آج کیا پکائیں – – – – – – سید عارف مصطفٰی

Share

Syed Arif
آج کیا پکائیں ۔۔۔ ( طنز و مزاح )

سید عارف مصطفٰی
کراچی

اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ کائنات کا سب سے اہم سوال کیا ہے تو نہ تو میں‌ آسمان و زمین کے وجود کی بابت پوچھے جانے والے کسی سوال کی جانب اشارہ کروں گا اور نہ ہی انسانی فطرت کے اسرار کے بارے میں کسی سوال کا حوالہ دوں گا ،،، گو یہ سوال بھی خاصے اہم ہیں لیکن اتنے اہم پھر بھی نہیں نہیں جتنا کہ یہ سوال کہ
” بتائیں آج کیا پکائیں”

اور یہ سوال میرے گھر میں کہ جسے میں اپنی کائنات کہتا ہوں تقریباً روز ہی اٹھتا ہے اور بلا ناغہ و باقاعدگی سے صبح ابھی جبکہ ناشتہ جاری ہی ہوتا ہے، بیگم اس سوال کا ہتھوڑا لیئے میرے سر پہ آموجود ہوتی ہیں‌ اکثر تو میں چپ چاپ نکل بھگتا ہوں لیکن کبھی کبھی نکل بھاگنے کے سبھی رستے مسدود ہوتے ہیں کیونکہ محض ڈیڑھ فٹ کے فاصلے پہ وہ ہتھوڑا بدست موجود ہوتی ہیں اور وہ یہ ہتھوڑا اس وقت تک برساتی رہتی ہیں کہ جب تک انکی سانس پھول نہیں جاتی یا وہ یہ سوال ہی بھول نہیں جاتیں ۔۔۔ لیکن بعد میں یاد آتے ہی پھر اسی سوال کا ہتھوڑا لیئے آدھمکتی ہیں اور مجھے درست طور پہ یوں لگنے لگتا ہے کہ مسئلہ کھانا پکانے سے زیادہ مجھے پکانے کا ہے کیونکہ انکے چلے جانے کے بعد میرے دل حزیں‌ سے اور منہ سے ویسی ہی مسرت انگیز سیٹی نکلتی ہے کہ جیسے خوب پکائی کے بعد پریشر ککر میں سے بجتی سنائی دیتی ہے –
پھر میں یہ سوچنے لگتا ہوں کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ کچھ تکلیف دہ باتیں روز یا اکثر ہی کیوں ہوتی ہیں ، اور خوشگوار باتوں کو بار بار ہونے سے کیا موت پڑتی ہے ،،؟؟ پھر خود کو اس ڈھنگ سے سمجھاتا ہوں کہ ” صاحب بس یوں سمجھیئے کہ کچھ نہ کچھ چیزیں اکثر گھروں میں روز ہوتی ہیں جیسے ملنسار لوگوں کے گھروں میں روز کوئی نہ کوئی کوئی مہمان آکے پڑ جاتا ہے ، یا جیسے کچھ سلگتے بلکتے لوگوں کے بدن میں روز ہی صبح سے کوئی نہ کوئی درد جنم لے لیتا ہے اور وہ یہاں وہاں جسم کے کسی کسی نہ کسی حصے پہ ہاتھ رکھے ہمیشہ درد سے کراہتے سنے جاتے ہیں تو عین اس طرح یہ سوال اٹھنا آپکے اپنے گھر کی چھوٹی سی دنیا کا مقسوم ہے اور اس پہ صبر کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ” لیکن کبھی کبھی خود کو سمجھانے کی یہ کوشش بے سود بھی رہتی ہے ۔۔۔ کیونکہ یہ وہ دائمی بلکہ قائمی مسئلہ ہے کہ جو روز ہی چڑاؤنا کیئے دیتا ہے اور مجھے بے طرح ڈستا ہے اور بیگم بھی تازہ دم ہوکے ہر صبح میرے عین سامنے اپنے اس سوالی مورچے پہ آکے ڈٹ جاتی ہیں اور بلا ناغہ گفتگو کی پٹاری کھول کے اس سوال کا ناگ برآمد کرتی ہیں اور پھریہ بین تادیر بجتی رہتی ہے کہ "بتائیے آج کیا پکائیں” ۔۔۔۔
