وجئے دشمی ۔ دسہرہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محمد رضی الدین معظم

Share

محمد رضی الدین معظم
وجئے دشمی (دسہرہ )

محمد رضی الدین معظم
حیدرآباد ۔ دکن
سیل: +914069990266, 09848615340

وجے دشمی تہوار کو ہندو تہواروں میں زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یہ بدی پر نیکی‘ ناانصافی پر انصاف کی فتح اور حق کے لئے جنگ اور اس میں کامیابی کا تہوار ہے۔ دسہرہ تہوار آشوبح شکلا دشمی کے دن منایا جاتا ہے۔ دسہرہ کو وجے دشمی بھی کہتے ہیں۔ جس کی کئی وجوہات ہیں۔ اشوبح شکلا پکش دشمی کے دن شام کے وقت جسے سندھیا کال بھی کہتے ہیں‘ کامیابی یعنی وجئے کال تصور کرتے ہیں۔ اس وقت جو بھی کام شروع کیا جائے گا اس میں کامیابی نصیب ہوگی۔ دشمی کے دن جوتشیوں کا نظریہ یہ ہے کہ شراون نکشتر سیارہ مبارک سمت میں ہوتا ہے۔ اس دن ہندو سمی جے سمی بھی کہتے ہیں۔ اس درخت کی پوجا کرتے ہیں اور نیل کنٹھ پرندہ کو آزاد کیا جاتا ہے!

