تصوف
حضرت غوث اعظمؒ کے ارشادات کی روشنی میں
ڈاکٹرمحی الدین حبیبی
حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 08978155985
تصوف دراصل احکامِ الٰہی ، اسوۂ رسولؐ ، ائمہ مجتہدین ، اولیائے صالحین و کاملین کے فرمودات سے اکتساب شدہ ایک راستہ ہے، ایک نظام ہے، جس پر گامزن ہوکر بندہ ربّ ذوالجلال کی عبادت ہی نہیں ’’طلب‘‘ کرتا ہے۔ تصوف کے جہاں میں علم ہی کا دریا نہیں بہتا بلکہ عرفان کی تجلیات کا بھی ظہور ہوتا ہے۔ حضرات صوفیائے کرام اور اولیائے عظام تصوف سے نظری وعملی طور پرمتصف بالصفات تھے۔ اگر ایک طرف ’’عارف باللہ‘‘ تھے،عالمِ شریعت تھے،دوسری جانب صاحبِ طریقت و معرفت بھی تھے۔ ان کے معمولات میں فقہی مسائل بتلانا بھی تھا اورعارفانہ نکات کا انکشاف بھی تھا۔ ان کی خانقاہیں جہاں اذکارِ شریعت سے معمور تھیں وہیں ان کے ایوانِ طریقت میں معرفت کی گونج بھی تھی۔
انسان کی ساری سائنسی ترقی ہمارے لیے تعجب خیز بات نہیں کہ قرآن کریم کا خود یہ اعلان کہ ’’سُنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِیْ الْاٰفَاقِ وَ فِیْ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہٗ الْحَقُّ‘‘
اس تسخیر کائنات کی ’’عطا‘‘ اور ’’نعمت‘‘ کا مطالبہ یہ ہے کہ ساری کائنات تو تمہارے لیے مسخر کردی گئی ، تمہارے قبضہ میں دے دی گئی ، اب اور تخلیق کا مقصد بھی واضح کردیا گیا کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ۔ کتنا حسین اور واجبی مطالبہ الٰہیہ ہے ۔ اس مطالبہ کی تکمیل اسی وقت ممکن ہوسکے جب ہم ’’لیعبدون‘‘ کے مرحلہ سے گزر کر ’’لیعرفون‘‘ کی منزل میں قدم رکھیں، عبادت و استعانت سے ’’معرفت‘‘ کی طرف قدم بڑھائیں، معرفتِ الٰہی ایک بندہ مؤمن کے لیے سب سے بڑی کامیابی ہے، جس کے لیے ضروری ہے کہ ’’اسوۂ محمدیؐ‘‘ پر چلیں اور سوزِ عشق نبیؐ یعنی ’’ مَنْ یُطِیْعُ اللّٰہَ وَ یُطِیْعُ الرَّسُوْلَ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا‘‘ کے حقدار بنیں، دوسرے یہ کہ ’’کُوْنُوْا مِنَ الصَّادِقِیْنَ‘‘ کے مطابق صالحین کی صحبت اختیار کریں، جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم کسی ایسے آدمی کو دیکھو جو دنیا سے نفرت کرتا ہے تو اس کا قرب حاصل کرو وہ تم کو حکمت کی بات بتلائے گا۔‘‘
یہی صوفیائے کرام کے مطابق ’’معرفتِ الٰہی‘‘ اور ’’تصوف‘‘ کے برکات و فیوضات کے حصول کا مسنون طریقہ ہے۔
کامل سپردگی کے لیے ’’قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَاتِیْ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ‘‘ کے ذریعہ رہنمائی کی گئی ہے، تاکہ ’’تَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلًا‘‘ (سب سے ٹوٹ کر اسی کے ہوجانے والی بات پیدا ہوجائے اور ’’وَ مَا اُمِرُوْا اِلَّا لِیَعْبُدُوْ اللّٰہَ الْمُخْلِصِیْنَ‘‘ کی رو سے ’’اخلاصِ عمل‘‘ کو اپنائیں۔
مذکورہ بالا گفتگو سے دو باتیں سامنے آئیں: (۱) کامل سپردگی (۲) اخلاصِ عمل