ویسے یہ مسئلہ اک میرے گھر سے ہی مخصوص نہیں کیونکہ پیٹ تو سب کے جسمانی سامان کا لازمی حصہ ہے اور اسی لیئے اس سوال کا ہتھوڑا بھی روز ہی ہر ایسے شریف صاحب خانہ کے سر پہ جم کے برستا ہے کہ جو گھر میں ناشتے کی فاش غلطی کرتا ہے لیکن جو لوگ اس سوال سے بچنےکے لیئے ناشتے سے قبل ہی دفتر کے نام پہ کبھی نکل بھاگتے ہیں تو انکی زندگی ہر رات کے کھانے کے وقت ہی حرام کردی جاتی ہے اور وہ اس سوال سے بچ پھر بھی نہیں سکتے ۔۔۔ اس سوال سے ناوقف لوگ جو کہ محض کنوارے ہی ہوسکتے ہیں یا پھر ایک ماہ کے بعد ہی طلاق یا رنڈاپے کی نوبت تک پہنچ جانے والے ( کیونکہ عموماً پہلے ماہ کسی بھی طرح کی دلہن سے کام کرانے کا رسک نہیں لیا جاتا کہ اپنا دل اور کھانا دونوں جلائے گی ) – اس سوال والے معاملے میں عجب ستم یہ ہے کہ بظاہر تو یہسوال کوئی ایسا خاص گھمبیر معلوم بھی نہیں ہوتا بلکہ اس طرح کے سوال میں تو مخاطب کی عزت افزائی کا پہلو چھپا معلوم ہوتا ہے ۔۔ لیکن اس استفسار کی چبھن ، اس کی حدت اور شدت کا احوال وہی لوگ جانتے ہیں کہ جو ایک عدد بیوی کے حامل ہیں اور روز ہی اس سوال کی سولی چڑھائے جاتے ہیں – کوئی مرد اس سوال کا صحیح جواب دے پائے یہ کچھ یقینی بھی نہیں خواہ وہ آخری درجے کا ایک صلح جو اور مسکین سا شوہر ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اس مسئلے میں صرف جواب دینا ہی ضروری نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس جواب کو بیگم کی طرف سے شافی و کافی باور کرلینے کی سند مل جانا بھی لازمی ہے اور یوں بیگم کا درجہء اطمینان تک پہنچ جانا ہی گلو خلاصی کی واحد شرط ہے –
میں دنیا بھر کی بات نہیں کرتا ، لیکن مجھے اپنی کائنات کے سب سے بڑے مسئلے کو پوری دلجمعی و مکمل تندہی سے حل کرنا ہوتا ہے اور وہ بھی ایسے عالم میں کہ بیگم اسکے حل ہونے تک سرپہ موجود رہتی ہیں اور اس سچائی سے تو ہر وہ شخص واقف ہے کہ جو کبھی نہ کبھی خود طالبعلم رہ چکا ہو کہ کوئی ذہین سے ذہین طالبعلم بھی امتحان میں پرچہ کا وہ سوال ڈھنگ سے حل نہیں کرسکتا کہ جو اگر اس دوران کوئی خشمگیں صورت لیئے کوئی ممتحن اسکے سر پہ ہی کھڑا رہے ۔۔۔ – اور پھر یہ سوال بھی تو وہ ہے کہ جس کے جواب میں نقل کی سہولت بھی موجود نہیں ۔۔۔ اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ بیگمات کے اس روزمرہ کے سوال کہ ” آج کیا پکائیں” کے نتیجے میں انکی پکائی کا عمل کچن سے زیادہ کچن کے باہر سرانجام پاتا ہے اور کھانا پکنے سے بہت پہلے ہی ہم جیسے شوہر حضرات ضرور پک جاتے ہیں ۔۔۔ لیکن اور بیگمات کی طرح چونکہ میری بیگم کے لیئے بھی یہ مسئلہ کسی عالمی مسئلے سے بھی زیادہ اہمیت لیئے ہوتا ہے چنانچہ وہ مجھے اس میں کھینچ لینا عین ضروری بلکہ لازمی سمجھتی ہیں ، میں اپنی سی کوشش ضرور کرتا ہوں کہ انکے اس ‘معمولی’ سے سوال کا کوئی جواب ایک آدھ گھنٹے ہی میں دے سکوں لیکن میرا صبر اور میری بصیرت روز ہی اس آزمائش کا شکار رہتی ہیں – ائیے آج آپکو بھی اسکی اک جھلک دکھاتا ہوں
یہ دیکھیئے یہ میرے گھر کا کسی ایک دن کا صبح کا روٹین منظر نامہ ہے اور حسب معمول میری بیگم نے اس وقت مجھے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے اور یہی سوال کسی پتھر کی طرح مجھے کھینچ مارا ہے اور میں بدحواسی میں ادھر ادھر دیکھ رہا ہوں لیکن بدحواسی کو چھپانے اور پراعتماد نظر آنے کیلیئے میں بیٹھے بیٹھے ٹانگ ہلانا شروع کردیتا ہوں جس سے میرا پیر سامنے رکھی تپائی پہ لگ جاتا ہے اور اس پہ رکھی چائے کی پیالی فرش پہ گر پڑتی ہے اور پھر یہ منظر نامہ میری بےکلی کی صفات کو بیان کرنے سے عاجزالفاظ کے تابڑ توڑ استعمال اور شور سے جیسے یکایک بھر سا جاتا ہے ۔۔۔ صاف صفائی ہوجانے اور میری ہجو میں کئی بیانات دے چکنے اور میرے ارد گرد سے، ٹھیس لگنے کے امکان سے گر پڑنے والا سب سامان دور کردیئے جانے کے بعد یہ منظر نامہ وہیں سے جڑجاتا ہے کہ جہاں سے ٹوٹا تھا ،،،۔
” ارے اتنی دیر کیوں لگا رہے ہو سیدھی طرح کیوں نہیں بتادیتے کہ آج کیا پکے گا۔۔۔؟؟ بیگم نے غرانا شروع کردیا تھا ۔۔۔۔
کسی بڑے جھگڑے سے بچنے کے لیئے میں حسب عادت پہلے تو یہ کہ کر جان چھڑانے کی فوری تدبیر کا سہارا لیتا ہوں کہ بڑی فیاضی سے کہ اٹھتا ہوں ” جو جی چاہے پکالو ” لیکن اکثر یہ چال کامیاب نہیں ہوتی کیونکہ ادھر سے جواب میں یہ ارشاد ہوتا ہے کہ "چلو آج کھانے کو رہنے ہی دیتے ہیں” ۔۔۔۔ جس پہ میرے ہاتھ پیر پھول جاتے ہیں کیونکہ میں بھوک کا بہت کچا ہوں اور یہ "رہنے دیں” والے الفاظ گویا صور اسرافیل معلوم ہوتے ہیں تب میں بتیسی نکال کے کہتا ہوں کہ ” آج آلو گوشت پکالو” ۔۔۔۔!
” لیکن وہ تو گزشتہ ہفتےہی پکایا تھا” ،،،،
میں ایسے موقع پہ اپنے جبڑے بھینچ لیا کرتا ہوں تاکہ شروع ہی میں کوئی لفظ ایسا نہ نکل جائے جو میری ناگوری بالکل واضح کردے ۔۔۔ باوقار نظر آنے کی کوشش کرتے ہوئے کمرے میں ادھر سے ادھر نظر گھماتا ہوں پھر چھت کی طرف دیکھتا ہوں اور پھر بے بس نظر کھڑکی کی طرف جاتی ہے پھر کہیں سے کوئی اشارہ یا مدد نہ ملنے پہ بے بس ہوکے کندھے اچکا کے کہتا ہوں ” بھئی کچھ بھی پکا لو ”
۔۔۔۔’ کچھ بھی ۔۔۔! یہ کونسی ڈش ہے بھلا کچھ بھی ؟ ” بیگم نے گویا میری نقل اتاری
۔۔۔ "اچھا چلو دھوئیں والی مرغی بنالو "،،، میں نے دانت نکالے ۔۔۔ جس چیز کے دام گرے ہوں اسے پکوانے میں ہمیشہ بڑی مسرت پاتا ہوں ۔۔۔
"وہ تو گزشتہ ہفتےدس بارہ دن پہلے ہی پکی تھی ” ۔۔۔ بیگم نے یاد دلایا
” تو چلو اروی گوشت بنالو ” ۔۔۔ میں نے ایک اور تجویز پیش کی
” اسے تو گھر کے صرف آدھے ہی لوگ کھاتے ہیں ۔۔۔! ” بیگم نے تاویل پیش کی
نہاری بنا لو ۔۔۔ میں نے چمک کے کہا ۔۔۔
” وہ ابھی 4 دن پہلے ہی بنی تھی ۔۔۔ ” بیگم نے وضاحت کی
” اخاہ ۔۔۔ پائے بہت لذیذ بناتی ہو ،،، آج ہوجائیں پائے ” ۔۔۔ میں نے تعریف کے رستے جان چھڑانے کی کوشش کی ۔۔۔
” خدا کا خوف کریں اتنا کولیسٹرول ہوتا ہے اس میں ،،، اور آپکا تو بلڈ پیشر بھی ہائی رہتا ہے،،، بیگم نے جیسے میڈیکل کی کتاب ہی کھول لی ۔۔۔
” اچھا مچھلی لے آؤں ” ۔۔۔ میں نے گویا حد ہی کردی ۔۔۔
” اتنی گرمی میں ؟ ۔۔۔ اور پھر آپکو مچھلی کی پہچان بھی کہاں ہے !!‌ ،،، مچھلی کے نام پہ جو شے آپ لاتے ہیں وہ ہوتی تو مچھلی کی شباہت والی ہی ہے لیکن پہچانی بڑی مشکل سے جاتی ہے پھر چھانٹ کر پوری کوشش کرکے ایسی افلاطون مچھلی لاتے ہیں کہ کثرت فکر سے گوشت مکمل ناپید ہوگیا ہو بس کانٹوں کا انبار ہی رہ گیا ہو جیسے ۔۔۔
،،،آپکی لائی مچھلی اتنی باسی ہوتی ہے کہ پکتے ہوئے باس گلی کے آخر تک جاتی ہے ۔۔۔ میں اسے جیسے ہی کڑھائی میں ڈالتی ہوں دائیں بائیں کے گھروں سے نجانے کتنے لوگ کھانسنے اور بڑبڑانے لگتے ہیں ۔۔۔
شرمندگی کا یہ طولانی بیان بہت دیر جاری رہ سکتا تھا اگرمیں موضوع فوراً ہی نہ بدل دیتا ،،،
” کیوں بیگم ۔۔۔ چکن کڑھائی اچھی رہے گی نا ،،، ؟
"‌پچھلی بار بنائی تھی تو زیادہ مزا نہیں آیا تھا آپکو ،،، ایک بار بھیئ تعریف نہیں کی تھی آپنے جبکہ ہمیشہ بہت تعریف کرتے تھے ۔۔۔ ! ”
تو اس سے کیا ہوا ۔۔۔۔؟
” میں نے تو بڑی شرمندگی محسوس کی تھی اور قسم کھالی تھی کہ اب ایک برس سے پہلے نہ بناؤں گی چکن کڑھائی ۔۔۔”
” آخر ایک برس ہی کیوں ۔۔۔؟ ”
تاکہ اس کا کھویا ذائقہ بحال ہوجائے اور پرانے والے کی یاد بھول جائے
” اچھا بریانی بنالو۔۔۔ یا پھر ۔۔۔۔ قورمہ بھی ہوسکتا ہے ،،،” مین منمنایا
” آخر کیوں یہ بار باربریانی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں آپ ؟؟ جب دیکھو بریانی ۔۔! ابھی اس مہینے ہی 4 شادی ولیموں میں یہی بریانی اور قورموں پہ توبڑھ چڑھ کے ہاتھ صاف کیا ہے آپنے ” ۔۔۔ بیگم نے ہاتھ نچائے
"اچھا تو کوئی سبزی ہی بنالو ۔۔۔۔”
” مثلاً ۔۔۔! ”
” یہ کہ بھنڈی ایکدم ٹھیک رہے گی "۔۔۔ مجھے جیسے راہ سوجھ گئی تھی
” لیکن آپکے دو بچے تو اسکی طرف آنکھ اٹھا کے بھی نہیں دیکھتے ،،،کیا انہیں بھوکا ماردوں ؟؟‌ بیگم غضبناک لہجے میں بولیں
میں نے فوری اپنے ناخن تدبیر سے یہ گرہ کھولی ” اچھا یوں کرو کہ آپ بھنڈی کو گوشت میں ڈالدو توسب بچے کھالیں گے ”
” نہیں پھر تو بالکل نہیں کھائینگے ، گوشت بھی خوامخواہ ضائع ہوگا-”
میں تنگ آچکا تھا ،،، بیزاری سے کہا ” تو کوئی اور سبزی پکالو۔۔۔‌”
” مثلاً ۔۔۔! بیگم بھی تنگ آئی لگ رہی تھیں لیکن پھر بھی لہجہ مستحکم تھا ۔۔
"میرا خیال ہے لوکی مناسب ہے "،،، میں نے صلح جویانہ انداز میں مشورہ دیا ۔۔۔
