کنڑا اور اردو زبان میں سماجی مسائل
ڈاکٹربی محمد داؤد محسنؔ
داونگرے۔577001 (کرناٹک۔انڈیا)
کرناٹک میں اردو اور کنڑا دو اہم زبانیں ہیں۔ان دو زبانوں کے فن کاروں نے ادب کے فروغ میں کافی اہم رول ادا کیا ہے۔جہاں تک سماجی مسائل کا سوال ہے زندگی سے تعلق رکھنا والا ہر مسئلہ سماجی ہوا کرتا ہے ۔کیونکہ ہر کوئی مسئلہ واسطہ یا بالواسطہ طور پر زندگی سے ہی متعلق ہوتا ہے ۔چونکہ ادب کا محور و مرکز انسان اور انسانی زندگی ہے۔اس لیے کہ سارا ادب انسانی زندگی کے اطراف ہی گھومتا ہے۔
مثلاًبے روز گاری ، مذہبی تفریق یعنی ذات پات کا جھگڑا،جنسی تفریق، امیری غریبی ، عشق و عاشقی ،آنسو ، مسکراہٹ ، عزت و احترام کی ترجمانی ، محبت والفت ،عصبیت و نفرت ، فرقہ واریت ، رشوت ،مہنگائی ، ، عورتوں کا استحصال، نسوانی حقوق ، آزادئ نسواں ،جوڑے جہیز ، جنسی نسل کشی ،حکومت کی پالیسیوں کے خلاف مہم ، اکثریت کا اقلیتوں پر ظلم و ستم ،اعلیٰ طبقہ کی جانب سے نچلے طبقوں پر ہونے والا جبر اور اس کے خلاف غم و غصّہ ،حب الوطنی ، قومی یکجہتی ، آزادی و غلامی ،دوستی و بھائی چارگی، بھوک ، افلاس ،علاقہ ، مذہب ، بے جوڑ شادیاں ، وغیرہ ایسے موضوعات ہیں جو تمام زبانوں کے ادب میں یکساں اہمیت رکھتے ہیں۔
جہاں تک کنڑا اور اردو زبانوں کا سوال ہے دونوں زبانوں کے فنکاروں کی آب و ہوا ایک ہے ،سب ایک ہی ماحول میں رہتے ہیں،سب کی آنکھیں وہی مناظر دیکھ رہی ہیں، سب کی مانگیں اور ضرورتیں ایک ہیں ، مسائل بھی وہی ہیں اس کے باوجودفکر و سوچ کے دھارے مختلف ہیں۔ کنڑا سرکاری زبان ہے ،مسلمان بھی یہ زبان پڑھ رہے ہیں اور اس کے فروغ میں کافی اہم رول ادا کر رہے ہیں جب کہ اردو کو مسلمانوں سے جوڑ دیا گیا ہے اور کنڑا غیر مسلموں کی زبان تسلیم کی جاتی ہے ۔اس طرح قوموں سے جوڑے جانے کی وجہ سے دونوں کی تہذیبی روایات الگ ہوگئی ہیں اور اتنی بات تو سب جانتے ہیں کہ کوئی زبان کسی قوم سے وابستہ ہوجائے تو اس میں اس قوم کی تہذیبی اور مذہبی روایات اور سم و رواج سمٹ آتے ہیں۔اسی لیے ہر زبان کی ایک تہذیب ہوتی ہے ۔اس کے باوجود دونوں ز بانوں کے ادب میں وہی موضوعات روپ بدل کرپیش کیے جا رہے ہیں ۔ہمارے یہاں مندر مسجد کا تنازعہ ہے تو ان کے یہاں مندر میں چھوٹی ذات والوں کو داخلہ کی ممانعت والا مسئلہ قدیم زمانے سے رہا ہے۔فرقہ پرستی کا موضوع ہمارے ادب میں ہے تو ان کے یہاں بھی اونچی ذات والوں کی جانب سے چھوٹی ذات والوں پر ہونے والے استحصال کا مسئلہ ہے ، ہمارے یہاں حکومت کی جانب سے ہونے والی ناانصافی کا تذکرہ ہے تو ان کے یہاں حکومت میں بڑی ذات والوں کی اجارہ داری کا ذکر ملتا ہے، ہمارے یہاں بھی جہیزکا مسئلہ اور عورت کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا ذکر ہے تو وہاں بھی بے جوڑ اور غیر مذہب والوں کے ساتھ شادی اور بے جا رسومات کا حال پایا جاتا ہے۔
