بتکماں تہوار میں مسلم خواتین کی شرکت
ایک لمحہ فکریہ
مولانا سید احمد ومیض ندویؔ
گزشتہ 12؍اکتوبر کو محرم کی دسویں تاریخ گزری جسے یوم عاشورہ کہا جاتا ہے اہل ایمان کی ایک بڑی تعداد نے تمام رسومات وخرافات سے بچ کر اس دن روزہ رکھنے کا اہتمام کیا، یوم عاشورہ کے تعلق سے بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں ایک حدیث یوں آئی ہے : حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جب آنحضرت ﷺ نے یوم عاشورہ میں روزہ رکھنے کو اپنا معمول بنالیا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو بعض صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ اس دن کو تو یہودونصاریٰ بڑے دن اور عید کے طور پر مناتے ہیں(اور یہ گویا ان کا قومی ومذہبی شعار ہے اور خاص اس دن ہمارے روزہ رکھنے سے ان کے ساتھ اشتراک اور تشابہ ہوتا ہے تو اس میں کوئی ایسی تبدیلی ہوسکتی ہے جس کے بعد یہ اشتراک اور تشابہ والی بات باقی نہ رہے)!تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ انشاء اللہ جب اگلا سال آئے گا تو ہم نویں کو روزہ رکھیں گے
عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں: لیکن اگلے سال کا محرم آنے سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی (صحیح مسلم ) یوم عاشورہ اور اس دن کے روزہ سے متعلق یہ حدیث ہم لوگ ماہ محرم میں حضرات علماء کرام سے بار بار سنتے ہیں لیکن بہت کم لوگ اس پہلو پر غور کرتے ہیں کہ نبی رحمت ﷺ نے محض یہودیوں کی مشابہت سے بچنے کے لئے آئندہ سال نویں محرم کے روزے کو شامل کرنے کا فیصلہ فرمایا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ اگر آئندہ سال زندگی رہی تو میں نویں محرم کا روزہ رکھوں گا آپ کے اس ارشاد کا بعض علماء نے یہ مطلب بیا ن کیا ہے کہ آئندہ سے ہم بجائے دسویں محرم کے نویں محرم ہی کو رکھا کریں گے لیکن اکثر علماء کے یہاں اس کا مطلب دسویں محرم کے ساتھ نویں محرم کو شامل کرنا ہے حدیث کا جوبھی مطلب ہواس سے اتنا تو واضح ہوجاتا ہے کہ آپ ﷺ نے عبادات جیسے شعبے میں تک یہودونصاریٰ سے مشابہت کو گوارا نہیں فرمایا نویں محرم کو روزہ رکھنے کا حکم محض اس لئے دیا گیا کہ یہودکی مشابہت سے بچا جائے بھلا جس نبی نے عبادات میں تک یہودونصاریٰ کی مشابہت کو گوارا نہ کیا ہو تمدن ومعاشرت اور اعیاد وتہوار میں ان کی مشابہت کو کیسے برداشت کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اکثر ارشادات میں یہودونصاریٰ اور مشرکین کے ساتھ تشبہ کی سخت ممانعت وارد ہوئی ہے لباس وپوشاک میں، وضع قطع میں ،سلام ومصافحہ میں حتی کہ برتنوں کے استعمال میں تک غیروں کی مشابہت سے منع فرمایا ہے، ایک موقع پر سلام میں غیروں کی مشابہت سے ممانعت کرتے ہوئے فرمایا :جو شخص غیروں کے ساتھ مشابہت اختیار کرے گا یعنی ہماری امت کے لوگوں کے برعکس دوسرے مذاہب کے لوگوں کے طریقہ پر عمل کرے گا وہ ہم میں سے نہیں ہے پھر فرمایا تم نہ یہودیوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرو اور نہ عیسائیوں کے ساتھ یہودیوں کا سلام کرنا انگلیوں کے اشارہ کے ذریعے اور عیسائیوں کا سلام ھتیلیوں کے اشارہ کی صورت میں ہوتا ہے (ترمذی