اردو شاعری میں قومی یک جہتی کے عناصر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جاگیردارعذرا شیرین ایوب خان

Share

jageerdar
اردو شاعری میں قومی یک جہتی کے عناصر

جاگیردارعذرا شیرین ایوب خان
جزوقتی لکچرر و ریسرچ اسکالر ، شعبۂ اردو
مہاراشٹرا اودے گیری کالج، اودگیر
Mob: 07721952754

ہندوستان جنت نشاں بہ لحاظِ آبادی دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے ٗ جہاں بھانت بھانت کی قومیں رہتی بستی ہیں ٗ جن کے مذاہب اور رنگ و نسل میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے ۔جن کی زبانیں الگ الگ ٗرسوم و رواج علا حدہ اور تہذیب و ثقافت میں میں ر نگارنگی اور بو قلمونی کی کیفیت پائی جاتی ہے ۔ اس کی مثال ایک ایسے گلستان کی سی ہے جہا ں مختلف مذاہب اخلاقیات کا گلدستہ بنے ہوئے ہیں۔ عقائد و مسالک ٗ فلسفہ و نظریات کے گلہائے خوش رنگ اپنی بہار دکھاتے ہیں۔

بقولِ ذوق ؔ دہلوی ؂
گلہائے رنگ رنگ سے ہے رونقِ چمن
اے ذوق اس چمن کو ہے زیب اختلا ف سے
زمانۂ قدیم سے ہی ہندوستان کی تہذیب و تمدن اور مذاہب میں اختلاف کے باوجود اتحاد کا رنگ پایا جاتا ہے۔ جسے کثرت میں و حدت کی جلوہ نمائی کا نام دیاجا سکتا ہے ۔ اس گنگا جمنی تہذیب و ثقافت کو فروغ دینے میں شاہانِ مغلیہ کی قومی رواداری ٗ بھائی چارگی اورقومی یک جہتی اردو شعراء و اُدبا کی مساعئ جمیلہ کا کافی دخل ہے۔ دیگر زبانوں کی طرح اردو میں بھی شاعری نے نثر سے پہلے اپنے قدم جما لیے۔ وہیں سے ہندوستانی سماجی زندگی، موسم، آب و ہوا، جغرافیائی و سیاسی حالات، مذہبی عقائد، رسوم و رواج کے عناصر کو شاعری کی مختلف اصناف میں دیکھا جاسکتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کی اردو زبان وادب بالخصوص اردو شاعری سے غیر مسلم طبقے کے لوگ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ جس کی دلیل اردو کے ہندو شعراء کے کلام میں دکھائی دیتی ہے۔ اس طرح
حب الوطنی ٗ قومی یک جہتی ٗ اتحاد و اتفاق اور امن و اماں کا تصور پختہ ہونے لگا۔اس سلسلے میں غالب کا درجِ ذیل ملا حظہ ہو:
؂ وفاداری بشرط اْستواری اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
غرض اردو شاعری بتدریج ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی ترجمان بنتی گئی۔اس زبان کے اکابرین اور دانشوروں نے یہ آفاقی نکتہ پیش کیا کہ انسان اگر اپنے مذہب کے ساتھ ساتھ دوسرے کے مذہب کو بھی بہتر جانے تو دنیا سے خون خرابہ ٗ فسادات اور جھگڑے یکلخت ختم ہو جائیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے ۔
جھگڑے کی یہی بنیادہے یارو
سب کچھ ہے میرا ٗ تیرا نہیں ہے
پروفیسر مجاور حسین رضوی‘ ارد و شاعری میں قومی یک جہتی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:
اردو شاعری کا مزاج ، اس کا خمیر،رنگارنگی کے تصور سے بنا تھا، اس لیے اردو نے آنکھیں کھولیں تو سیاسی سرپرستی سے محروم ہو کر عوام کی گود میں پرورش پائی ۔ اس لیے اردو شاعری میں قومی یک جہتی کے جو عناصر نظر آتے ہیں ان کی بنیاد جذباتی ہم آہنگی اور قومی یک جہتی کے شعور کی فکری اساس پر رہی ہے ‘‘(1)
اردو کے صوفی بزرگ معروف شاعر امیر خسرو نے اپنے کلام میں ہندوستان کے رسم و رواج ٗ ماحول ، مناظر قدرت اور ہندو مسلم مشترکہ تہذیب کو پیش کیا ہے۔ جن کے متعلق ڈاکٹر عباس علی رقم طرز ہیں کہ ،
’’ گویا اردو کے ابتدائے آفرینش میں ہی امیر خسرو نے اتحاد ‘ یک جہتی‘ اشتراک وہم آہنگی کی شراب سے اس طرح سر شار کر دیا کہ اس کے آئینہ دل میں سب کو اپنا ہی چہرہ نظر آتا ہے اور اس کے نغمہ و سرود میں اپنی ہی دل کی دھڑکن سنائی دیتی ہے۔ (2)
اردو ادب کے گہوارۂ دکن میں سلاطین نے بھی اردو زبان و ادب کی خوب سرپرستی کی ۔چنا ں چہ اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر سلطان قلی قطب ؔ شاہ کے دکنی اردو دیوان میں قومی یگانگت کی فضا ٗاخوت و محبت اور جذ بۂ ایثارکی فراوانی پائی جاتی ہے۔ مذہبی رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا یہ پہلو نصرتی، غواصیؔ ، ابن نشاطی ملا وجہیؔ وغیرہ کے پاس بھی ملتا ہے ۔ ولی اورنگ آبادی نے دکن سے اردو شاعری کا جو تحفہ ’’دیوان ولی‘‘ؔ کی صورت میں دہلی والوں کی خدمت میں پیش کیا‘ اُس میں مذہبی قرابت داری ، لسانی و ثقافتی رشتوں کی پائیداری ، تہذیبی ہم آہنگی اور اخوت و بھائی چارے کے مختلف رنگ نمایاں ہیں ۔
دیوان ولی ؔ کا اثر ہم عصر شعراء پر اس طرح ہوا کہ دہلی کے نامی گرامی شعراء جیسے حاتم ؔ ، آبرو ؔ ، ناجی ؔ وغیرہ نے نہ صرف اردو شاعری میں عشق و محبت کے جذبات عام کیے بلکہ تہذیبی و اخلاقی قدروں کی فضا بھی بہر حال قائم کی ۔انہی خوشگوار روایات کو میر تقی میر ؔ اور مرزا محمد رفیع سوداؔ کے یہاں بھی ملا حظہ کیا جا سکتا ہے۔
کعبہ پہنچا تو کیا ہوا اے شیخ
سعی کرٹک پہنچ کسی دل تک ( میر ؔ )
اْسی دور کے دوسرے شعراء خواجہ میر دردؔ ، میر سوز،ؔ قائم چاندی پوری کے یہاں بھی قومی اتحاد و ہم آہنگی کی مثالیں پائی جاتی ہیں ۔بعد کے زمانے میں خواجہ حیدر علی آنش ؔ ، امام بخش نا سخ ، انشا ء اللہ خان انشاء ، غلام ہمدانی مصحفیؔ ، مرزا غالب،ؔ مومن خان مومن ؔ ، شیخ محمد ابراہیم ذوق ؔ ٗ اوربہادر شاہ ظفرؔ نے پیشرو شعراء کی وسیع المشربی ، صلح کل کی پالیسی اور مذہبی رواداری کی صالح روایات کو اپنایا۔ مراز غالبؔ کے درج ذیل اشعار انہی خیالات کی غما زی کرتے ہیں۔
ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں
نہیں کچھ سبحہ و زنّا ر کے پھندے میں گیر ائی
وفاداری میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے
1865 ؁ء کا دور نظم جدید کے آغاز کا اعلان تھا جس میں الطاف حسین حالیؔ اور محمد حسین آزادؔ کی خدمات شعرو ادب کو کافی دخل تھا ۔ اس سے قبل اردو کی گنگا جمنی مشترکہ تہذیب کے رسیا نظیر اکبر آبادیؔ کا ایک نام ایسا ملتا ہے ٗ جنھوں نے نظم کے ذریعے ہندو مسلم اتحاد کے نعرے بلند کئے اور اپنا قصرِ شاعری حب الوطنی اور قومی اتحاد کی بنیادوں پر تعمیر کیا۔
علامہ شبلی ؔ نعمانی ، اکبرؔ الہ آبادی ٗ محمد حسین آزادؔ ، اسماعیل میرٹھی ٗؔ داغ دہلوی ؔ وغیرہ کا شمار بھی ایسے ہی شعراء میں ہوتا ہے جنہوں نے کھلے ذہن سے اقوام ہند کو یک جہتی کے رنگ میں رنگنے کی کامیاب سعی کی۔ اکبر الہ آبادی جو اصلاحی اور تہذیبی اقدار کے شاعر تھے انھوں نے کھلے لفظوں میں قومی اتحاد کا سبق اس طرح پیش کیا:
؂ کہتا ہوں ہندو مسلماں سے یہی اپنی اپنی روش پہ تم نیک رہو
لاٹھی ہو ہوائے دہر پانی بن جاؤ
موجوں کی طرح لڑو مگر ایک رہو
مولانا الطاف حسین حالیؔ کی نظمیں ہندوستان کی سر زمین اور یہاں کی ہواؤں فضاؤں سے سرشار دکھائی دیتی ہیں۔جن میں قومیت اور حب الوطنی کا گہرا احساس پایا جاتاہے۔ ’ حبّ وطن‘ کے چند اشعار اسی ذیل میں پیش کیئے جاتے ہیں :
اے وطن اے میرے بہشت بریں
کیا ہوئے تیرے آسماں و زمیں
کاٹے کھاتا ہے باغ بن تیرے
گل ہے نظروں میں خاربن ترے
تیری ایک مشت خاک کے بدلے
لوں نہ ہر گز اگر بہشت ملے
اردو شاعری میں بیسویں صدی کا آفتاب شاعر اسلام علامہ اقبال ؔ کی صورت میں سرور جہاں آبادی ؔ ،برج نارائن چکبستؔ ‘ تلوک چند محرومؔ جیسی کرنوں کو اپنے جلو میں لے کر طلوع ہوا جن کی قومی شاعری کی کرنوں نے پورے ملک کو روشن کر دیا ۔ علامہ اقبال ؔ نے ہمالیہ‘ ایک آرزو ‘ چاند ، ابر کہسار، تصویر درد ، ترانہ ہندی بچوں کو ہندوستانی گیت ، نیا شولہ جیسی نظمیں لکھ کر ملک قوم کی محبت کا ثبوت دیا ۔ تو دوسری طرف ابوبکر صدیقؓ حضرت بلالؓ اور فاطمہ بنت عبداللہ کے ساتھ ساتھ گرونانک ، سوامی رامانند تیرتھ جیسی نظمیں لکھیں جو جذبہ حب الوطنی کی نایاب مثالیں ہیں ۔’تصویر درد ‘ کا ہر شعر جذبہ حب الوطنی سے سر شار دکھائی دیتا ہے۔
وطن کی کر فکر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تری بر بادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستان والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
جبکہ نیا شوالہ ، میں ایک ایسا شوالہ تیار کرنے کی خواہش ملتی ہے ، جس کا تیرتھ دنیا کے تیرتھوں سے اونچا ہو ، جس کی سر زمیں کا ایک ایک ذرہ دیوتا سمجھا جائے ۔ ہر صبح میٹھے میٹھے منتر گائے جائیں اورسبھی قومیں پریت کی مئے پی کر سر شار ہو جائیں :
آ غیریت کے پردے اک بار پھر اُٹھا دیں
بچھڑوں کو پھر ملا دیں ٗ نقشِ دوئی مٹا دیں
سونی پڑی ہوئی ہے ٗ مدت سے دل کی بستی
آ اک نیا شوالہ اس دیس میں بنا دیں
دنیا کے تیرتھوں سے اونچا ہو اپنا تیرتھ
دامانِ آسماں سے اس کا کلس ملا دیں
ہر صبح اُٹھ کے گائیں منتر وہ میٹھے میٹھے
سارے پجاریوں کو مئے پیت کی پلا دیں
سرور ؔ جہاں آبادی کی شاعری میں درسِ انسانیت پوشیدہ ہے۔وہ صلح کل کے حامی ہیں ٗ اپنے بیشتر اشعار میں نغمہ و حدت بلند کرتے ہوئے وہ اس طرح گویا ہوتے ہیں ۔
ایک ایک گل میں پھونکیں روح شمیم و حدت
ایک ایک کلی کو دل کے دامن سے دیں ہوائیں
ماضئ قریب کے شعرا ء میں ساحرؔ لدھیانوی ، جوش ؔ ملیح آبادی، کیفی ؔ اعظمی، فراق ؔ گورکھپوری اور سکندر علی وجد ؔ کا کلام اتحاد واتفا ق کی اثر انگیز، ترغیبات ٗ مشترکہ تہذیب و تمدن کے جلوہ ہائے صد رنگ اپنے دامن میں لیے نظر آتا ہے ۔الغرض زمانہ آغاز سے لے کر عصر حاضر تک اردو شاعری قومی اتحاد کی فکری اساس پر قائم ہے۔ جس کی آواز ہندوستان کی بہتی ندیوں ٗ ساون کی مہکتی پھواروں اور زندگی اْبلتے چشموں کی روانی کے ساتھ ساتھ سماعتوں کو لطف دیتی رہے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی :(1) ’اردو شاعری میں قومی یک جہتی کے عناصر ‘ پروفیسر مجاور حسین رضوی ص95
(2)’ قومی یک جہتی کے فروغ میں شعراء کا کردار ‘ڈاکٹر عباس علی ص79

Share
Share
Share