” کیوں کیا چند دن پہلے جو لوکی پکائی تھی اسکا حشر یاد نہیں ؟؟ ،،، 4 دن تک ساری آپنے ہی کھائی تھی ،،، ” بیگم نے یاد دلایا تو یکایک جھرجھری سی آگئی اور دفعتاً میرے رونگٹے یکدم کھڑے ہوگئے
” ،،، نہیں ،،، نہیں بھئی لوکی کو رہنے دو ،،، ”
بیگم نے لقمہ دیا ،،،” کدو اور ٹینڈے کو تو خود آپ بھی مارا باندھے ہی کھاتے ہیں ،،، پھر بچوں کے صبر کا امتحان کیوں لوں ؟؟ ”
” میرا خیال ہے ابھی کوئی دال چاول ہی پکالیں تو بہتر رہے گا ” ۔۔۔۔ میری آواز جیسے کنوئیں سے آئی ،،،
” بچوں کو تو ایک ملکہ مسور کی کالی دال کے سوا اور کوئی دال نہیں بھاتی ، الٹ پلٹ کے وہی بار بار پکتی ہے ،،، اسے بھی کہاں تک پکاؤں "۔۔۔ بیگم ترنت بولیں
” اچھا یوں کرو کے خشکہ ہی بنالو ،،،تمہارے خاص رائتے کے ساتھ کیا مزا دیتا ہے ” میں نے مسکہ لگا کے معاملے کو نپٹانے کی کوشش کی
” اپنے کئی بچوں کو نزلہ زکام نے جکڑا ہوا ہے اور آپ کو چاول کی سوجھ رہی ہے وہ بھی دہی کے رائیتے کے ساتھ ۔۔۔ ” بیگم نے جلے کٹے انداز میں وضاحت کی
” اوہو ،،، میں تو بھول ہی گیا تھا ۔” ۔۔ خوشدلی سے اپنی کوتاہی کا فوری اعتراف اکثر اچھے نتائج کا موجب بنتا ہے ۔۔۔ بیگم بھی ذرا دیر کو خاموش ہوئیں اور پھر ہاتھ نچاکے گویا ہوئیں،،، "اتنی دیر لگادی اور ابھی تک ایک ذرا سی بات نہیں بتاسکے آہ کہ آج کیا پکائیں "،،،
” چلو یوں کرو کے بچوں کو ہوٹل سے نہاری منگاکے کھلادو ” ،،،، میں نے ایک آسان حل یہ سوچ کے پیش کیا کہ اس سے بیگم کو ابھی پکانے کے کام سے چھوٹ مل جائے گی تو دل کا نرم پڑنا یقینی ہے
"وہ جو منجھلے کا پیٹ چل پڑا تھا کیا بھول گئے آپ ۔۔۔ اس پہلے جو نہاری لائے تھے کتنی بھاری پڑی تھی سے ،،،بلکہ ھر ہم سب کو ،،،کتنے پریشان ہوئے تھے اسکے دستوں کی وجہ سے ،،، حیرت ہے آپکو یاد ہی نہیں جبکہ خود آپ کتنے دن ڈاکٹروں‌کے پاس لیئے لیےلئے پھرے تھے ! ” بیگم کے لیئے میری یہ پکی پکائی رعایت رائیگاں ہی رہی
” ارے بس ٹھیک ہے پھر ۔۔۔ ہوٹل نہیں مگر تم گھر ہی میں بنالو نہاری۔۔۔ ” میں اوازار ہو چلا تھا
” آپ خود ہی تو کہتے پھرتے ہیں ہر جگہ کہ نہاری تو بس ببن کے ہوٹل ہی کی مزاہ دیتی ہے ۔۔! ” بیگم نے وار کیا
میں زچ ہوکے بولا ” بھئی کڑھی پکانے میں تو کوئی حرج نہیں ؟ ”
” ابھی ڈیڑھ ماہ میں دوسری بار 2 ہفتہ پہلے ہی بنائی تھی تو بچے بسور رہے تھے کہ کیا ابا کی جیب کٹ گئی ہے ۔۔۔۔!! ” بیگم کھوکھیائیں
” ہائیں ،،، کیا تم نے بچوں کو ایسا بے لگام کردیا ہے بیگم !! ۔۔۔۔ ایسی زبان درازی ؟؟ توبہ توبہ ۔۔۔ باپ رے ۔۔۔میرا تو دل جل کے کباب ہوگیا ہے ۔۔۔ ” میں نے ترش اور اونچے لہجے میں جھلا کے کہا
” ارے تو یوں گول گول کیوں گھماتے ہیں ،،، صاف کیوں نہیں کہتے کہ کباب بناؤ ،،، چلو ٹھیک ہے کباب بناتی ہوں ۔۔۔ بہت دن بھی ہوگئے ہیں ۔۔۔! "

Share
Share
Share