جوش ؔ کی شاعری میں لفظ و معنی کا توازن
ڈاکٹر بی محمد داؤد محسنؔ
داونگرے۔577001 (کرناٹک۔انڈیا)
فون : 09449202211
e-mail:
شبّیر حسن خاں جوش ملیح آبادی کا تعلق ایک علمی و ادبی خاندان سے تھا۔جن کے والد نواب بشیر احمد خاں بشیرؔ ، دادا نواب محمداحمد خاں احمدؔ اور پرداد حصام الدولہ جنگ نواب فقیر محمد خاں گویاؔ شاعر تھے۔جوشؔ نوابی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اس لیے بچپن لاڈ و پیار میں گذرا۔جوشؔ نے گھر پرعربی ، فارسی ، اردو اور انگریزی کی تعلیم پائی اوراس کے بعد باقاعدہ طور پر اسکول اور کالج میں بھی تعلیم حاصل کی ۔ شاعری کا ذوق ورثہ میں ملا تھا ۔ نو برس کی عمر میں شاعری شروع کی اور تیرہ برس کی عمر میں پہلا شعری مجموعہ نظم و نثر ’’ روح ادب ‘‘ کے نام سے 1920 ء میں منظر عام پر آیا۔اس کے بعد مسلسل کئی شعری و نثری مجموعے یکے بعد دیگرے منظر عام پر آتے رہے اور ان کی شاعرانہ عظمت میں اضافہ کرتے گئے۔
شخصیت کی تعمیر میں اطراف و اکناف کا ماحول ، خاندانی رسم و روایات ، آبا و اجداد کا مزاج، صلبی کیفیات اور ماں کے دودھ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔جوش ایک افغانی پٹھان تھے ان کے مزاج میں افغانیت ان کے سات پشت کی آفریدیت کا نتیجہ تھی۔ والدین کے لاڈ و پیا راور حد سے زیادہ چھوٹ اور آزادی نے ان کے مزاج میں ضد، طنطنہ ، دبدبہ اور طمطراق کی کیفیت پیدا کردی تھی جوکہ جاگیرداری کی دین تھی۔ان سب پر جوش ؔ کی افتاد طبع ، ذہنی رویّہ اور نقطۂ نظر حاوی رہا۔اسی میں جوش کی شخصیت کی جہتیں اور شاعرانہ عظمتیں تلاش کی جا سکتی ہیں۔
جوشؔ کی شاعرانہ عظمت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ان کی شاعرانہ عظمت کے امتیازی پہلوؤں میں موضوعات کا تنوع ، لفظیات کا مقناطیسی طمطراق اورمعنیات کاٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر ہے۔جوش ؔ کی شاعری میں یہ تینوں میلانات ملتے ہیں۔جہاں تک لفظیات کا معاملہ ہے اردو شعر و ادب میں جوشؔ کے علاوہ میرانیسؔ اور نظیر اکبر آبادی کی لفظیات سے کسی کو انکار نہیں ہے میرؔ انیس کا دعویٰ تھا کہ
گلدستۂ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں
اک پھول کا مضموں ہو تو سو ڈھنگ سے باندھوں
مزے کی بات یہ ہے کہ میر انیسؔ کو بڑے اور باکمال ہونے کا احساس تھا وہ خود آگاہ تھے کہ وہ کس قسم کے شاعر ہیں اور انہیں یہ معلوم تھا کہ انہوں نے کیا کہا ہے ، کیا کہہ رہے ہیں اور کس کے لیے کہہ رہے ہیں اور کس طرح کہہ رہے ہیں اور کس کس طرح کہہ سکتے ہیں۔ انہیں احساس تھا کہ انہوں نے ایک پھول کے مضمون کو کتنے ڈھنگ سے باندھا ہے۔شاعری ان کے لیے شعوری کاوش کا نام ہے ۔جب ہم انیس کے بعد نظیر اکبرآبادی کی بات کرتے ہیں تو وہاں بھی موضوعات کا تنوع ، لفظیات کی بھرمار اور معنیات کا ایک بحر بیکراں نظر آتا ہے۔اسی طرح جوشؔ کی طرف آتے ہیں تو ان کے یہاں بھی یہی کیفیت پائی جاتی ہے مگر ان کے یہاں خطیانہ آہنگ پایا جاتا ہے ۔