ڈاکٹرخلیق انجم سے ایک ملاقات
ڈاکٹرقطب سرشار
محبوب نگر ۔ تلنگانہ
اردو وہ خوش نصیب زبان ہے جسے بے پناہ صلاحیتوں کے حامل غیر معمولی روشن دماغ اور مخلص جہد کا ر نصیب ہوئے جتنی کم عمر یہ زبان ہے اتنا ہی اس کا نثری وشعری ادب فکر ودانش کے جواہرات سے مالا مال ہے۔ میرؔ ، انیسؔ ، غالبؔ ، اقبالؔ اور جوشؔ اپنی مثال آپ ہیں۔ پریم چند، منٹو، عصمت ، کرشن چندر، قرۃ العین حیدر نے شاہکار کہانیاں لکھیں، مولانا حالیؔ سے شمس الرحمن فاروقی اور مغنی تبسم تک بالغ نقادوں نے اردو شعر وادب کے صحت مند اور متوازن معیارات کا تعین کر کے اردو زبان وادب کو دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں سے آنکھ ملانے کا اہل بنایا۔
اردو کے ہزارہا محققین کی صف میں چند ایسے دیوقامت محققین بھی پیدا ہوئے جنھوں نے اردو ادب کے بلند پایہ، عہد ساز شاعروں ، ادیبوں اورنقادوں کی چھپی ہوئی صلاحیتوں، خدمات اورکارناموں کی کھوج میں عمر عزیز کے بیش قیمت لمحات صرف کردےئے۔ اردو زبان کی صحافت بھی اپنی مستحکم کردار اور بلند پایہ معیار رکھتی ہے۔ اردو ادب کی تاریخ میں چند ایسی بھی ہستیاں آج بھی پائی جاتی ہیں۔جن کو کثیر الجہات شخصیات مانا جاتا ہے۔ شمال میں سرسید ایک انقلاب آفریں مصلح قوم، عہد ساز مفکر صحافی اور مجسم ورک شاپ تھے اس طرح دکن میں ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور کی ہمہ جہتی خدمات بھی دنیائے ادب پر عیاں ہیں۔ ایسی ایک اور کثیر الجہات شخصیت کا نام ہے خلیق احمد خاں جنھیں دنیائے ادب ڈاکٹر خلیق انجم کے نام سے جانتی ہے۔ اس شخصیت میں ایک عمیق نظر محقق، سلجھا ہوا متنی نقاد، کامیاب مترجم،خوش بیان مقرر ، صحافی، باسلیقہ مؤلف اور اردو زبان کا معمار مجتمع نظر آتے ہیں۔ شخصیت منظم اور بے پناہ انتظامی صلاحیت کی حامل ہو تو اس کا ہر عمل منظم اور جامع ہوتا ہے۔ غالبیات کیبات چلتی ہے تو جہاں حالیؔ ، غلام رسول مہرؔ امتیاز علی، عرشی مالک رام کے حوالے ناگزیر ہوجاتے ہیں وہاں ڈاکٹر خلیق انجم کا حوالہ بھی بے حدناگزیر ہوگیاہے۔ غالب کی نادر تحریریں غالب اور شاہان تیمور، غالب کے کچھ مضامین اور ’’خطوط غالب‘‘ کے حوالے خلیق انجم کو اردو کے ممتاز غالب شناسوں میں شمار کرتے ہیں ’’خصوصا غالب، خلیق انجم کی بارہ سالہ تحقیقی کاوشوں اور جاں سوزی کا نتیجہ ہے، چار جلدوں پر مشتمل اس کتاب میں (۲۲۸) صفحات پر مشتمل سیر حاصل مقدمہ ، عالمانہ اور پر اثر علومات ، تصحیح متن، لفظیات پر امکانی صحت کی بحث، خطوط کا تنقیدی مطالعہ وغیرہ محض تالیف کاری نہیں بلکہ متنی تنقید کے اصولوں پر بحث وتمحیص کے ساتھ خطوط غالب کے علمی ادبی اور لسانی پہلوؤں کا عمیق جائزہ ہے۔ ڈاکٹر خلیق انجم کو ادب میں زندہ رکھنے کے لئے ان کی تصنیف ’’متنی تنقید‘‘ کافی تھی کہ انھوں نے خطوط غالب، کی تدوین جدید مع مقدمہ کا کارنامہ انجام دیا۔ ہ کارنامہ انھیں کا حصہ ہے چونکہ صحیح متن کی شناخت اور تدوین ایک اعلی پائے کا متنی نقاد ہی بہتر طور پر کرسکتا ہے۔ خلیق انجم صاحب بنیادی طور پر محقق ہیں متنی تنقیدان کا مزاج ہے۔ ۱۹۶۷ء میں متنی تنقید کی اشاعت عمل میں آئی تو اس کے بارے میں مجموعی تاثر یہ تھا کہ اردو میں یہ ایسی پہلی کتاب ہے جو تصحیح متن کے طور پر نہایت شرح وبسط کے ساتھ روشنی ڈالتی ہے اس سے ادب کے معیار کا تعین اس کی تشریح وتوضیح کے وہ پیمانے مقرر ہوتے ہیں جن سے ذوق وشعور کی پرورش اور ترقی کا سامان ہوتا ہے۔ ’’متنی تنقید ‘‘ بہ یک وقت تحقیق وتنقید دونوں معیارات ومیزانات کی رہبری کرتی ہے۔ علم وادب کے دونوں دائروں کے ارتقاء پر مبنی ہے۔
ڈاکٹر خلیق انجم اردو کے صف اول کے محقق ہیں۔ ان کی بیشتر کتابیں تحقیق کا اعلی ترین نمونہ ہیں۔ ان کی کتاب ’’ مرزا محمد رفیع سوداؔ کے پیش لفظ میں پروفیسر آل احمد سرورؔ لکھتے ہیں‘‘ جو لوگ اردو تحقیق کے معیار کو کم درجے کا سمجھتے ہیں وہ خلیق انجم صاحب کی کتاب کا مطالعہ کریں تا کہ انھیں معلوم ہوسکے کہ اردو تحقیق کا معیار کتنا بلند ہوتا جارہا ہے۔ ‘‘
ڈاکٹر خلیق انجم صاحب نے نثر غالب کے بعد اردو کے دوسرے بڑے شاعر جوش ملیح آبادی کی نثر کی جانب توجہ کی۔ یادوں کی بارات کے علاوہ خطوط بھی جوش کی نثر کا ایک عمدہ نمونہ ہیں۔ اس موضوع پر خلیق انجم نے سب سے پہلے جوشؔ بنام ساغرؔ ( نظامی) ایک سیر حاصل مقدمہ کے ساتھ ترتیب دی۔ آخر میں حواشی کوشامل کردیا جس میں خطوط سے متعلق ضروری وضاحتیں اور تصیح متن ہیں۔ ۱۹۹۸ء میں خلیق صاحب نے ’’جوش ملیح آبادی کے خطوط‘‘ شائع کر کے تحقیق کی دنیا میں ایک اور دھماکہ کیا۔ یوں تو انھوں نے تاحال اردو کے پچیس کے لگ بھگ شاعروں، نقادوں اور انشاپردازوں کی شخصیت اور ادبی خدمات پر بیش بہا مواد کی تدوین کا کام مع حواشی، مقدمہ اور تصحیح وتنقید متن کے ساتھ کیا ہے۔ مثلا غالب سوداؔ ، حسرت موہانی، جوشؔ ، محی الدین قادری زورؔ ، مولانا ابوالکلام آزاد، اقبالؔ ، شبلی نعمانی اور آل احمد سرور وغیرہ۔ ان کی کتاب جوش ملیح آبادی ، تنقیدی جائزہ میں جوش کی شخصیت پر جہاں دیگر مشاہیر ادب کے مضامین میں وہاں خود ان کا مقدمہ، جوش کی شخصیت اور شاعری کے موضوع پر از سر نو ایک نئی بحث کا آغاز کردیتا ہے۔ ڈاکٹر خلیق انجم نے اپنے تحقیقی کام کا آغاز دکن سے کیا ۱۹۵۷ء میں معراج العاشقین، کو صحت متن کے ساتھ ترتیب دیا، اس کے تینتیس برس بعد دوبارہ دکن کی طرف مائل ہوئے اور ۱۹۹۰ء میں ماہر دکنیات ممتاز نقاد معمار اور ڈاکٹر سید محی الدین قادری زورؔ کی شخصیت اور کارناموں پر محیط مضامین کی تدوین کی۔ ڈاکٹر خلیق انجم ایک کامیاب ترجمہ نگار بھی ہیں۔ انھوں نے ۱۹۵۷ء میں مشہور زمانہ انگریزی ناول ’’ تاراس بلبا‘‘ کا اردو میں ترجمہ کیا اس کے تین سال بعد مظہر جان جاناں کے فارسی خطوط کا ترجمہ اردو میں کیا۔ تیسری کتاب ’’مرقع دہلی‘‘ ہے۔ اس میں فارسی متن کی از سر نو ترتیب کے بعد ان کا اردو ترجمہ ہوا ہے یہ کتاب اٹھارویں صدی کی دلی کی سماجی اور تہذیبی زندگی پر مبنی اہم ترین فارسی مآخد ہے۔ اس سے قبل اس کتاب کے تین ایڈیشن شائع ہوئے تھے لیکن کسی مرتب نے متنی تنقید کے اصولوں کے پیش نظر کوئی تنقیدی ایڈیشن تیار نہیں کیا تھا یہ کتاب پہلے محمد شاہ کے عہد میں نواب درگاہ قلی خاں نے تالیف کی تھی۔ ترجمہ کے موضوع پر خلیق انجم نے ۱۹۹۵ء میں ترتیب دی جس میں خود ان کے دو اہم ترین مضامین ’’ ترجمہ کا ارتقا‘‘ اور ’’شاعری کا ترجمہ ‘‘ کے علاوہ ظ۔ انصاری اور شمس الرحمن فاروقی وغیرہ کے مضامین کو شامل رکھا۔ یہ کتاب بہار اور اتر پردیش کے سرکاری مترجموں اور جامعہ اردو علی گڑھ کے امتحان ادیب کامل کی ضرورت کے پیش نظر ترتیب دی گئی تھی۔
ڈاکٹر خلیق انجم نے اپنے ایک مضمون میں لکھاتھا ’’ میں سڑک کا آدمی ہوں جامع مسجد کے قریب ڈاک خانے کے نیچے بیٹھ کر خط لکھا کرتا تھا ‘‘۔ بڑے آدمیوں کی ایک پہچان یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنا ماضیچھپاتے نہیں۔ خلیق انجم صاحب کا خاندنی پس منظر بڑا قابل فخر رہا ہے۔ آپ کے نانا پروفیسر عزیز الرحمن ایک مستند عالم تھے۔ انھیں اردو انگریزی دونوں زبانوں پر عبور تھا۔ دہلی کے لال قلعہ میں انگریزوں کو اردو پڑھایا کرتے تھے۔ انھوں نے دہلی کی جامع مسجد پر انگریزی میں ایک کتاب لکھی تھی جس میں جامع مسجد کی مستند تاریخ بیان کی گئی ہے۔ اس کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔ اردو میں انھوں نے سات جلدوں پر مشتمل ایک کتاب ’’علم مجلسی ‘‘ (اردو اشعار کی ڈکشنری) لکھی تھی۔ خلیق انجم کے پرداد اثمر خاں رنجیت سنگھ کے بہادر سپاہی تھے۔ دادا ایک غیور انسان اور والد محمد احمد ریلوے انجینیر تھے گویاخلیق انجم کو علم وادب اور سائنس ورثے میں ملے۔ ڈاک خانے کے نیچے بیٹھ کر خط لکھنا ان کا معاشی پس منظر تھا۔ جبکہ خاندانی تصویر کے پس منظر میں وہ ایک عام سپاہی اور انجینئر نظر آتے ہیں۔ جو اپنے ہونہار وارث کی بے پناہ صلاحیتوں کا سرچشمہ تھے۔ کمال انسانیت یہ ہے انسان کو زمین میں اتارا جاتا ہے اور وہ اپنی جدوجہد اور کمال اوصاف کو سیڑھیاں بناکر اوج فلک پر پہنچ جاتا ہے۔ خلیق انجم صاحب کے والد پینتیس برس کی عمر میں علیل ہوگئے گھر میں جتنا کچھ اثاثہ تھا، سب علاج کی نذر ہوگیا۔ آخر کار موت نے آگھیرا۔ اور پس ماندگان میں ایک بیوہ ایک لڑکا اور چار لڑکیاں رہ گئے۔ اس خاندان پر آلام روزگار کا ایک پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ آپ کی والدہ قیصر سلطانہ جنھوں نے مڈل تک تعلیم پائی تھی دولت مند گھرانے کی ناز ونعم میں پلی ہوئی خاتون یوں بیوہ ہوگئیں۔ تاہم مردانہ ہمت وحوصلے کے ساتھ سلائی کا کام گھر گھر ٹیوشن کرتے ہوئے گذر بسر کے ساتھ بچوں کو پڑھایا لکھایا اور خود بھی رفتہ رفتہ خانگی امتحانوں کے ذریعہ اعلی تعلیم حاصل کی ٹیچر ٹریننگ کی اور دہلی اسکول میں ٹیچر ہوئیں پھر ٹیچر سے صدر معلمہ بنیں انھیں بلند حوصلہ ماں کی تربیت کا نتیجہ تھا کہ ان کے سپوت نے محنت لگن اور جدوجہد کو شعار زندگی بناکر سڑک سے شروع ہوئے تو مملکت علم وادب کے بالاحصار تک پہنچ گئے اور ادبی تاریخ کے ناقابل تردید صفحات پر ثبت ہوگئے۔ تصنیف وتالیف جیسی بنیادی مصروفیات کے علاوہ آپ صحافی بھی ہیں آل انڈیا ریڈیو میں براڈ کاسٹر اور مترجم ہوئے۔ وزارت تعلیم کے ڈائرکٹر کے عہدے پر فائز رہے اور اب ۱۹۷۴ء سے انجمن ترقی اردو کے جنرل سکریٹری ہیں۔ چونتیس برس کے عرصۂ معتمدی میں آپ انجمن کے لئے بے پناہ محنت اور جاں سوزی خلوص سنجیدگی اور ذمہ داری کے ساتھ ایک سپاہی کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں۔ انجمن کے سب سے کم عمر معتمد ہونے کے باوجود آپ نے بہت سے اہم کام انجام دےئے ایک کثیر منزلہ ’’ اردو گھر‘‘ کی عمارت کی تعمیر کروائی۔’’ سیکولر ڈیموکریسی‘‘ ، ’’ادبی تبصرے‘‘ ، ’’ ہماری زبان‘‘ اور ’’ اردو ادب‘‘ کے ایڈیٹر کے فرائض بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں۔ ان کی علمی ادبی اور صحافتی خدمات کے عوض اترپردیش ، دہلی، مغربی بنگال اردو اکیڈیمیوں اور اترپردیش سرکار نے ایوارڈ سے نوازا۔ اس کے علاوہ پاکستان سے انھیں نیاز فتح پوری ایوارڈ اور دیگر کئی اداروں سے ایوارڈ اور اعزاز مل چکے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں تدبیر کچھ نہیں ہوتی قسمت جس کا ساتھ دے وہی سکندر ہے۔ حالانکہ تدبیر انسانی اور تقدیر ربانی دونوں سے ارتقاء کی تعمیر ہوتی ہے ڈاکٹر خلیق انجم تقدیر کے منکر نہیں، لیکن تدبیر پر ان کا ایقان بڑا مضبوط ہے۔ بچپن ہی سے انھوں نے محنت سے مستقبل کو جوڑے رکھا۔ انھیں کام کرنے میں ذلت محسوس نہیں کرتی ہے۔ حیدرآباد میں ۶؍۷؍فروری کو ادارۂ ادبیات اردو میں ڈاکٹر مغنی تبسم نے جوش ملیح آبادی پر کل ہند سطح کا سمینار منعقد کیاتھا۔ بمبئی سے پروفیسر عبدالستار دہلوی ، دہلی سے شمیم حنفی مدعو تھے۔ حیدرآباد کے ممتاز ادیب وشاعر، نقاد اور یونیورسٹی کے اساتذہ نے شرکت کی۔ ہم بھی شریک تھے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم نے ڈاکٹر خلیق انجم کے ساتھ لگ بھگ آٹھ گھنٹے گذاریے آئیے ان لمحوں میں آپ بھی شریک ہوجائیں۔
قطب سرشار۔ اپنی جائے پیدائش ابتدائی تعلیم کے بارے میں بتائیے گا سنا ہے آپ نے شاعری بھی کی تھی۔
ڈاکٹر خلیق انجم ۔ ہم روہیلے پٹھان ہیں۔ ہمارے خاندان کے ایک بزرگ ہندوستان آئے تھے سپاہی پیشہ تھے آگرہ شاہی فوج میں بھرتی ہوگئے۔ کچھ افراد لاہور میں رنجیت سنگھ کے ملازم تھے۔
قطب سرشارؔ گویا قبول غالب۔ سوپشت سے ہے پیشہ آباد سپہ گری ۔۔۔
ڈاکٹر خلیق انجم ۔ جی ہاں۔ پردادا ثمر خاں کے بارے میں روایت ہے کہ بہت بہادر اور جری سپاہی تھے دادا اصغر خاں اور ان کے بھائی رام پور میں مقیم ہوگئے والد محمد احمد خاں ریلوے میں انجینئر تھے۔ نانا پروفسیر عزیز الرحمن بہت بڑے عالم ادیب اور استاد تھے۔ ابتدائی تعلیم دلی میں ہوئی۔ شاعری کی بات بہت پرانی ہے۔ کوئی شعر مجھے یاد بھی نہ رہا اور نہ ہی اس کا ریکارڈ میرے پاس ہے۔
قطب سرشار۔ آپ بنیادی طور پر متنی نقاد ہیں محقق ہیں۔ تنقید کی طرف کبھی توجہ نہیں کی ؟
ڈاکٹر خلیق انجم۔ میں نے پہلے تنقید کے میدان میں آنے کی کوشش کی بہت سی تنقیدی کتابیں پڑھ ڈالیں خلیل الرحمن اعظمی نے مجھ سے کہا کہ میں ایسا مضمون لکھوں جس میں بتایا جائے کہ اردو نقادوں نے انگریزی تنقید سے کچھ لیا ہے میں نے اعظمی صاحب کی رہنمائی میں کام شروع کیا اور پانچ چھ مہینے میں ملک کے بڑے بڑے مقتدر نقادوں کی پول کھل گئی میں نے وہ اقتباس حاصل کرلےئے جن کو اپنے نام سے ہمارے اردو نقادوں نے اپنے مضامین میں شامل کیاتھا۔ یہ کام کافی عرصے تک جاری رہا۔ اتنا مواود جمع ہوگیا تھا کہ کتاب چھپ جاتی تو ڈھائی تین سو صفحات کی ہوجاتی۔ کسی وجہ سے وہ کتاب شائع نہیں ہوسکی۔ پھر میں نے تحقیق کو باقاعدہ اور مستقل میدان بنالیا۔ اللہ نے مجھے جتنی صلاحتیں عطا کیں ان کا کما حقہ استعمال کیا۔ میں نے ہمیشہ قلم کے تقدس کا احترام کیا ہے کبھی ایسا نہیں لکھا جس سے ذاتی مفاد حاصل ہو۔
قطب سرشار ۔ بجا فرمایا۔ آج کل ادیب وشاعر اور تنقید نگاروں میں ایسے بہت ہوں گے جو نہیں جانتے کہ ، دیانت ، محبت ، اور شہادت سے ادب کا خمیر اٹھایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر انجم ۔ ہاں جناب سو تو ہے۔