یہ روحانی اوصاف حمیدہ اور اخلاقِ جمیلہ ہمیں خیر القرون یعنی خلافتِ راشدہ کے دَور میں صاف نظر آتے ہیں، لیکن جیسے جیسے زمانہ گذرتا گیا ’’خلافت‘‘ کی جگہ آہستہ آہستہ ’’ملوکیت‘‘ پروان چڑھنے لگی اور سو دو سو سال کے اندر ہی بڑی بے راہ روی اور برگشتگی پھیلنے لگی۔ صدق و صفا کے بجائے کذب و عناد ، اتفاق و اتحاد کی جگہ افتراق و انتشار، اخلاقِ حسنہ کے بجائے ’’اخلاقِ رذیلہ کا دوردورہ شروع ہوگیا۔ غرض ’’مادّیت‘‘ نے ’’روحانیت‘‘ پر غلبہ پالیا ۔ ایسے پرآشوب اور آفت خیز صورتِ حال کو دیکھ کر چند اللہ والے اٹھے ، جن کو ہم صالحین، عابدین ، ذاکرین، صادقین اور عارفین کے نام سے یاد کرتے ہیں، جو بعد کے دور میں صوفیائے کرام کہلائے۔ یہی وہ اسلامی تاریخ کا فیصلہ کن موڑ تھا جب ’’تصوف‘‘ کیبنیاد پڑی اور حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ ، بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ جیسے اکابر اولیاء نے اللہ سے نیازمندی ، دنیا سے بے نیازی، ذکر و فکر ، تزکیۂ نفس، تصفیہ قلب ، تجلیۂ روح کی تربیت ، خانقاہوں اور دینی مدارس قائم کرکے آغاز کردیا ، جس کا مقصدِ اوّل اللہ سے رشتہ جوڑنا (تعلق باللہ) اور مقصودِ ثانی اصلاحِ معاشرہ (فرد کی تعلیم و تربیت) تھا۔
پھر اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ افضال و انوار کا ایک سے بڑھ کر ایک بحر معرفت وجود میں آتا ہے، کہیں امام الاولیاء حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ جلوہ فرما ہیں تو کہیں خواجۂ اعظم غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ متمکن نظر آتے ہیں۔ ان ہی سرچشموں سے فیضیاب ہوکر اولیاء اللہ دنیا کے ہر خطہ میں پہنچ گئے، تاکہ تقویٰ، پرہیزگاری، خداترسی، خدا طلبی اور تطہیر اخلاق اور اخلاصِ عمل کو فروغ دیا جائے اور اسلامی قدروں کی بازیافت ہو۔
اکثر اوہام کی سرکشی اور تشکیک و گستاخی کے باعث یہ کہا جاتا ہے کہ سیدھے سادے طریقہ سے عبادات و معمولات شرعیہ کی پابندی کیوں نہ کرلی جائے۔ یہ بیعت و ارادت ، یہ خانقاہی نظام و طریقت کو کیوں اپنائیں تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ : (۱) تعلق باللہ (۲) اخلاصِ عمل (۳) تزکیۂ نفس (۴) تصفیۂ قلب (۵) تطہیر اخلاق اور (۶) تحلیۂ روح کے مراحل و مدارج کیسے طے کریں گے، جو کتاب و سنت سے نہ صرف ماخوذ ہیں، بلکہ موئید ہیں۔
’’فتوح الغیب‘‘ میں غوث الاعظم حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’یاد رکھ کہ تصوف محض قیل و قال اور بحث و تمحیص سے حاصل نہیں ہوتا، بلکہ تصوف کا حصول لذات و شہوات کو ترک کردینے اور ذکر و فکر کے التزام سے وابستہ ہے۔
یاد رکھ کہ تصوف کی بنیاد آٹھ خصائص پر رکھی گئی ہے:
(۱) حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح سخی ہونا (۲) حضرت اسماعیل علیہ السلام کی طرح راضی بہ رضا ہونا (۳) حضرت ایوب علیہ السلام کی طرح صبر و تحمل اختیار کرنا (۴) حضرت یحییٰ علیہ السلام کی طرح وجد و ذکر کرنا (۵) حضرت ذکریا جیسی مناجات (۶) حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح صوف پہننا (۷) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح سیر فی الارض کرنا (۸) حضرت آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح فقر و توکل اختیار کرنا۔