اس پر مزہ یہ کہ ان کے یہاں اپنی زبان دانی، اپنے کلام کی بلاغت اور شاعرانہ عظمت و رفعت کا شدید احساس نہیں بلکہ ناز دکھائی دیتاہے۔ان کے کلام سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے فن کی عظمتوں سے واقف تھے ۔حالانکہ خود شناسی عیب نہیں ہے کیونکہ ہر سچا فن کار اپنے فن کا راز دار ہوتا ہے۔مگریہی راز اسے فخر والابنادے تووہ زعم کی حدود سے نکل کر انا نیت کا شکارہوجائے گا۔لہذا جوشؔ کواپنی علمیت پر ، انداز بیان پر اور لفاظیت پر ناز تھا ۔انہیں یہ زعم تھا کہ الفاظ ان کے سامنے لونڈیوں کی طرح صف بستہ با ادب ’’عالم پناہ ، ظلّ الٰہی ….مجھے برتئے مجھے برتئے‘ کہتے ہوئے کھڑے رہتے تھے۔اسی احساس نے انہیں مغرور بھی بنا دیا تھا۔وہ اپنے آپ کو بیسویں صدی کا بڑا شاعر ہی نہیں بلکہ حافظؔ و خیام ؔ تصور کرتے تھے۔اسی انا نے انہیں یہ
کہنے پر آمادہ کیا کہ
قدر کر اس خراباتی کی جس کو جوشؔ کہتے ہیں
کہ یہ بیسویں صدی کا حافظؔ و خیامؔ ہے ساقی
صاف معلوم ہوتا ہے کہ جوشؔ نے جوش و جذبہ میں یہ دعویٰ کیا ہے کیونکہ جب ہم حافظ ؔ و خیام ؔ کا انداز بیان اور الفاظ کی نادرہ کاری، معنئ مضموں کوان کے یہاں تلاش کریں تو ہمیں مایوسی ہوگی۔شاعری میں اس طرح کے دعوے کوئی نئے نہیں ہیں میر ؔ نے بھی کہاتھا۔
ریختہ رتبہ کو پہنچایا ہوا اس کا ہے
معتقد کون نہیں میرؔ کی استادی کا
اس سے ہٹ کرمیرؔ کا ہی یہ کہنا کہ
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
میرؔ واقعی بڑے شاعر ہیں۔ہمیں اس سے انکار نہیں ہے۔ اس طرح کے دعوے وہی فن کار کر سکتا ہے جس کے فن میں دم خم ہوتا ہے ورنہ جھوٹے دعوے فن کار کو جھوٹااور چھوٹا بنا دیتے ہیں۔مگر ہم آنکھیں بند کرکے کبھی کبھی شخصیت سے مرعوب ہو کر تسلیم کر لیتے ہیں ۔اگرمیرؔ کے آخرالذکرشعر کے الفاظ میں پنہاں معنویت پر غور کریں تو یہ بات عیاں ہوگی کہ سارے عالم پر چھاجانا کوئی مذاق نہیں ہے کیونکہ سارے عالم پر چھانے والی صرف ذات الٰہی ہے اوران کا کہا ہوا مستندہونا بھی بے معنی ہو کر رہ جائے گا کیونکہ سوائے اللہ اور اس کے نبئ مکرم رحمت عالمؐ کے فرمان کے علاوہ کسی کا فرمان مستند ہو ہی نہیں سکتا۔اس طرح کے دعوے جو شاعری میں ہوتے ہیں اسے ہم شاعرانہ تعلی مان کر عقیدت مند بن جاتے ہیں اور اس کے قصیدے گانے لگتے ہیں۔
ہر ایک فن کار کے دو پہلو ہوتے ہیں ۔ایک اس کی انفرادی شخصیت ہوتی ہے ۔اگر وہ کسی چیز ،کسی شخص یا کسی واقعہ سے متاثر ہوتا ہے تو اس کوکسی کے ساتھ بانٹنا چاہتاہے جسے ہم واردات قلبی کہتے ہیں ۔دوسرے وہ سماج ، معاشرے ،قوم و ملک، اپنے اطراف و اکناف رونما ہونے والے حالات اور واقعات و کیفیات سے متاثر ہوتا ہے تو اجتماعی بات کرتا ہے ۔اگر ایسا ہوتواس کا تعلق اجتماعیت یعنی پورے سماج یا معاشرے سے ہوتا ہے ۔اجتماعی فکر و خیال کو پیش کرتے ہوئے اسے اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ جو کچھ اس نے کہا ہے کیا وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر صحیح ہے یا غلط ۔تب کہیں جا کر وہ فنی تقاضات پورے کر سکتا ہے۔