جہاں تک اردو اور کنڑا زبانوں میں سماجی مسائل کے تقابلی مطالعہ کا معاملہ ہے ۔اردو کا ہر فرد اردو ادب میں پائے جانے والے مسائل، کیفیات وحالات اور موضوعات سے بخوبی واقف ہے۔شاعری، افسانہ نگاری ، ناول نگاری کے علاوہ نان فکشن ادب سے واقفیت رکھتا ہے میں یہاں ہر صنف کا جائزہ لینا اور اس میں پائے جانے والے مضامین کا احاطہ کرنا ضروری نہیں سمجھتا ۔لہذا کنڑا ادب کا ایک ہلکا سا خاکہ پیش کرنا چاہتا ہوں جس کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجائے گی کہ کنڑا والوں نے کس طرح کے موضوعات کو اپنے فن میں جگہ دی ہے۔
کنڑا ادب میں دسویں صدی کو سماجی انقلاب کا دور مانا جاتا ہے ۔جس میں دو اہم موضوعات تھے ۔پہلا رزق کا حق ادا کرنا اور دوسرا راجہ کا حق ادا کرنا۔کیونکہ راجہ ہی ان کا محافظ اور انا داتا ہے اس لیے اس کے تحفظ اور بادشاہت کی خاطر جینا مرنا ہوتا ہے۔گیارھویں صدی میں کوئی خاص بات دکھائی نہیں دیتی ۔البتہ بارھویں صدی میں ویراشیوا دھرم کے قیام کے بعد وچن ساہتیہ کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس سے قبل شیوا دھرم تھا سنت شری بسویشور نے ویراشیوا دھرم کی بنیاد ڈالی اور سماجی انقلاب انہیں کی بدولت آیا۔ بسونا، الما پربھو اور اکا مہادیوی نے اپنے تجربے، مذہبی خیالات اور سماجی اصلاح جیسے پہلوؤں کو موضوع بنایا یہ وچن عوام میں ہر دلعزیزی کا سبب بنے۔ عام شعرا نے بھی وچنوں کے طریقے کو اپنایا اور اپنے خیالات کو موثر انداز اور آسان لہجہ میں وچن لکھ کر اپنا بیغام اور منشا و مدعا لوگوں تک پہنچایا۔ بسونا ، اکا مہادیوی ،الما پربھو کے سے لے کر حامبیا، مونیشور، ردرامنی، کٹریکل بسپا،ٹنٹی منیپا، کنیر برہمپا، سومرادھیا، ہری داس، کنکا داس، پرندرا داس سے لے کر سروگنیہ مورتی تک وچن کہنے کا سلسلہ جاری رہا۔ اس طرح اگلی صدیوں میں و چن ساہتیہ مشہور اور ہردلعزیز رہا۔
بسونا نے دیکھا کہ ان کے عہد میں ذات پات کابھید بھاؤ بہت ہے ،اونچی ذات والے نچلی ذات والوں کا استحصال کررہے ہیں۔امیری اورغریبی کا خلا وسیع ہو گیا ہے،انسانی اقدار ختم ہوتے جا رہے ہیں،محبت ،اخوت اور بھائی چارگی برائے نام رہ گئی ہے۔ بسونا نے سماج اور معاشرے میں پھیلی ہوئی چھوت چھات کی لعنت دور کرنے کی سعی کی۔ ان کی نظروں میں انسان بلا لحاظ مذہب و ملت یکساں تھے۔وہ مذہب کے نام پر دھوکہ دینے والوں کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ نسوانی حقوق دلوانے اور سماج میں ان کو ایک ممتاز مقام عطا کرنے کے خواہاں تھے ۔بسونا نے پہلی بار مساوات کا درس دیتے ہوئے سوشیلزم کا تصور پیش کیا۔لوگوں کو علم و عمل کی تلقین کی۔لہذا نہوں نے وچنوں کے ذریعہ سماجی برائیوں کو دور کیا۔
الما پربھونے وچن کہے جو انسانیت، اخلاقیات اور روحانیت کے مسائل پر مبنی ہیں۔انہوں نے زندگی کی بے ثباتی،دنیاوی آسائشوں سے دوری، رسوم پرستی، درجہ بندیوں کی مسدودی جیسے موضوعات پیش کیا۔
