جدید اردو شاعری کی دھڑکن : شاذؔ تمکنت
محمدعبید اللہ
نظام آباد – تلنگانہ
مرا ضمیر بہت ہے مجھے سزا کے لیے
تو دوست ہے تو نصیحت نہ کر خدا کے لیے
شاذؔ تمکنت کا اصلی نام ڈاکٹرسید مصلح الدین تھا شاذؔ حیدرآباد کے متوطن تھے وہ31جنوری1933 کوحیدرآباد میں پیدا ہوئے اور 18اگسٹ 1985ء کو اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔ان کی تصانیف میں کلیاتِ شاذ ،ورق انتخاب،بیاضِ شام،نیم خواب،تراشیدہ(شعری مجموعے) شامل ہیں۔
شاذ ؔ کی شخصیت سے متعلق ڈاکٹر روف خیر نے اپنے مضمون ’’دکن کا انمول رتن‘‘ میں بہت خوب اظہار کیاہے وہ لکھتے ہیں’’شاذؔ تمکنت خوب صورت شخصیت کے مالک تو تھے ہی خوش لباس و خوش اطوار بھی تھے۔ ان سے مل کر کوئی شخص کبھی اجنبیت محسوس نہیں کرتا تھا۔ شاذ ؔ میں محبوبانہ ادائیں اور محبانہ صلاحیتیں دونوں متوازی چلتی تھیں۔ وہ اپنے ملنے والوں کو خوش کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ خوش گفتاری تو جیسے شاذ پر ختم تھی۔ وہ حیدرآباد ی تہذیب کا جیتا جاگتا نمونہ تھے۔ ہر شخص شاذ کو پسند کرتا تھا۔ اور ان کے چاہنے والوں میں خود شاذ بھی شامل تھے۔ انھیں اپنے آپ سے عشق تھا۔ وہ اپنی غزل کے عاشق تھے۔ انھیں اپنی نظمیں بھی محبوب تھیں۔ اپنی ذات اور اپنی تخلیق کسے پیاری نہیں ہوتی۔ وہ شعر و ادب کو محض شعر و ادب سمجھتے تھے اور مقصدیت اور پروپیگنڈے سے ماوراء۔‘‘(دکن کی چند ہستیاں)
جدید اردو شاعری میں اپنے فن کی بدولت شاذ ؔ تمکنت نے بہت اونچا مقام و مرتبہ حاصل کیا تھا جس کی بنا اگر شاذؔ تمکنت کو جدید اردوشاعری کی دھڑکن کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔شاذ ؔ سے متعلق کہا گیا کہ ’’شاذ تمکنت کا شمار جدید اردو شاعری کے اہم شعراء میں ہوتا ہے انھوں نے مروجہ زبان کے دائرہ میں رہتے ہوئے شعری اظہار میں خوشگوار جدت پسندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ شاعری کو لطیف احساسات کے تار سے جوڑ نا چاہتے ہیں۔شاذ ؔ یقینی طور پر ایک دلِ نشیں اور موثر شعری قوت کے مالک ہیں اور یہ وہ منزل ہے جس تک ہر عہد میں بہت کم شعراء کی رسائی ممکن ہو پاتی ہے۔شاذؔ کی غزل اور نظم نے آس پاس پھیلے ہوئے جدت برائے جدت کے پینتروں اور تجریدیت نشریت کے سوانگوں پر بھر پور فتح حاصل کی ہے شاذ تمکنت کے ہاں زندگی کے معمولی سے معمولی مظہر تک کو محسوس کرنے کا رویہ ملتا ہے جو ان کے ہاں خوبصورت تشبہات اور استعارات میں ڈھل کر قاری کو متخیلہ ہی کو نہیں اس کے سارے حسی نظام کو جنھجوڑ کر رکھ دیتا ہے‘‘۔
شاذؔ نے زمین پر اترکر شاعری کی ہے اور ماحول کو اپنی جملہ حیات کی مدد سے ٹٹولا ہے۔شاذ ؔ کے اندر الفاظ کو موتیوں جیسابناکرشاعری کرنے کا عمل فطری تھا۔شاذؔ کا کلام اچھوتا اور دل پسند ہے ملاحظہ فرمائیں۔
کام آساں ہو تو دشوار بنالیتا ہوں
راہ چلتا ہوں تو دِیوار بنالیتا ہوں
یوں کہ لہجہ سے نمایاں نہ ہو حسرت کوئی ایک پیرایۂ اظہار بنالیتا ہوں
ہائے وہ لوگ جنہیں گنتا تھا بیگانوں میں
آج ملتے ہیں تو غم خوار بنالیتاہوں
شاذؔ نے اپنی غزلوں میں عشق کی تعریف بڑے خوب اور پر کیف اندازمیں کی ہے ۔ان کا انداز جداگانہ اور دلفریب ہے ۔
کسی خوبی کا تصور ہی نہیں تیرے بغیر
حسن جس جا نظر آئے ترا کردار لگے
کوئی گِلہ کوئی شِکوہ ذرا رہے تم سے
یہ آرزو ہے کہ اک سلسلہ رہے تم سے
اب ایک دِن کی جدائی بھی سہہ نہیں سکتے
جدارہے ہیں تو برسوں جدا رہے تم سے
شاذؔ نے مخدومؔ محی الدین کے سانحہ ارتحال پر ایک طویل نظم لکھی ہے اور ان کو خراج پیش کیا ۔ یہ طویل نظم ایک شہکار سے کم نہیں ہے۔اس نظم کے کچھ حصہ کو ملاحظہ فرمائیے۔
ادھورے خواب سونپ کر۔۔۔۔۔ کہاں چلا گیا ہے تو
بجھی بجھی ہے روشنی ۔۔۔۔۔۔ دھواں دھواں ہیں بام ودر
پکارتی ہے راہ گذر۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ طفل نو امیدہ کون تھا
سنا رہا تھاجو کتاب عہد نو ورق ورق۔۔۔ بیاضِ فردا لکھتے لکھتے ہاتھ کیوں اٹھا لیا
قلم کسی نے دیکھتے ہی دیکھتے چرالیا۔۔۔۔
غرض یہ کہ شاذؔ نے زندگی کے تقریباََہرموضوعات سے متعلق اپنے خیالات و احساسات کو ایسے موثر انداز میں پیش کیا کہ قاری کا حسی نظام اس سے مسحور ہوئے بغیر نہیں رہے سکتا۔
وہی تصویر جسے میں نے بنایا سو بار
وہی تصویر پھر اک بار بنا لیتاہوں
اے خوشی غم کی کسوٹی پہ پرکھ لوں
تجھ کو اے وفا آتجھے میعار بنالیتا ہوں
شاذؔ نے غزل کے ساتھ ساتھ نظم کے بھی گیسو سنواریں ہیں ان کی نظمیں بھی بہت عمدہ اور منفرد انداز کا مظہر ہے ان کا کلام سہل اورلاجواب ہے۔شاذؔ کا شماربیسویں صدی کے مقبول شاعروں میں ہوتا ہے ۔وہ حیدرآباد(دکن) میں نظم کے اہم شاعر رہے ہیں۔ شاذؔ ترقی پسند شعرا مخدومؔ محی الدین، سلیمان ؔ اریب، وحیدؔ اختر، قمر ؔ ساحری اور پروفیسر مغنی تبسم کے ہم عصر رہے ہیں۔ آپ کی ایک مناجات جوواقعی جادو اثر ہے۔ اس نظم میں شاذ ؔ نے بڑے ہی پر اثر انداز میں اس کائنات کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کی ہے۔اس کے چند بند ملاحظہ ہوں ۔
اک حرف تمنا ہوں، بڑی دیر سے چپ ہوں۔۔۔ کب تک مرے مولا
اے دل کے مکیں دیکھ یہ دل ٹوٹ نہ جائے۔۔۔
داتا مرے ہاتھوں سے کہیں چھوٹ نہ جائے۔۔
میں آس کا بندہ ہوں۔ بڑی دیر سے چپ ہوں۔۔۔ کب تک مرے مولا
یہ اشک کہاں جائیں گے دامن مجھے دے دے۔۔
اے باد بہاری مرا گلشن مجھے دے دے۔۔۔۔۔
میں راندصحرا ہوں۔ بڑی دیر سے چپ ہوں۔۔۔ کب تک مرے مولا
اے کاشف اسرار نہانی ترے صدقے۔۔
اب شاذ کو دے حکم روانی ترے صدقے۔۔۔
ٹھہرا ہوا دریا ہوں۔ بڑی دیر سے چپ ہوں۔۔۔ کب تک مرے مولا
بہرحال شاذ ؔ اپنے غزلوں اور نظموں کی بنا اردو ادب میں زندہ رہیں گے ،ان کا کلام جداگانہ اہمیت کا حامل ہے انہوں نے اپنی نظموں میں فطرت کی بہتریں منظر نگاری کی ہے۔اچھوتے احساسات اور منفرد، ادا، دلفریب شخصیت کا حامل شاعر آج ہمارے درمیان نہیں ہے لیکن ان کی شاعری ان کے وجود کو یاد دلاتی رہے گی۔