ماہِ محرم : مر ثیے ٗ نو حے ٗ لوک گیت – – – – – ڈاکٹرحامد اشرف

Share

hamed-ashraf
ماہِ محرم ۔۔۔۔۔۔۔۔ مر ثیے ٗ نو حے ٗ لوک گیت

ڈاکٹرحامد اشرف
اسو سی ایٹ پروفیسر
شعبۂ اردو مہاراشٹرا اودے گری کالج ٗ اودگیر
موبائل:09423351351

حق و با طل کی جنگ کے دلسوز و درد ناک واقعات کو ماہِ محرم میں عقیدت سے یاد کیا جاتا ہے۔حادثات کی روداد مجلسوں میں قسط وار سُنائی جاتی ہے۔شیعہ طبقے میں خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ماتم منا یا جاتا ہے۔مجلسیں قائم کی جاتی ہیں۔آلِ رسول سے محبت اور عقیدت کا اظہار مختلف طریقوں سے کیا جاتا ہے۔سُنّی لوگ بھی ماہِ محرم کااحترام کرتے ہیں۔پرانے حیدرآباد میں محرم کے اہتمام اور عظمت کے بارے میں اقتباس ملا حظہ فر مائیں:

’’محرم کا چاند نظر آتے ہی علم ایستادہ کر دیے جاتے تھے۔کچھ اہلِ تشیع سیاہ لباس پہنتے تھے۔کچھ لوگ سبز لباس پہنتے تھے۔دس محرم تک گھروں میں روٹ ٗ چونگے ٗ بُتّی ٗ قبولی اور شر بت بنتا اور محلّے والوں میں تقسیم ہوتاتھا۔(۵) تاریخ کو لنگر کا تاریخی جلوس نکلتاتھا۔‘‘ (1)
اب بھی حیدر آباد میں ایسا ہوتا ہے لیکن وہ اہتمام و جوش و خروش نہیں ٗ جو پہلے ہوا کرتا تھا۔سارے ہندوستان میں طریقے الگ ہیں ۔رواج الگ ہیں۔علا قۂ حیدر آباد ۔کر نا ٹک ( گلبر گہ ٗ رائچور ٗ بیدر ٗ کُپل اور یادگیر)میں بھی تازیے ٗ علم بٹھانے ٗ اُٹھانے اور ٹھنڈا کرنے کی روایت اب بھی باقی ہے۔خاص طور پر گلبرگہ میں پہلی محرم سے کافی گہما گہمی نظر آتی ہے۔محرم کے مہینے کی عقیدت شیعہ ٗ سنّی مسلمانوں کی حد تک نہیں ٗ ہندوؤں میں بھی اس کا احترام ہے۔ہندو اور مسلمان محرم کا چاند دیکھنے کے بعد مشترکہ طور پر احترام کے عمل میں مصروف ہو جاتے ہیں۔مسلمان گاؤں گاؤں ٗ شہر ٗ قریہ بستی میں ہر جگہ تازیے بٹھاتے ہیں۔گلبرگہ شہر میں تمام محلّوں سے علم کی سواریاں نکلتی ہیں اور سب حضرت خواجہ بندہ نواز ؒ کی درگاہ کے سامنے گیارہ سیڑھیوں پر جمع ہو جاتے ہیں اور شہر کے لوگ مر و خواتین اور بچے بھی بہ اشتیاق وہاں علی الصبح جمع ہو جاتے ہیں۔یہ سلسلہ بر سوں سے جاری و ساری ہے اور اب بھی سر گر میاں نظر آتی ہیں ۔ہر محلّے میں علم بٹھانے والے اکثر خاندانی ہوتے ہیں۔اُن کا ساتھ محلّے والے دیتے ہیں۔روزانہ علم بٹھانے کی جگہ لوگ خاص طور پر عورتیں اپنے بچوں کو لے کر آتی ہیں ٗ عود اور لوبان سے بھری فضا ء میں منتّیں مانگتی ہیں۔فاتحہ پڑھتی ہیں۔علم گاہ میں بیٹھنے والا پہلے مورچھل کٹّا علم پر پھیرتا ہے اور بعد میں زائرین کی پیٹھ پر۔نذر نذرانے کا سلسلہ بھی چلتا ہے۔
محرم کی ۵؍ اور ۷ ؍ تاریخ کو اہمیت حا صل ہے ۔ان دنوں بھیڑ بھا ڑ زیادہ ہوتی ہے ۔ان دنوں سبھی جگہوں کے تا زیوں( علم ) کی سواری اُٹھتی ہے اور دس(۱۰) محرم جو اصل میں شہادتِ حسین ؑ کا دن ہے۔اس دن کی اہمیت اور فضیلت کا کیا کہنا۔اس شب میں تمام تازیے جلوس کی شکل میں اُٹھائے جاتے ہیں ڈھول تاشے ٗ مر فے بجائے جاتے ہیں راستہ بھر مر ثیے ٗ نوحے اور محرم کے الوداعی گیت گائے جاتے ہیں۔ یہ گانے والے عام لوگ ہوتے ہیں ایسے مو قع پر لوک گیت بھی گائے جاتے ہیں ۔مخصوص مصرعوںیا مکھڑوں کو سبھی دہراتے ہیں۔سبھی گیتوں میں آلِ رسول اور افرادِ خانۂ حسنینؓ کی شہادت کے واقعات بیان ہوتے ہیں۔کر بلا کے وا قعات کو یاد کر کے دلسوز گیت گائے جاتے ہیں ۔سبھی حا ضرین بہ چشمِ نم سواری میں شامل ہو جاتے ہیں۔علم بردار سے محلے کے ہندو مسلم افراد اپنے مسائل بیان کرتے ہیں جسے ’’ بولا چالی‘‘ کہا جاتا ہے۔ آخرِ کارتازیے کسی ندی نالے اور تالاب میں ٹھنڈے کر دیے جاتے ہیں۔

