میری اردو شاعری کی بیاض ۔ قسط 13- امیرؔ و داغؔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

Share
ameer-minai
امیر مینائی

شعرالہند ۔ میری اردو شاعری کی بیاض ۔ قسط 13
(شعراء کے دواوین اور سوانح سے کشید کیا ہواآب حیات )
امیر مینائیؔ اور مرزا داغؔ دہلوی

پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

میری اردو شاعری کی بیاض قسط ۔ 12 ۔ کے لیے کلک کریں

امیر مینائیؔ (۱۸۲۹۔ ۱۹۰۰ء)

امیر مینائیؔ کا خاندان صوفیوں کا خاندان تھا، جس کے ایک بزرگ حضرت مخدوم شاہ مینا تھے، اور غالباً اسی لئے امیر مینائی کہلائے ، ان کی عربی فارسی کی تعلیم فرنگی محل میں ہوئی، دینی درسگاہ میں تعلیم حاصل کرنے کے نتیجہ میں امیر احمد مینائی نہایت متقی اور پرہیزگار تھے عبادت الہی اور ریاضت نفس میں مصرو ف رہتے تھے، مطالعہ اور تحصیل علم کا شوق تھا، فرنگی محل کے قرب وجوار میں بڑے پختہ زبان شاعر بھی رہتے تھے، جن میں حضرت ناسخ اور جناب آتش کا نام زیادہ معروف ہے، اور ہر ایک شاعر کے حلقے سے امیر مینائی نے جب ہوش سنبھالا تو اس وقت لکھنؤ کے درو دیوار شعری نغمات سے گونج رہے تھے ۔

وہ بھی میر مظفرعلی کے اسیر کے شاگردوں میں شمار ہونے لگے جو شاعری کا بہت نفیس ذوق رکھتے تھے، ۱۸۵۶ء کے بعد جب اودھ کی حکومت ختم ہوگئی اور اس کے آخر ی تاجدار نو اب واجد علی شاہ کو انگریزوں نے نظر بند کرکے کلکتہ بھجوا دیا تو امیر مینائی نے بھی لکھنؤ کو خیر باد کہا، اور رامپور کارخ کیا، رامپور دہلی اور لکھنؤ کے اجڑنے کے بعد ایک بڑا ادبی اور شعر ی مرکز بن گیا، داغ دہلوی کے علاوہ کئی شعراء نے رامپور دار السرور کو مستقل یا عارضی وطن بنا یا، امیر مینائی نے رامپور میں تقریباً ۴۲ سال گذارے اور جب داغ دہلوی ۱۸۸۱ء میں حیدرآباد چلے گئے اور نظام حیدر آباد میر محبوب علی خاں آصف کے استاذ مقرر ہوئے، پھر ان کو محسوس ہوا کہ رامپور کے علاوہ دکن میں بھی سخن وروں کی خوب پذیرائی ہوتی ہے، چنانچہ داغ کے فرمائش پر امیر مینائی حیدر آباد منتقل ہوگئے لیکن حیدر آباد کی آب وہوا ان کو راس نہ آئی اور بیمار رہنے لگے ۱۹۰۰عیسوی کو ۷۱ سال کی عمر میں عالم فانی کوالوداع کہا، ان کا مزار حیدرآباد میں موجود ہے۔
امیر مینائیؔ کے یہاں حسن وعشق کا تذکرہ بھی ہے، اور معاملہ بندی بھی ہے، اور مضمون آفرینی بھی ہے، لیکن انداز بیان لکھنؤ سے کچھ ہٹ کرکے ہے، ان کے چند اشعار بطور نمونہ پیش خدمت ہیں:

امیر جمع ہیں احباب درد دل کہہ لے
پھر التفات دل دوستاں رہے نہ رہے
دعوی زباں کا لکھنؤ والوں کے سامنے
اظہار بوئے مشک غزالوں کے سامنے
ہم وہ ہیں اے امیر تجلی کا ذکر کیا
جھپکی نہ آنکھ برق جمالوں کے سامنے
یاران رفتہ سے کبھی جاہی ملیں گے ہم
آخر تو پیچھے پیچھے اسی کارواں کے ہیں
وہ اور وعدہ وصل کا قاصد !نہیں نہیں
سچ سچ بتا یہ لفظ انھیں کی زباں کے ہیں
قریب ہے یارو روز محشر چھپے گا کشتوں کا خوں کیوں کر
جو چپ رہے کی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا
خنجر چلے کسی پر تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہا ں کا درد ہمارے جگر میں ہے
امیر مینائی کا شمار ان شعراء میں جنھوں نے اپنی زندگی میں سیاسی سماجی اور تہذیبی انقلابات کا زمانہ دیکھا ہے، انھوں نہایت دل شکن حالات کا سامنا کیا ہے، لیکن ان کے حوصلے بلند رہے اور غزل میں اپنی منفرد آواز کے ساتھ رہے، انھوں نے نعت میں بھی طبع آزامائی کی، محسن کاکوروی ان کے شاگرد تھے جنھوں نے صنف نعت میں کمال حاصل کیا۔

