کیا زمانے گئے کیا لوگ زمانے سے گئے
رودِ موسیٰ کی طغیانیاں۔ میر محبوب علی خاں کی رعایا پُرسی
علامہ اعجاز فرخ
09848080612
زبان، ملک اور تہذیب خواہ کوئی رہی ہو، داستاں سے دلچسپی انسانوں کو خوب مرغوب ہے۔ داستاں خواہ رزمیہ ہو یا المیہ کہیں نہ کہیں عشق کی کارفرمائی اور جلوہ آرائی ضرور محسوس ہوتی ہے کہ بہر حال سینے میں ایک دل تو ہے ہی اور کمبخت ہے بھی ایک ہی جو اپنی من مانی کرتا ہے۔ داستانوں سے دلچسپی اور شوق سماعت نے داستاں گو پیدا کئے اس ہنر نے انسانوں کی نفسیات کو احساس کی انگلیوں اور اس کی نازک پوروں سے ٹٹولا تو انہیں جزیروں میں قدرت کے جو مناظر نظر آئے انہیں کے درمیان قدموں کی چاپ کو محسوس کرکے، پگڈنڈیوں کے سہارے وہ محبت آشنا دلوں تک پہنچے اور یوں ہر زبان میں داستاں گوئی رواج پاگئی۔ داستاں گوئی کے عناصر کا تجزیہ ایک طویل مقالہ چاہتا ہے۔ لیکن کسی بھی داستان کو چن لیجئے اس میں کوہ، دریا، صحرا، نخلستان، قلعہ، محل، قبیلہ، جرگہ، طبقہ، دشمنی، رنجش، ہتھیار، جنگ، فتح، شکست، انتقام، رقابت، اُنس، الفت، محبت، عشق، وارفتگی، سپردگی، بے خودی، ہشیاری، جرأت آزمائی، لگن، آرزوئے وصال، تپش فراق، فراق کے بعد وصل اور وصل کے بعد فراق اور سب سے آخر میں ’’نہ جنون رہا نہ خرد رہا جو رہی سو بے خبری رہی‘‘ باقی رہ جاتی ہے۔
صحرا اگر قیس سے آبرو مند ہوگیا تو کوہ گراں نے بھی تیشۂ فرہاد سے عزت پائی، سوہنی کے کچے مٹی کے گھڑے نے راوی کو موج موج کیا ورنہ تو وہ آب آب ہوجاتا۔ کرشن نے رادھا سے بے پناہ عشق کیا تو جمنا کے تٹ پر اور اسی جمنا کے کنارے شاہجہاں اور ممتاز محل کی یادگارِ محبت روشنی بکھیر رہی ہے۔ کہتے ہیں پونم کی رات کو جب تاج محل پورے چاند کی شب میں نہا لیتا ہے تب اس کی روشنی آگرہ کے دریچوں کے روزن سے داخل ہوکر کسی کی پیشانی چوم لیتی ہے تو پھر کسی ارجمند بانو کی آنکھوں میں ٹوٹ کر چاہے جانے اور ممتاز محل کہلانے کا خواب جگمگا اٹھتا ہے۔
حیدرآباد کب کسی سے پیچھے رہا ہے اسے کب یہ منظور ہے کہ رودِ موسیٰ تو ہو اور داستانِ عشق نہ ہو۔ اگر جمنا کے تٹ اور کناروں پر داستانِ عشق رقم ہو تب رودِ موسیٰ کے کنارے شہر نہ بسے۔ داد محل، خدا داد محل، نادی محل، چندن محل، لاکھن محل اور ساجن محل نہ ہوں تو بات کیا بنے۔ اور بات کیسے بنے اگر چنچلم کی رقاص دوشیزہ نہ ہو اور شہزادہ دل نہ ہار بیٹھے۔ رودِ موسیٰ کی طغیانی ہو، آرزوئے وصال ہو، چڑھی ہو ندی میں گھوڑا ڈال دے۔ موجیں گھوڑے اور سوار کو اچھال رہی ہوں۔ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں کبھی پیر سے رکاب چھوٹی جائے اور کبھی ہاتھ سے باگ چھوٹی جائے۔ نگاہیں منزل تلاش کر رہی ہوں۔ مینہہ یوں برسے کہ آج برسوں تو پھر نہ برسوں تا کہ سارے ولولے سرد ہوجائیں اور طوفان یوں آتشِ شوق کو ہوا دے کہ جس سے ندیا سر نہ ہو اس سے حسن کب سر ہوگا۔