کسی نے حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ فقیر کے کیا معنی ہیں؟ فرمایا: ف کہتی ہے کہ ذاتِ الٰہی میں فنا ہوجا اور ماسوی اللہ سے دل کو فارغ کرلے، ق کہتا ہے اپنے قلب کو خدا کی قدرت سے مضبوط کر، اس کی ر ضامندی و رضاجوئی میں قائم ہوجا ، ی چاہتی ہے یَرْجُوْا رَبَّہٗ وَ یَخَافُ رَبَّہٗ اپنے رب سے امیدوار بھی رہے اور اس کا خوف بھی دل میں رکھے۔ ’’ر‘‘ کی خواہش ہے رقتِ قلب اور رجوع الی اللہ یعنی نفسانی خواہشوں سے دامن بچاکر خدا کی طرف رجوع ہوجا۔‘‘
(۴) تصوف کے تفصیلی جائزہ کے بعد اس کے تشکیلی عناصر کو ہم پانچ ذیلی عنوانات کے تحت بیان کرسکتے ہیں:
(۱) تعلق باللہ: یہ دراصل بندہ اور رب کے درمیان ربط و ارتباط کا آئینہ دار ہے اور یہ آئینہ داری ’’راضی بہ رضا‘‘ اور ’’مرضئ مولیٰ‘‘ کے تابع ہے، جیسا کہ قرآن مجید کا ارشاد ہے: ’’قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔‘‘
(کہہ دیجیے کہ بلاشبہ میری نماز ، میری قربانی ، میرا جینا ، میرا مرنا سب اللہ ربّ العامین کے لیے ہے۔)
پھر ارشادِ نبویؐ بھی ہے: ’’تو اللہ کے احکامات کی نگہداشت کر، خدا تیری حفاظت کرے گا، اللہ کا دھیان کر تو اللہ کو اپنے سامنے پائے گا۔ (احمد، ترمذی) اسی کی تشریح فرماتے ہوئے حضرت غوث الاعظم ’’فتوح الغیب‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’جب تو خدا کو یکتا جاننے لگے گا اور اس کے فضل پر ہی نظر کرے گا اور اس سے ہی امید رکھے گا نہ کہ اس سے غیر سے اور اپنے آپ کو اسی کے ’’ماسواء‘‘ سے اندھا بنالے گا تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ تجھ پر رحم کرے گا اور کھلائے گا ، پلائے گا اور تری دوا کرے گا اور تجھے شفا دے گا، تجھ پر عطاؤں کی بارش کرے گا اور غنی کردے گا۔‘‘
(۲) اخلاصِ عمل: یعنی عمل میں خلوص ہو، بے لوثی ہو، خشوع ہو، خضوع ہو اور وہ بھی خشیت اور تضرع کے ساتھ ۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’وَ مَا اُمِرُوْا اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ۔‘‘ (نہیں حکم دیا گیا ان کو مگر یہ کہ اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کریں۔) اسی اخلاص کی جو استحضار کے درجہ کا ہے، کی صراحت فرماتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’احسان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرو گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو۔ (اسی کو مشاہدہ کہتے ہیں) اگر تم اس کو نہیں دیکھ سکتے تو یقین کرلو کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔ (اسی کو مراقبہ کہتے ہیں) (بخاری و مسلم) حضور غوث اعظم اسی خلاصِ عمل کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اللہ کے ساتھ صدق دل کے ساتھ معاملہ کرو اور لوگوں کے ساتھ نیک خلق ہوجاؤ‘‘ آگے فرماتے ہیں: اے نفس مطمئنہ ! نہایت راضی خوشی اپنے رب کی طرف لوٹ۔ اس وقت وہ حضرت القدس میں باریابی حاصل کرسکے گا اور توجہات و نظر رحمت کا کعبہ بنے گا۔ اس کی عظمت و جلال اس پر منکشف ہوگی اور مقامِ اعلیٰ سے سنائی دے گا یا عبدی انت لی و انا لک (اے بندے تو میرے لیے ہے اور میں تیرے لیے ہوں۔
(۳) تزکیۂ نفس: یہ تصوف کا ’’سنگ بنیاد‘‘ ہے ، نفس کی پاکیزگی ، نفس کی طہارت اور نفس کی اصلاح کے بغیر نہ تو ’’اخلاصِ عمل‘‘ پیدا ہوگا اور نہ ہی ’’قربِ الٰہی‘‘ کے قریب ہی جاسکیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰہَا‘‘ بلاشبہ وہی کامیاب ہے جس نے اپنے نفس کو پاک کیا۔)
(۴) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نفس کے تزکیہ کے لیے دعا فرماتے تھے: ’’اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ ہَویً مُطَاعٍ وَّ شُحٍّ مُتْبِعً ۔‘‘ (اے اللہ! میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں اس خواہش سے جس کی اطاعت کی جاتی ہے اور اس بخل سے جس کا اتباع کیا جاتا ہے۔ )
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ تم اپنے نفسوں کو روکو، کیوں کہ یہ ایسا اوّلین راستہ ہے جو تمہیں برائی کی آخری سرحد تک لے جاتا ہے۔
حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ ’’فتح الغیب‘‘ کے مقالہ ۶۷ میں فرماتے ہیں:
’’جب تم شمشیر مخالفت سے اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے اس پر غلبہ پاکر اس کو قتل کردوگے تو اللہ تعالیٰ اس کو پھر زندہ کردے گا کہ وہ تم سے جھگڑتے ہوئے حرام و حلال ، شہوت و لذات کا مطالبہ کرے گا اور تم سابقہ طریقہ سے پھر اس سے مجاہدہ کرو ، تاکہ تمہیں دائمی اجر حاصل ہوجائے، جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ہم جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر کی جانب پلٹ رہے ہیں۔
اپنی مشہور تصنیف ’’جلاء الخواطر‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’تم کو اپنے نفس کی آنکھیں کھول کر اس سے کہنا چاہیے کہ ’’دیکھ اپنے رب کی طرف کہ وہ تجھ کو کیسا دیکھتا ہے ، دیکھو اس نفس سے کیسے کیسے بادشاہوں اور امراء کو نیست و نابود کردیا، اپنے سابقین کے لرزہ خیز انجام اور حشر کو یاد رکھنا چاہیے، جنہوں نے اس دنیا پر حکومت کی اور ہر عیش و آرام کو پالینے کا دعویٰ کیا ، لیکن یہ سب کچھ کیسے اچانک چھین لیا گیا ، اب وہ عذاب کے قید خانے میں ہیں، ان کے محلات برباد ہوچکے ہیں، ان کی دولت کدے بربادیوں کی داستاں سنا رہے ہیں، اب صرف ان کے اعمال کا محاسبہ باقی ہے۔‘‘
(۴) تطہیر اخلاق: ارشادِ ربانی ہے : ’’وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلِقٍ عَظِیْمٍ‘‘ بے شک آپ اخلاقِ حسنہ کے اعلیٰ مرتبہ پر ہیں۔‘‘ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے تم میں بہتر وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق بہت اچھے ہیں۔‘‘ (بخاری و مسلم)
اخلاق کی تحصیل مقصد تخلیق انسانی کی تکمیل ہے، جیسا کہ ارشاد اللہ عز و جل ہے:’’وَ لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ اٰدَمَ‘‘ ہم نے بنی آدم کو مکرم و محترم بنایا)
صوفی کے لیے یہ لازمی وصف ہے جس میں تطہیر و تزکیہ اخلاق کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہونا پڑتا ہے۔ فتوح الغیب کے مقالہ ۷۶ میں ’’دوسری وصیت‘‘ کے عنوان کے تحت حضور غوث ااعظم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’تمہیں نصیحت کی جاتی ہے کہ فقراء کے ساتھ عاجزی و فروتنی کے ساتھ مصاحبت کرو ، عجز و اخلاص پر مداومت اختیار کرلو، کیوں کہ یہی چیز دیدارِ الٰہی کے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔ اپنے بھائی کا حق ضائع نہ کرو اور اس طرح نفس کشی کرلو کہ تمہیں حیاتِ دائمی مل جائے ۔ یاد رکھو مخلوق میں سب سے زیادہ خدا کے قریب وہی ہے جس کے اخلاق میں وسعت اور اعمال میں افضیلت ہے۔
(۵) تصفیۂ قلب: قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: ’’وَ شِفَاءٌ لِمَا فِیْ الصُّدُوْرِ‘‘ اور قرآن شفاء ہے ان بیماریوں کے لیے جو دل میں ہیں۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ’’سن لو جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے، اگر وہ اچھا ہے تو سارا جسم اچھا ہے اور اگر وہ بگڑا تو سارا جسم بگڑ گیا۔ سن لو وہ ’’دل‘‘ ہے۔ (بخاری و مسلم)
حضرت غوث الاعظم پیرانِ پیر دستگیر رحمۃ اللہ علیہ ساتویں مقابلہ میں فرماتے ہیں: ’’قلب میں خدا کے سوا کسی کو جگہ نہ دو، پھر آپ آگے فرماتے ہیں: ’’اتباعِ نفس سے اجتناب کرتے ہوئے اس سے یکسوئی اختیار کرلی جائے، پھر اپنی ملکیت سے معزول ہوکر سب کچھ خدا کے لیے سپرد کردو اور اپنے قلب کے دروازے پر اس طرح پہرہ دو کہ اس میں احکاماتِ الٰہیہ کے سواء اور کوئی چیز داخل نہ ہوسکے اور ہر اس شئے کو گوشۂ قلب میں جاگزیں کرلو جس کا تم کو خدا نے حکم دیا اور ہر اس شئے کا داخلہ بند کردو جس سے تمہیں روکا گیا ہے۔ ’’تصفیۂ قلب‘‘ کی مزید تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’تصفیۂ قلب کے بعد تمہارے قلب کا پاسباں بناکر توحید و عظمت اور ’’جبروت کی وہ شمشیر عطا کردی جائے گی کہ جس وقت بھی تمہیں اپنے قلب کی فضاء کے نزدیک کوئی شئے بھی نظر آئے گی تو تم اس کا سرقلم کردوگے ، جس کے بعد نفس اور خواہشات کی یکسوئی کی تمنا بھی تمہارے نزدیک سر نہ اٹھاسکے گی، تمہارے قلب کے اطراف ’’غیرت‘‘ کے شامیانے لگادیئے جائیں گے اور عظمت کی خندقیں کھود دی جائیں گی۔ اس وقت تم پر ’’جبروت‘‘ کا تسلط ہوگا۔
(۶) تجلیۂ روح (قلب) حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ چھٹے مقابلہ میں فرماتے ہیں: ’’اپنے ارادوں کو فعلِ خداوندی کے تابع کرنے کی علامت یہ ہے کہ تمہاری مرادیں تمہاری اغراض و حاجات سب کچھ خدائی احکام کے تابع ہوکر رہ جائیں، جب تم اس مقام پر پہنچ جاؤگے تو تمہارے قلب کو طمانیت اور شرحِ صدر ہوکر تمہارا چہرہ سنور جائے گا، تمہارا باطن آباد ہوجائے گا، تمہاری قلب ماہیت دستِ قدرت میں پہنچ جائے گی ، پھر تمہیں ’’نورانی حلّے‘‘ عطا کیے جائیں گے کے باطنی علوم کے زمرے میں شامل کردیا جائے گا ، پھر تم خیر کا ظرف بن جاؤگے۔ فنائیت کا یہی وہ مقام جو ان راہوں پر گامزن ہونے والوں کا مقصود و مطلوب ہے، منتہیٰ ہے۔ اولیائے کرام کی سیر بھی اس مقام پر پہنچ کر ختم ہوجایا کرتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ، آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہمیں حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کے ارشادات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
One thought on “تصوف :حضرت غوث اعظمؒ کے ارشادات کی روشنی میں – – – – ڈاکٹرمحی الدین حبیبی”
بہت اچھا موضوع ہے۔نگارش بھی دلکش اور اور تعمیری ہے۔قناعت اور عشقِ مجازی کا ذکر شامل کیا جاتا تو تصوف کے معنی اور مقصد کو سمجھنے میں مدد ملتی تھی۔