شعرالہند ۔ میری اردو شاعری کی بیاض ۔ قسط 11
(شعراء کے دواوین اور سوانح سے کشید کیا ہواآب حیات )
پروفیسرمحسن عثمانی ندوی
میری اردو شاعری کی بیاض قسط ۔11 ۔ کے لیے کلک کریں
مومن خاں مومنؔ
(۱۸۰۰۔۱۸۵۱ء)
مرزا غالبؔ نے جب مومن کا یہ شعر سنا:
تم مرے پاس ہوتے ہوگویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
غالب نے یہ شعر سن کر کہا کا ش مومن خاں مومن یہ شعر مجھے دیدیتے اورا س کے عوض میں میرا پورا دیوان لے لیتے ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مومن کا اردو شاعری میں کیا مقام ہے، کتنی سادگی ہے اس شعر میں ، روز مرہ کی زبان ہے، اور پورا تغزل موجود ہے، مومن کی اس غزل کا دوسرا شعر یہ ہے :
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
آسان زبان میں اتنی عمدہ شاعری بہت کم کی جاتی ہے، حکیم مومن خاں مومن کے آباء واجداد کشمیر سے ہجرت کرکے دہلی آئے تھے، ان کے والد حکیم غلام نبی بڑے حاذق طبیب تھے، اور دربار شاہی سے منسلک تھے، حکیم مومن خاں مومن کا نام معروف عالم اورشاہ ولی اللہ دہلوی کے صاحب زادے شاہ عبد العزیز کا رکھا ہوا ہے، انھوں نے مروجہ تعلیم حاصل کی ، علم طب ، علم نجوم، ریاضی اور موسیقی وغیرہ کی مبسوط کتابیں بھی پڑھیں، اپنی جوانی میں وہ ایک آزاد اور مست نو جوان تھے، لیکن جب سیداحمد شہید بریلوی کے ہاتھ پر بیعت ہوئے تو انھوں نے عیش وعشرت کی زندگی کو خیر باد کہا لیکن وہ زاہد خشک نہیں تھے، مومن کو قلعہ معلی اور سرکار انگریزی سے پنشن ملتی تھی اس لئے معاشی طور آسودہ حال تھے، ان کا عہد وہ ہے جب شاہ ولی اللہ دہلوی کے خانوادے کی علمی تحریک اور سید احمد شہید ؒ کے جہاد کی تحریک پورے ملک میں پھیل گئی تھی اور حکیم مومن خاں مومن سید احمد شہید کے دست گرفتہ ہوگئے تھے، لیکن ان کی شاعر ی جاری رہی اور ان کی شاعری میں سادگی اور شوخی کا انداز بر قرار رہا، ان کی ایک مشہور غزل ہے :
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یا د ہو
وہی وعدہ یعنی نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ نئے گلے وہ شکایتیں وہ مزے مزے کی حکایتیں
وہ ہر ایک بات پر روٹھنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یا د ہو
کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی کبھی ہم سے تم سے بھی راہتھی
کبھی تم بھی ہم سے تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
سنو ذکر ہے کئی سال کا کیا آپ نے ایک وعدہ تھا
سو نباہنے کا ذکر کیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جسے آپ کہتے تھے آشنا جسے آپ کہتے تھے با وفا
میں وہی ہوں مومن مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ہوئے اتفاق سے گر بہم تو وفا جتانے کو دم بدم
گلہ ملامت اقرباء تمہیں یا د ہو کہ نہ یا د ہو
وہ جو لطف مجھ پر تھے بیشتر وہ کرم کہ تھا مرے حال پر
مجھے سب ہے یا د ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد
مومن کے کلام کی سب سے بڑی خصوصیت آسان زبان کے ساتھ نازک خیالی ہے، غزل تو عشق کے جذبات اور حسن کی دلفریب کیفیات پیش کرنے کے لئے وجو د میں آئی تھی، مومن خاں مومن نے غزل میں تخیل کے کرشمے دکھائے ہیں، ان کے کلام میں کہیں عریانی اور بے حیائی نہیں ہے ،جبکہ یہ بے حیائی جرات اور انشاء کے کلام میں موجو د ہے، الفاظ کے انتخاب میں اور ان کی ترتیب میں مومن کو کما ل حاصل ہے، ان کی غزلیں بہت مترنم ہیں انھوں نے جو تشبیہات اور استعارات استعمال کئے ہیں ان میں بھی ندرت پائی جاتی ہے، مجموعی طور پر مومن خاں کا کلام بہت دلکش ہے۔
Prof.Mohsin Usmani