میری اردو شاعری کی بیاض ۔ قسط 12- – انیس و دبیر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

Share

mohsin osmani
شعرالہند ۔ میری اردو شاعری کی بیاض ۔ قسط 12
(شعراء کے دواوین اور سوانح سے کشید کیا ہواآب حیات )

پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

میری اردو شاعری کی بیاض قسط ۔ 12 ۔ کے لیے کلک کریں

میرانیس (۱۸۰۲۔۱۸۷۴ء)


میر انیس فیض آبا د میں پیدا ہوئے ، یہ مشہور مثنوی گو شاعر میر حسن کے پوتے تھے، میر انیس کے والد میر خلیق بھی مثنوی گو شاعر تھے ، باپ کے مشورے پر مرثیہ لکھنا شروع کیا اور بہت نام کمایا، مرثیہ ایسی نظم کو کہتے ہیں جس میں کسی مرنے والے کی تعریف درد ناک انداز میں بیان کی جاتی ہے، رنج وغم کا بھی اظہار ہوتا ہے، جو سننے والے پر اثر کرتا ہے ،مذہبی ماحول میں تعلیم پائی ، لباس اور رہن سہن بہت باوضع تھا، بہت خوش آواز تھے، ان کی شہرت دور دراز علاقوں تک پھیل گئی ، اور ان کو مر ثیہ پڑھنے کی دعوتیں ہر طرف سے آنے لگیں، مرثیہ ایک اہم صنف شاعری ہے، اور اس صنف شاعری کو میر انیس نے درجہ کمال تک پہونچایا ہے، جب وہ واقعات کربلا کا ذکر کرتے ہیں تو لگتا ہے مصوری کر رہے ہیں، اور واقعہ کے ایک ایک جزئیہ کو پور ی کیفیت کے ساتھ بیان کرتے ہیں، یہ اشعار دیکھئے:
یہ سن کے گر پڑی جو قدم پر نوحہ گر
لپٹا لیا گلے سے بہن کو بچشم تر
روکر کہا کہ ہوتا ہے ٹکڑے مرا جگر
زینب خداکے واسطے پیٹو نہ اپنا سر
خاصان حق کا خلق میں رتبہ بلند ہے
صابر رہو کہ صبر خدا کو پسند ہے
جب میر انیس امام حسین کے گھوڑ ے کا ذکر کرتے ہیں تو کہتے ہیں:
آہو کی آنکھ شیرکی چتون غضب کی چال
وہ یال تھی کہ حور نے بکھرادئے تھے بال
گردن کے خم کو دیکھ کے ہو سرنگوں ہلال
پوچھے کوئی سوار سے شائستگی کا حال
اڑ اڑ کے زین تک کبھی گرد قدم گئی
جب بس کہا تو اڑتی ہو ئی گرد تھم گئی
میر انیس نے یہ دعا مانگی تھی کہ زبان وبیان پر انھیں کامل قدرت نصیب ہو، اور اس طرح سے دعا مانگی تھی :
تعریف میں چشمے کو سمندر سے ملادوں
قطرے کو جو دوں آب تو گوہر سے ملادوں
ذرہ کی چمک مہر منور سے ملا دوں
خاروں کو نزاکت میں گل تر سے ملا دوں
گلدستہ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں
ایک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں
میر انیس نے مراثی میں واقعات شہادت امام حسین منظوم کئے ہیں جو مسدس کی ہیئت میں ہیں،یہ مسدس کوئی منظوم نظم کی صورت میں نہیں ہے، چونکہ ہر مرثیہ کسی نہ کسی ایک جانثار کی شہادت کے لئے کہا جاتا تھا اس لئے مرثیہ میں چہرا سراپا، جنگ اور شہادت کاتذکرہ ہے، ہر مرثیہ میں اسی شہید کا ذکر ہوتا تھا، جس کے لئے مرثیہ لکھا جاتا تھا، میر انیس نے واقعات کربلا کا تذکر ہ کیا ہے، جو عراق میں پیش آئے ، لیکن ان سامعین کی ذہنی فضاء کا بھی خیال رکھا جو ہندوستان میں رہتے تھے، اور واقعہ کے اجزاء کو اس طرح بیان کیا ہے جیسے وہ یہیں کہیں پیش آئے ہیں، زبان پر قدرت اور کلام کا ہنر دیکھئے انیس نے ایک نقشہ کھیچا ہے کہ جب امام حسین کے تمام عزیز واقارب شہید ہوچکے تو اتفاق سے ایک شخص کا گذر ادھر ہوا وہ آپ کو پہجانتا نہ تھا ، آپ نے داستان غم سنائی ، اس مسافر بے نوا نے نام پوچھا امام نے پہلے تو تأمل کیا اور دیکھئے کہ انہوں نے کس طرح سے اپنا تعارف کرایا:
یہ تو نہیں کہا کہ شہ مشرقین ہوں
مولا نے سر جھکا کے کہا کہ میں حسین ہوں

مرزا دبیرؔ (۱۸۰۱۔ ۱۸۷۵ء)

علامہ شبلیؔ اردو زبان کے منفرد شاعر ، ادیب اور نقاد تھے، انھوں نے ایک پور ی کتاب موازنہ انیس ودبیر کے نام سے لکھی ہے، مرزا انیس کے بھی بہت سے شاگرد اور عقیدتمند تھے، اور مرزا دبیر کے بھی پرستاروں کی کوئی کمی نہ تھی، دونوں حلقے کے لوگ اپنی پسند کے مرثیہ گو شاعر کو مرثیہ گوئی کے بلند ترین منصب پر فائز کرنا چاہتے تھے، گویا لکھنؤ میں ان دونوں شاعروں کے نام پر بزم آرائی کے نام سے رزم آرائی ہو رہی تھی، اور گویا ایک ادبی اکھاڑا ادب کے تماشہ بینوں کے لئے جم گیا تھا، علامہ شبلی نے دونوں شاعروں کے تقابلی مطالعے پر ایک پوری کتاب لکھی ، جو ادب کے حلقوں میں مقبول ہوئی جس میں انھوں نے شاعری میں میر انیس کا پلڑا زیادہ بھاری ثابت کیا، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مرز ا دبیر بھی بلند مرتبہ مرثیہ گو شاعر تھے ، مرثیہ گوئی میں ظلم اور مطلق العنانی سے دلوں میں نفرت پیدا کی ، مرثیوں میں صرف دنیا داری نہیں ہے بلکہ رجز خوانی بھی ، ظلم کے خلاف صبر کی حوصلہ افزائی بھی ہے ،مرثیہ کی وجہ سے اردو زبان میں واقعہ نگاری کو بہت ترقی ہوئی اور نئی تشریحات و استعارات کا دفتر پیدا ہوا، انیس ودبیر دونوں کے یہاں حسن بیان اور طرز کلا م کی دلکشی پائی جاتی ہے ان دونوں کے درمیان مسابقت نے مرثیہ گوئی کو بلندی تک پہونچا دیا، گویا پھول کے ایک مضمون کو سو رنگ سے باندھا گیا، اس سے زبان کو وسعت ملی اور اردو شاعر ی میں مزید طاقت ونفاست پیدا ہوئی۔
مرزا سلامت علی دبیر نے میر مظفر حسین ضمیر سے شرف تلمذ حاصل کیا جو لکھنؤ کے ایک اچھے مرثیہ گو تھے، میر انیس کے چاہنے والے انیس کے کلام میں حسن بیان اور محاوروں کا لطف پیش کرکے مثال کے طلبگار ہوتے تھے، تو مرزا دبیر کے چاہنے والے الفاظ کی شوکت بلند پروازی اور تازگئ مضامین کو مقابلہ میں پیش کر دیتے تھے، ان دونوں امامان مرثیہ گوئی نے مرثیہ نگاری کو بلندی میں آسمان تک پہونچا دیا، مرزا دبیر کا ایک مشہور مرثیہ جناب عباس کے حال میں ہے، جو اس طرح شروع ہوتا ہے:
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
رن ایک طرف چرخ کہن کانپ رہا ہے
رستم کا جگر زیر کفن کانپ رہا ہے
خو د عر ش خدا وند زمن کانپ رہا ہے
شمشیر بکف دیکھ کے حیدر کے پسر کو
جبریل لرزتے ہیں سمیٹے ہوئے پر کو
مرزا دبیر کی مرثیوں کی تعداد ۶۷۵ ہے ، ۱۳۴ سلام انھوں نے لکھے، نوحوں اور رباعیوں کی تعداد ہزا ر سے اوپر ہے۔

Share
Share
Share