ادبی جریدہ : ادب و ثقافت ۔ ۳
ایڈیٹر: پروفیسرمحمد ظفرالدین
ناشر: مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی
حیدرآباد ۔ دکن
مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی کے ادبی جریدے ’’ادب و ثقافت‘‘ کا تیسرا شمارہ حاضرخدمت ہے۔ توقع ہے کہ پہلے دونوں شماروں کی طرح اِسے بھی قبول عام کا درجہ حاصل ہوگا اور اہل علم و دانش قدرومنزلت کا مقام عطا کریں گے۔
مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی کے موجودہ شیخ الجامعہ ڈاکٹر محمد اسلم پرویزنے اُردومیں نصابی مواد کی تیاری کے سلسلے میں ایک انقلاب آفریں فیصلہ کیا ہے اوراس مقصد کی تکمیل کے لیے اُنہوں نے انتہائی ٹھوس اور عملی اقدام کرتے ہوئے نظامت ترجمہ و اشاعت(Directorate of Translation & Publications) قائم کیا ہے۔ اُنہوں نے اس نظامت کو دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ کے احیا سے تعبیرکرتے ہوئے اُردو میں بڑے پیمانے پر کتابوں کی اشاعت کو اپنا ’’ڈریم پروجیکٹ ‘‘ قرار دیا ۔ شیخ الجامعہ کے مطابق اُردو یونیورسٹی یا اُردو ذریعہ تعلیم کی سب سے بڑی خدمت یہ ہوگی کہ اُردو میں نصابی کتابوں کی کمی کودورکیا جائے۔ نصابی کتابوں کے ساتھ دیگر علمی و حوالہ جاتی کتابوں کے ترجمے‘ تصنیف و تالیف اور اشاعت مکرر بھی اس نظامت کی اشاعتی سرگرمیوں کا حصہ ہوگا۔ یونیورسٹی میں فی الحال فاصلاتی طرزتعلیم کے طلبہ کے لیے کتابیں مہیاکرائی جاتی ہیں لیکن معزز شیخ الجامعہ کا خیال ہے کہ کیمپس طرز تعلیم کے طلبہ کے لیے بھی نصابی مواد ضروری ہے اس لیے کہ بازار میں مختلف مضامین کی کتابیں اُردو زبان میں دستیاب نہیں ہیں اورطلبہ کو مشکلات کا سامنا ہے۔ اُردویونیورسٹی کو اپنے طلبہ کے لیے خود ہی کتابیں تیار کرنی ہوں گی جس کے لیے یونیورسٹی کے تمام اساتذہ کے عملی تعاون کی ضرورت ہے۔ نظامت ترجمہ و اشاعت یونیورسٹی کی تمام اشاعتی سرگرمیوں کا مرکز ثابت ہوگی اور یہاں سے اُردو کتابیں کثیر تعداد میں اشاعت پذیر ہوں گی۔ یہ کتابیں یونیورسٹی کے طلبہ و اساتذہ کے ساتھ ساتھ عام اُردو آبادی کے لیے بھی دستیاب ہوں گی۔
زیر نظر شمارے میں متنوع موضوعات پرمضامین شامل ہیں جو اس جریدے کے شمولیتی منہج کی ترجمانی کرتے ہیں۔پروفیسر عبدالستار دلوی نے مولانا ابوالکلام آزاد کی تکثیریت کے حوالے سے نہایت معلوماتی اور مفید مضمون قلم بند کیا ہے جو وقت اور حالات کے تقاضوں سے مطابقت رکھتا ہے۔ ’’اُردو قواعد نویسی کی روایت‘‘ پر لکھے گئے اپنے مضمون میں مرزا خلیل احمد بیگ اس تاریخی حقیقتپر سے پردہ اُٹھاتے ہیں کہ سب سے پہلے یورپی قواعد نویسوں نے اُردو قواعد کی کتابیں تصنیف کیں اور سب سے پہلی قواعدکی کتاب ڈچ زبان میں سترہویں صدی کے اواخرمیں لکھی گئی۔ نامورمحقق محمدعلی اثر نے اپنے مضمون میں دکنی شعرا کے سو سے زائد ایسے اشعار یکجا کردیے ہیں جو قرآنی تلمیحات پر مشتمل ہیں۔ اس کے ذریعے دکنی شاعری کی تفہیم و تحسین کا نیا زاویہ سامنے آیا ہے۔عارف حسن خاں نے اپنے مضمون میں رباعی کے اوزان سے متعلق استادانہ انداز میں اظہار خیال کیا ہے۔ ظفرحبیب نے اپنے مضمون میں اٹھارہویں صدی کے ایک شاعر شاہ مسیح الدین حسن بخاری شطاری پرداد تحقیق دی ہے جن کا تعلق شمالی بہار سے تھا۔ محمد شاہد حسین نے اپنے مقالے میں پروفیسر محمدحسن کے تحریر کردہ ڈرامے ضحاک کا تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے اور مثالوں کے ذریعہ اس کی خصوصیات واضح کی ہیں۔مظفرشہ میری کا مضمون اُردو زبان کی قانونی حیثیت سے متعلق ہے جس میں اُنہوں نے اس مسئلے کے مسائل و مضمرات کونمایاں کیا ہے۔ کوثر مظہری نے اپنے مقالے’’ تہذیب و ثقافت سے ادب کا رشتہ‘ ‘ میں ادب اور ثقافت کے باہمی رشتے پر گفتگو کی ہے۔ ان کا یہ خیال بجا ہے کہ شعروادب کو سماجی اور انسانی زندگی سے الگ نہیں کیا جا سکتا اور ادیب کی اپنی تہذیبی و ثقافتی شناخت ہوتی ہے۔ابوبکرعباد اپنے مقالے میں لکھتے ہیں کہ غالب نے ہندوستانی ثقافت کی مطابقت اور اپنی شناخت کے تعین کے لیے نہایت بلیغ ‘ تہہ دار اور علامتی شاعری کی ۔ اُنہوں نے مشترکہ تہذیب کی عکاسی اور پیچیدہ سماج اور متنوع کلچر کی ترجمانی کا اسلوب اختیار کیا۔معزہ قاضی نے اپنے مضمون’’اُردو داستانوں کی تہذیبی معنویت‘‘ میں مشرقی ادب میں داستانوں کی اہمیت واضح کی ہے ۔آمنہ تحسین نے اپنے مقالے میں منٹوکے افسانوں کو تانیثی زاویہ نگاہ سے دیکھا ہے۔ اُن کے مطابق منٹو کی تحریریں عورت کے وجود سے متعلق کسی نہ کسی پہلو پر مکالمہ‘ بحث اور اظہار خیال کے میدان فراہم کرتی ہیں۔احمد کفیل نے اپنے مقالے میں لکھا ہے کہ غالب اپنے شعری اظہار میں ترقی پسند‘ جدید اور مابعد جدید تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر فکر و خیال کے لوگ غالب کے کلام میں اپنی دنیا تلاش کرلیتے ہیں۔عبدالحئی اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ زبیررضوی نے اپنا رسالہ ذہن جدید اُس وقت نکالا جب اُردو زبوں حالی کا شکار تھی ۔اس رسالے نے ثابت کردیا کہ نامساعد حالات میں بھی رسائل چلائے جا سکتے ہیں اور ان میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے متعلق مضامین پیش کیے جا سکتے ہیں۔ عادل حیات کے مطابق عصرحاضر میں اُردومیں ادبِ اطفال کی صورتحال اچھی نہیں ہے۔ بچوں کے گیت قصہ پارینہ جیسے لگتے ہیں۔ اُنہوں نے اپنے مضمون میں اپنی اسی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ اِس بار بھی قلمکاروں نے بڑی تعداد میں ہمارے ساتھ تعاون کیا اور اپنی گراں قدر نگارشات ’’ادب و ثقافت‘‘ میں اشاعت کے لیے ارسال کیں۔ ہم سبھوں کے شکرگزار ہیں تاہم معذرت خواہ ہیں کہ مختلف وجوہات کے پیش نظر کئی مقالے شامل اشاعت نہیں کیے جا سکے۔ اُنہیں علاحدہ علاحدہ مطلع کردیا گیاہے اور یقین ہے کہ آئندہ اشاعتوں میں اُن کے مقالے بھی اِس جریدے کی قدروقیمت اور افادیت میں اضافے کا سبب بنیں گے۔
ادب و ثقافت ایک ریسرچ اور ریفریڈ جرنل ہے جس میں غیرمطبوعہ تحقیقی مقالے شائع کیے جاتے ہیں۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین عموماً کم از کم دو ماہرین کی نظروں سے گزرتے ہیں۔ مضامین کی شمولیت کے فیصلے پوری احتیاط کے ساتھ کیے جاتیہیں۔تاہم اس جریدے کو مزید تحقیقی اور حوالہ جاتی بنانے کے لیے ہم نے اس کے مضامین کو بلائنڈریویو کے مرحلے سے گزارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے مضامین وقت سے کافی پہلے پہنچ جائیں۔ہم اپنے قلم کاروں سے وسیع النظری اورکشادہ قلبی کی توقع رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اگر آپ کے مضمون میں کسی طرح کے حذف و اضافے یا ترمیم کی صلاح دی جائے تو اُسے آپ خندہ پیشانی سے قبول کریں یا پھر اُس رائے پر اپنی رائے سے ہمیں نوازیں ۔ ادارتی بورڈ کومضمون کے تعلق سے فیصلہ لینے کا اختیار ہوگا۔
خوشی ہے کہ ہمیں بیشترمضامین میل کے ذریعے موصول ہو رہے ہیں۔ اس ضمن میں گزارش ہے کہ اپنے مضامین میں ہندسے (1,2,103,104 وغیرہ) صرف انگریزی میں کمپوز کیجیے۔ کسی بھی تاریخی حوالے کے لیے عیسوی سن ضرور تحریر کیجیے ۔صرف ہجری سن پر اکتفا نہ کیجیے۔ہر اقتباس کا واضح حوالہ دیجیے اورمقالے کے آخر میں حواشی کے تحت کتابوں اور جرائد کی ترتیب وار فہرست ضرور شامل کیجیے۔اپنے مقالے کے ساتھ اس کے غیرمطبوعہ ہونے کی وضاحت کردیجئے ۔
میں محترم المقام شیخ الجامعہ ڈاکٹر محمد اسلم پرویزاور رجسٹرار محترم ڈاکٹر شکیل احمدکا سپاس گزار ہوں کہ ان علم دوست اور ادب نواز شخصیات کے تعاون کے بغیراِس جریدے کی اشاعت ممکن نہ تھی۔ جریدے کو ان دونوں حضرات کی محبت اور سرپرستی حاصل ہے جو اس کے لیے فالِ نیک ہے۔
قارئین اور قلمکاروں کے مشوروں کا انتظار رہے گا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
Prof. Mohd. Zafaruddin
Director
Directorate of Translation and Publications
Maulana Azad National Urdu University
Gachibowli, Hyderabad – 500 032 (AP)
Mobiles: 09347690095, 09052607590
, www.manuu.ac.in