سروگنیہ ایک اچھے معاشرہ اور سماج کی تشکیل کے لئے یکسانیت اور مساوات کے قائل تھے اور قومی یکجہتی چاہتے تھے۔ سروگنیہ معاشرے کے نشیب وفراز، لوگوں کے قول و فعل، رہن سہن اور چال چلن سب کو اپنی طبیعت اور عقل و خرد کی کسوٹی پر پرکھتے تھے۔ سماجی برائیوں کو دور کرنے کی تاکید کرتے اورانہوں نے سماج کے ایک ایک فرد کے دل کی آنکھوں پر پڑے ہوئے پردوں کو ہٹانے کی کوشش کرتے ہوئے دلوں کے تاریک و تنگ گوشوں میں روشنی بھر دی۔ اس طرح انہوں نے نیک تعلیمات دیتے ہوئے لوگوں کو صاف ستھری اور صحت مند فضا میں سانس لینے کے قابل بنایا اور دنیا میں با عزت زندگی گذارنے کی تلقین کی ۔
تیرھویں صدی میں ایک طرف مذہبی شاعری وجود میں آئی تو دوسری طرف غلامانہ زندگی سے آزادی کے مسائل پیش کیے جانے لگے ۔اس دور میں کنکا داس اور پرندرداس نے داس ساہتیہ کو فروغ دیا جس میں آدمی کو غلامی کی زندگی سے نجات دلانا اور ایک سچا بندہ بن کر بھگوان کی پرستش کرنا اہم تھاان کا عقیدہ تھا کہ کیرتن اور بھجن سے ہی گیان حاصل کیا جاسکتا ہے۔چودہ ، پندرہ اور سولویں صدی میں کنڑا ادب میں کوئی اتھل پتھل دکھائی نہیں دیتی اور نہ ہی کوئی تحریک سامنے آتی ہے۔کیونکہ یہ مسلمانوں کی حکومتوں کا زمانہ رہااور اس کے بعد انگریزوں کی آمداور ملک پر قبضہ ہوا۔البتہ انیسویں صدی کے اواخر اوربیسویں صدی کے اوائل میں اصل تحریک شروع ہوئی۔1918 ء میں نوودیا ساہتیہ،1930 ء کے بعدپرگتی شیل ساہتیہ کی شروعات ہوئی ۔1940ء سے آزادئ تحریک اور 1950 ء کے بعد یہ تحریک ماند پڑگئی۔1950 ء کے بعد نیا ادب سامنے آیا جس میں انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ محبت کا جذبہ کارفرما رہا۔1990ء کے بعد دلت اور بھنڈایا ساہتیہ کی داغ بیل پڑی۔جس میں ناانصافی اور اپنے حقوق کے لیے لڑنا اہم منشا رہا۔
دراصل کنڑا میں چومکھی ترقی 1921 ء کے بعد نظر آتی ہے۔ادب میں نئے نئے اصناف پر طبع آزمائی کی جانے لگی اور ان میں سماجی مسائل پیش کیے جانے لگے اور ادباء و شعرا ء جو یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ تھے وہ میدان میں آئے اورادب میں سماجی مسائل پیش کرنے لگے۔جن میں کوئمپو، دارا بیندرے،ماستی وینکٹیش آئینگار،ونایک کرشنا گوکاک،شیو رام کارنت، یو آر اننت مورتی، ڈی وی گنڈپّا وغیرہ کے نام اہم ہیں۔اس کے بعدجو نئی نسل ابھری ان میں آنندا ، گریش کرناڈ، کم ویر بھدپّا ، پی لنکیش، برگور رام چندرپّا، تیجسونی ،کے یس نثار احمد ، اکبر علی وغیرہ کافی اہمیت رکھتے ہیں۔جنہوں نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا اور اس سے متعلق مسائل ادب میں پیش کرنا شروع کیا۔کنڑا میں جس طرح کا ادب تخلیق پا رہا ہے اس کی چند مثالیں پیش کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔پہلے میں دو تین نظموں کا جائز ہ لینا چاہتا ہوں ۔