واقعاتِ کربلا جو نوحہ اور مر ثیے کی شکل میں مو جود ہیں ٗ ماہِ محرم میں الاوہ کے اطراف گائے جاتے ہیں۔بہت سارے لوگ کتابچوں میں چھپی منظوم روداد بھی گاتے ہیں ۔اُن کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔بعض شعرائے کرام کرب و بلا یعنی کربلا کے شہداء اور پس ماندگانِ شہداء کے واقعات کو بین کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔ان گیتوں کو المیہ گیت بھی کہہ سکتے ہیں۔یہ گیت چو نکہ سینہ بہ سینہ سفر کرتے ہیں اور نسلاً بعدِ نسلاً قوموں کی میراث بن جاتے ہیں۔اس لیے ہم انہیں لوک گیت کہہ سکتے ہیں۔ایسے کچھ گیت ذیل میں ملا حظہ فر مائیں:
حسین کا دلبر و دلدار قاسم
حسین کا مونس و غم خوار قاسم
کشیدہ رنج و غم بسیار قاسم
جہاں سوں دیدۂ خونبار قاسم

تم اپنے دلبراں کی کی خبر لو علی ولی
بے تاج سر داراں کی خبر لو علی ولی
نیزوں اوپر سروں کی خبر لو علی ولی
ظلم و ستم گراں کی خبر لو علی ولی

ہے ہے اصغر سونا تیرا پالنا
رو رو بانو کرتے ہیں سونا تیرا پالنا

تجھ بن بانو ہیں بے حال
لہو میں بکھرے سوکھے بال
کہے تھے ہے میرا لال سونا تیرا پالنا
جس طرح لکھنو کا چہلم اور امام باڑے کا محرم مشہور تھا کہ وہاں نواب آصف الدولہ کے زما نے سے لے کر نواب واجد علی شاہ اخترؔ تک ہر نواب نے اہلِ بیتِ اطہار سے اپنی محبت کا ثبوت دیتے ہوئے تازیے بٹھانے اور شہدائے کربلا کی یاد تازہ کرنے کا اہتمام کیا جاتا ٗاُسی طرح علا قۂ حیدر آباد کر ناٹک کے اضلاع میں تازیوں کے سامنے رات رات بھر نوحے اور مر ثیے پڑھے جاتے ہیں۔ مر ثیہ گو ایک لکڑی کو سجا سنوار کر گھنگھرو باندھ کر لاتے ہیں اور لکڑی ہاتھ میں پکڑ کر مرثیے گاتے ہیں اور ایک بند پورا ہونے پر لکڑی کو زمین پر پٹکتے ہیں۔گھنگھروؤں کی آواز چار سو پھیل جاتی اور لوگ باگ اُن مر ثیوں کو جنہیں ’’ جھنڈے ‘‘کہا جاتا ہے سُن کر دہاڑیں مار مار کر روتے ہیں ۔مو ضوع ہو اگر شہیدانِ کربلا کا تو کوئی آنکھ روئے بغیر کیسے رہ سکتی ہے۔
ننھی سی قبر کھود کے اصغر کو گاڑ کر
حسین اُٹھ کھڑے ہوئے دامن کو جھاڑ کر
چشم گریاں ضررِ دیں میں گہر بوتی رہی
کٹ گیا سر ٗ پر نمازِ حق ادا ہوتی رہی
جھنڈے پڑھنے والوں کو اُستاد کہا جاتا اور اُن کے شاگرد کورس کی شکل میں مصرعے دہراتے ہیں ۔محلہ کمیٹی کی جانب سے بہترین مر ثیہ گو ٹیم کو انعام و اکرام عطا کیا جاتا۔عادل شاہی دور کا ایک مشہور شاعر ’’ہاشمی‘‘ جو ریختی کہنے میں ماہر تھا۔اُس نے کچھ مر ثیے بھی لکھے ہیں۔ایک مشہور و مقبول مر ثیے کے چند شعر ملا حظہ ہوں۔
دلبندِمصطفےٰ کا تابوت لے چلے ہیں فرزندِ فاطمہ کا تا بوت لے چلے ہیں
سلطان دو جہاں کا سردار اولیا ء کا مظلوم کر بلا کا تا بوت لے چلے ہیں
حضرت حسین وحسنؓ کا شاہِ زمیں زمن کا حضرت نبی منگا کر تا بوت لے چلے ہیں
حضرت کے تھے نواسے ٗ حیدرؓ کے تھے خلا صے میرے شہید پیاسے تا بوت لے چلے ہیں
اے ہاشمیؔ شہاں کا سلطان دو جہاں کا
مقتول اس جہاں کا تا بوت لے چلے ہیں
ایسے کئی المیہ گیت ٗ نو حے ٗ مرثیے لوگ اپنے ذوق اور پسند کے مطابق کلام تلاش کرتے ٗ یاد کرتے اور گاتے ہیں۔کچھ لوگ قوالوں کی گائی ہوئی چیزیں بھی گاتے ہیں۔کچھ بوڑھے بڑھے لوگوں کی یادداشت سے فائدہ اُٹھا کر طرز اور کلام محفوظ کر لیتے ہیں اور وقتِ ضرورت استعمال کرتے ہیں۔
انیس ؔ و دبیرؔ کے مر ثیے تو سند کا درجہ رکھتے ہیں۔سلیس زبان میں پوری شدت بیانی کے ساتھ یہ مر ثیے بے حد پُر اثر ہیں۔ بہت سارے لوگوں کو یہ یاد اس لیے ہیں کہ ان میں واقعاتِ کر بلا کا تفصیلی بیان ملتا ہے۔بلکہ ان دونوں کے پاس ہی کئی طرح کی ایسی باتیں ملتی ہیں جو ٗ دوسروں کے ہاں نہیں ملتیں۔اُن کے عہد کے شعراء اور بعد کے شعراء نے جو مر ثیے اور نوحے لکھے ہیں اُن پر انیسؔ و دبیرؔ کی چھاپ نظر آتی ہے لیکن ٗ دکن کے مر ثیہ گو شعرا ء کے پاس یہ بات نہیں ۔ان دونوں سے پہلے دکنی زبان کے شعرا ء نے بہت ہی پُر اثر مر ثیے اور نوحے کہے ہیں اور بعد کے دکنی شعرا ء نے بھی اُن کی تقلید نہیں کی۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ شہر حیدرآباد اور علا قۂ حیدرآباد ۔کر نا ٹک کے لوگوں کو دکنی شعراء کا کلام پسند بھی ہے اور یاد بھی !بطورِ نمو نہ کلام ملا حظہ فر مائیں۔
میرا نام ہے بی شہر بانو
میں علی کی بہو ٗ مجھ کو جا نو
ارے حسین اذاں دینے آئے
اجی امّا ں کیوں آؤں میری امّاں
ارے امّاں کافر میرے ساتھ ہے
اجی امّاں8 یزید میرے ساتھ ہے
دکن کے بیشتر علا قوں میں دکنی مر ثیوں اور نو حوں کے علا وہ خالص لکھنوی اور دہلوی زبان میں بھی مر ثیے اور نو حے گائے جاتے ہیں۔یہ زیادہ تر قوال حضرات اور شیعہ حضرات یا پھر وہ مہذب طبقہ جو خالص نکھری اور ستھری اردو پڑھتا لکھتا اور بولتا ہے۔یہاں کے لوگ میر انیس ؔ اور دبیر ؔ کو بھی پسند کرتے ہیں اور اُن شعراء کے کلام کو بھی جو پُر اثر طریقے سے واقعاتِ کر بلا کو بیان کرتے ہیں۔ایک بے حد اثر انگیز نو حہ ہے جس میں حضرت بی بی زینبؓ اپنے بھائی کی یاد میں بین کر رہی ہیں۔ملا حظہ فر مائیں:

تھی یہی زینب کی بین ہائے برادر حسینؓ
مر کے بھی پایا نہ چین ہائے برادر حسینؓ
قصۂ غم بھائی جاں کس سے کروں میں بیاں
کون ہے میرا یہاں ہائے برادر حسینؓ
اے میرے گل پیراہین ا ے مرے تشنہ دہن
روتی ہے دیکھو بہن ہائے برادر حسینؓ
آپ تو بس مر چلے کوہِ الم دھر چلے
ساتھ نہ لے کر چلے ہائے برادر حسینؓ
کیسی یہ نیند آ گئی ٗ آنکھ بھی پتھر ا گئی
کس کی نظر کھا گئی ہائے برادر حسینؓ
ہائے غریب الوطن ٗ کشتہ رنج و محن
پایا نہ گو رو کفن ہائے برادر حسینؓ
آپ تو منہ موڑ کر رشتہۂ جاں توڑ کر
ہم کو چلے چھوڑ کر ہائے برادر حسینؓ
زندگی بھاتی نہیں موت بھی آتی نہیں
جان بھی جاتی نہیں ہائے برادر حسینؓ
خلد کو اکبر گئے ساتھ ہی اصغر گئے
مجھ کو نہ لے کر گئے ہائے برادر حسینؓ
دیکھتے منہ رہ گئے درد و الم سہہ گئے
کچھ نہ ہمیں کہہ گئے ہائے برادر حسینؓ
تھا یہی حمزہ مدام بنت ِ علی کا کلام
اے میرے بے کس امام ہائے برادر حسینؓ
ماہِ محرم کے دسوں دن طرح طرح کے مظاہرے ہوا کرتے ۔جس میں جھنڈا مقابلہ عام تھا۔یہ کچھ اس طرح کہ اس مقا بلے میں حصہ لینے کے لیے جو پارٹی تیار ہوتی اُس کا نام لکھ لیا جاتا۔جیسے چار پارٹیاں ہیں تو چاروں پارٹیاں ایک محلے کے الا وے ( الاوہ)کے پاس جمع ہو جاتیں۔پارٹیاں اپنی اپنی ریہر سل کر کے وہاں آتیں۔اُن کو کر بل؛ا کے اہم واقعات پر گانے کا مظاہرہ کرنا پڑتا۔ مقابلہ کروانے والے حضرات ججوں کا تقرر کرتے اور جج یہ دیکھا کرتے کہ کس پارٹی نے کس اہم واقعے کو کس طرح پیش کیا۔مر کزی حیثیت ایک گانے والے کی ہوتی وہ گاتا اور ٹیپ کے بند دیگر لوگ ادا کرتے ۔اس میں مو ضوع ٗ کلام ٗ اندازِ پیش کش ٗ آواز میں سوز و گداز وغیرہ دیکھا جاتااور نمبر دیے جاتے تھے۔جس پارٹی کے نمبر زیادہ ہوتے اُس پارٹی کو انعام و اکرام سے نوازا جاتا۔
سب پارٹیاں اپنے اپنے جھنڈے ( لکڑی اور لوہے کی تاروں سے بنائے ہوئے جھنڈے) لیے حاضر ہوتیں ۔اُن پر پارٹی اور محلے کانام لکھا ہوتا۔اپنی اپنی باری آنے پر پارٹی کا ایک آدمی جھنڈا پکڑے آگے ہوتا اورپارٹی کے دیگر افراد اُس کے پیچھے ٹیپ کا بند دہراتے ہوئے الاوے کا چکر کاٹتے۔دکن کے بیشر شہروں ٗ دیہا توں میں اس طرح کے مظاہرے کیے جاتے۔شہر گلبر گہ میں اس کی کافی دھوم ہوا کرتی تھی ۔کئی دنوں سے اس کی تیاریاں ہوا کرتی تھیں۔ریہر سل ہوتے ۔کلام پر غور و غوض ہوتا۔جب یقین ہو جاتا کہ کلام میں دم خم ہے اور مقابلے میں انعام مل سکتا ہے تو پارٹی کانام مقابلے کے لیے پیش کیا جاتا۔
بٹلی الا وہ مومن پورہ میں ایک ایسا ہی مقابلہ منعقد ہو تھا ۔راقم نے بچشمِ خود کئی جھنڈے دیکھے اور سُنے ہیں۔اُ(س مقابلے کے لیے ایک طرحی مصرعہ دیا گیا تھا: ’’داد دنیا دے رہی ہے اُن کی شہرت عام ہے‘‘ اس مقابلے کا ایک انعام یافتہ کلام دستیاب ہوا ہے۔
ملا حظہ فر مائیں :
زیرِ خنجرجس کا سجدہ عظمتِ اسلام ہے
داد دنیا دے رہی ہے اُن کی شہرت عام ہے
بیعت ہونے کے بہانے خط لکھا شاہِ دین کو
دھوکا دے کے بلا یا زہرہ کے نورِ عین کو

دن تو ڈوبا راستے میں ٗ اب تو وقتِ شام ہے
داد دنیا دے رہی ہے ٗ اُن کی شہرت عام ہے
دوسرے د ن جو حُر آیا ساتھ لے کر فوج کو
کہہ رہا تھا آگیا میں گھیرنے حسنین کو
جو ش ٗ جو ابن ِ علی کو سُن کے اس دم آگیا
دیکھ کر چہر ہۂ آقا ہوش حُر کا اُڑگیا
تھرا گیا حُر گھبر ا گیا کیا تاثیرِ امام ہے
داد دنیا دے رہی ہے اُن کی شہرت عام ہے
حُر قد موں میں گرے شاہِ دیں کے جب وہاں
سچے دل سے توبہ کی اور کلمہ پڑھ لیا
لے کر کہا ہاتھ میں یہی پر چم ِ اسلام ہے
داد دنیا دے رہی ہے اُن کی شہرت عام ہے
ٍٍٍ تن بہتّرلڑ رہے رہے تھے کر بلا کے میدان میں
آگئی تھی قوتِ ایمانی اُن کی جان میں
کاٹنا ٗ حق پہ کٹنا یہ جر أ ت ِ اسلام ہے
داد دنیا دے رہی ہے اُن کی شہرت عام ہے
محرم کے مہینے میں اس طرح کے مقابلے کروانے کا ایک مقصد ہوا کرتا تھاکہ لوگ اس میں جوش و خروش سے حصّہ لیں اور خوب سے خوب تر کلام تخلیق کیا جائے اور عوام کے سامنے واقعاتِ کر بلا کو واضح طور پر پُر اثر انداز میں بتایا جائے۔حق اور باطل کی جنگ کا خلا صہ کیا جائے۔عام لوگ یہ اچھی طرح سے جان لیں کہ یہ جنگ اسلام کو کس طرح زندہ اور پائندہ کر گئی اور یزید کی بظا ہر جیت کس طرح ایک بڑی ہار ثابت ہوئی۔شہیدانِ کربلا کی جیت دنیا وی اور دینوی اعتبار سے کتنی عظیم تھی۔صد حیف کہ اب یہ سلسلہ نہیں رہا۔ لیکن اُس کی یادیں اب بھی تازہ ہیں۔زمانے کی تبدیلی کے ساتھ انسانی طور طریقے بھی بدل گئے لیکن اب بھی عقیدے قائم ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔
حواشی:(1)مملکتِ آصفیہ(جلد اول) مرتب ۔ڈاکٹر محمد عبد الحئی ص۴۵۱ ۔ادارہ محبانِ اردو ٗکراچی ۱۹۷۸ ء

Share
Share
Share