قطب سرشار۔ حیدرآباد میں آپ کی تشریف آوری اہل حیدرآباد کے لئے ایک نعمت ہے۔ اردو اورغالب شناسی کی بات چلتی ہے تو آپ کا نام حالی، امتیاز علی عرشی، قاضی عبدالودود، مالک رام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ خطوط غالب کے سلسلے میں آپ نے بارہ برس جو محنت کی ہے اس بارے میں آپ کا احساس اور تجربہ کیا ہے۔
ڈاکٹر خلیق انجم ۔ پاکستان کے ’’ نوائے وقت ‘‘ نے ایک سوال کیا تھا اگر آپ کو دوبارہ زندگی مل جائے تو آپ کیا کریں گے میں نے بے ساختہ کہہ دیا۔ ’’خطوط غالب کی ترتیب وتحقیق کا کام دوبارہ کروں گا۔۔۔ جب تک زندہ ہوں غالب پر کام کرتا رہونگا۔ غالب ایک بے پناہ اورو سیع موضوع ہے اس پر کام کی بہت گنجائش ہے۔ دراصل غالب کی زندگی پر تحقیقی کام بہت کم ہوا ہے۔ عنقریب غالب پر میری تازہ کتابیں ’’غالب اور ہندوستان کے فارسی شعراء‘‘ غالبؔ کے ادبی معرکے‘‘ ، ’’قاطع برہان کا تجزیہ ‘‘ شائع ہوں گی۔ آپ کو پتہ ہوگا حال ہی میں ایک کتاب ’’ جوش ملیح آباد کے خطوط ‘‘ شائع ہوئی ہے جس کی رسم اجرا عاشور کاظمی نے لندن میں جگن ناتھ آزاد کے ہاتھوں کروائی ہے۔
قطب سرشار۔ جوش کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ضدی اور خود پسند انسان تھے انھوں نے اپنے دیرینہ ساتھی ساغرؔ نظامی کے ساتھ بڑی زیادتیں کیں حتی کہ یادوں کی برات میں ان کا ذکر سرسری طور پر کر کے گذر گئے۔
ڈاکٹر خلیق انجم ۔ یادوں کی بارات میں ساغرؔ نظامی کا ذکر جوشؔ نے بہت اچھے انداز میں کیا تھا اشاعت کے مرحلے میں مسودات سے چند کاغذات کسی وجہ سے ضائع ہوگئے تھے۔ جن پر ساغر نظامی کا ذکر تھا جوش نے ان کے ساتھ بے وفائی نہیں کی۔ ہوسکتا ہے جوش کی حق گوئی وبے باکی سے انھیں صدمہ پہنچا ہو۔
قطب سرشار ۔ آپ ایک کامیاب ترجمہ نگار ہیں۔ کیا ترجمہ نگاری کے لئے ضروری نہیں کہ جس زبان سے ترجمہ کیا جارہا ہے اس سے ترجمہ نگار بہ خوبی واقف ہو ؟ ۔
ڈاکٹر خلیق انجم ۔ قطعی ضروری ہے۔ اس کے بغیر ترجمہ نگاری کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔
قطب سرشار ۔ انجمن ترقی اردو کیا اب بھی فعال ہے۔
ڈاکٹر خلیق انجم ۔ کیوں نہیں ؟ ہمارے یہاں تو فعال ہے ہم نے کمپیوٹر کے ساتھ کمپیوٹر کورس اور اردو جرنلزم ڈپلوما کورس کا آغاز کیا ہے۔ اس کے علاوہ دلی میں ذوقؔ کے مزار پر بیت الخلاء بنایا گیا تھا۔ میں نے ذاتی طور پر عدالت میں مقدمہ لڑ کر ذوقؔ کا مزار بنوایا۔
قطب سرشار ۔ بہت بہت شکریہ ڈاکٹر صاحب !
Dr.Qutub Sarshar