مرزا داغؔ دہلوی(۱۸۳۱۔۱۹۰۵ء)

daagh1
داغؔ

مرزا داغؔ دہلوی اپنے شوخ انداز بیان اور زبان کی لطافت اور محاورات کے چٹخارے کے لئے مشہور ہیں ، یہ خوبیاں ان کے بعد کسی شاعر کے غزلوں میں اتنی فراوانی کے ساتھ نہیں پائی جاتیں، محبوب کے حسن وجمال کی بلیغ تمثیل داغ کے اس شعر میں ملتی ہے:
رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں
ادھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتا ہے
محبوب کے نیم بروں نیم بروں کچھ ظاہر کچھ پوشیدہ ، کچھ حجاب اور کچھ بے حجابی کی تصویر جس طرح داغ نے کھینچی شاید ہی کسی شاعر نے ایسی کھینچی ہو:
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
خوب پردہ کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
داغ دہلوی کے آباء واجداد سمر قند وبخارا سے عالمگیر ثانی کے حکومت میں دہلوی میں وادر ہوئے تھے، داغ کے پر دادانواب عارف خاں اور ان کے بھائی نواب قاسم خاں ہندوستان آئے تھے،یہ دونوں بھائی فن سپہ گری اور حرب وضرب میں ماہر تھے، اس زمانے میں شاہ عالم بادشاہ صوبہ بنگال کے مہم پر تھے، انھوں نے ان بھائیوں کی سیف زنی دیکھی تو خوش ہوئے اور جاگیر عطاکئے، مرزا داغ ۵ مئی ۱۸۳۱ء کو دہلی کے محلہ چاندنی چوک میں پیدا ہوئے، داغ کے والد کا نام شمس الدین خاں تھاجنھیں رزیڈنٹ دہلی کے قتل کے شبہ پر انگریزی حکومت نے ۱۸۳۵ ء بھانسی دیدی تھی، ان کی والدہ نے محمد سلطان ولی عہد شاہ دہلی کے دامن میں پناہ حاصل کی ، اور نواب شوکت محل بیگم کا خطاب پایا ، داغ چونکہ بچپن ہی سے قلعہ معلی میں داخل ہوگئے تھے جہاں ہر طرف شعر وشاعر کا چرچا اس لئے ان کی طبیعت بھی چمک اٹھی ، قلعہ معلی میں ولی عہد کے استاذ حضرت ابراہیم ذوق تھے، داغ نے ان سے بھی شرف تلمذ حاصل کیا، اس وقت ان کی عمر گیارہ برس کی تھی، اس زمانہ میں نواب مصطفی خاں شیفتہ کے گھر مشاعرہ ہوا، داغ نے مشاعرہ میں پہلی اپنی غزل پڑھی اس غزل کا مطلع تھا:
شررو برق نہیں شعلہ سیمآب نہیں
کس لئے پھر یہ ٹھہرتا دل بیتاب نہیں
ابھی ان کی عمر ۲۶بر س کی تھی کہ ہندوستان پر ہندوستان پر ۱۸۵۷ ء عیسوی میں انگریزی سامراج کا تسلط ہوگیا، قلعہ معلی اجڑ گیا ، بادشاہ بہادر شاہ ظفر قید کرکے رنگون بھیج دئے گئے ، اور قلعہ میں رہنے والے جو قتل وغارگری سے بچ گئے تھے ادھر ادھر منتشر ہوگئے ، شعر وسخن کی بساط بھی الٹ گئی، اور وہ شعراء جو دربار سے وابستہ تھے، ان کا ذریعہ معاش ختم ہوگیا، ایسے ابتر حالات میں رامپور کی چھوٹی سی ریاست میں ان خانما برباد شعراء کو اپنے دامن عاطفت میں لیا، والی ریاست نواب یوسف علی خاں نے داغ کو اپنے یہاں بلا لیا، رامپور میں جن شعراء کی پذیرائی ہوئی، ان میں داغ کے علاوہ حضرت امیر مینائی اور جلال کے نام آتے ہیں، رامپور میں شعراء نے خوب خوب طبع آزامائی کی، داغ کے کلام میں جو چیز زیادہ نمایاں ہے وہ مضامین کی شوخی اور رنگینی ہے اور معاملہ بندی اورزبان کی صفائی ہے، محاورے کی چاشنی جتنی ان کے کلام میں ہے شاید ہی کسی کے کلام مل سکے پھر داغ ۱۸۹۰ ء کو حیدرآباد آگئے اور اس محلہ میں داغ نے قریب قریب چودہ برس گذارے، پھر وہ ترک بازار میں منتقل ہوگئے او ر پھر وہ نظام حیدرآباد کے دربار میں ملک الشعراء بھی بن گئے،ان کی زندگی فارغ البالی کی زندگی تھی، حیدرآباد نام پلی میں واقع درگاہ یوسف صاحب میں مدفون ہوئے، داغ کے کچھ مشہور اور زبان زد اشعار یہ ہیں:
لطف مے تجھ سے کیا کہوں زاہد
ہائے کم بخت تونے پی ہی نہیں
ہوش وحواس تاب وتواں جاچکے ہیں داغ
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
جلوے مری نگاہ میں کون ومکاں کے ہیں
مجھ سے کہاں چھپیں گے وہ ایسے کہاں کے ہیں
داغ کہتے ہیں جنھیں دیکھئے وہ بیٹھے ہیں
آپ کی جان سے دور آپ پر مرنے والے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

mohsin osmani
پروفیسرمحسن عثمانی
Share
Share
Share