پہلی نظم آر سندلنگیاکی ہے جس کا عنوان ’’ دھرم اورگدھا ‘‘ ہے۔ایک دھوبی تھا جس کا ایک گدھا تھا۔وہ اسے اپنی بیٹی کی طرح محبت کرتا تھا۔ایک دن گدھا مرجاتا ہے ۔دھوبی کو بہت رنج ہوتا ہے ۔وہ گدھے کی لاش پھینکنے کی بجائے گاؤں کے باہر ایک جگہ زمین میں گاڑ دیتا ہے ۔گدھے کی جدائی سے دل برداشتہ ہو کر وہ گاؤں چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔
گدھے کی قبر کے پاس سے ایک تاجر شٹّی کا گذر ہوتا ہے ۔وہ سمادھی پر اگر بتّی ، ویبوتی اور لوبان وغیرہ دیکھتاہے اور بھکتی سے ہاتھ جوڑکرتجارت کے لیے جاتا ہے ۔اس دن غیر متوقع طور پر اسے بڑامنافع ہوتاہے۔وہ سوچتا ہے کہ شایدیہ اس سمادھی سے اس کی بھکتی کانتیجہ ہے ۔دوسرے دن بھی وہ یہی کرتا ہے اور اسے بہت منافع ہوتا ہے ۔اس طرح ہر دن اس کا یہ معمول بن جاتا ہے ۔بالآخر کرشماتی طور پر وہ دولت مندبن جاتا ہے۔اس کی بھکتی مزید بڑھ جاتی ہے تو وہ اس سمادھی پر ایک بہت بڑا اور عالیشان مندر تعمیر کرتا ہے اور وہ مندر امیروں اور دولتمندوں کے بھگوان کے طور پر مشہور ہوجاتا ہے۔
ایک دن دھوبی کو اپنے گدھے کی یاد آتی ہے تو وہ سمادھی کے پاس آتا ہے اور اس جگہ پر سمادھی تلاش کرتا ہے مگر وہ وہاں غائب تھی۔جب اسے گدھے کی سمادھی کی مخصوص جگہ کا یقین ہوتا ہے تو وہ مندر میںیہ کہتے ہوئے اندر جانے لگتا ہے ’’ یہاں میرے گدھے کی سمادھی ہے جہاں میں نے اسے گاڑدیا تھا۔‘‘ لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور مندر میں جانے سے یہ کہتے ہوئے روک دیا جاتا ہے کہ’’ یہ مندرتم جیسے غریب اور چھوٹی ذات والوں کے لیے نہیں ہے اور یہ بھگوان بھی غریبوں کا نہیں بلکہ امیروں کا ہے۔‘‘
لڑکے اور لڑکیوں کی جنسی تفریق پر فن کاروں نے اپنے مخصوص انداز میں رد عمل کا اظہار کیا ہے۔پٹن شٹّی کی ایک مشہور نظم ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب کسی کے ہاں لڑکا پیدا ہوتا ہے تو سب خوش ہوتے ہیں اور لڑکی ہوتو گھر میں جھولا ڈالنے کے لیے جگہ تو دور اسے لٹکانے کے لیے میخ بھی نہیں ملتی، دادی کی آواز رندھ جاتی ہے ، بازار میں مٹھائی بہت مہنگی معلوم ہوتی ہے ، ، لڑکے کے لیے ہر طرف سے اچھے سے اچھا نام رکھنے کی تلقین کی جاتی ہے مگر لڑکی کے لیے اچھانام رکھنے کی تجویز کو ئی نہیں پیش کرتا بالآخرتنگ آکر’’ ساکمّا‘‘ کانام رکھ دیا جاتا ہے ۔
سائنس اور ٹکنالوجی کے اس دور میں رحم مادر میں جنس کی تشخیص اور اس کے اسقاط کا جو عمل ہے اسے کنڑا والوں کے یہاں بھی برا ماناجاتا ہے۔سدلنگیاکی ایک نظم ہے جس میں ایک عورت کے رحم میں لڑکی ہونے پر دوائیوں کے ذریعے اسقاط حمل کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس وقت بچّی شکم مادر میں ماں سے مخاطب ہوکر کہتی ہے ۔اے ماں !مجھے زہر مت دو، مجھے مت مارو ،میں تمہارے رحم میں رہوں گی ، تمہاری بیٹی بن کر جنموں گی ، تم بھی ایک عورت ہو ، ایک عورت ہو کر دوسری عورت کی حفاظت نہیں کرو گی تو کون کرے گا۔