جوشؔ ایک ایسے عہد میں تھے جو انفرادیت سے بھی معمور تھا اور اجتماعیت سے بھی۔حریت آزادی کے ایسے نازک ،تناؤاور ہنگامہ خیز دور میں جوش نے زندگی گذاری جس میں اشتراکیت کا بھی بول بالا تھایہ اور بات ہے کہ جوش ؔ اشتراکیت پسند ہونے کے باوجود اشراکیت سے وابستہ نہیں ہوئے۔لہذاان کے سامنے حقیقی زندگی تھی جو ہر ذی روح کو مضمحل اور پریشان کر نے والی تھی۔ان حالات میں وہ جہاں شباب کی شاعری کرتے تھے وہیں انقلاب کے نعرے بھی بلند کرنے لگے۔ اس طرح ان کی شاعری کے دو اہم موضوعات شباب اور انقلاب بن گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ شاعر شباب اور شاعر انقلاب کے معزز و عالی مرتبت مقام پر فائز ہو کر خوش ہوگئے۔
شاعر کی شخصیت کا پرتو عموماً اس کی شاعری میں جھلکتا ہے۔حالانکہ شخصیت رنگا رنگ اور مختلف ہوتی ہے وہ جب ایک کیفیت بیان کرتا ہے تو قاری دوسرا مطلب نکال لیتا ہے۔اس لیے الفاظ ہی وہ ذریعہ ہوتے ہیں جن کی وساطت سے شاعر کے تفکرات و تخیلات اور تجربات و مشاہدات کی عکاسی ہوتی ہے۔جب ہم جوشؔ کا کلام پڑھتے ہیں تو ان کے جذبات کی لے میں بہنے لگتے ہیں اوران کی شاعرانہ گھن گرج کے قائل ہوجاتے ہیں مگر ایسے لگتا ہے کہ وہ جذبے وقتی اور ہنگامی ہیں اور شاعرانہ گھن گرج خطیبانہ ہے ۔شباب کی بات کرتے ہیں تو ہم قائل ہوجاتے ہیں اورجب وہ انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں تو ہم دم بخود ہو جاتے ہیں۔
کام ہے میرا تغیّر ، نام ہے میرا شباب
میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب
جوش ؔ کا یہ شعربہت مشہور ہے جواس زمانے میں زبر دست نعرہ بھی تھا اورضرب المثل بھی بن چکا تھا مگر مصرعہ اولیٰ میں کام اورنام کے ساتھ ساتھ تغیّر اور شباب والے الفاظ بھی جوشیلے دکھائی دیتے ہیں۔ اس وقت کا تقاضہ یہی تھا اور ایسی ہی شاعری کی ضرورت تھی اسی لیے جوش ؔ نے پوری شدت کے ساتھ نعرہ لگایا اور ذہنوں کو متاثر کیا۔انہوں نے پورا زور شباب اور انقلاب پر لگایا مگر وہ ٹھوس اور منظم شباب اور انقلاب کا تصور نہیں پیش کرسکے۔ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے پوری شاعری جذبات میں کی ہے وہ سنجیدہ بھی ہوجاتے
ہیں اور معصومانہ کیفیت بھی پیدا کردیتے ہیں جس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔میں یہاں ایک رباعی پیش کرتا ہوں جس میں پائی جانے والی کیفیت اور الفاظ کی بندش ، سلاست ، روانی ،انداز بیان کا بانکپن ملاحظہ فرمائیں جس کے الفاظ اور معنی میں بہترین تناسب برتا گیا ہے۔
غنچہ تری زندگی پہ دل ہلتا ہے
بس ایک تبسّم کے لیے کھلتا ہے
غنچہ نے کہا اس چمن میں بابا
یہ ایک تبسم بھی یہاں کسے ملتا ہے
ایک طرف یہ اشعار مکالمانہ پیرایہ میں ہیں تو دوسری طرف الفاظ کا در و بست اتنا چست کہ الفاظ خود مفہوم کا اظہار نہایت معصوم انداز میں کر رہے ہیں ۔ایک ایک لفظ، معنی و مفہوم سے پر ہے۔زندگی ، دل ، تبسم ، غنچہ ، چمن جیسے الفاظ اتنے سلیقہ سے جڑے ہوئے ہیں جس طرح انگوٹھی میں نگینے جڑتے ہیں۔ اس پر مستزاد ’’ بابا‘‘کے لفظ میں جو معصومانہ کیفیت ہے وہ لا جواب ہے جو رباعی کے حسن کو دوبالا کر رہا ہے۔
ان کے اندر جو غصّہ تھا اس کا بھرپور استعمال انگریزوں کے خلاف کیا۔انہوں نے انگریزوں کے خلاف ’’ ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں کے نام‘‘جو نظم لکھی اس کو انگریزوں نے ضبط کیا لیکن ان کے غصّہ کی بدولت انہیں گرفتار نہیں کیا ۔کیونکہ ان کے غصّہ اور ضد کا علم ہندوستانیوں کو ہی نہیں انگریزوں کو بھی تھایہاں تک کہ جواہرلال نہرو بھی ان کی ضد اور غصّہ سے بخوبی واقف تھے۔
کوئی فن کار کیوں نہ ہوجو بھی بولتا ہے اس کے سامنے یہ سوال ہو تا ہے کہ اسے کیا کہنا ہے، کس سے کہنا ہے ، کس طرح یا کیسے کہنا ہے ،اس بات کو موثر بنانے کے لیے کونساپیرایہ اختیار کرنا ہے کہ جو پڑھنے والے کی سمجھ میں آجائے۔آیا جو کچھ کہا گیا ہے اس میں معنی و مفہوم ادا ہو رہے ہیں یا نہیں، ترسیل کامیاب ہے یا نہیں ،ا لفاظ کے ذریعہ معنی و مفہوم کا اظہار ہوا کہ نہیں اورا لفاظ شاعر کے عندیہ کا باعث بنے ہیں کہ نہیں ۔فکر و خیال کی وضاحت ہو پائی یا نہیں کیونکہ ’’لفظ‘‘اور ’’معنی‘‘کا گہرا اور اٹوٹ رشتہ ہوتا ہے۔لفظ سے خیال کی شکل مراد ہے جب کہ معنی سے خیال کا باطن۔خوبصورت الفاظ ہی سب کچھ نہیں ہوتے وہ تو صرف ظاہری شکل ہوتے ہیں اور اظہار کا ذریعہ ہوتے ہیں ۔اصل چیز تو اس کے تعبیرات ، اثرات اور انداز بیان ہے۔کوئی بھی لفظ کیوں نہ ہو وہ پھیلتا بھی ہے اور سکڑتا بھی ہے ۔یہ فنکارکی فنّی صلاحیت پر منحصرہے کہ وہ الفاظ کا استعمال تخلیقی طور پر کرے۔ جوشؔ الفاظ کا خوب اوربھر پور استعمال کرتے ہیں اورجو خیال چند الفاظ میں پیش کیا جا سکتا ہے اس کی ادائیگی کے لیے کئی الفاظ یکجا کرتے ہیں۔مگر غالب ؔ اور اقبال ؔ کی طرح ا لفاظ کو نئے نئے معنی عطا نہیں کرتے۔
’’ یادوں کی بارات‘‘ میں خود جوشؔ نے کہا ہے کہ ان کی شخصیت کے چار میلانات ہیں۔شعر گوئی ، عشق بازی ،علم طلبی اور انسان دوستی۔اگر ہم ان کی شخصیت اور شاعری میں یہ چاروں میلانا ت تلاش کریں تو یہ بات سامنے آئے گی کہ انہوں نے ان عناصر کو اپنی شاعری میں برتنے کی سعی کی ہے مگر ہر معاملے میں وہ اکثر حدود کو پھلانگتے ہوئے نظر آئیں گے۔ایسا لگتا ہے کہ جوشؔ نے نہایت جوش اور جوشیلے انداز میں بہت کچھ کہا ہے۔بحیثیت شاعر انہیں جو کہنا تھا وہ سب کچھ انہوں نے کہہ دیاانہیں اس بات کا احساس بھی نہیں رہا کہ ان کا کہنادرست ہے کہ نہیں۔امراء القیس کے تعلق سے یہ بات مشہور ہے کہ حضور اکرمؐ اس کی شاعری پسند فرماتے تھے اور اس کے فن کی تعریف بھی کرتے تھے مگر اس کے تعلق سے آپ کا فرمان تھا کہ وہ دوزخ کا کندہ ہے۔اس لیے فن کار کو کسی موضوع پر کچھ کہتے ہوئے ہر زاویہ سے معنی و مفہوم کو جانچنا ہے ، پرکھنا ہے اور یہ دیکھنا ہے کہ حقیقت سے اس کا کتنا تعلق ہے۔اس کے بر عکس لفظی بازیگری کرنے لگ جائیں اور اتنا جھوٹ لکھ دیں کہ دنیا واہ واہ کرنے لگ جائے تو اس کا کیا حشر ہوگا یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔شاعری میں واردات و کیفیات کا بیان کرنا ہی اہم نہیں ہوتا بلکہ صحت مند خیالات کا اظہار بھی موثر اور مربوط پیرائے میں الفاظ میں نئی معنویت پیدا کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔فن کار سماج کا ایک ذمہ دار فرد ہوتا ہے تخلیقی ادب ایک سماجی ذمہ داری کا کام ہے ۔
جوشؔ کے اندر یہ صفت موجود تھی کہ وہ جس چیز کو دیکھتے، ہو بہو اس کا نقشہ کھینچ دیتے تھے۔اس لیے ان کی شاعری میں دیگر کیفیا ت و معاملات کے ساتھ ساتھ دلکش منظرکشی پائی جاتی ہے۔وقتی طور پر جو بھی چیز انہیں متاثر کرتی اسے شدت کے ساتھ بیان کر دیتے ہیں اور سننے والے کو متاثر کرتے ہیں۔وہ جہاں خوبصورت چیزوں کو دیکھ کر پھسل جاتے تھے وہیں خوبصورت عورتوں کو دیکھتے توحسن و عشق کے نغمے گانے لگتے اور اسے عشق کانام دیتے ہیں مگر اس میں وفا کی بو نہیں پائی جاتی ۔وہ جس طرح حسن و عشق کا نقشہ الفاظ کے ذریعہ کھینچتے ہیں اس میں شاعرانہ آن بان تو دکھائی دیتی ہے مگر حقیقت سے اس کا کم ہی تعلق ہوتا ہے۔جس کی بہترین مثال نظم ’’ جنگل کی شہزادی ‘‘ ہے۔حالانکہ یہ ایک اچھی نظم ہے۔جسے پڑھتے وقت ہمیں یہ اندیشہ ہونے لگتا ہے کہ یہ شاعری نہیں بلکہ ساحری ہے۔ایسا لگتا ہے گویاجوشؔ نے یہ نظم جذبے کے تموج میں کہی ہے۔ اگر ان الفاظ کے بین السطور غور کریں تو ہمیں حسن وجمال کی وہ رعنائیاں و رنگینیاں ، ناز وغمزہ اور عشو و ادائیں جنگل کی شہزادی میں تو درکنار ملکۂ حسن میں بھی شاید مل نہ پائیں گی۔ذرا اس ’’ جنگل کی شہزادی ‘‘ کا حسن ملاحظہ فرمائیے جس کے حسن کے بیان میں جوش نے کئی اشعار قلمبند کیے ہیں۔
کانٹوں پہ خوبصورت اک بانسری پڑی ہے
دیکھا کہ ایک لڑکی میدان میں کھڑی ہے
زاہد فریب ، دل رخ ، کافر ادا ، دراز مژگاں
سیمیں بدن ، پری رخ ، نوخیز ، حشر ساماں
خوش چشم ، خوبصورت ، خوش وضع ، ماہ پیکر
نازک بدن ، شکرلب ، شیریں ادا ، فسوں گر
کافر ادا ، شگفتہ ، گل پیرہن ، سمن بو
سرو چمن ، سہی قد ، رنگیں جمال ، خوش رو
گیسو کمند ، مہوش ، کافور فام ، قاتل
نظارہ سوز ، دلکش ، سر مست ، شمع محفل
ابرو ہلال ، میگوں ، جاں بخش ، روح پرور
نسریں بدن ، پری رخ ، سیمیں عذار ، دلبر
آہو نگاہ ، نورس ، گل گوں ، بہشت سیمیں
یاقوت لب ، ، صدف گوں ، شیریں ، بلند بالا
غارتِ گر تحمل ، دلسوز ، دشمنِ جاں
پروردۂ مناظر ، دوشیزۂ بیاباں
گلشن فروغ ، کمسن ، مخمور ، ماہ پارہ
’’ دلبر کہ در کفِ اوموم است سنگ خارا ‘‘
اس نظم میں ہم جوش ؔ کا شاعرانہ جوش و جذبہ ، دلی حسرت ،امنگ اور خواہش کے ساتھ ساتھ ان کی قادر الکلامی ، منظر نگاری ، ندرت بیان، جدت خیال دیکھ سکتے ہیں ۔مگر ان سب سے زیادہ جو چیز ہمیں متاثر کرتی ہے وہ ان کی لفظی بازیگری ہے جو حسن کے بیان میں انہوں نے کتنے الفاظ کا سہارا لیا ہے اور کتنا زور لگایا ہے۔جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے کہ اگر ہم الفاظ کی تہ میں جائیں اور معنی و مفہوم کے توازن کو دیکھیں تو یہاں بھی حسن کا دلکش بیان الفاظ کے ذریعہ ضرور ہوا ہے مگروہی الفاظ بار بار دہرانے سے تاثیر ختم ہوجاتی ہے۔کیونکہ الفاظ کو یکے بعد دیگرے جوڑنا اور مزے لے لے کر بیان کرنا ہی سب کچھ نہیں ہوتا اس کے پس پردہ حقیقت سے تعلق بھی ہونا چاہیے۔
نظم ’’ نقاد‘‘ ایک اچھی نظم ہے جس میں وہ نقاد کو کھری سناتے ہیں۔ایسے لگتا ہے گویا انہیں نقاد سے ایک طرح کی چڑ ہے ۔حالانکہ انہوں نے اس نظم کے ذریعہ نام نہاد ناقدین ادب کے منہ پر ایک بھرپور طمانچہ مارا ہے مگریہاں بھی بہت سے الفاظ کا سہارا لے کروہی باتوں کو بار بار دہرایا گیا ہے ۔ایک ہی بات کو مختلف الفاظ کے ذریعہ بیان کرتے ہیں۔وہ کبھی اختصار سے کام لینے کے عادی نہیں۔
رحم اے نقّاد فن ! یہ کیا ستم کرتا ہے تو
کوئی نوکِ خار سے چھوتا ہے نبضِ رنگ و بو
شاعری اور منطقی بحثیں ، یہ کیسا قتلِ عام
بُرش مقراض کا دیتا ہے زلفوں کو پیام
سے نظم کا آغاز ہوتا ہے اوراختتام تک یہی کیفیت برقرا رہتی ہے ۔جس میں ایک شاعر کی افتاد طبع کا ذکر کرتے ہوئے نقاد کو آڑے ہاتھوں لینے کے لیے وہ کئی الفاظ کا سہارا لیتے ہیں۔یہاں بھی قاری ان کے جذبات کی رو میں بہنے لگتا ہے مگر جب ہوش آتا ہے تو غور کرنے لگتا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ انہوں نے الفاظ کا انبارلگا دیاہے اور وہ یہ کہنے پر آمادہ ہوجاتا ہے کہ اس کا ماحصل تو دو چار شعروں میں بھی بیان کیا جا سکتا تھا ۔یہی کیفیت ان کے بقیہ کلام میں بھی عموماً پائی جاتی ہے۔
جوشؔ کی شاعری میں الفاظ و معنی کے توازن کا جائزہ لیا جائے تویہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان کے یہاں جہاں الفاظ کی بھرمار ملتی ہے وہیں بہت سی اچھی تلمیحات ملتی ہیں اور بندشیں بھی چست ہیں ۔ مگرالفاظ کو کونسی معنویت عطا کرنی ہے اور تخلیقیت دینی ہے اس کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔ان کے یہاں الفاظ کا ایسا انبار دکھائی دے گا کہ بسا اوقات ذائقہ باقی نہیں رہتا اور کبھی کبھی الفاظ کسیلا پن کا شکار ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ لفظوں کا انبار لگا دینا تو داستان گو شعرا کا کام ہوتاہے مگر ایک حقیقی اور بڑے شاعر کا کام لفظوں کو تراشنا ہوتاہے اسے نئی معنویت دینا ہے کیونکہ شاعری اور صنّاعی میں فرق ہوتا ہے اور شاعری بسا اوقات شاعری نہیں ساحری معلوم ہوتی ہے ۔اس طرح یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کی شاعری میں گرمی ہے مگر روشنی نہیں ، حسن کا بیان ہے مگر دلکشی نہیں ، عشق ہے مگر وفا نہیں،جذبہ ہے کوئی فلسفہ نہیں اورخطیبانہ آہنگ ہے اور تاثرنہیں ۔
Dr B M Davood Mohsin
M.A, Ph.D
Principal
S.K.A.H Millath College
DAVANGERE-577001
(Karnataka State)
Mobile:09449202211
E.Mail: