امیرؔ مینائی کی واسوخت نگاری
ڈاکٹر اسمٰعیل خان
شعبہ اردو انوار العلوم ڈگری کالج ،
ملے پلی، حیدرآباد
09701514755
واسوخت ایک افسانوی صنفِ شاعری ہے جو فارسی ادب سے اردو میں آئی ہے فارسی ادب میں وحشیؔ یزدی نے واسوخت کی روایت قائم کی تھی اردو ادب میں شاہ مبارک آبرو نے واسوخت نگاری کی داغ بیل ڈالی اس کے بعد شاکرؔ ، ناجیؔ ، شاہ حاتمؔ ، مرزا سوداؔ ، میر تقی میرؔ ، مؤمن خان مؤمنؔ جیسے نمائندہ شاعروں نے واسوخت کی روایت کو آگے بڑھایا ۔ امیرؔ مینائی کا شمار بھی اردو کے چند نمائندہ واسوخت نگار شعراء میں ہوتا ہے۔ ان کے واسوخت کا ایک مجموعہ ؔ ’’ دلِ آشوب‘‘ کے نام سے یاد گار ہے، جس میں کل چھ واسوخت ہیں، جن کے عنوان اس طرح ہیں ’’ اردو واسوخت‘‘، شکایت ‘‘رنجش‘‘ غبار طبع‘‘ حسدِ اغیار‘‘ صفیرِ آتشبار‘‘ اور بانگِ اِضطرار‘‘۔
واسوخت کا لفظ واسوختن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنیٰ عاشق کا معشوق سے منہ موڑنا ہے۔ شاعری کی اصطلاح میں واسخت اس صفن کو کہتے ہیں جن میں عاشق محبوب کی متلون مزاجی ہرجائی پن اور بے وفائی کو دیکھ کر اس سے بے زاری کا اظہار کرتا ہے اور کسی دوسرے معشوق سے دل لگانے کی دھمکی دیتا ہے۔
لفظ واسوخت کی وضاحت کرتے وہئے زین العابدین نے ایک جگہ لکھا ہے کہ:
’’ اصل میں اس لفظ کے دو جزو ہیں وا+سوخت ’’ وا‘‘ کے معنی پھر یا دو بارہ کے لے سکتے ہیں اور ’’سوخت‘‘کے معنی جلنے کے ( خود جلنے کے)ہو سکتے ہیں۔ یہ سوختن کا ماضی مطلق اور حاصل مصدر ہے جس کے معنی جل، جلق یا جلاپے کے جیسے ’’ سوز‘‘ بھی جلنا (خود جلنا) اور واسوز بمعنی دوسروں کو جلانا، واسوز ساخت پر واسوخت کے عمنی ہوئے دوسروں کو جلانے کے‘‘۔ (اردو میں واسوخت نگاری صفحہ،۔۲۰)
نورالغات میں واسوخت کی تعریف اس طرح بیان کی گئی ہے:
’’ واسوخت‘‘ وہ نظم ہے جس میں معشوق کے زور و ستم اور رنج و الم کا حال بیان کرکے نفرت و بیزاری کا اظہارکرتے ہیں‘‘۔ (نورلغات ، صفحہ: ۸۹۸)
جامع الغات اور فرہنگ آصفیہ میں واسوخت کی تعریف اس طرح ملتی ہے:
’’ واسوخت وہ نظم ہے جس کے اشعار بطور مسدس یا ترجیع بند یا ترکیب بند لکھے جائیں اور اس میں معشوق سے جل کر اس کی شکایت عشق کی براں آئندہ کے بے پروائی اور بیزاری ظاہر کی جائے‘‘۔(جامع الغات صفحہ ۷۷۶ ۔ فرہنگ آسفیہ ص:۱۶۴۱ )
عبدالحلیم شررؔ نے ایک جگہ صنف واسوخت کے اصطلاحی معنوں پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’ واسوخت‘‘ یہ خاص قسم کے عاشقانہ مسدس ہوتے ہیں ۔ ان کا مضمون عموماً یہ ہوتا ہے کہ پہلے اپنے عشق کا اظہار ، اس کے بعد، معشوق کا سراپا، اس کی بیوفائیاں، پھر اس سے روٹھ کے اسے یہ باور کرانا کہ ہم کسی اور معشوق کے ہوگئے ہیں اس فرضی معشوق کے حسن و جمال کی تعریف کر کے معشوق کو بلانا، چھیڑنا ، جلی کٹی سنانا اور یوں اس کا غرور توڑ کے پھر ملاپ کرلینا‘‘۔(گذشتہ، لکھنو 106تا 107 )
مذکورہ بالا تعریفوں کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ واسوخت و صنف شاعری ہے جس میں عاشق ، معشوق کی متولن مزاجی کج ادائی اور ہرجائی پن سے تنگ آکر اس کو جلی کٹی سناتا ہے اور غم و غصہ کے عالم میں کسی دوسرے معشوق سے محبت کرنے کی دھمکی دیتا ہے معشوق اس سے سرا سیمہ ہو کر از نو عاشق سے قول و قرار کرتا ہے اور عاشق و معشوق کے درمیان صلح و صفائی ہوجاتی ہے۔ اردو میں واسوخت مختلف ہیتوں میں لکھے گئے ، جیسے مسدس ، مثمن، ترکیب، مخمس ، غزل وغیرہ لیکن مسدس اور مثمن کی ہئیت میں ہم کو واسوخت زیادہ ملتے ہیں گرچہ ان دونوں میں بھی مسدس ہی کو ہمارے شعراء نے واسوخت نگاری کے لئے زیادہ برتا ہے۔
واسوخت ایک افسانوی صنف شاعری ہے جس میں ایک کہانی قصہ بیان ہوتا ہے چنانچہ اس کے قصے کے واقعات میں ایک ترتیب و تسلسل پایا جاتا ہے، قصے کے پیش کش میں تکنیک ہوتی ہے اور اس کے کچھ اجزائے ترکیبی بھی ہوتے ہیں جیسے قصیدہ ، مثنوی ، مرثیہ وغیرہ کے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر خلیق انجم نے واسوخت کے اجزائے ترکیبی پر وشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’ ابتداء میں عشق کی تعریف ہوتی ہے ۔ یہاں شاعر یہ بھی بتاتا ہے کہ پہلے وہ عشق و محبت کی دنیا سے بہت دور تھا۔ پھر اپنے آغاز عشق کا قصہ بیان کرتا ہے ۔ ان دنوں کا ذکر کرتا ہے جب اسے وصل یار نصیب تھا۔ محبوب کے حسن کے ساتھ اس کی معصومیت سادگی اور بھولے پن کی تعریف کرتا ہے۔ اس کے بعد اس کی بے وفائی کا شکوہ اور اپنی خستہ حالی بیان کرتا ہے ۔ آخر میں شاعر محبوب کو بُرا بھلا کہتا ہے بعض اوقات اس کی بد صورتی بیان کر کے ایک نئے محبوب کی تعریف کرتا ہے اور پھر اس سے اپنے تعلقات کا ذکر کرتا ہے ‘‘۔ (بحوالہ مرزا رفیع احمد سودا ، صفحہ :۴۰۱)۔
خلیق انجم کے اس بیان کا اگر ہم تجزیہ کریں تو واسوخت کی جو تکنیک یا اجزاء ہمارے سامنے آتے ہیں وقہ (۱) عشق، (۲) بے وفائی (۳) گلہ شکوہ (۴)تلاش (۵) وصل، ہیں ۔ یعنی شاعر کسی پر عاشق ہوتا ہے ۔ اس سے محبت بڑھا تا ہے اس درمیان وہ اپنے محبوب کو طرز محبوبی سکھاتا ہے ، جب محبوب طرز محبوبی کے گر سے واقف ہوجاتا ہے تو وہ عاشق کی جانب سے بے توجہی برتنے لگتا ہے۔ محبوب کی بے وفائی سے تنگ آکر عاشق اس کو جلی کٹی سناتا ہے۔ شکوے میں وہ ساری باتیں کہہ ڈالتا ہے جن کی وجہ سے بازارِ حسن میں اس کی اہمیت ہوئی۔ معشوق جب بے وفائی پر آمادہ ہوجاتا ہے تو عاشق ردِ عمل کے طور پر اسے دھمکاتا ہے کہ جس طرح اس نے دوسرے سے راہ و رسم پیدا کرلی ہے اُسی طرح وہ بھی کسی محبوب ثانی سے دِل لگائے گا۔ آخر میں عاشق کی اس دھمکی کا یہ اثر ہوتا ہے کہ محبوب کے سر سے بے وفائی کا نشہ اتر جاتا ہے اور وہ ہوش میں آکر دوبارہ عاشق کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اردو واسوخت نگاری میں مذکورہ عناصر کو ہمارے شعرانے ابتدا سے ہی برتا ہے۔ امیر مینائیؔ کے تمام واسوخت بھی اسی روایت کی ایک کڑی ہیں ان کے واسوخت میں بھی عشق کی تعریف ، عاشقی، محبوب کی تعریف ، محبوب کی بے وفائیں، اس کے ظلم و ستم، گلے شکوے۔ ثانی محبوب کی تلاش، اور وصل وغیرہ عناصر پائے جاتے ہیں۔
عشق واسوخت کا نبیادی موضوع ہے چنانچہ ایک واسوخت میں امیرؔ مینائی نے عشق کی تعریف کرتے ہئے عشق کو شہنشاہ زمن، تیر فگن ، ملکِ دل و جان، کہا ہے لکھتے ہیں:
’’ وہ فلک قدر، شہنشاہِ زمن کون کہ
عشق تیغ زن تیر فگن ، قعلہ شگن کون کہ، عشق
رستم معرکۂ رنج و محن کون کہ ، عشق
مالکِ ملک دِل و جان و بدن کون، کہ عشق
گرد میں ہے روشِ باد بہاری دیکھو
حضرتِ عشق کی آتی ہے سواری دیکھو‘‘
جذبۂ عشق ایک ایسا جذبہ ہے جب کسی کے دِل میں پیدا ہوتا ہے تو وہ شخص اپنے جذبۂ عشق کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے پر راضی ہوتا ہے۔ بلکہ امیر مینائیؔ کا خیال ہے دل و جان کے ساتھ اپنے ایمان کا بھی پاس نہیں رکھتا ، چنانچہ امیر مینائیؔ فرماتے ہیں:
کون ہے نذر جو کرتا نہیں اس کو دل و دین
ساکن دیر و حرم کوچے میں اس کے ہیں مکیں
اپنے مذہب کا کسی قوم کو اب پاس نہیں
بندۂ عشقِ مجازی ہیں تمام اہلِ یقیں
(دل آشوب صفحہ 5 )
جذبۂ عشق کبھی کبھار عشاق کیلئے سارے جہاں میں رسوائی کا باعث بھی بنتا ہے کیونکہ جذبۂ عشق میں عشاق اول تو بے چین سی کیفیت میں رہا کرتے ہیں اور دوم یہ کہ صبر و ضبط ان کے مزاج سے دور ہوتا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے عشاق وقت اور حالات کے تقاضوں سے بے بہرہ ہوجاتے ہیں ۔ ایسے میں کبھی کبھی انہیں مشکل اور دشواریاں سے بھی گذرنا پڑتا ہے ۔ چنانچہ عشق کے باعث عشاق کی ہونے والی صورتِ حال کی تصویر کشی کرتے ہوئے امیر مینائی لکھتے ہیں:
عشق عشاق کو رسوائے جہاں کرتا ہے
صاحب ضبط کو سرگرم فغاں کرتاہے
چشمۂ چشم سے سیلاب رواں کرتا ہے
زرد چہرہ صفتِ برگِ خزاں کرتا ہے
عشق کے تعلق سے کہا جات اہے کہ یہ کیا نہیں جاتا بلکہ ہوجاتا ہے کبھی بھی کہیں بھی ، کسی سے بھی ، امیر مینائی کے واسوخت میں بھی عشق میں گرفتاری کی صورتِ حال کچھ ایسی ہی ہے ایک جگہ وہ عشق میں مبتلا ہونے کے واقعہ کو یوں قلمبند کیا ہے لکھتے ہیں:
جادو کیا کہ تم نے، اُڑئے ہمارے ہوش
افسوں کیا کہ عشق کا پیدا ہوا یہ جوش
دیکھنا نہ کچھ سنا، بنداپنے چشم و گوش
کیسا چراغ عقل ہمارا ہوا خاموش
جاتے تھے کس طریق پہ کس سمت پر پڑے
رکھتے ہی پاؤں چاہِ محبت میں گر پڑے
(دِل آشوب، صفحہ 21)
مبتلائے عشق و آغاز عشق کے بعد واسوخت میں ایک اہم جزو صل یار کا ذکر بھی ہے جس میں شاعر ان تمام لمحات کا ذکر کرتا ہے جو اس نے اپنے محبوب کے ساتھ گذرے ہیں۔ امیر مینائی نے بھی اپنے واسوخت میں اس جز کو نہایت دلکش انداز میں برتا ہے چند اشعار ملاحظہ کیجئے جس میں وصل یار کے لمحات کو اس طرح قلمبند کیا ہے کہتے ہیں:
شوق نظارہ یہ تھا گیسوے عنبر بو کا
پردۂ چشم ہی موہاف رہا گیسو کا
ہجر پہلو کو گورا نہ ہوا پہلو کا
نیند آئی تو دیا تکیہ مرے زانو کا
کب نہ پہلو میں جگہ اس کی رہی دل کی طرح
ہاتھ گردن میں رہے روز حمائل کی طرح
(دل آشوب صفحہ :9)
واسوخت میں شاعر وصل یار کے لمحات کے بعد اپنے محبوب کے حُسن و جمال کی تعریف کرتا ہے جس میں اس کا سراپا آرائش و زیبائش کے ساتھ ساتھ اپنے محبوب کی معصومیت سادگی اور بھولے پن کی تعریف بھی کرتا ہے امیر مینائی کے واسوخت میں یہ جز نہایت دلکش ہے وہ اپنے محبوب کے حسن و جمال کو خوبصورت تشبیہات و استعارت اور تلمیحات کے ذریعہ اجاگر کرتے ہیں جیسے ایک جگہ اپنے محبوب کا سراپا بیان کرتے ہوئے اس کا تقابل شیریں و لیلیٰ سے کرتے ہیں لکھتے ہیں:
مَلَک آیا ہے کہ اتری ہے فلک سے کوئی حور
یا میری قاف سے آئی میری آنکھوں کے حضور
بے ستوں پر یہ ہوا جلوۂ شیریں کا ظہور
دیکھنا قیس کا لیلیٰ کو ہوا یہ منظور
زہرہ آتی کہ قمر بُرج قمر سے نکلا
دوسرا مہر جہاں تاب کدھر سے نکلا
(دل آشوب صفحہ :37)
وصل یار اور محبوب کے حسن کی تعریف کے بعد شاعران حالات کا ذکر کرتا ہے جن کی وجہ سے اس کے اور محبوب کے تعلقات میں دراڑ پڑتی ہے جو آخر کار جدائی کا باعث بنتی ہے۔ بے وفائی و جدائی کا ذکر واسوخت کا ایک اہم جز ہے یا یوں کہے کہ لفظ ’’ واسوخت کی سہی ترجمانی واسوخت کے اسی حصے میں ہوتی ہے کیونکہ جدائی کے بعد ہی عاشق اپنے محبوب کی بے وفائی پر اس کو جلی کٹی سناتا ہے اور اس سے بیزارگی کا اظہار کرتا ہے یہی نہیں بلکہ گلے شکوے کر کے اس کو برا بھال بھی کہتا ہے چنانچہ امیر مینائی کے وسوخت سے چند اشعاسر ملاحظہ کیجئے جن میں وہ تنفر بھرے لہجہ میں اپنے محبوب کی بے وفائی کا گلہ اس طرح کرتے ہیں ، کہتے ہیں:
جانِ جان تم پے بھروسا مجھے کیا کیا کچھ تھا
ورنہ دل کیوں تمہیں دیتا مجھے سودا کچھ تھا
اور کچھ مل گیا اللہ سے مانگا کچھ تھا
سادا سمجھا تھا تمہیں ایک ہی پُر فن نکلے
دوست جانا تھا تمہیں جان کے دشمن نکلے
(دل آشوب ، صفحہ:84)
محبوب کی بے وفائی سے تنگ آکر عاشق اس کو جلی کٹی سنانے کے بعد اس کی بے وفائی کے ردِعمل میں اس کو دھمکاتا ہے کہ جس طرح اس نے دوسرے سے راہ و رسم پیدا کرلی ہے۔ اُسی طرح وہ بھی کسی محبوب ثانی سے دِل لگائے گا۔ دراصل عاشق اپنے محبوب کو اس طرح کی دھمکی اس لئے دیتا ہے کہ وہ بے وفائی کی راہ چھوڑ کر راہِ وفا اختیار کرے۔ واسوخت میں یہ جز بھی بہت اہمیت رکھتا ہے کیوں کہ یہاں داستانِ عشق میں کش مکش پیدا ہوتی ہے اور کہانی ایک نتیجہ کی طرف آنے لگتی ہے۔ امیر مینائی نے بھی اپنے واسوخت میں محبوب کو راہِ وفا پر لانے کے لئے محبوب ثانی کے حربے کو خوب استعمال کیا ہے جیسے ایک جگہ اپنے معشق کو محبوب ثانی کی دھمکی دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
خیر اب بگڑی تو بگڑی کسے پروا ہے یہاں
تو ہی کیا مال بہت تجھ سے ہیں معشوق جواں
چن لینگے حسینوں میں کوئی آفت جان
وہ طرحدار جو ہو حسن میں مشہور جہاں
زیب پہلو وہ بت آئینہ سیما ہوجائے
تو جو دیکھے یہ جلے آگ بگولا ہوجائے
(دل آشوب ، صفحہ:121)
واسوخت کے آخر میں عاشق کی اس دھمکی کا یہ اثر ہوتا ہے کہ محبوب کے سر سے بے وفائی کا نشہ اتر جاتا ہے اور وہ دوبارہ عاشق کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے اس طرح سے واسوخت کا اختتام عاشق اور معشوق کے وصل پر ہوتا ہے، جیسے امیر مینائی ؔ کے واسوخت بعنوان ’’ حسدِ اغیار‘‘ کے آخری چند اشعار ملاحظہ کیجئے :
سن کے ہم سے یہ امیرؔ اس کو رہا پھر نہ قرار
جوڑ کر ہاتھ گرا پاؤں پے وہ لالہ عذار
جوش دل سے ہمیں کچھ بن نہ پری آخر کار
آگیا رحم ، کیا سر کو اُٹھا کر اسے پیار
رنج سب دور ہوئے عیش کے ایام آئے
فقرے عیاری کے ہم نے جو کئے کام آئے
(مجموعہ دل آشوب، صفحہ 129)
الغرض مذکورہ عناصر کو شعرائے واسوخت نے عموماً برتا ہے اسی لئے یہ عناصر واسوخت کے لازم جزبن گئے اگر کسی واسوخت میں مذکورہ کسی ایک عنصر کا فقدان فنی اعتبار سے واسوخت کے نامکمل ہونے کا احسواس پیدا کرتا ہے اس اعتبار سے امیر مینائیؔ کے تمام واسوخت میں فنی وہ تکنیکی روایت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے اس لئے ان کے تمام واسوخت اردو واسوخت نگاری میں خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