قدیم زمانے میں موسم برسات کے بعد کا زمانہ جنگ و جدال کے لئے موزوں تصور کیا جاتا تھا۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ زبردست بارش کی وجہ سے دشمن کی فوجی چھاؤنی تک پہونچنے میں کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اس لئے قدیم زمانے میں‘ بادشاہ موسم برسات کے بعد ندیوں میں سیلاب تھم جانے پر جنگی مہم پر روانہ ہوتے تھے۔ اس مہم کو ڈنڈا یاترا کہا جاتا تھا۔ وجے دشمی کے دن پوجا پاٹ کی جاتی ہے‘ شام میں سمی درخت کی پوجا کی جاتی ہے۔ سیما النگن یعنی سرحد کو پار کرنا ہوتا تھا‘ اس لئے دیہاتی عوام اپنے دیہاتوں سے باہر جاتے ہیں۔
دسہرے کا انعقاد راجہ رام چندرجی کی بنواس سے کامیاب واپسی پر ان کی تاج پوشی سے منسوب ہے۔ دسہرہ ارجن کی کامیابی ہے۔ ارجن نے گہو سم پد کی حفاظت کے لئے ہتھیار اٹھایا اور ظالموں کے خلاف جنگ میں ارجن کو وجے دشمی کے دن ہی کامیابی حاصل ہوئی۔ ارجن نے بدی کیطاقتوں پر قابو پانے کے اس دن جمی درخت کی پوجا کی تھی‘ کیونکہ پانچ پانڈوؤں نے ایک سال اگیات واس گذارنے کے لئے اپنے ہتھیار لباس و تاج باندھ کر جمی درخت پر چھپا رکھا تھا۔ انہیں حاصل کرنے کے لئے ہی انہوں نے اپنی روپوش زندگی کے ایک سال کی تکمیل پر اس درخت کی پوجا کی اور اس میں سے اپنے ہتھیار لئے کیونکہ برہمنوں کا عقیدہ یہ ہے کہ اس درخت کی پوجا سے گناہوں کا ازالہ ہوتا ہے اور دشمن پر بآسانی قابو پانا یا کامیابی حاصل کرنا ممکن ہے۔
اسی طرح دوسرا اہم واقعہ رامائن کاہے۔ جس میں رشی والمیکی نے بتایا ہے کہ رامچندرجی نے وجے دشمی کے دن ہی لنکا کے راون کا جنگ میں خاتمہ کیا ۔ دیوی بھاگوت کے مطابق رام نے راون کے خلاف جنگ کرنے سے قبل نو دن تک نوراتری دیوی پوجا کی تھی۔ شانتی صبر کا پیام دینے والی ۔ بدی کی طاقتوں پر فاتح ہونے والی۔ بھکتی کا راستہ دکھانے والی دیوی درگا ماتا ہے۔ انہوں نے راکشس میناسور کا خاتمہ کیا تھا۔
دسہرہ تہوار جوش و خروش کے ساتھ ملک بھر میں منایا جاتا ہے۔درگا اسٹمی پوجا بنگال میں جوش و خروش کے ساتھ دو ہفتہ تک منائی جاتی ہے۔ یہاں کی درگا پوجا تقاریب بین الاقوامی سطح پر کافی مقبولیت حاصل کرگئی ہیں۔ انگریزوں کے دور سے یہاں اس پوجا کی رسم ادا کی جارہی ہے۔ میسور کے مہاراجہ بھی اس تہوار کو جوش و خروش اور دھوم دھام سے مناتے تھے۔ آج بھی یہ روایت برقرار ہے۔ میسور کے مہاراجہ اس دن ہاتھی پر سوار ہوکر شاندار جلوس کی شکل میں نکلتے تھے ‘ جس میں سجے سجائے ہاتھی ‘ اونٹ اور گھوڑے بھی ہوتے تھے۔ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ میثا سور راکشس اس علاقہ میں رہتا تھا۔ درگا دیوی نے اس کو جنگ میں تمام دیوی دیوتاؤں کے آشرواد سے نیچا دکھایا تھا۔ اس راکشس میثا سور کے نام پر میسور کا وجود عمل میں آیا تھا۔
اترپردیش میں دسہرہ کا تہوار رام لیلا اتسو کے نام سے منایا جاتا ہے۔ آخری دن راون کا پتلا نذر آتش کیا جاتا ہے۔ آندھراپردیش میں خواتین اپنے گھروں میں گڑیوں کو سجاتی ہیں۔ کچی پوڑی رقص کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ اسی دن رامائن اور مہا بھارت کی کتھائیں پڑھی جاتی ہیں اورخواتین بتکماکھیلتی ہیں۔ کئی ایشیائی ممالک آفریقہ‘ چین‘ مصر میں قدیم زمانے میں پراشکتی دیوی کی پوجا کی جاتی تھی۔ وجے واڑہ میں کرشنا ندی کے دامن میں کنکا درگا مندر میں نویں صدی ہی سے دھری کہا جاتا تھا۔ جگت گرو شنکر اچاریہ نے بھی کنکا درگا کی آرادھنا کی۔ ہندو اس تقاریب کو تین دن مناتے ہیں۔ پہلے دن ’’درگا اشٹمی پوجا‘‘ دوسرے دن مہانومی یعنی نوراتری پوجا کی جاتی ہے اور تیسرے دن وجے دشمی جشن منایا جاتا ہے۔ قدیم زمانہ میں راجہ مہاراجہ اپنے فاتح ہونے کے ثبوت کے لئے اشوحا مگینیہ کرتے تھے۔ اس کے لئے وہ نودن تک دیوی پوجا کرنے کے بعد دسویں دین وہ اپنے فوج کی سواریوں ہاتھی‘ گھوڑوں وغیرہ کو سجا کر ان کا جلوس نکالتے تھے۔ آج بھی اس رواج پر عمل کیا جاتا ہے۔
اس دن آریہ سماج اور سکھوں کی جانب سے جلوس بھی نکالے جاتے ہیں۔
راون کا پتلا
اشوین کی دسویں تاریخ کو پورے ہندوستان میں راون کا پتلا جلایا جاتا ہے۔ یہ دراصل بدی پر نیکی کی فتح کا اظہار ہے۔ آجکل یہ کہا جانے لگا ہے کہ دسہرہ وقت کی ضرورت ہے۔ دسہرہ سچائی اور نیکی کی فتح کا تہوار ہے۔
جہاں تک لفظ دسہرہ کا تعلق ہے بعض لوگوں کا بیان ہے کہ یہ لفظ ’’دشن ۔ ہرا‘‘ ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ دس سر والے بادشاہ راون کی موت ہوگئی ہے۔ راون کے ساتھ اس کے بھائی کمبھ کرن اور بیٹے میگناتھ کو بھی موت آگئی تھی۔ دسہرہ کے آخری دن راون کا ایک بہت ہی بلند قامت پتلا اس کے بھائی اور بیٹے کے پتلوں کے ساتھ جلایا جاتا ہے اور لوگ بدی کے خاتمہ پر مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔ آجکل جو پتلے تیار ہوتے ہیں وہ آتشبازی کے ہی ہوتے ہیں اور جب پتلوں کو جلایا جاتاہے تو خوب پھلجھڑیاں چھوٹتی ہیں۔ راون کے پتلے کو جلانے کا کام صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ ہر سال اس کو جلایا جاتا ہے۔ اس کے ذریعہ بدی کے خلاف انسان کے احتجاج کا اظہار بھی ہے۔ ہندوستان میں بدی کے تین نمائندوں راون‘ کمبھ اور میگناتھ کے پتلے جلانے کا طریقہ رائج ہے۔ انگلینڈ میں ہر سال ۵ نومبر کو گٹی فاکس ڈے منایا جاتا ہے اور اس کا پتلا جلایا جاتا ہے۔ وہ دراصل باردر سازش میں ملوثتھا۔ اسی طرح میکسیکو غدار جوڈس کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے اور اس کا پتلا جلایا جاتا ہے۔ انگلینڈ اور فرانس کے درمیان سات سالہ جنگ کے موقع پر فرانس کے قبضہ سے منوریا کو چھڑانے کا فیصلہ اہمیت اختیار کرگیا تھا۔ اڈمیرل بائینگ نے بادل ناخواستہ منوریا کو چھڑانے کی کوشش کی۔ انگلینڈ میں لوگ اس کے رویہ کو بھول نہیں سکے ہیں۔ کئی سال تک گدھے کی پیٹھ پر اس کے پتلے کی سواری نکالی جاتی تھی‘ جس پر ایک لوح لگی ہوئی تھی۔ جس پر لکھا ہوتا تھا کہ یہ وہ آدمی ہے جس نے جنگ کرنا نہیں چاہا۔ بعد میں پتلے کو پھانسی پر لٹکا یا جاتا۔ اس کا چہرہ مسخ کیا جاتا اور پھرآخر میں اس کو جلادیا جاتا تھا۔ ہالینڈ‘ انگلینڈ اور دیگر کئی ممالک میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عیسائی ایک دوسرے کے دشمن ہوگئے تھے اور وہ ایک دوسرے کے پتلے جلایا کرتے تھے۔
عام خیال یہ ہے کہ کسی شخص کے پتلے کو پھانسی دینا ویسا ہی ہے جیسے کہ خود اسی شخص کو پھانسی دی جارہی ہو۔ فرانس میں قدیم زمانہ میں اگر کوئی سزائے موت یافتہ قیدی جیل سے فرار ہوجاتا تھا تو اس کے پتلے کو ’’ہلاک‘‘ کیا جاتا تھا۔ جس طرح غیاب میں مقدمہ کی سماعت ہوتی ہے۔ اسی طرح غیاب سزائے موت کی تکمیل بھی کی جاتی ہے۔ ڈیوک آف لا والے کے پتلے کو پیرس میں ۱۶۳۹ء ’’ہلاک‘‘ کردیا گیا۔ لیکن ڈیوک خود انگلینڈ میں موجود تھا۔
انقلاب فرانس کے بعد اس قسم کی غائبانہ سزاؤں کے طریقہ کو ختم کیا گیا۔ فلی ڈیضامین ہرسال ۴ جولائی کو عام آزادی کی تقاریب کے ساتھ ساتھ انقلابی جنگ کے بھگوڑے بینڈکٹ آرنلڈکا پتلا جلایا جاتا تھا۔ جاپان میں کئی سال قبل تک بے وفا محبوب کے پتلے کو برسر عام پھانسی پر لٹکایا جاتا تھا۔

Share
Share
Share