٹائی سے فراموش کرنے کا نوحہ کہا ہے جس سے ان کے اندر کاایک دردمند ادیب ابھر کر سامنے آیا ہے اور ان کے اس،ادارتی نوٹ، کو پڑھ کر خاکسار کو ان کے مرحوم والد اظہر جاوید کی یاد آگئی ۔وہ بھی ایسے ہی ،نوحے، کہا کرتے تھے۔وہ تو کہتے کہتے پرلوک سدھار گئے ۔۔۔۔

آگے چل کر سونان صاحب نے اردو زبان کی بے بسی اور بے کسی کی کہانی سنائی ہے جو کہ بظاہر تو ہماری قومی زبان ہے لیکن اس کی حیثیت کیا ہے؟یہ ہماری منہ زور اور انگریزی پرست بیوروکریسی ہمیں قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک اچھی طرح سے بتا تی آرہی ہے۔اب جب کہ سپریم کورٹ نے بھی اردو زبان کے حق میں آواز اٹھائی ہے تو سونان صاحب نے پھر کسی کو شرم دلانے کی سعی کی ہے لیکن بھلا نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا ہے؟مگر چلو سونان اظہر نے اپنا فر ض تو ادا کیا ناں۔۔۔یہاں تو لوگ بڑے بڑے ادبی اداروں کی اونچی اونچی سیٹوں پر براجمان ہیں لیکن پتہ نہیں کرسی پر بیٹھ کر انہیں کیا ہو جاتا ہے کہ اردو زبان وادب کے لیے پھر ان کی آواز ہی بلند نہیں ہوتی ہے۔اللہ ان لوگوں کو ہمت اور حوصلہ عطا کرے اور ہدایت بھی دے(آمین)
،اپنی بات ، میں سونان اظہر صاحب نے ایک خوشخبری سنائی ہے کہ بہت جلد وہ اپنے احباب سے مل کر اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے ،تخلیق ادبی فورم، تشکیل دے رہے ہیں اور اسی طرح وہ ،تخلیق ایوارڈ 2016،کے لیے بھی ایک کمیٹی کے ذریعے اعلان کرنے کا ارادہ رلھتے ہیں۔ان کی یہ بات خاصی خوش آئند ہے اور اس پر خاکسار انہیں دل کی گہرائیوں سے سراہتا ہے اور مبارک باد بھی پیش کرتا ہے۔امید ہے وہ اپنے اس اعلان سے اب پیچھے نہیں ہٹیں گے؟
اب آتے ہیں ،تخلیق، کے اس شمارے میں پیش کیے گئے مواد کی طرف۔نسیم سحر کی نعت رسول مقبولﷺ بہت خوبصورت ہے۔،مضامین، میں ڈاکٹر مبارک علی کا مضمون،کتابیں جنہوں نے دنیا بدل ڈالی،خاصے کی چیزہے۔اپنے قارئین کو بتاتے چلیں کہ ڈاکٹر مبارک علی نے اس مضمون میں چارلس ڈارون (Charles Darwin)کی 1859میں شائع ہونے والی کتابOrigion Of Speciesکا ذکرِ خیر کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کارل مارکس کی 1867میں شائع ہونے والی مشہورِ زمانہ کتاب ،Das Capital،اور پھر نامور ماہر نفسیاتSigmand Freud،ایڈوولف ہٹلر کی کتاب Mein Kamff،کا بتایا ہے کہ جس میں نسل پرستانہ افکار کی لہر زوروں پر نظر آتی ہے۔مسلم مفکر ین میں امام غزالیؒ کی ،تحامثلِ فلسفہ،اور ،احیاء العلوم،کے ساتھ ساتھ ،طلسمِ ہوشربا،داستانِ امیر حمزہ،قصہ حاتم طائی اور قصہ چہار درویش، کی نشان دہی کی ہے۔انہوں نے اپنے مضمون میں ناولوں کی بات بھی کی ہے اور صادق حسین صدیقی سر دھنوی اور نسیم حجازی کا بھی خاص طور پر نام لیا ہے۔آخر میں انہوں نے مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب ،بہشتی زیور، جو کہ کبھی والدین کبھی اپنی بیٹیوں کو جہیز میں دیا کرتے تھے کا بھی حوالہ دیا ہے۔ڈاکٹر مبارک علی ایک پڑھے لکھے دانشور ہیں ان کی رائے میں اگر یہ کتابیں کسی قابل ہیں تو یقیناًمطالعہ کے شوقین لوگوں کو ان کی بتائی گئی کتابوں کو ،ایک نظر، تو ضرور دیکھنا چاہیے۔
حسن عسکری کا مضمون ،ظفر اقبال کی غزلیہ ثروت مندی، پڑھنے لائق ہے۔لیکن اس میں انہوں نے جناب ظفر اقبال کے ساتھ وہ ،رویہ، نہیں اپنایا ہے جو کہ ظفر اقبال صاحب اکثر و بیشتر دوسروں اور خاص طور پر ستیہ پال آنند کے ساتھ اپناتے ہیں۔یہ ایک ،تعریفی مضمون، ہے اور اس میں حسن عسکری صاحب نے ظفر اقبال صاحب کو ایک بڑا کالم نگار اور شاعر ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔یقیناًظفر اقبال بڑے شاعر ہیں لیکن اب ایسے بھی نہیں ہیں کہ ، کسی ، کی ،مذاق، میں کہی گئی بات کہ ،ظفر اقبال غالب سے بڑا شاعر ہے، کو لاٹھی لے کر گھما گھما کے دوسروں کے مونہوں پر مارتے پھریں۔بس ذراٹھیک ٹھاک شاعر ہیں اور کچھ نہیں۔مرزا غالب سے ان کے مقابلے کی بات کرنا بھی خاکسار کے نزدیک کسی سنگین مذاق سے کم نہیں ہے۔کہاں غالب اور کہاں ۔۔۔۔؟اور پھر ظفر اقبال کو ،بڑا کالم نگار، کہنا تو شاید پرلے درجے کی بد ذوقی کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔کالم نگار تو ارد شیر کاؤس جی تھے ایاز امیر ہیں ،زاہدہ حنا ،امر جلیل،عطاء الحق قاسمی،ہارون الرشید،عرفان صدیقی،اظہار الحق ہیں ۔اوروجاہت مسعود اور غازی صلاح الدین بارے کیا خیال ہے؟ہاں اگر ادیبوں اور شاعروں کی باقاعدگی سے توہین کرنے کے حوالے سے کوئی ،کیٹیگری، کی بات ہے تو پھر یقیناًموصوف ،بڑے کالم نگار، ہیں۔شاعری میں تو اپنے شعیب بن عزیز کی بھی ایک شعر سے بلے بلے ہوتی رہتی ہے۔ایسے میں ظفر اقبال کا بھی ایک آدھ شعر لوگوں کو یاد ہو گیا ہے تو اس میں بڑی بات کیا ہوگئی؟ظفر اقبا ل سے زیادہ اچھی شاعری تو افتخار عارف کی ہو گی؟فیصل عجمی اور اظہار الحق کے ہاں ،امکانات، کا ایک جہان آباد ہے۔ظفر اقبال کے ہاں کیا ہے؟فقط پھکڑ پن،تضحیک اور عامیانہ انداز؟مولیوں،گاجروں،شلجموں ،پودینے کا شاعر؟معاف کیجئے گا خاکسار کو حسن عسکری سے ایسی امید نہیں تھی۔خیر پسند اپنی اپنی۔(توں لنگھ جا ساڈی خیر اے)۔ڈاکٹر انور سدید کی آپ بیتی،دن ڈھل چکا تھا،سے کون کافر محظوظ نہیں ہوا ہو گا؟میرے بھی مرحوم پسندیدہ لکھنے والوں میں سے تھے۔اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے(آمین)۔،منظومات، میں دوہے کے حوالے سے نام پید ا کرنے والے ڈاکٹر طاہر سعید ہارون نے خوب مزا دیا۔امجد اسلام امجد اور ڈاکٹر جواز جعفری نے بھی رنگ جمایا۔افسانوی حصہ میں ڈاکٹر رشید امجد،نیلم احمد بشیراورآمنہ مفتی نے متاثر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔غزلوں میں سعو د عثمانی،گستاخ بخاری اور مشکور حسین یاد کی غزلیں پسند آئیں۔
اس شمارے کی قیمت 150روپے ہے جو کہ اپنے معیاری مواد کے لحاظ سے خاصی قابلِ قبول ہے۔یاد رہے کہ ماہنامہ تخلیق، کو شائع ہوتے ہوئے یہ 47واں سال ہے۔باپ اور سابق مدیر(اظہر جاویدمرحوم) سے بیٹے اور موجودہ مدیر(سونان اظہر)تک ،ماہنامہ تخلیق، نے اپنا معیار برقرا ر رکھا ہے جو کہ نہایت اچھی بات ہے۔امید ہے سونا ن اظہر مستقبل میں بھی اس پر کوئی کمپرومائز نہیں کریں گے۔ہماری دعائیں اور محبتیں ان کے ساتھ ہیں۔

Share
Share
Share