را حت اندوری
فلمی نغمہ نگار اور عوامی شاعر
ڈاکٹرمسعود جعفری
موبائل : 09948765490
کسے معلوم تھا کہ سا حر ،مجروح ،شکیل اور کیفی کی طرح راحت کے نام کے ساتھ اندوری چپک جا ئے گا اورسارے عالم میں مشہور ہو جا ئے گا۔اردو ادب میں نظیر اکبر آ بادی کو جمہوری یعنی عوامی شاعر مانا جا تا ہے۔کو ئی نہیں جانتا تھا کہ اکیسویں صدی میں مدھیہ پر دیش کے اندور کا رہنے وا لا ایک شاعر بھی عوامی شاعر کہلائے گا۔اس کی شاعری عوام کے دل کی دھڑکنوں کی ترجمان رہے گی۔ان کے گرد و پیش کی غماز بنے گی۔ان کے دلوں کو جوش و خروش سے بھر دے گی۔ما یوسی کے اندھیرے میں امید کی کرن بن جا ئے گی۔
اس کے شعر لوگوں کے حافظے کا ایک حصہ بن جا ئیں گے۔اس کا تحت اللفظ ترنم و تبسم پر غالب آ جائے گا۔مشاعروں کو ایک نئی سمت ایک نئی روش عطا کرے گا۔راحت سے پہلے اور نہ ہی اس کے بعد غزل سرا ئی کا ایسا طرز رہا۔اس کا لب و لہجہ منفرد اور آواز پہاڑی رہی۔پچھلے کئی دہا ئیوں سے اس کی شاعری صور اسرا فیل کا کام کر رہی ہے۔وہ سو توں کو بیدار کر رہا ہے۔ان میں سما جی و سیاسی شعور پیدا کر رہا ہے۔اس کی شاعری عرفان و آگہی کا ایک بگل ہے۔
راحت اندوری مشاعروں کی کا میا بی کی ضمانت سمجھا جا تا ہے۔وہ شعر پڑھتا ہی نہیں مجمع پر محویت طاری کر دیتا ہے۔ وہ مشاعرے کو لوٹ لیتا ہے۔اس کے ما ئک سے ہٹنے کے بعد مشاعرہ گو یا ختم ہو جا تا ہے۔پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی والی کیفیعت پیدا ہو جا تی ہے۔اس کی گھن گرج کے بعد مشاعرہ گاہ کا پنڈال سونا پڑ جا تا ہے۔وہ مشاعرے کے سیاق و سباق سے خوب واقف رہتا ہے۔اس کے پی ایچ ڈی کا مو ضوع اردو میں مشاعرہ تھا۔وہ مشا عرے کی رو ایت سے روشناس تھا۔اس نے
مشاعرے میں نیا مزاج پیدا کیا۔ سامع اور شاعر کے بیچ فا صلے کو ڈھا دیا۔گہرا تال میل فروغ دیا۔سہل اور آسان زبان میں عمیق نکات پیش کئے۔اچھے اچھوں کی بو لتی بند کر دی۔ترنم کے شاعروں کو بغلیں جھانکنے پر مجبور کر دیا۔بشیر بدر کی آواز کے جادو کو زا ئل کرنے میں را حت اندوری کا ہاتھ رہا ہے۔راحت کی مسا ئلی شاعری کے آگے بشیر بدر کی سبک رو مانی شاعری بجھنے لگی۔لوگ سیاسی اشاروں کناوں سے لطف اندوز ہو نے لگے۔ان شعروں کا مزہ لیجیئے جن میں سیاسی چھبن محسوس ہو تی ہے۔
اب کہاں ڈھونڈنے جا وگے ہمارے قاتل
آج تو قتل کا الزام ہمیں پر رکھ دو
شا خوں سے ٹوٹ جا ئیں وہ پتے نہیں ہیں ہم
آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے
شہروں میں تو بارو دوں کا موسم ہے
گاوں چلو یہ امرو دوں کا مو سم ہے
ہم اپنے بوڑھے چراغوں پہ خوب اترا ئیں
