شاتا واہنا یونیورسٹی کریم نگر تلنگانہ
’’اردو کی نثری اصناف‘‘ قومی سمینارکاانعقاد
رپورتاژ: ڈاکٹرمحمد اسلم فاروقی
صدر شعبہ اردو گری راج کالج ۔نظام آباد تلنگانہ اسٹیٹ
ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اکیسویں صدی کے پہلی دہائی میں شہروں کے علاوہ اضلاع اور علاقائی سطح پر یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں آیا ہے۔ تلنگانہ میں شہر حیدرآباد میں جامعہ عثمانیہ ‘مولانا آزاد ‘سنٹرل یونیورسٹی‘امبیڈکر یونیورسٹی‘نلسار یونیورسٹی وغیرہ قائم ہیں۔ لیکن اب اضلاع کریم نگر‘نظام آباد‘نلگنڈہ اور محبوب نگر میں بھی ریاستی یونیورسٹیاں قائم ہوگئی ہیں اور وہاں کے شعبہ جات اپنی کارکردگی کے سبب مشہور ہورہے ہیں۔
کریم نگر میں شاتا واہانا یونیورسٹی ہے جو 2008ء میں قائم ہوئی۔ جہاں دیگر شعبہ جات کے ساتھ شروع سے ہی شعبہ اردو قائم ہے۔ جس کے اساتذہ ڈاکٹر جعفر جری‘ڈاکٹر محمد ابرارالباقی‘ڈاکٹر حمیرہ تسنیم اور ڈاکٹر ناظم الدین منور ہیں۔ شعبہ اردو میں ورنگل‘جگتیال کورٹلہ اور دیگر علاقوں سے طلباء و طالبات کی کثیر تعداد اعلیٰ تعلیم کے لئے آتی ہے۔ اور شعبہ اردو سے فارغ طلبا اب کالجوں میں لیکچرر کے عہدوں پر بھی فائز ہورہے ہیں۔ اور یوجی سی کے نیٹ جے آر ایف امتحان میں کامیابی حاصل کر رہے ہیں۔ شعبہ اردو شاتاواہنا یونیورسٹی کے زیر اہتمام ماضی میں دو قومی اردو سمینار بعنوان’’ اردو کا سفر‘‘ اور ’’ اردو شاعری ‘‘ کامیابی سے منعقد کئے گئے تھے۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی کے مالی تعاون سے شعبہ اردو شاتاواہنا یونیورسٹی نے 8ستمبر کو اپنا تیسرا قومی اردو سمینار بعنوان’’ اردو کی نثری اصناف‘‘ مقرر کیا۔ شعبہ اردو کے تحت منعقدہ سمیناروں کے موضوعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ طلبا کے استفادے کے پیش نظر نصابی ضروریات کی تکمیل کرتے موضوعات سمینار کے لئے طے کئے گئے۔ تیسرے سمینار کی روح رواں اور کنوینر صدر شعبہ اردو ڈاکٹر حمیرہ تسنیم تھیں۔ جنہوں نے سمینار کے منظوری سے لے کر اس کے کامیاب انعقاد تک تمام مراحل شعبہ اردو کے اپنے دیگر رفقاء کے تعاون اور اپنے اساتذہ کے مشوروں سے کئے۔ سمینار کے لئے تعارفی بروشر کا بروقت اجرا عمل میں لایا گیا اور منتخب مقالہ نگاروں کو مقالات کی پیشکشی کے لئے موضوعات کے ساتھ مدعو کیا گیا ۔ سمینار کے انعقاد کے لئے شعبہ اردو کے طلبا اور اساتذہ نے کافی محنت کی۔ سمینار کے لئے میڈیا سے بھی کافی تشہیر کی گئی۔ اور مدیر گواہ ڈاکٹر فاضل حسین پرویز نے سمینار میں خصوصی دلچسپی دکھاتے ہوئے اپنے ہفتہ وارگواہ میں سمینار سے متعلق خصوصی نیوز آئیٹم مہمانوں اور مقالہ نگاروں کی رنگین تصاویر کے ساتھ شائع کیا۔سمینار کے دن صبح سے ہی مہمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سمینار کا افتتاح مہمان خصوصی پروفیسر اقبال علی سابق وائس چانسلر اور پروفیسر ایم کومل ریڈی رجسٹرار یونیورسٹی کے ہاتھوں ہوا۔ افتتاحی اجلاس کی صدارت ڈاکٹر ایس سجاتا پرنسپل کالج نے کی۔ مہمانان اعزازی کے طور پرپروفیسر مظفر شہ میری صدر شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد‘ پروفیسر سجاد حسین صدر شعبہ اردو عربی و فارسی مدراس یونیورسٹی‘ پروفیسر نسیم الدین فریس ڈین فیکلٹی آف آرٹس مولانا آزاد اردو یونیورسٹی اور ڈاکٹر مجید بیدار سابق صدر عثمانیہ یونیورسٹی نے شرکت کی۔ ڈاکٹر حمیرہ تسنیم صدر شعبہ اردو نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا اور سمینار کے مہمانوں اور مقالہ نگاروں کا استقبال کیا۔ پروفیسر مظفر شہ میری نے کلیدی خطبہ دیا اور اس بات پر زور دیا کہ اردو کو روزگار سے جوڑنے کے ضمن میں اردوشعبہ جات کو ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ اردو نثر میں اتنی طاقت ہے کہ اسے اظہار خیال کے طور پرپیش کرتے ہوئے اسے صحافت‘ادب اور فلم و اشتہارات کی لائن میں استعمال کیا جائے اور ہمارے اردو طالب علموں کی معاشی فکر کو دور کیا جائے۔ انہوں نے شعبہ اردو کے طالب علموں کو مشورہ دیا کہ وہ روزانہ کچھ لکھنے کی عادت ڈالیں۔ اور یہ کہ لکھتے لکھتے لکھنا آتا ہے۔ پروفیسر اقبال علی نے کہا کہ اردو کسی ایک مذہب کی زبان نہیں بلکہ عالمی سطح پر مقبول زبان ہے۔ انہوں نے کہا کہ شعبہ اردو دیگر شعبہ جات کے ساتھ ترقی کررہا ہے اور علاقہ کریم نگر کا نام تعلیمی افق پر روش ہورہا ہے۔ پروفیسر سجاد حسین نے کہا کہ طلبا کو امید ایسی ہو کہ انہیں منزل ملے منزل ایسی ملے کہ جو جینا سکھلائے اور جینا ایسا ہو جو رشتوں کی قدر دلائے اور رشتے ایسے ہوں جو یاد رہیں۔ آج اردو کے حوالے سے ہم رشتوں کو استوار کرتے ہوئے زندگی کا ڈھنگ سیکھ رہے ہیں۔پروفیسر سجاد صاحب نے کنوینر سمینار ڈاکٹر حمیرہ تسنیم کو مبارک باد پیش کی اور ان کے شوہرجناب زبیر صاحب کو بھی مبارک باد پیش کی کہ ان کے تعاون سے ڈاکٹر حمیرہ تسنیم ترقی کے مراحل طے کر رہی ہیں۔پروفیسر نسیم الدین فریس نے کہا کہ شعبہ اردو ترقی کررہا ہے انہوں نے اردو نثر کے حوالے سے کہا کہ دکن کا علاقہ وہ سرزمین ہے جہاں سے داستان کے بشمول بہت سی اصناف کا آغاز ہوا۔ اور دکنی زبان نے اردو نثر کے لئے راہیں ہموار کیں۔انہوں نے شعبہ اردو کے اساتذہ کو کامیاب سمینار کے انعقاد کے لئے مبارک باد پیش کی۔ جناب کومل ریڈی رجسٹرار اور محترمہ سجاتا پرنسپل کالج نے شعبہ اردو کی کارکردگی کی ستائش کی۔ سمینار کے افتتاحی اجلاس میں مقالہ نگاروں کے مقالوں اور مہمانوں کے پیامات پر مشتمل خوبصورت سوونیر جاری کیا گیا۔ اس سوونیر کے لئے مسٹر بی جناردھن ریڈی وائس چانسلر شاتاواہنا یونیورسٹی‘ پروفیسر اقبال علی‘ پروفیسر ستار ساحر رجسٹرار اردو یونیورسٹی آندھرا پردیش‘ پروفیسر ایس اے شکور سکریٹری ڈائرکٹر اردو اکیڈیمی تلنگانہ اسٹیٹ‘ پروفیسر سجاد صاحب مدراس یونیورسٹی‘ پروفیسر مظفر شہ میری یونیورسٹی آف حیدرآباد اور مسٹر رویندر صدر شعبہ تلگو نے اپنے پیغامات مبارکباد پیش کئے۔ ڈاکٹر محمد ابرارالباقی اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو نے افتتاحی اجلاس کا شکریہ ادا کیا۔مہمانوں اور طلبا کے لئے ظہرانے کا انتظام کیا گیا جس کے دوران شعبہ اردو کے طلبا و طالبات نے اساتذہ اور مہمانوں سے گفتگو کی۔ اور اردو کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے اساتذہ بھی ایک دوسرے کے ساتھ خوشگوار موڈ میں باتیں کرتے دیکھے گئے۔ ظہرانے کے بعد دو اجلاس منعقد ہوئے پہلے اجلاس کی صدارت پروفیسر نسیم الدین فریس اور پروفیسر سجاد صاحب نے کی۔ اس سیشن میں ‘ڈاکٹر فضل اللہ مکرم چیرمین بورڈ آف اسٹڈیز اورینٹل اردو عثمانیہ یونیورسٹی نے اردو ڈرامہ پر پہلا مقالہ پیش کیا اور کہا کہ حضرت آدم سے لے کر اب تک ڈرامہ ہماری دلچسپی کا مرکز رہا ہے اردو میں کامیاب ڈرامے لکھے گئے اب فلم اور ٹیلی ویژن کے سبب اردو ڈرامہ نگاری انحطاط کا شکار ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر اطہر سلطانہ صدر شعبہ اردو تلنگانہ یونیورسٹی نے ’’ فسانہ عجائب کا تہذیبی و معاشرتی پس منظر ‘‘ کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا اور اس مقالے میں فسانہ عجائب میں پیش کردہ لکھنو کی تہذیب کے مختلف گوشے بیان کئے۔ ڈاکٹر موسی اقبال اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو تلنگانہ یونیورسٹی نے اپنا مقالہ’’ اردو تحقیقی مقالہ نویسی کا فن‘‘ کے موضوع پر پیش کیا اور تحقیقی مقالے لکھنے کے دوران ریسرچ اسکالر کو موضوع کے انتخاب اور مواد کی فراہمی کے ضمن میں مفید مشورے دئے۔‘ڈاکٹر محمد کاشف یونیورسٹی آف حیدرآباد نے ’’اردو مضمون نگاری اور ماسٹر رام چندر ‘‘ کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا اور کہا کہ ماسٹر رام چندر اردو مضمون نگاری کے نقاش اول ہیں جن کی بنیاد پر سرسید احمد خان اور دیگر مضمون نگار پیدا ہوئے۔‘ڈاکٹر نشاط احمد یونیورسٹی آف حیدرآبادنے اردو انشائیہ نگاری پر اپنا مقالہ پیش کیا۔ ڈاکٹر حمیرہ سعید اسسٹنٹ پروفیسر این ٹی آر کالج محبوب نگر نے قرۃ العین حیدر کے سفر نامہ’’ دکن سا نہیں سنسارمیں‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا۔مقالوں پر ڈاکٹر نسیم الدین فریس اور پروفیسر سجاد صاحب نے اظہار خیال کیا اور تمام مقالہ نگاروں کو مبارک باد پیش کی۔ ڈاکٹر نسیم الدین فریس نے کہا کہ مقالوں پر سوال اٹھنا مقالے کی کامیابی کی نشانی ہے کہ اس میں مزید گوشے لائے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے ڈرامہ یا داستان میں اولیت سے متعلق سوال اٹھایا۔ دوسرے ٹیکنیکل اجلاس کی صدارت پروفیسر مظفر شہ میری اور ڈاکٹر مجید بیدار صاحب نے کی۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر معید جاوید صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی نے اپنامقالہ ’’ انشائیہ کیا ہے ‘‘ کے عنوان سے پیش کیا اور کہا کہ انشائیہ کی خاص بات اسلوب ہوتی ہے اردو کے نامور انشائیہ نگار اپنے اسلوب کی وجہہ سے جانے جاتے ہیں ۔محمد فہیم احمد اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ ترجمہ مولانا آزاد اردو یونیورسٹی نے ترجمہ نگاری کے فن اور نیرنگ خیال کے تراجم پر اپنا تحقیقی مقالہ پیش کی۔ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی صدر شعبہ اردو گری راج کالج نظام آباد نے اپنا مقالہ’’ حبیب حیدرآبادی بہ حیثیت انشائیہ نگار‘‘ پیش کیا جس میں برطانیہ میں مقیم پروفیسر مغنی تبسم کے بہنوائی حبیب حیدرآبادی کی تصنیف رہ و رسم آشنائی کے حوالے سے ان کے انشائیہ نگاری کے فن کا جائزہ لیا گیا ۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے کہا کہ حبیب حیدرآبادی کو نامور انشائیہ نگار خواجہ حسن نظامی سے ارادت تھی اور وہ خواجہ حسن نظامی کی روزنامچہ لکھنے کی عادت سے متاثر تھے اور خود بھی روزنامچہ لکھا کرتے تھے یہی وجہہ ہے ہے کہ ان کی انشا پردازی میں نکھار پیدا ہوا۔ اس لئے ضروری ہے کہ اردو طلبا ء بھی مختلف موضوعات پر لکھنے کی عادت ڈالیں۔ڈاکٹر محمد عبدالقوی تلنگانہ یونیورسٹی نے تبصرہ نگاری کا فن اور روایت اور ڈاکٹر محمدناظم علی سابق پرنسپل نے اردو میں تذکرہ نگاری فن اور روایت پر مقالے پیش کئے۔ ڈاکٹر مسرور سلطانہ نے ناول نگاری کے فن پر اپنا مقالہ پیش کیا۔ ڈاکٹر عزیز سہیل کا مقالہ اردو میں رپورتاژ نگاری‘ ڈاکٹر محمد ابرارالباقی کا مقالہ اردو میں خاکہ نگاری‘ ڈاکٹر مجید بیدار صاحب کا مقالہ اردو مضمون نگاری کے مطالعے کی اہمیت اور ڈاکٹر ناظم الدین منور کا مقالہ حالی اور شبلی کی سوانحی تصنیفات کا مطالعہ بھی شامل سمینار تھے۔ صدارتی تقاریر میں ڈاکٹرمجید بیدار صاحب اور پروفیسر مظفر شہ میری نے مقالہ نگاروں کو کامیاب مقالے پیش کرنے پر مبارک باد پیش کی۔اختتامی اجلاس میں پروفیسر نسیم الدین فریس ‘ڈاکٹر فضل اللہ مکرم اور ڈاکٹر معید جاوید نے سمینار کے کامیاب انعقاد پر منتظمین کو مبارک باد پیش کی۔ ڈاکٹر معید جاوید نے اپنی غزل پیش کی۔ شرکائے سمینار کو مومنٹو اور توصیف نامے دئے گئے۔ پرنسپل سجاتا اور ڈاکٹر جعفر جری کے شکریہ پر سمینار کا اختتام عمل میں آیا۔ اس سمینار کی ایک خاص بات یہ تھی کہ ڈاکٹرمحمد اسلم فاروقی نے فیس بک پر سمینار کی کاروائی کو براہ راست دنیا بھر میں پیش کیا اور لوگ بروقت سمینار کی کاروائی کامشاہدہ کر پائے۔پرتکلف عشائیے کے ساتھ سمینار کے مہمان اپنے اپنے مقامات کو روانہ ہوگئے۔ سمینار سے متعلق خبر کو اردو اخبارات نے نمایاں طور پر شائع کیا اور اس کی تصاویر اور ویڈیو یوٹیوب اور فیس بک پر پیش کی گئیں۔ اس طرح سرزمین کریم نگر پر شاتاواہنا یونیورسٹی کے زیر اہتمام ایک یادگا اردو سمینار منعقد ہوا۔