اسی طرح دو تین ناولوں کا حال دیکھیے ۔ شیورام کارنت کا ناول چومنا دڑی مشہور و مقبول ہے جو کرناٹک کے ساحلی علاقے کا آئینہ دار ہے ۔یہ ناول ایک دیہاتی کی زندگی پر مشتمل ہے۔شیورام کارنت نے اس ناول میں ایک ایسے اچھوت کسان کی کہانی بیان کی ہے جس کی یہ دیرینہ تمنا تھی کہ خود بھی تھوڑی بہت زمین کا مالک بن کر کاشتکاری کرے اور دوسروں کی طرح زندگی گزارے۔اسی جدوجہد اور اسی آرزو میں زندگی کے دن کاٹتا ہے مگر آخری سانس تک وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوتا اور اپنی اس خواہش کو دل میں لئے دم توڑ دیتا ہے۔
اس ناول کا موضوع پریم چند کے ناول ’’ گؤدان‘‘ سے مماثلت رکھتا ہے اور مطالعہ کرتے ہوئے پریم چند کی یاد آتی ہے ۔ پریم چند کے دو ناول ’’گوشۂ عافیت‘‘ اور ’’گؤدان‘‘ اس ضمن میں خصوصی اہمیت رکھتے ہیں ۔گؤدان کے ہیرو ’’ہوری‘‘ کی طرح ’’چوما‘‘ بھی ہر مصیبت کو خاموشی سے سہہ لیتا ہے۔زمینداروں کی سفاکی،کسانوں کی بے کسی،ذات پات کے نظام کی جبر آزمائی اور اچھوتوں سے بد سلوکی ’’گؤدان‘‘ او ر’’چومن دڑی‘‘ کے مشترک موضوعات ہیں۔ ان احساسات کے اظہار میں شیورام کارنت کو اولیت حاصل ہے کیوں کہ ان کا ناول ’’چومنا دڑی‘‘ 1933 ء میں شائع ہوا جب کہ پریم چند نے ’’گؤدان‘‘ کو 1935 ء میں مکمل کیا تھا۔
بھیرپّانے کئی ناول لکھے۔ ایک عرصہ تک وہ غریب و نادار اور چھوٹی ذات والوں کے حق میں قلم اٹھاتے رہے۔لیکن ادھر چند سالوں سے وہ اکثریت کے حق میں ہیں اورذاتی طور پر اقلیتوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے ۔علاوہ ازیں حضرت ٹیپو سلطان شہیدؒ کے تعلق سے بھی اچھی رائے نہیں رکھتے۔آج کل متنازعہ بیانات دیتے ہوئے اخبارات کی سرخیوں میں نظر آتے رہتے ہیں اور حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے میں جٹے ہوئے ہیں۔حالانکہ انہوں نے ومشا ورکشا،دھرما شری،دوراسری درو اور متاداناجیسے ناول لکھے جو موضوع کے اعتبار سے مختلف اور منفرد ہیں۔انہوں نے کرناٹک کے قریوں اور شہروں میں اونچی ذات والوں کے ظلم و ستم ،نچلی ذاتوں کے استحصال اور مذہبی اونچ نیچ کے تعصب اور اعلیٰ ذات والوں کے جبر و استحصال سے تنگ آکرنچلی ذات والوں کو اپنا مذہب تبدیل کرتے ہوئے دیکھا تھا ۔انہی تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پرانہوں نے ناول’’ داٹو‘‘ (پار) لکھا۔جس میں طبقاتی کشمکش کوموضوع بنایاگیا ہے۔