چڑھتی ندی پر چڑھائی تو شیوۂ مردانہ ہے۔ بھلا اتری ندیا کیا اور اس کی پایابی کیا! سنتے ہیں کہ عشق کے بنا تو حسن بھی ادھورا ہے کہ کوئی بنی زلف کو بگاڑنے والا نہ ہو تو سنورنا کیا اور آئینے سے پوچھنا کیا! اس لئے حسن نے بھی چراغ جلا رکھا تھا کہ کھوجنے والے کو منزل کا سراغ مل جائے۔ منافق ہوا، ادھر آتش شوق کو بڑھاوا دے تو ادھر چراغ بجھا دینے پر آمادہ۔ لیکن دونوں ہاتھوں کی نازک ہتھیلیوں نے چراغ کی لَو کو یوں پناہ میں رکھا تھا کہ ہتھیلیوں کے آبلے تو سوغات محبت ہیں ہی اس کی کسک میں بھی لذت ہے لیکن دلبری کا تقاضہ بھی ہے کہ ہوا اپنی سی کرکے دیکھ لے ’’یا آج یہ چراغ نہیں یا ہوا نہیں‘‘۔
قلی قطب شاہ اور بھاگ متی کے عشق کی داستاں بھی خوشبو ئے مشک کی طرح پھیلی ہوئی ہے اور صدیوں پر محیط ہے۔ ڈاکٹر محی الدین زورؔ نے اس پر سارا زورِ قلم صرف کیا ہے تو پروفیسر ہارون خاں شیروانی اس کو رد کرنے کے لئے دور کی کوڑی لانے میں مصروف ہیں۔ بعض ناقدین کا خیال ہے کہ قلی قطب شاہ کی عمر 14 برس تھی۔ بھلا مسیں بھیگنے کی عمر میں یہ برساتیں یہ گھاتیں یہ ملاقاتیں؟ یہ تو مکتب میں پڑھنے لکھنے کی عمر ہے۔ تو دوسری طرف یہ بھی کہ مکتبِ عشق کا دستور نرالا دیکھا۔ اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا۔ مشہور مورخ محمد قاسم فرشتہ بضد ہے کہ یہ شادی ہوئی تھی۔ اگرچیکہ بیجاپور کا یہ مورخ کبھی حیدرآباد آیا ہی نہیں۔ اکبر کے دربار کے مشہور شاعر فیضی نے شہنشاہ کے نام اپنے ورقیے میں یہ واقعہ لکھ کر روانہ کردیا۔ ویسے شہزادہ نورالدین محمد سلیم کم و بیش اسی عمر میں ایک شادی کرچکا تھا اور مہرالنساء پر ڈورے ڈال رہا تھا۔ شہزادوں کے لڑکپن اور جوانی میں خوابوں کا جھٹپٹا نہیں ہوتا۔ صرف حکم کی تعمیل اور خواہش کی تکمیل ہوتی ہے۔ مورخین کی تُگ و دو اپنی جگہ آرزوئے وصال اپنی جگہ۔ بھاگ متی حقیقت رہی تو قطب شاہ کی کہانی رہی تو قطب شاہ کی اور کچھ ہو نہ ہو حیدرآباد شہرِ محبت تو کہلایا اور ہے بھی شہرِ محبت۔
اس شہرِ محبت میں رودِ موسیٰ مختلف حوالوں سے جانی جاتی ہے۔ شہر اس کے کنارے بسایا بھی اسی لئے گیا کہ اس کی فرحت افزا فضاء راس آئے۔ ساتھ ہی دوا خانے بھی اسی کے کنارے تعمیر کئے گئے کہ مریض جلد شفا یاب ہوں۔ یہ تو رودِ موسیٰ کا خوش کُن پہلو رہا لیکن اس کا قہر بھی ناقابل فراموش ہے۔ حیدرآباد کے قیام سے 1908 تک 14 طغیانیوں کی تاریخ ملتی ہے لیکن ان میں اہم اور بڑی طغیانیاں قابلِ ذکر ہیں کہ پہلی طغیانی 1631 میں اس زور سے آئی کہ اس وقت کے لوگ اسے سب سے بڑی طغیانی کہتے تھے اور برسوں اس طغیانی کا تذکرہ چلتا رہا جس میں پانی پرانے پل کے اوپر سے بہہ رہا تھا اور پرانے پل کا ایک دروازہ ندی میں ایک تنکے کی طرح بہہ گیا۔ اس طغیانی نے نہ صرف آس پاس کے محلّوں کو برباد کیا بلکہ کئی عمارتیں نیست و نابود ہوگئیں۔ ندی کے کنارے آباد کئی دفاتر اس طغیانی میں بہہ گئے۔ ایک اور طغیانی اس کے ٹھیک 200 برس بعد یعنی 1831 میں آئی۔ اس وقت تک شہر بھی وسعت اختیار کرچکا تھا۔ چادر گھاٹ کا پل زیر تعمیر تھا۔ یہ پل بہہ گیا اور پھر اس پل کی از سر نو تعمیر ہوئی۔ اس طغیانی میں عمارتوں سے زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا۔ اس کے 72 برس بعد 1903 میں رودِ موسیٰ پھر غضبناک ہوئی۔ یہ طغیانی پچھلی طغیانیوں کی بہ نسبت کچھ کم ضرور تھی لیکن پھر بھی 1400 افراد لقمۂ اجل ہوئے اور سیکڑوں مکان برباد ہوگئے۔ اس کے بعد حکومت نے ندی کے قریب مکانات تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی۔
حیدرآباد کی تاریخ کی سب سے بھیانک طغیانی 1908 میں آئی۔ اتوار کا دن تھا ستمبر کی 27 تاریخ تھی۔ صبح ہی سے گھنگور گھٹا چھائی ہوئی تھی لیکن بارش کچھ ایسی زیادہ نہیں تھی۔ سہ پہر کے بعد بارش تیز ہوگئی گویا جھڑی لگ گئی۔ سواریاں افضل گنج کے پل سے گزر رہی تھیں۔ سطح آب بلند تو تھی لیکن غیر معمولی نہیں تھی۔ رات کوئی ایک بجے مہیب گڑگڑاہٹ کے بعد بادل وسیع رقبے میں پھٹ پڑا۔ بارش یوں تو تیروں کی بوچھار کی مانند تیز تھی ہی بادل پھٹ پڑنے سے ایسا لگا کہ بارش چادروں کی صورت برس رہی ہے۔ نالوں نے ندیوں کی صورت اختیار کرلی۔ تانڈور، وقارآباد، معین آباد اور اطراف کے دیہاتوں کے تالاب جب ان ریلوں کی تاب نہ لاسکے تو ان کے پُشتے ٹوٹ گئے۔ پھر تو دیکھتے دیکھتے پانی اونچا ہوتا چلا گیا۔ افضل گنج کا پل جسے آج نیا پل کہا جاتا ہے، یوں ٹوٹا گویا مٹی کا بنا ہوا تھا۔ سب سے پہلے کولسہ واڑی مکمل بہہ گئی پھر حسینی علم کے علاقے میں پانی در آیا۔ شہید گنج، چار محل، بدری الاوہ، انجی باغ، گھانسی میاں بازار، دارالشفاء، جامباغ، گولی گوڑہ، افضل گنج کا دواخانہ سب بہہ گئے۔ بہتے ہوئے مریضوں میں سے چند ایک کے ہاتھوں میں دواخانے کے چمن میں ایک درخت کی شاخیں آگئیں تو انہوں نے پیڑ کے اوپر پناہ لی۔ آج بھی یہ درخت اسی چمن میں موجود ہے اور اس طغیانی کا چشم دید گواہ بنا ہوا ہے۔ ندی کے شمالی حصے میں تقریباً ڈھائی کیلو میٹر اور جنوب میں کوئی ڈیڑھ کیلو میٹر تک ندی کا پاٹ بہہ رہا تھا۔ تین ہزار سے زیادہ افراد شہر پناہ کی دیوار کے ساتھ بنے پٹیلہ برج پر پناہ گزیں تھے۔ ندی کے بہاؤ کے ساتھ پٹیلہ برج ریت کے ٹیلے کی طرح ٹوٹ کر بکھر گیا اور آن واحد میں تین ہزار افراد کی آہ وزاری، چیخ و پکار اٹھی اور بس۔ پھر سناٹا ہوگیا۔ تین ہزار زندہ انسان گرداب کی نظر ہوگئے اور لاشیں بھی میسر نہ آسکیں۔ 19000 سے زیادہ مکانات منہدم ہوگئے۔ 15000 سے زیادہ افراد آن واحد میں لقمۂ اجل ہوگئے۔ 80,000 سے زیادہ افراد خانماں برباد ہوگئے۔ آسمان ان کی چھت تھی، زمین پر وہ بے سہارا تھے۔ بچھڑ جانے والوں کا ماتم تھا۔ ہر خاندان گریاں تھا۔ آنکھ اشکبار تھی۔ کروڑوں روپیہ کا مالی نقصان الگ تھا۔ کسی کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ کیا کریںں اور کہاں جائیں۔ یکایک بادشاہ وقت میر محبوب علی خاں معمولی کرتے پاجامے اور سلیپرز میں پرانی حویلی سے نکل پڑے۔ شور مچ گیا ’’بادشاہ سلامت خود عوام کے درمیان پہنچ رہے ہیں‘‘۔ غم کے لمحات میں جب کوئی ہمدرد دکھائی دیتا ہے تو رکے ہوئے آنسو بھی بہہ نکلتے ہیں۔ لوگ بلک اُٹھے ’’سرکار میرا گھر لُٹ گیا، سرکار میرے بچّے بچھڑ گئے، سرکار ہم بے آسرا ہوگئے، ہم بے سہارا ہیں، ہمارے سر پر سائبان تک نہیں، فریاد ہے، سرکار فریاد ہے‘‘۔ محبوب علی خاں کی آنکھوں سے آنسوبہہ نکلے۔ رعایا بڑی اپنائیت سے اپنا رنج و غم بیان کر رہی تھی۔ بادشاہ کو یوں دیکھ کر رعایا اور بے قرار ہوگئی۔
انہوں نے رندھی ہوئی آواز میں کہا ’’آپ فکر مند نہ ہوں۔ آپ کا یہ خادم حاضر ہے۔ میرا غریب خانہ آپ لوگوں کے لئے موجود ہے۔ اس میں بلا تکلف قیام فرمائیں‘‘۔ انہوں نے مہاراجہ سے مخاطب ہوکر کہا۔ ’’ہمارے تمام محل ہماری رعایا کے لئے کھول دیئے جائیں۔ پانچ مطبخ مسلمانوں کے لئے اور پانچ مطبخ ہندوؤں کے لئے اور ایک مطبخ ان پردہ دار خواتین کے لئے فوراً تیار کئے جائیں۔ سب کے لئے کپڑوں اور کمبل کا انتظام کیا جائے۔ تمام اطباء کو مامور کیا جائے کہ ہمارے مہمانوں کے قیام ہی میں مطب کریں۔ تمام سرکاری دفاتر تا حکم ثانی بند کر دیئے جائیں۔ جملہ ملازمین سرکار کو رعایا کی خدمت پر مامور کیا جائے۔ ملازمین کو ایک مہینے کی تنخواہ جاری کردی جائے۔ تمام عہدیداران اعلیٰ کو فی الفور طلب کیا جائے تاکہ بازآباد کاری کے انتظام و انصرام کا جائزہ لیا جائے۔‘‘ پہلی مرتبہ بادشاہ نے یمین السلطنت کو تنبیہہ کی کہ ’’آپ خاص خیال رکھیں کہ ہمارے احکام میں کوئی تغافل یا تسامل نہ ہو‘‘۔ مہاراجہ تعظیم میں جھک گئے۔ کہا ’’سرکار خاطر جمع رکھئے، یہ بندۂ بے دام خود سارے امور کا نگراں ہوگا‘‘۔ ایسے میں ایک پنڈت نے آگے بڑھ کر بادشاہ کو نمسکار کیا اور آہستہ سے مہاراجہ کشن پرشاد سے کچھ کہا۔ مہاراجہ ساکت ہوگئے۔ مہاراجہ کو خاموش دیکھ کر بادشاہ سلامت نے پوچھا ’’کوئی خاص بات؟‘‘ ’’ جی ظلِّ الٰہی‘‘ پھر آگے بڑھ کر محبوب علی خاں سے کچھ کہا۔ محبوب علی خاں نے کشن پرشاد کو دیکھ کر کہا ’’خدائے قدوس ہماری نیت سے واقف ہے۔ ہم صرف اپنی رعایا کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمیں منظور ہے‘‘۔ اس طغیانی کو 106 برس گزر گئے اب تو نئی نسل اس طغیانی کی تاریخ بھی نہیں جانتی۔ انہوں نے تو موسیٰ ندی میں پانی کی روانی ہی نہیں دیکھی وہ تو موسیٰ ندی کو شہر کی غلاظتوں کا جوہڑ سمجھتے ہیں اور اسی غلاظت کی جوہڑ میں بنے ہوئے ربر ڈیم کو اپنی حکومت کا کارنامہ بیان کرتے ہیں۔ صبح کی سیر کے لئے ندی میں بنے ہوئے چبوتروں پر چہل قدمی کرکے اس جوہڑ سے اٹھتے ہوئے تعفن میں گہری سانس لے کر اسے اپنے پھیپھڑوں میں سمیٹتے ہیں اور پھر اسکوٹر پر بیٹھ کر ترقی کے گُن گاتے ہوئے نکل پڑتے ہیں۔
ایک وہ فرسودہ اور کہنہ روایات کا دور تھا۔ شہر کو آفات سماوی نے آن گھیرا تو بادشاہ پیادہ پا نکل پڑتے تھے نہ لاؤ لشکر، نہ تام جھام، نہ حفاظتی بندوبست، نہ لفظی تسکین، نہ ہیلی کوپٹر اور ہوائی جہاز میں سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ ۔ بھلا یہ کوئی بات ہوئی کہ اپنے محل رعایا کے لئے کھول دیئے جائیں۔ آخر کو پسماندہ دور تھا نا۔
میں ٹھہرا اسی فرسودہ دور کا پروردہ اور کہنہ روایات کا امین، مجھے تو حال ہی میں جب کرنول میں سیلاب آیا تھا تب پتہ چلا کہ وزیرِ اعلیٰ سے جب ہیلی کوپٹر کے ذریعہ کرنول کے دورہ کے انتظامات کے لئے دریافت کیا گیا تو چند ہی دن پہلے ہونے والے ہیلی کوپٹر کے حادثہ میں گذشتہ وزیر اعلیٰ کے جاں بحق ہونے کو یاد کرکے، جانشین وزیر اعلیٰ نے اپنے منڈھے ہوئے سر پر دو مرتبہ ہاتھ پھیرا اور کندھے پر پڑے ہوئے رومال سے دو مرتبہ گردن جھاڑی اور خشمگیں نگاہوں سے مشورہ دینے والے کو یوں دیکھا کہ گویا اس نے رعایا پرسی کی بجائے پروانۂ موت کی یاد دلادی ہو۔ اس کے بعد مخاطب ہو کر کہا ’’میں نے اس سے بڑے سیلاب اور طوفان دیکھے ہیں۔ سیلاب اور طوفان صرف سیاسی ہوتے ہیں بس ان کو نمٹنے کی صلاحیت ہونی چاہئے۔ یہ طوفان تو سویم بھگوان کے بھیجے ہوئے ہیں اور خود اوپر والا ہی یہ چاہتا ہے کہ جنتا پر یہ سب گزر جائے تو اس میں حکومت کیا کرسکتی ہے۔ اس کے فوراً بعد انہوں نے کابینی مشاورتی میٹنگ طلب کی۔ سنتے ہیں کابینی مشاورت کئی دن جاری رہی۔ اس بیچ غیر سیاسی فلاحی اداروں نے امدادی اور راحت کاری کے کام انجام دیئے۔ آخر میں حکومت نے مرکز سے امداد طلب کی۔ میں تو نہیں جانتا کہ مرکز سے کیا امداد آئی۔ کس مد میں آئی، کہاں خرچ ہوئی۔ یہ ضرور ہوا کہ جہاں جہاں تک پانی پہنچا تھا وہاں محکمہ تعمیرات نے HFL کے پتھر نصب کردیئے۔
شام کے وقت کبھی میری طبیعت بہت گھبراتی ہے تو موسیٰ ندی کے کنارے بنے ہوئے برج میں کھڑا ہوکر ڈوبتے ہوئے سورج کو دیکھتا ہوں تو اچانک مجھے یاد آتا ہے کہ اسی ندی کی طغیانیوں میں ہزاروں گھر اُجڑے، پھر کسی معصوم بچی کی چیخ سنائی دیتی ہے اور ساتھ ہی ڈوبتے ہوئے لوگ۔ ایسے میں ہزاروں مرثیوں کے درمیان امجد حیدرآبادی کے اُجڑ جانے کی خونچکاں داستان۔ میر محبوب علی خاں کی رعایا سے بے پناہ محبت، تو سوچتا ہوں۔
راکھ الاو کی جنگل کی یہ بکھری ہوئی شام
کیا زمانے گئے کیا لوگ زمانے سے گئے
– – – –
تصویری جھلکیاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