حدیث نمبر۵ ۹۶۲)نبی رحمتﷺ نے برتنوں کے استعمال میں بھی غیروں کی نقالی سے روکا ہے چنانچہ آپ نے سونے اور چاندی کے برتنوں میں کھانے پینے کی ممانعت کرتے ہوئے فرمایا :سونے اور چاندی کے برتنوں میں نہ پینے کی کوئی چیز پیو اور نہ کھاؤ کیونکہ یہ ساری چیزیں دنیا میں کفار کے لئے ہیں اور تمہارے لیے آخرت میں ہیں، حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم بھی آپ کی ان ہدایات پر سختی کے ساتھ عمل کرتے تھے چنانچہ حضرت حذیفہؓ کا واقعہ ہے: ابن ابولیلیٰ کہتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت حذیفہؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے پانی مانگا ایک مجوسی ان کے پاس پانی لے کر آیا جب پیالہ ان کے ہاتھ میں رکھا تو انہوں نے اس کو پھینک دیا اور کہا کہ اگر میں اس کو ایک یا دو مرتبہ منع نہ کرچکا ہوتا تو میں ایسا نہ کرتا میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ریشم اور دیباج نہ پہنو اور نہ سونے چاندی کے برتن میں پانی پیو اور نہ ان کی رکابیوں میں کھاؤ اس لئے کہ یہ دنیا میں کفار کا سامان ہے اور ہمارے لئے آخرت میں ہے حدیث بالا سے سونے چاندی کے برتنوں کے ساتھ ریشم کے لباس کی ممانعت بھی ثابت ہوتی ہے ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے بازار میں ایک جوڑا پایا اور اسے لے کر رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ آپ اس جوڑے کو خریدلیں تاکہ آپ عید کے دن اور وفود سے ملاقات کے وقت پہن لیا کریں اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ تو ایسے آدمی کا لباس ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں (مسلم شریف حدیث:۸۶۰۲)نیز مردوں کو عصفر سے رنگے ہوئے کپڑوں کو پہننے سے بھی اس لئے منع کیا گیا کہ اس سے کفار کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے عصفر سے رنگے ہوئے کپڑوں کو پہنے دیکھا تو فرمایا کیا تجھے تیری ماں نے یہ کپڑے پہننے کا حکم دیا ہے میں نے عرض کیا میں اس رنگ کودھو ڈالوں گا آپ نے فرمایا نہیں اسے جلا ڈالو (مسلم شریف حدیث : ۷۷۰۲) سورج کے طلوع اور غروب کے وقت نماز پڑھنے سے اس لئے منع کیاگیا کہ اس وقت کفار اور بت پرست عبادت کیا کرتے تھے قبروں کو سجدہ گاہ بنانے سے منع کرتے ہوئے آپ نے فرمایا خدا یہودونصاریٰ پر لعنت کرے کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا داڑھی رکھنے اور مونچھ کتروانے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ مشرکین کی مخالفت کرو اس طور پر کہ داڑھی چھوڑو اور مونچھ کترواؤ (مسند احمد) دفنانے کے لئے قبر کیسی ہو اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا لحدی قبر ہمارے لئے ہے اور شق کا اندازہ ہمارے علاوہ یعنی اہل کتاب کے لئے ہے (الجامع الصغیر )اہل کتاب روزہ کھولنے میں تاخیر کیا کرتے تھے ان کے برخلاف آپ نے تاکید فرمائی کہ وقت ہونے پر افطار میں عجلت کی جائے (سنن ابوداؤد؍ج۲ص؍۱۲۳)مدینہ منورہ ہجرت فرمانے کے بعد جب نماز کے لئے لوگوں کو جمع کرنے کے تعلق سے مشورہ کیا گیا کہ لوگوں کو کیسے جمع کیا جائے تو کسی نے آگ جلانے کامشورہ دیا کسی نے ناقوس بجانے کی رائے دی لیکن آپ نے ان سب کو رد کردیا محض اس لئے کہ یہ یہودونصاریٰ کے طریقے تھے پھر اللہ نے اذان کا طریقہ مشروع فرمایا ہفتے میں ایک دن دینی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہوا کرتا تھا نصاریٰ کے یہاں اتوار اور یہود کے یہاں سنیچر کا دن تھا مسلمانوں کے لئے اتوار یا سنیچر کے بجائے جمعہ کا دن مقرر کردیا گیا اور اسے عیدالمومنین قرار دیا گیا۔الغرض آپ ﷺ ہر معاملہ میں یہودونصاریٰ اور مشرکین کی مخالفت کرتے تھے حتی کہ آپ کے طرز عمل کو دیکھ کر یہودی کہنے لگے کہ یہ شخص ہر معاملے میں ہماری مخالفت پر تلا ہوا ہے ۔
نبی رحمت ﷺ کی تربیت کا اثر تھا کہ حضرات صحابہ کرام بھی اس معاملے میں نہایت سخت تھے چنانچہ حضرت عمر فاروقؓ نے معمولی چیزوں میں بھی مسلمانوں کو غیروں کی مشابہت سے روکنے کے لئے نہایت سخت احکام صادر کئے تھے ایک طویل فرمان میں جسے آپ نے آذر بائجان کے عرب رعایا کے نام بھیجا تھا آپ نے یوں ہدایت فرمائی : اے لوگو ازار اور چادر استعمال کرو چپل پہنو پائجاموں کے پابند مت بنو اپنے جد اعلیٰ حضرت اسماعیل ؑ کے لباس کو ضروری سمجھو اور خبردار تنعم اور عجمیوں کی ہیئت ومشابہت اختیار نہ کرو (کنزالعمال حدیث : ۷۸۱۴)حضرت حذیفہ ابن یمان کو ایک ولیمے میں بلایا گیا آپ نے جاکر دیکھا کہ اس تقریب میں کچھ عجمی رسمیں ادا کی گئی ہیں تو آپ واپس ہوگئے اور فرمایا من تشبہ بقوم فھو منہم جوکسی قوم سے مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا ۔ حضرت عامر بن سعد اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اپنے گھروں کے صحنوں کو صاف رکھو اور یہود کے مشابہ مت ہوجاؤ (ترمذی حدیث : ۹۹۷۲) حضرت حذیفہؓ کہتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا قرآن کو عرب کے لہجے میں اور بلند آواز سے پڑھو اور اپنے کو اہل عشق اور یہودونصاریٰ کے لہجے سے بچاؤ(شعب الایمان حدیث ۹۴۶۲)
اگر گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ غیروں کے ساتھ مشابہت ایک سنگین جرم ہے جس کے بے شمار نقصانات ہیں اس کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ اس کی وجہ سے کفر واسلام کے درمیان امتیاز باقی نہیں رہتا جبکہ اسلام کی اپنی شناخت اور اپنی پہچان ہے جسے قرآن نے صبغۃ اللہ (خدا کے رنگ سے تعبیر کیا ہے ) غیروں کے طور طریقوں کو اپنا کر مسلمان اپنی اسلامی شناخت سے محروم ہوجاتے ہیں ایک موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا ٹوپیوں کے اوپر عمامہ پہننا ہمارے اور مشرکوں کے درمیان فرق ہے کہ ہم ٹوپیوں پر عمامہ باندھتے ہیں اور مشرکین صرف عمامہ باندھتے ہیں (ترمذی حدیث ۴۸۷۱) غیروں سے مشابہت کا ایک نقصان یہ ہے کہ اس سے شریعت کا استخفاف لازم آتا ہے اس لئے کہ دین اسلام کے سارے طریقے سب سے اچھے اور سب سے کامل سب سے پاکیزہ اور سب سے خوبصورت ہیں اگر کوئی مسلمان ایسے پاکیزہ طریقوں کے ہوتے ہوئے دوسرے مذاہب کے طریقے اپناتاہے تو وہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ شریعت اسلامی کے طریقوں کو حقیر جان رہا ہے علاوہ ازیں غیروں کی مشابہت اختیار کرنے سے ان کے دین اور ان کے عقائد کی طرف میلان پیدا ہوتا ہے جب کہ قرآن مجید میں صاف کہا گیا ہے کہ جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کی طرف میلان نہ رکھو ورنہ تم کو جھنم کی آگ چھولے گی غیروں سے مشابہت کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ اس سے امت کے سلف صالحین سے چلے آرہے تعامل کو ختم کرنا لازم آتا ہے ۔ سارے سلف اسلامی طور طریقوں پر کاربند رہتے تھے اور غیروں سے مشابہت پر نکیرکرتے تھے جو اس کے برخلاف کرتا ہے وہ سلف کی بے احترامی کا مرتکب ہوتا ہے نیز جب مسلمان غیروں کے رسوم اپنائیں گے تو عام آدمی کو ان کے بارے میں یہی گمان ہوگا کہ وہ مسلمان نہیں ہیں یا پھر ان کے دل میں اسلام کی عظمت نہیں ہے ایسے میں ایک سچا مسلمان دوسرے مسلمان کے تعلق سے کافر یا منافق ہونے کا گمان کرنے لگے گا جو کہ اللہ کے یہاں ایک طرح کی گواہی ہوگی ۔
انفرادی معاملات میں غیروں سے مشابہت بھی ممنوع ہے لیکن اس کی سنگینی اس وقت بڑھ جاتی ہے جب مشرکین کے اجتماعی تہواروں میں ان کی مشابہت اختیار کی جائے یا ان کے مشرکانہ تہواروں میں عملی شرکت کی جائے اسلام جہاں تمدن لباس اور وضع قطع میں غیروں کی مشابہت سے روکتا ہے وہیں تہواروں کے حوالے سے بھی اسلام کا اپنا مزاج اور اس کا اپنا تشخص ہے اسلام اجازت نہیں دیتا کہ کوئی مسلمان غیروں کے مشرکانہ تہواروں میں شرکت کرے اسلام دین توحید ہے اس کا یہ عقیدہ اس کی عیدوں میں بھی جھلکتا ہے جب کہ دوسرے مذاہب شرک وبت پرستی کے علمبردار ہیں ان کے ہر تہوار کا نہ صرف مشرکانہ پس منظر ہوتا ہے بلکہ ان میں مشرکانہ اعمال انجام دئیے جاتے ہیں ایسی صورت میں کسی مسلمان کے لئے غیروں کے تہوار میں شرکت یا انہیں منانے کی اجازت کیوں کر ہوسکتی ہے مدینہ شریف ہجرت فرمانے کے بعد نبی اکرم ﷺ نے دیکھا کہ مدینہ کے لوگ سال میں دو دن بطور تہوار خوشیاں مناتے ہیں آپ نے ان دو دنوں کے بارے میں لوگوں سے دریافت کیا تو لوگوں نے بتایا کہ یہ سلسلہ دور جاہلیت ہی سے چلا آرہا ہے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا دور جاہلیت کے ان دو تہواروں کے مقابلے میں اللہ نے تمہیں ان سے اچھی دو عیدیں عطا فرمائی ہیں ایک عیدالاضحی دوسرے عیدالفطر (مشکوٰۃ شریف ) حدیث بالا سے واضح ہوتا ہے کہ آپ نے دور جاہلیت کے مشرکانہ تہواروں کو یکسر ختم فرمادیا اور ان کی جگہ عیدالاضحی اور عیدالفطر کو مقرر فرمایا۔
فقہاء نے تشبہ کے تین درجوں کو ذکر فرمایا ہے (۱)دوسری قوموں کے مذہبی شعائر میں مماثلت اختیار کی جائے جیسے مسلمان صلیب یا زنار پہنیں یا سکھوں کے مخصوص شعائر کو استعمال کریں فقہاء نے ایسے تشبہ کو باعث کفر قرار دیا ہے مثلاً مجوسی خاص قسم کی ٹوپی پہنا کرتے تھے فقہاء نے اس پر کفر کا فتویٰ لگایا (الملتقط فی الفتاویٰ الحنفیہ ۵۶۱۲) (۲) غیر مسلموں کے مذہبی تہواروں میں شرکت کی جائے اس کا مقصد اگر محض روا داری ہوتو حرام ہے اور اگر ان کے مذہبی عقائد واعمال پر اظہار خوشنودی یا تائید وتحسین ہوتو کفر ہے (حوالہ سابق) (۳)تیسر ا درجہ تہذیبی تشبہ کا ہے جو وضع قطع یا لباس کسی خاص قوم کی شناخت بن گیا ہو اور اس کا مذہب سے تعلق نہ ہو ایسی وضع قطع اختیار کرنا مکروہ تحریمی ہے البتہ تشبہ کے اس درجہ میں تبدیلی آتی رہتی ہے جس کی وجہ سے حکم بدلتا رہیگا ۔
غیروں کی مشابہت کے تعلق سے اس قدر صریح وعیدوں کے باوجود اس وقت ملت اسلامیہ کے افراد میں برادران کے ساتھ تشبہ اختیار کرنے کا معاملہ روز بروز بڑھتا ہی جارہا ہے بالخصوص ہمارے برادران وطن کے مشرکانہ تہواروں میں مسلم مرد وخواتین کی شرکت تشویش ناک حدتک بڑھتی جارہی ہے چنانچہ بہت سے مسلمان ہولی کے موقع پر غیروں کے شانہ بشانہ رنگ بازی کرتے دکھائی دیتے ہیں دیپاولی کے موقع پر خاص تہوار کے دن غیر مسلم نوجوانوں کے ساتھ مسلم نوجوان بھی پٹاخہ بازی میں مصروف نظر آتے ہیں اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ گنیش کے تہوار کے موقع پر بہت سے جاہل مسلمان گنیشوں کے منڈپ میں جاکر پوجا پاٹ بھی کرنے لگے ہیں سال گزشتہ نلگنڈہ سے تعلق رکھنے والے اسی قسم کے ایک واقعہ کی ویڈیو کلپ واٹس اپ پر وائرل ہوگئی تھی جس میں باریش مسلمانوں کو گنیش کے سامنے کھڑے دکھایا گیا تھا نیز ان مسلمانوں سے کسی ٹی وی چینل کے نمائندے نے انٹرویو لیا تو انہوں نے دوٹوک انداز میں کہا کہ ایسا کرنے میں کوئی حرج کی بات نہیں اس سے ملک میں روا داری کا ماحول بنتا ہے ہندوستان کی بعض ریاستوں میں ہندو بھائیوں کے ایک تہوار میں ایک مخصوص قسم کا گربہ رقص ہوتا ہے اس میں بھی مسلمانوں کی قابل لحاظ تعداد شریک ہوتی ہے دوسال قبل بعض فرقہ پرست قائدین کے طرف سے اس بات کا مطالبہ کیا گیاتھا کہ مسلمانوں کو گربہ رقص میں شرکت کی اجازت نہ دی جائے حالیہ دنوں کا جو تازہ معاملہ سامنے آیا ہے وہ تلنگانہ ریاست سے تعلق رکھنے والا مخصوص تہوار بتکماں جسے پھولوں کا تہوار کہا جاتا ہے اس میں مسلم خواتین کی شرکت کا معاملہ ہے بعض اخبارات میں اور اسی طرح سے سوشیل میڈیا پر ایک ایسی تصویر گشت کررہی ہے جس میں نظام آباد کی رکن پارلیمنٹ کی موجودگی میں دو مسلم خواتین بتکماں تہوار میں شریک ہیں اور اپنے ہاتھوں میں پھول تھامے ہوئے ہیں سوشیل میڈیا کے مطابق حالیہ بتکماں تہوار میں مسلم خواتین کی خاصی تعداد شریک رہی بالخصوص قصبوں اور منڈلوں میں تمام مذاہب کی خواتین کو اس تہوار میں شریک کرنے کے لئے باقاعدہ مہم چلائی گئی اخبار میں شائع شدہ تصویر میں دو برقع پوش خواتین جو معزز گھرانے کی معلوم ہوتی ہیں بتکماں کے امور میں شرکت کرتی ہوئی فخر محسوس کررہی تھی کچھ ہی عرصہ قبل پشکرالو کا بھی انعقاد عمل میں لایا گیا تھا اس موقع سے بھی سوشیل میڈیاپر ایک ایسے مسلم جوڑے کی تصویر گشت کررہی تھی جو کسی دریا میں ڈبکی لگا رہا تھا آخر یہ سب واقعات کس چیز کا پتہ دیتے ہیں؟ کیا یہ واقعات ہماری غیرت ایمانی کو جھنجھوڑنے کے لئے کافی نہیں ہیں؟ کیا ان واقعات سے پتہ نہیں چلتا کہ مسلم معاشرہ تہذیبی ارتداد کی زدمیں ہے ؟ بعض نادان اور دین سے نابلد مسلمان یہ کہہ دیتے ہیں کہ اس قسم کی چیزوں میں سختی نہیں برتنی چاہئے ملکی حالات کا تقاضا ہے کہ ایسی باتیں نظر انداز کر دی جائیں لیکن یہ خیال انتہائی گمراہ کن ہے علماء اور داعیان امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عام مسلمانوں میں شعور بیداری کا کام کریں اور مسلم معاشرے میں پنپتے ہوئے مشرکانہ رسوم واعمال پر روک لگانے کے لئے حتی المقدور کوشش کریں ۔
*****