اور اس کو بھول گئے جو ہوا چلا تا ہے
یہ اور اس طر ح کے بہت سے شعروں میں طنز کی تیز دھار پا ئی جا تی ہے۔را حت عصری چیرہ دستیوں کو بے نقاب کر تے ہیں۔شعور و ادراک کے چراغ جلا تے ہیں۔ان کا تخاطب تیکھا ہو تا ہے۔وہ خفتہ ضمیر انسانی کو جھنجوڑتے ہیں۔سماج کو آئینہ دکھا تے ہیں۔ان کی پرواز تخیل لا مکاں ہو تی ہے۔وہ عزم و حوصلہ کے امین بن جا تے ہیں۔ان کی شاعری تعفن طبع کے لئے نہیں زمانے کو پہچاننے کے لئے ہو تی ہے۔وہ نا صح بن کر نہیں دوست بن کر بات کرتے ہیں ان کے خلوص اور درد مندی کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔وہ غم کے اندھیرے میں ہمت کا اجالا با نٹتے ہیں۔ان کی زنبیل میں دکھوں کا مداوا اور نسخہ کیمیا
رہتاہے۔اب ہم ذرا راحت اندوری کے سوانحی حالات کو جا ننے کی کو شش کرتے ہیں۔
ان کا وطن مدھیہ پر دیش کے مقام اندور سے ہے۔ان کا جنم یکم جنوری 1950کو ہوا۔ان کے والد رفعت اللہ قریشی کپڑے کی مل میں کام کرتے تھے۔ان کی والدہ ما جدہ مقبول ا لنسا بیگم تھیں۔ بچوں میں ان کا چو تھا نمبر تھا۔انہوں نے اسکول کی پڑھا ئی کے بعد ا سلا میہ کا لج اندور سے 1973میں گریجویشن کیا۔ راحت نے 1975میں برکت اللہ یو نیورسٹی سے ایم ائے کیا۔انہوں نے 19 85 میں مدھیہ پر د یش میں واقع بھوج یو نیور سٹی سے پی ایچ ڈی کی با وقار سند حاصل کی۔ ان کی تحقیق کا مو ضوع اردو مشاعرے تھا۔انہوں نے اندور یو نیورسٹی میں شعبہ اردو میں ملازمت بھی کی ۔ انہوں نے سیما سے شادی کی۔ان کے بطن سے تین لڑکے ہو ئےْ ۔ بھو پال کی شاعرہ انجم رہبر کا نام بھی راحت سے جڑا رہا۔ بعد میں وہ فلمی نگری ممبئی چلے گئے اور وہاں فلموں میں گیت لکھتے رہے۔انہوں نے بہت سی فلموں میں نغمہ نگاری کی۔انہوں نے کئی فلموں جیسے منا بھا ئی یم بی بی ایس ،آشیاں ،قریب ،مر ڈر ،خدار وغیرہ میں گانے لکھے۔وہ عالمی سطح کے شاعر ہیں۔دنیا میں جہاں جہاں اردو ہے وہاں راحت اندوری نے اپنے سلیس و سادہ اور با معنی غزلوں سے لوگوں کو متا ثر کیا اور ان سے انہیں جی بھر کے داد و تحسین ملی۔راحت کو سننے ہجوم بے تاب رہتا ہے۔انہیں مشاعرے کا Star Poet کہا جا تا ہے۔انہیں لوگ ہمہ تن گوش ہو کر سماعت کرتے ہیں۔وقت کے گزرنے کا احساس تک نہیں ہو تا۔ان کے لب و لہجہ میں بلا کی کشش ہو تی ہے۔ان کی شاعری دلوں میں براہ راست اترتی چلی جا تی ہے۔ایک ایک لفظ گنگا کے پا نی کی طرح صاف و شفاف ہو تا ہے۔وہ عوامی شاعری کرتے ہیں۔کوی لفظ بھی ثقیل او ر نا قابل فہم نہیں ہو تا۔ان کو اظہار پر کامل قدرت ہے۔وہ دلی جذبات و احساسات کو شعری سانچے میں ڈھال دیتے ہیں۔یہ کمال یہ ہنر انہیں کا حصہ ہے۔راحت عمر کے 66 ویں زینہ پر کھڑے ہو ئے ہیں ابھی ان کا وقت ختم نہیں ہوا ہے۔انہیں اردو کا سفیر کہا جا سکتا ہے۔ہندی کے کوی سملین میں بھی وہ اردو کا جادو جگا دیتے ہیں۔ہندی وا لے بھی انہیں ٹوٹ کر پیار کر تے ہیں۔ ان کی شاعری سے حذ لیتے ہیں۔وہ قومی یکجہتی کے علمبردار ہیں۔ان کا شعری مجموعہ کلام اچھی شاعری کا مرقع ہے۔اس میں صرف غزلیں ہیں۔مجروح کی طرح راحت بھی بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔آ یئے ان کی رو مانی شاعری سے لطف اندوز ہو تے ہیں۔
میل کے پتھروں سے پو چھتا ہوں
اپنے اک ہم سفر کے با رے میں
سارے منظر گورے گورے لگتے تھے
جانے کس کا روپ نظر میں رہتا تھا
یہ ملا قات آخری تو نہیں
ہم جدا ئی کے ڈر سے پو چھتے ہیں
وہ گزرتا تو ہو گا اب تنہا
اک اک رہگزر سے پو چھتے ہیں
عشق ازل ہے عشق ابد ہے
عشق کوئی تحریک نہیں ہے
شام سے پہلے شام کر دی ہے
کیا کہا نی تمام کر دی ہے
مذکورہ شعروں میں نیا پن ہے۔دل کو چھو لینے والی بات ہے۔خیال کا بہاو ہے۔ جذبات کا وفور ہے۔ نئے تجربے ہیں۔نئی پگڈنڈیاں ہیں۔راحت نے شاعری کے امکا نات کو روشن کر دیا ہے۔پرانی ڈگر کو خیر باد کہتے ہوئے غزل میں تازگی پیدا کی ہے۔غزل کے پھول کو مر جھانے سے بچا لیا ہے۔یہ ان کی کا میابی کی دلیل ہے۔ان کے شعروں کو سمجھنے کے لئے ذہن پر زیادہ بار ڈالنے کی ضرورت لا حق نہیں ہو تی۔ان کی تخلیق لفظوں کا گورکھ دھندا نہیں۔اس میں معنویت ہو تی ہے۔ان کی شاعری کا سب سے بڑا وصف طنز کا نشتر ہے۔
مسجد خالی خالی ہے
بستی میں قوالی ہے
عبا دتوں کا تحفظ بھی ان کے ذمہ ہے
جو مسجدوں میں سفاری پہن کے آتے ہیں
سب کو باری باری رسوا کیا کرو
ہر مو سم میں فتوئے جاری کیا کرو
اب سے پہلے کے جو قا تل تھے بہت اچھے تھے
قتل سے پہلے وہ پا نی تو پلا دیتے تھے
دولت بازو حکمت گیسو شہرت ما تھا غیبت ہو نٹ
اس عورت سے بچ کر رہنا یہ عورت بازاری ہے
راحت نے اپنی تخلیقی سوچ سے شاعری کے کینوس کو وسیع تر کر دیا ہے۔نت نئے خیالات کے بیل بوٹے کھلائے ہیں۔دنیائے سخن کو مالا مال کر دیا ہے۔نئی نسل کو جدت طرازی کی جانب ما ئل کیا ہے۔راحت نے اپنی انفرادیت کے گہرے نقوش شاعری پر مرتب کئے ہیں۔اسے ادبی دنیا میں یاد رکھا جائے گا۔اس نے ساری عالمی برادری میں ہندوستان کا نام روشن کیا ہے۔اردو کی اجنبی بستیوں میں اس کی شخصیت اور آواز کا سحر دیکھا جاسکتا ہے۔وہ ہزاروں لاکھوں انسا نوں کا محبوب شاعر ہے۔اسے دیکھنے اور سننے کے لئے خلق خدا مشاعرہ گاہ تک آ کر اپنی شاعرانہ پیاس بجھا تی ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کلامِ شاعر بہ زبانِ شاعر