جب’’ داٹو‘‘ لکھا گیا اسی وقت یو آر اننت مورتی کا ناول ’’بھارتی پورہ‘‘ منظر عام پر آیا۔بھارتی پورہ کا موضوع بھی’’ داٹو‘‘ کی طرح ذات پات کے مسائل اور طبقاتی کشمکش پر مبنی ہے۔وہاں بھی مندر میں بجز ایک مخصوص طبقہ کے دوسروں کا داخلہ ممنوع ہونے کی وجہ سے طبقاتی کشمکش شروع ہوتی ہے اور بالآخر خود پجاری کی بیٹی مندر سے مورتی اٹھا کر لے جاتی ہے۔’’داٹو‘‘ میں طبقاتی کشمکش کی شدت اس قدر بتائی گئی ہے کہ نچلی ذات کے لوگ مندر کومسائل کا سبب سمجھ کر ڈائنا مٹ سے اڑا دیتے ہیں ۔یہ دونوں ناول جذباتی اور سیاسی کشمکش کے پس منظر میں لکھے گئے ہیں۔جس کے نتیجہ میں مذہبی کٹر پن کے خلاف بغاوت بھڑک اٹھتی ہے جس کا انجام سوائے بربادی کے کچھ نہیں۔بھیرپّا کا مقصد سماج میں پائے جانے والے مذہبی ،ذاتی ،طبقاتی اور نسلی بندھنوں کو توڑنا ہے جس سے سماج کھوکھلا ہو رہا ہے۔مصنف نے ایک مذہب کے دیگر طبقوں میں پائے جانے والے فرسودہ خیالات کو بھی بے نقاب کیا ہے۔
پروفیسر یو آر اننت مورتی کے ناولوں میں بھارتی پورہ،اوستھے،بھَوَاور سنسکارا مشہور ہیں۔فکری تخلیقات میں سمکشا، سنویشا، پرگنے متّو پریسرا، لور وایرا وغیرہ قابل ذکر ہیں۔جس وقت بھیرپّا نے’’ ومشاورکشا ‘‘لکھی اسی وقت ڈاکٹر یو آر اننت مورتی کا ناول ’’سنسکارا‘‘ بھی منظر عام پر آیا۔سنسکارمیں پروفیسر یو آر اننت مورتی نے برہمنوں کی مذہبی کٹر پسندی پر گہری ضرب لگائی ہے۔
کسی کی موت کے بعد سب سے اہم مسئلہ اس کاسنسکار کرنا ہی ہوتا ہے۔بسا اوقات اختلافات اور ذاتی دشمنی کو بھلا کر لوگ مرنے والے کاسنسکار کرنے چلے آتے ہیں ۔لیکن اس ناول میں ایک بدنام برہمن کی موت پر اس کاسنسکار کرنے کے سلسلے میں دیگر برہمن اختلاف کھڑا کر دیتے ہیں ۔اور اس کے سنسکار کا حل پرانوں اور شاستروں میں تلاش کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔لیکن حل نہیں ملتا۔جب مرنے والے کی بیوہ ان کے سامنے زیورات لا کر رکھ دیتی ہے تو وہ سب مخالفین دشمنی کو بھلا کر اور شاستروں کو بالائے طاق رکھ کر سنسکار کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں ۔ پنڈتوں اور مرنے والے کے رشتہ داروں میں اختلافات پیدا ہوتے ہیں بالآخر پنڈت بھی بہک جاتے ہیں اور اپنا دھرم بھرشٹ کرلیتے ہیں۔
اب ذرا افسانوی ادب کا مختصر تعارف پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔کنڑا میں جدید افسانے کا آغاز ماستی کی کہانیوں سے ہوتا ہے ۔ماستی کے بعد کے کہانی کاروں میں آنندا، نرنجن،یو آر اننت مورتی،پی لنکیش، یشونت چتال،بی سی رامچندر شرما،شانتی ناتھ دیسائی، بیگر ہلی رامنّا،کالے گوڑاناگوارا ، دیونور مہا دیوا، کم ویر بھدرپّا، بسوراج کٹّی منی ، بولووارو محمد کنّی،فقیر محمد کٹپاڑی،کے ٹی چکنّااور برگور رامچندرا کے نام خصوصی اہمیت رکھتے ہیں۔
ماستی کی کہانیوں میں زندگی کے عام مسائل اور چھوٹی چھوٹی نفسیاتی حقیقتیں پائی جاتی ہیں۔ سماجی ،سیاسی، تاریخی،اصلاحی موضوعات اور قومی مسائل لکھنے کے لئے انہوں نے حقیقت نگاری اور سادہ بیانی سے کام لیا۔ انسانی تجربات، تحلیل نفسی اور تخلیقی عمل کے ذریعہ کہانیوں کو دلچسپ بنانے اور ڈرامائی انداز دینے میں ماستی کامیاب رہے ہیں۔ماستی کی توجہ اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی کائنات پر ہی مرکوز نہیں تھی بلکہ ان کی توجہ اور غور و فکر کے دھارے وسیع تر ہو کر ساری دنیا کو اپنے دائرے میں لے چکے تھے۔
کنڑا افسانے میں جدید رجحانات پیدا کرنے والوں میں یو آر اننت مورتی بھی شامل ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعے یند یند و مگیداکھتے،پرشنے،مونی،آکاشو متّوہیکّووغیرہ اہم ہیں۔کنڑا میں اونچ نیچ ، امیری غریبی کا موضوع ہمیشہ سے رہاہے ۔ اس کے علاوہ گذشتہ چند سالوں سے چھوٹی ذات والوں کے حقوق کی لڑائی جاری ہے اور یہ موضوع بھی کوئی نیا نہیں ہے ۔ مساوات کا درس بسونا، الما پربھو، سروگنیا کے علاوہ کنکاداس ، پرندرداس سے لے کر دیونور مہادیو، سدلنگیا ، پٹن شٹّی ، یو آر اننت مورتی ، گریش کرناڈ ، شیورام کارنت ، بھیرپا وغیرہ کے یہاں پایا جاتا ہے۔
دیونور مہادیو نے مذہبی منافرت کو دور کرنے کی خاطر قلم اٹھایا اور ایسی کہانیاں لکھیں جو سماجی مسائل سے بھرپور ہیں۔بڑی ذات والوں کے چھوٹی ذات والوں پر ہونے والے مظالم ، ان کا استحصال اوران کا زمینداروں اور امیروں کے خلاف رد عمل اور احتجاج اہم موضوعات ہیں۔ان کی ایک کہانی ’’ بھگوان کی لاش‘‘ بہت مشہور ہے جس میںیہ بتایا گیا ہے کہ گاؤں میں کسی کے یہاں گائے بیل مرجائیں تو ان پر دلتوں کا حق ہوتا ہے کیونکہ وہ لاش لے جاکر اس کا گوشت کھا لیتے ہیں اور چمڑی بیچ کر گذارا کر لیتے ہیں۔ گاؤں کے زمیندارکے یہاں ایک دلت ملازم تھا۔ایک مرتبہ مالک کا بیل بیمار ہوجاتا ہے ۔دلت اس تاک میں رہتا ہے کہ بیل مرجائے اور وہ اس کے حصّے میں آئے تاکہ اس کی ضرورت پوری ہوجائے۔وہ ہر طرف یہ افواہ پھیلاتے ہوئے قرض لینے لگتا ہے کہ مالک کا بیل مرجائے گا تو سب کا قرضہ ادا کردے گا۔اس کا علم مالک کو ہوجاتا ہے۔ جب بیل مرجاتا ہے تو وہ دلت کو دینے کی بجائے اپنے کھیت میں گاڑ دیتا ہے۔دلت بہت گڑگڑاتا ہے کہ وہ بیل اسے دے دیا جائے۔مگر زمیندار اس ہوس کے شکاری کو نہیں دیتا ۔دلت سے رہا نہیں جاتا، وہ کہتاہے کہ اس بیل پر صرف اسی کا حق تھا۔جب نہیں ملتا تووہ اپنی برادری کو للکارتا ہے کہ ہمارا حق چھینا جارہا ہے سب متحد ہوجائیں اور اپنے حق کے لیے کمر بستہ ہوں۔مگر کوئی اس کے بہکاوے میں نہیں آتا۔بالآخر وہ رات کے اندھیرے اور سنّاٹے میں اپنے بیوی بچوں اور کتّے سمیت زمین کھود تا ہے اور بیل نکال کر اس کا چمڑا چھیلتا ہے اور وہ بازارمیں ایک منڈی میں لے جاتا ہے۔منڈی والا باتوں باتوں میں سچ اگلوا لیتاہے اور اورچپکے سے زمیندار کو خبر کرتا ہے۔زمیندار آکرپولیس تھانے میں شکایت درج کرتا ہے ۔پولیس آتی ہے مگروہ اسے صرف ’’دلت ‘‘ ہونے کی بنا پرگرفتار کرنے سے گھبراتی ہے۔دلت چیخ چیخ کر کہتا ہے کہ اسے اپنے بیوی بچوں سمیت گرفتا رکرلے تاکہ قید میں پیٹ بھر کھانا مل سکے۔پولیس کی گاڑی جب واپس ہونے لگتی ہے تو اس گاڑی کے پیچھے وہ اور کتابھونکتے ہوئے جانے لگتے ہیں۔
اسی طرح چدورنگا ہیں کی کہانیوں میں سماجی مسائل پائے جاتے ہیں۔جس کی بہترین مثال ان کی شہرۂ آفاق کہانی ’’ مردہ گھر‘‘ ہے۔جس میں سرکا ری اسپتالوں میں غریب بیماروں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کی عکاسی کی گئی ہے۔منیا کو مرنے سے پہلے مردہ گھر میں ڈال دیا جاتا ہے وہ رات بھر مردوں کے بیچ رہتا ہے ۔صبح جب ہوش آتا ہے تو اپنے آپ کو مردوں کے بیچ پا کر بے ہوش ہو جاتا ہے اور دم توڑ دیتا ہے۔اسی طرح مل کے مینیجر کی جانب سے ایک عورت کی عصمت دری ہوتی ہے تو وہ گلے میں پھندا ڈال کر خود کشی کرلیتی ہے ۔ایک بھنگی رات دن نالیوں سے گندگی صاف کرتے کرتے بیمار ہوجا تا ہے تو اس کا علاج ٹھیک نہیں ہوپاتاہے اور وہ مرجاتا ہے۔یہاں ہمیں کرشن چندر کا افسانہ ’’ کالو بھنگی‘‘ یاد آجاتا ہے۔ اسی طرح بچّہ مزدور ی کے خلاف بھی ان کے یہاں درد پایاجاتا ہے۔ہوٹل میں کام کرتے کرتے ایک گیارہ سال کا بچّہ سرکاری ہسپتال میں علاج کے لیے آتا ہے تو اس کا علاج ٹھیک نہیں ہوپاتا اور وہ مرجاتا ہے۔ بچّہ مزدور پر مشتمل یہ کہانی منٹو کی ’’ جی آیا صاحب ‘‘ کی یاد تازہ کر دیتی ہے۔
کنڑا کہانیوں میں خصوصی طور پر ہمارے اطراف و اکناف پائی جانے والی زندگی اور اس کے اسرار و رموز اور نشیب و فراز دیکھے جاسکتے ہیں۔ان کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ کنڑاافسانہ نگاروں نے خیالی پلاؤ پکانے اور تصوراتی موضوعات سے گریز کیا ہے۔انہوں نے حقیقی زندگی کی عکاسی کی ہے اورزندگی کے تلخ حقائق کوموضوع بنایا ہے۔جس کی بہترین مثالیں نرنجن کا’’آخری یگ‘‘،شانتی ناتھ دیسائی کا’’، بھرنیا کا نکھل بن جانا‘‘،بیگر ہلی رامنّا کا’’گاندھی‘‘،برگور رامچندرا کا ’’سوکھا‘‘،پی لنکیش کا ’’ روٹی‘‘ اور سدا شیو کا’’ نل میں پانی آگیا‘‘ کافی اہم ہیں جن میں ہماری ریاست کے شہروں اور دیہاتوں کی زندگی،بھوک ،افلاس،تنگ دامنی،غریبوں پر ہونے والے جبر اور ا ن کا استحصال، نچلی ذات پر ہونے والے ظلم اور ان میں بغاوت کے جذبے کا پیدا ہونا وغیرہ کیفیات ملتے ہیں۔ان افسانوں کے کردار فرضی نہیں اور بلکہ حقیقی ہیں جو ہمارے علاقے کے جیتے جاگتے انسان معلوم ہوتے ہیں۔ان میں پیش کردہ واقعات بھی حقیقی لگتے ہیں ۔ مطالعہ سے لگتا ہے انہوں نے حقیقت کو افسانوی روپ دیا ہے ۔مطالعہ سے لگتا ہے انہوں نے حقیقت کو افسانوی روپ دیا ہے ۔اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ کنڑاادیبوں و شاعروں نے کنڑا ادب کو تخیلات و تصوراتی دنیا سے نکال کر حقیقت سے روشناس کروانے میں بہت پہلے سے اہم رول ادا کیاہے جس کی بنا پرکنرا ادب’’ زمینی ادب‘‘بن چکاہے ۔
Dr B M Davood Mohsin
M.A, Ph.D
Principal
S.K.A.H Millath College
DAVANGERE-577001
(Karnataka State)
Mobile:09449202211
E.Mail: