اردو میں مزاحیہ کالم نگاری کی روایت
ڈاکٹراسمٰعیل خان
شعبہ اردو انورالعلوم ڈگری کالج ،حیدرآباد
اخبارات و رسائل میں مزاحیہ کالم نگاری بیسویں صدی کی دین ہے ان اخبارات و رسائل میں جو کالم شائع ہوتے رہے ہیں ان کی اسلوب کے لحاظ سے دو بڑی قسمیں ہیں سنجیدہ کالم اور مزاحیہ کالم ، نامی انصاری نے اخبارات میں شائع ہونے والے کالموں کی اقسام پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:
’’ اخبارات کے کالم دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ جن میں روز مرہ کے سیاسی سماجی حالات پر طنزیہ مزاحیہ تبصرہ ہوتا ہے،بعض اوقات تہذیبی و تمدنی معاملات کی مضحکہ خیزیوں کو بھی کالم نگار اجاگر کرتا ہے اور ان نازک حقیقتوں کو بھی طنز کا نشانہ بناتا ہے جن کا راست تعلق روز مرہ کی عمومی زندگی کے واقعات و حادثات سے ہوتا ہے اور اس طرح اخبار کے قاری اور کالم نگار کے درمیان ایک ذہنی رشتہ ہموار ہوجاتا ہے لیکن ہر دن ایک مزاحیہ کالم لکھنا آسان نہیں۔۔۔ دوسری قسم کی کالم نگاری وہ ہے جس میں مزاح کے ساتھ ادبی حسن بھی ہوتا ہے اور اسی لیے اس کی مستقل حیثیت بن جاتی ہے۔ یہ کالم کبھی باسی نہیں ہوتے اور ایک اخبار سے دوسرے اخبار میں نقل ہوتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات ان کا انتخاب کتابی صورت میں بھی شائع ہوتا ہےْ۔ مشفق خواجہ عطاء الحق، مجتبیٰ حسین اور محمد خالد اختر ایسے ہی کالم نویسیوں کے زمرے میں آتے ہیں‘‘۔ (آزادی کے بعد اردو نثر میں طنز و مزح ،۱۶۱)
مزاحیہ کالم نگاری کے لیے موضوع کی کوئی قید نہیں ہے ہر طرح کے موضوعات کو مزاحیہ کالم کا موضوع بنایا جا سکتا ہے اس میں موضوع کے مثبت پہلوؤں کے ساتھ منفی پہلوؤں کو بھی اجاگر کیا جاتا ہے۔ اس سے قارئین کو نہ صرف تفریح فراہم کی جاتی ہے بلکہ ان کی ذہن سازی کا فریضہ بھی انجام دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کالم نگاری ایک مشکل فن ہے لیکن اس سے مشکل مزاحیہ کالم نگاری ہے کیونکہ یہ ایسی چیز نہیں جو تربیت سے سیکھی جا سکتی ہے بلکہ اس کے لیے طبعی میلان کا ہونا ضروری ہے اہم واقعات پر تو ہر کسی کی نظر جاتی ہے لیکن غیر اہم واقعہ یا غیر اہم کردار کو روشن کرنا اور منفی رویہ سے مثبت نقطہ نظر کو اپنانے کا عمل مزاحیہ کالم نگار کے یہاں ہوتا ہے۔
سید اقبال قادری کا کہنا ہے کہ ایک مزاحیہ کالم نگار کو موضوع کے مثبت و منفی پہلوؤں پر اظہار کرنے کے لیے بہت زیادہ احتیاط برتنا پڑھتا ہے وہ لکھتے ہیں:
مزاحیہ کالم کے انتخاب میں زیادہ احتیاط برتنی ضروری ہے کیونکہ مزاح اور بیہودہ پن کے درمیان بہت ہی ہلکی لکیر ہوتی ہے۔ مزاح اگر ایک خاص سطح پر اور خاص حد کے اندر ہو تو گوارا اور تفریحی ہوتا ہے، اتفاق سے وہ شریفانہ سطح سے ذرہ بھر بھی ہٹ جائے تو وہ ناگوار اور سفلیہ ہوتا ہے۔ اردو کے کئی مزاحیہ کالم نویسیوں نے اردو مزاح نگاری کے چمنستان میں نئے گل بوٹوں کا اضافہ کیا ہے۔ (رہبر اخبار نوسیے ص۳۱۸)
اسی طرح ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے، مزاحیہ کالم نگار کے اوصاف کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ کالم نویس کو زبان و بیان پر انتہائی عبور حال ہو ۔ کلاسیکی اور جدید ادب کا وسیع مطالعہ کر رکھا ہواور اس میں یہ صلاحیت موجود ہو کہ سنجیدہ بات کا مضحک پہلو بھانپ سکے۔ اس پر تبصرہ کرے لیکن مضحک پہلو بھانپ لینا مشکل ہے اور اس کے بعد اس کو نمایاں کرنے میں بھی طبعی میلان ضروری ہے یہ نہ ہو تو تصنع پیدا ہوگا اور تصنع مزاح کا قاتل ہے‘‘۔ (اردو صحافت نظر عمل ص۲۹۳)
مجتبٰی حسین نے مزاحیہ کالم نگاری کو اپنے اور عوام کے دکھوں کو چھپانے اور اجاگر کرنے کے علاوہ ناگوار زندگی کو گوارا بنانے کا نام کہا ہے ، وہ لکھتے ہیں:
پندرہ برس تک لگاتار مزاحیہ کالم نگاری کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ کالم نگاری در اصل اپنے اور عوام کے دکھ کو کبھی خوبصورتی کے ساتھ چھپانے کبھی اسے اجاگر کرنے، درد کے چہرے پر خوشگواری کا مکھوٹا چڑھانے اور ناگوار زندگی کو گوارا بنانے کا نام ہے۔ ( اردو صحافت ص،۲۲۲)
اخبارات میں مزاحیہ کالم کی اہمیت و ضرورت پر اظہار کرتے ہوے سید اقبال قادری کہتے ہیں:
’’چھوٹے اخبارات میں ایسے ہلکے پھلکے کالم ہوں جن سے قارئین کو ذرا ہنسی مذاق سے لطف ہونے کا موقع نصیب ہوجائے تو بہتر ہے۔ ہر معاشرہ میں۔ بخیل، شرابی ،زندہ دل، پاگل ، شاعر اور خبطی افراد ضرور ہوتے ہیں جن کی حرکات پر نظر رکھ کر دلچسپ تذکروں کا مواد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سنجیدہ سے سنجیدہ موضوع پر بھی فکاہیہ کالم تحریر ہو سکتا ہے۔ پرانے چٹکلوں کو نئے لباس میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ طنز و مزاح کی چاشنی کے ساتھ شائع ہونے والے کالموں کے مداح قارئین کا حلقہ وسیع ہوتا ہے‘‘۔ (رہبر اخبار نوسیے،ص۳۲۱)
الغرض مزاحیہ کالم نگار اپنے اور عوام کے دکھ کبھی دکھاتا ہے تو کبھی چھپاتا ہے وہ بات سے بات پیدا کر کے الفاظ کی بازی گری سے قارئین کو خندہ زن کرتا چلا جاتا ہے فکاہیہ کالم کے ذریعۂ قارئین کو تفریح اور دلچسپی کا سامان بہم پہنچنے کا مقصد پورا کیاجاتا ہے ۔ دنیا کے روکھے پھیکے ،خشک اور سنجیدہ معاملات کو شگفتہ اور فنکارانہ طریقے سے پیش کر کے قارئین کی مسکراہٹوں کا سامان بھی کیا جاتا ہے۔ یہ تلخ اور ترش باتوں کے ذریعہ صرف دشمنی کو فروغ دینے کی بجائے گدگدیاں کر کے دوست بنانے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ مزاحیہ کلام کے لیے موضوع کی کوئی قید نہیں ہے۔ یہ ہر موضوع پر لکھا جا سکتا ہے۔ موضوع کے مثبت پہلو سے ہٹ کر منفی پہلوؤں کو کچھ اس طرح سے اجاگرکیا جاتا ہے کہ قاری کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے اور اسے تفریح بھی فراہم ہوتی ہے۔
اردو میں مزاحیہ کالم نگاری کی داغ بیل منشی سجاد حسین کے مشہور اخبار’’ اودھ پنچ‘‘ نے ڈالی ۔ پہلی جنگ آزادی 1857ء کی ناکامی کے بعد ہندوستانیوں خصوصاً مسلمانوں میں ناامیدی اورمایوسی پیدا ہونے لگی تھی۔ اس اداس ماحول کے بوجھل پن کو توڑنے کے لیے اردو مزاح نگاری نے اودھ پنچ کے ذریعہ ماحول کو زعفران زار بنانے کی بھر پور کوشش کی یہ نیا اسلوب ہندوستانیوں کو بہت پسند آیا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان کے گوشے گوشے سے ’’ پنچ‘‘ اخبار نکلنے لگے جیسے پنجاب پنچ، لاہور پنچ ، جالندھر پنچ، کلکتہ پنچ ، علی گڑھ پنچ، بنارس پنچ، شملہ پنچ ، آگرہ پنچ اوردکن پنچ وغیرہ ۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی ’’ اودھ پنچ‘‘ کے معیار کو نہ پہنچ سکا۔ اودھ پنچ کے لکھنے والوں میں منشی سجاد حسین کے علاوہ تربھون ناتھ ہجر، رتن ناتھ سرشار، ستم ظریف، اکبرالہٰ آبادی وغیرہ قابل ذکر ہیں جنہوں نے مزاحیہ ادب کو ایک اعتبار بخشا مجتبیٰ حسین اردو میں مزاحیہ نگاری کے آغاز و ارتقاء پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ اردو میں مزاحیہ کالم نگاری کا جائزہ لیا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ کم و بیش سو سال کے عرصہ میں اردو میں مزاحیہ کالم نگاری نے نہ صرف اپنی روایت کو مستحکم کیا ہے بلکہ نئی نئی جہتوں سے بھی آشنا ہوئی ہے۔ اردو میں مزاحیہ کالم نگاری کی داغ بیل منشی سجاد حسین کے ’’ اودھ پنچ ‘‘ نے ۱۸۷۷ء میں ڈالی تھی۔ ۱۸۷۷ء میں ہندوستانی معاشرہ میں نہ جانے کونسے عوامل کار فرما ہوئے تھے کہ اچانک طنز و مزاح نگاروں کا ایک قافلہ سا نکل آیا’’اودھ پنچ‘‘ کے لکھنے والوں میں اس کے ایڈیٹر منشی سجاد حسین کے علاوہ تربھون ناتھ ہجر، رتن سرشار، مچھو بیگ، ستم ظریف، جوالا پرشاد برق، نواب سید محمد آزاد اور اکبر الہ آبادی قابل ذکر ہیں۔ ان قد آور طنز و مزاح نگاروں نے صحیح معنوں میں اردو کے مزاحیہ ادب کو ایک اعتبار بخشا ’’اودھ پنچ ‘‘ کے بعد ہندوستان کے گوشے گوشے سے ’’ پنچ‘‘ نکلنے لگے۔ پنجاب پنچ، لاہور پنچ، جالندھر پنچ، بنارس پنچ، آگرہ پنچ، دکن پنچ اور نہ جانے کتنے ہی ’’پنچ‘‘ نکلے مگر جو مقام ’’ اودھ پنچ‘‘ کو حاصل ہوا وہ کسی کے حصہ میں نہ آسکا ۳۶ برس تک ’’ اودھ پنچ‘‘ نے اردو طنز و مزاح کے سرمایہ میں پیش بہا اضافے کیے۔ ان رسالوں کی سب سے بڑی دین یہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف طنز مزاح کی اہمیت کو منوایا بلکہ بعد کے طنز نگاروں کو طنز کرنے کے ادب اور مزاح پیدا کرنے کا سلیقہ سکھایا۔( اردو صحافت ص۲۲۳)
اودھ پنچ ایک ایسا اخبار تھا جس کے ذریعے ملک بھر میں ظرافت کا ذوق عام ہو دراصل یہ اخبار مشرقی و مغربی تہذیب کے ٹکراؤ کا نتیجہ تھا۔ انگریزوں کی بر صغیر میں آمد کے بعد ان کی تہذیب یہاں اپنے ہمہ رنگ پر پھیلائے کھڑی تھی اور ہمارے ’’ اودھ پنچ‘‘ کے قلم کاروں نے اپنے اپنے طنز و تنقید کی قینچیاں تیز کیے ان پروں کو کاٹنے میں مصروف تھے۔ اودھ پنچ مزاحیہ کالم نگاروں میں منشی سجاد حسین، مرزا مچھو بیگ ، ستم ظریف، تربھون ناتھ ہجر، جوالا پرشاد برق، رتن ناتھ سرشار،وغیرہ بہت اہمیت رکھتے ہیں۔
منشی سجاد حسین اودھ پنچ کے ایڈیٹر تھے اس اخبار کی کامیابی ان ہی کی رہین منت ہے۔ اس اخبار میں ان کے طنزیہ و مزاحیہ کالم ’’ لوکل‘‘ اور موافقت زمانہ‘‘ کے عنوان سے مستقل شائع ہوتے تھے۔ ان کالموں میں سجاد حسین نے اپنے عہد کے حالات اور اہم واقعات پر طنزیہ اور ظریفانہ انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ مرزا مچھو بیگ، ستم ظریف بھی اودھ پنچ کے اہم کالم نگار گذرے ہیں جو ظریف کے قلمی نام سے کلام لکھا کرتے تھے۔ انہیں محاورہ بندی پر بڑی دسترس تھی اپنی تحریروں میں بھی انہوں نے محاورات کا خوب استعمال کرتے ہوئے لکھنو کی عورتوں ، نوابوں ، وکیلوں وغیرہ کے حالات اور کارکردگیوں کوانہیں کی خاص زبان میں مزے لے لے کر بیان کی ہیں۔
تربھون ناتھ ہجر کا شمار بھی ’’ اودھ پنچ‘‘ کے اہم کالم نگاروں میں ہوتاہے ان کے کالم اپنے زمانے کی مخصوص شوخی اور ظرافت سے پر ہوتے تھے۔ ظرافت ان کے مزاج کا ایک اٹوٹ حصہ تھی۔ انہیں سرشار ثانی بھی کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ انہوں نے بھی سرشار کی طرح اہل لکھنو کی مذموم عادتوں کو طنز کا نشانہ بنایا ہے۔ جوالا پرشاد برق بھی اودھ پنچ کے ایک اہم کالم نگار گذرے ہیں یوں تو انہوں نے ایک مترجم کی حیثیت سے ادب میں نام کمایا ہے لیکن اپنے عہد کے اہم مسائل پر طنزیہ و مزاحیہ کالم بھی لکھے ہیں۔
اودھ پنچ کے کالم نگاروں میں ایک بڑا نام پنڈت رتن ناتھ سرشار کا بھی ہے، ان کے کالموں میں طنز کی بہ نسبت مزاح کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے۔ ان کی تحریروں کو پڑھ کر قاری صرف ہنستا نہیں بلکہ قہقہے لگانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ ان کیمزاحیہ تحریروں میں ہمیں مزاح نگاری کے تمام حربے ملتے ہیں جیسے لفظی الٹ پھیر ، اردو فارسی کے بے میل الفاظ کا مضحکہ خیز استعمال ، لطافت ، حاضر جوابی، بذلہ سنجی ، بھپتی اور ضلع جگت وغیرہ ، سرشار کے رگ و پے میں لکھنو کی تہذیب اور لکھنو کی معاشرت سرایت کیے ہوئے تھی۔ لکھنو کی ساری خرابیوں پر ان کی نظر ہوتی تھی جیسے افیون کی لت، بیڑی بازی کی لعنت ، وقت برباد کرنے کے لیے طرح طرح کے کھیل کود وغیرہ کا سرشار نے اپنی تحریروں میں خوب مذاق اڑایا ہے۔ اسی طرح اودھ پنچ کے دیگر قلم کاروں نے بھی اپنے عہد کی ناہموار صورت حال کی اصلاح کرنے کے لیے مزاحیہ کالم نگاری کا استعمال کیا ہے۔
اودھ پنچ کے قلم کاروں کا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کہ انہوں نے ’’ وہ ماحول پیدا کیا جو اردو میں مزاحیہ کالم نگاری کو مستحکم بنانے میں معاون ثابت ہوا اس دور کے حالات اور اودھ پنچ کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں:
’’ اودھ پنچ اپنے زمانے کی انقلابی تہذیبوں کے خلاف رد عمل کے طور پر نمودار ہوا تھا یہ وہ زمانہ تھا کہ 1857 ء کے ہنگامے نے زندگی سے شگفتگی اور آسائش چھین لی تھی اور اس کے چہرے پر سنجیدگی کی تیوریاں پیدا کردی تھیں۔ سیاسی ، سماجی اور ادبی ماحول میں سنجیدگی اور انہماک کا دور دورہ تھا۔ انتہاء پرستی اپنے جوبن پر تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا گویا ہر شخص اس طوفانی بہاؤ کے ساتھ ایک تنکے کی طرح بہتا چلا جائے گا۔۔۔ چنانچہ اودھ پنچ نے اس قسم کی طوفانی دریا کو کناروں سے چھلکنے اور یوں تباہی اور بربادی پھیلانے سے بر وقت روکنے کی انتہائی کوشش کی اور اس دربار سے طنز و ظرافت کی بے شمار چھوٹی نہریں نکال کر اس کی طغیانی میں دھیما پن پیدا کرنے کا قابل رشک کام سر انجام دیا‘‘۔(اردو ادب میں طنز و مزح،ص۱۸۸)
بیسویں صدی کے آغاز تک آتے آتے صورت حال یہ ہوگئی تھی کہ اردو میں نہ صرف طنزیہ و مزاحیہ رسالے نکلنے لگے تھے بلکہ ہر اخبار میں مزاحیہ کالم کی اہمیت کو محسوس کیا جانے لگا۔ ان دنوں ملک کے سیاسی و سماجی حالات ایسے تھے کہ بہت سی باتوں کو راست طور پر بیان کرنے کی بجائے طنز و مزاح کے پیرائے میں بیان کرنا زیادہ مناسب سمجھا گیا ۔ چنانچہ ایسی صورت حال میں ایسے ادیب بھی مزاحیہ کالم نگاری کی طرف مائل ہوئے جن کا طنز و مزاح سے براہ راست کوئی تعلق نہ تھا۔ ان میں خواجہ حسن نظامی ، عبد المجید سالک ،چراغ حسن حسرت، مولانا ظفر علی خاں،مولانا علی جوہر ،قاضی عبد الغفار، عبد الماجد دریا بادی، حاجی لق لق ، شوکت تھانوی وغیرہ کے نام اہمیت رکھتے ہیں جنہوں نے فکاہیہ کالم نگاری کی روایت کو مستحکم کیا۔
خواجہ حسن نظامی کی طنزومزاح کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کی تحریریں ہمیں ایک طرف اجڑے دلی کی کہانیوں سنا سنا کر رلاتی ہیں تو دوسری طرف معمولی معمولی چیزوں کے متعلق چند اہم نکات سے واقف کر اکر ہنساتی بھی ہیں ۔ خواجہ حسن نظامی عام طور پر کہانیوں اور علامتوں کے پردے میں نئی تہذیب اور ارد گرد کی ناہموریوں پر طنز کرتے ہیں اور بعض اوقات ان کا مضحکہ بھی اڑاتے ہیں۔ وہ اپنی تحریر میں رعایت لفظی سے خوب کام لیتے ہیں۔ خواجہ حسن نظامی کے بعد اس دور کے ایک اہم کالم نگار عبد المجید سالک ہیں۔
عبد المجید سالک کا شمار اردو صحافت کے ان روشن چراغوں میں ہوتا ہے جنہوں نے سنجیدہ اخبارات میں فکاہی کالم کی ایسی مضبوط روایت قائم کی کہ آج تک اردو کے کئی اخبار اسی روایت کے پروردہ ہیں۔ انہوں نے فکاہیہ کالم کاسلسلہ ’’ افکار و حوادث‘‘ کے عنوان سے مولانا ظفر علی خاں کے ’’زمیندار‘‘سے 1923 ء میں شروع کیا تھا۔ 1927 ء میں انہوں نے اپنا اخبار ’’ انقلاب‘‘ جاری کیا ۔ اس میں بھی ان کے مذاحیہ کالموں کا سلسلہ بڑے تواتر کے ساتھ جاری رہا۔ سالکؔ نے کم و بیش تیس برس تک ’’ افکار و حوادث‘‘ کے ذریعہ مزاحیہ کالم نگاری کا ایک سنگ میل قائم کیا۔
عبدالمجید سالک کے بعد اردو کی فکاہیہ صحافت میں جس ادیب کا نام سب سے نمایاں ہے وہ چراغ حسن حسرت ہیں بقول ابنِ اسماعیل :
’’ اردومزاحیہ ادب کے جدید دور آغاز چراغ حسن حسرت کے فکاہیہ ہفت روزہ شیرازہ سے ہوتا ہے‘‘۔ (اردو طنز و مزح،احتساب وانتخاب ،ص۲۱۴)
شیرازہ میں اس زمانے کے تقریباً تمام اہم مزاح نگار لکھتے تھے۔ حسرت پہلے کلکتہ میں ’’ عصر جدید استقلال ، نئی دنیا، وغیرہ میں کولمبس کے فرضی نام سے فکاہی کالم لکھتے رہے بعد میں مولانا ظفر علی خاں کے کہنے پر لاہور چلے گئے جہاں انہوں نے زمیندار ‘‘ شہباز، انصاف، پھول ، تہذیب نسواں، احسان فوجی اخبار، امروز، پنچایت، مہاجر، اور نوائے وقت وغیرہ میں ’’ باغ و بہار‘‘،’’ فکاہات اور ’’ حرف حکایت‘‘ وغیرہ کے مستقل عنوانات کے تحت مزاحیہ کالم لکھتے رہے ۔ پھر اپنے پرچے ’’ شیرازہ‘‘ میں مطائبات ، کے تحت سندباد جہازی کے نام سے فکاہیہ کالم لکھنے لگے۔
حاجی لق لق کا شمار بھی اسی دور کے اہم کالم نگاروں میں ہوتا ہے۔انہوں نے، زمیندار ، صحافت،اور اپنے اخبار ’’نوائے پاکستان‘‘ میں فکاہیہ کالم لکھے، طبیعت میں مزاح کا ملکہ قدرتی طور پر موجود تھا۔ ان کے کالموں میں ان کے مزاح کی خوشگواری اور طنز کی سرشاری کا بہتر احساس نظر آتا ہے۔ شوکت تھانوی نے 1931ء میں لکھنو سے ایک فکاہی رسالہ ’’ سرپنچ‘‘ جاری کیا جس میں بے شمار فکاہیہ کالم لکھے۔اپنے فکاہیہ کالموں میں انہوں نے ترقی پسند تحریک کو نشانہ طنز بنایا ہے۔
آزادی سے کچھ عرصہ پہلے اور اس کے بعد بھی مزاحیہ کالم نگاری کو فروغ حاصل ہوا۔ اس اثناء میں جن ادیبوں نے مزاحیہ کالم نگاری میں انفرادی نقوش ثبت کیے ہیں ان میں سعادت حسن منٹو، شوکت تھانوی، فکر تونسوی ، نصر اللہ خاں ابن انشاء، ابراہیم جلیس، احمد ندیم قاسمی، شاہد صدیقی، تخلص بھوپالی مجید لاہوری ، کنہیالال کپور نریش کمار شاد، خوشتر گرامی، حیات اللہ انصاری اور احمد جمال پاشاہ، خواجہ احمد عباس وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
آزادی کے بعد بھی اردو میں مزاحیہ کالم نگاری کی روایت خاصی صحت مند اور توانا نظر آتی ہے خصوصاً پاکستان میں، ہندوستان میں اس روایت کے سب سے بڑے امین فکر تونسوی اور مجتبیٰ حسین ہیں جب کہ شاہد صدیقی ، خواجہ عبد الغفور ، یوسف ناظم، ظ۔ انصاری، دلیپ سنگھ ، نریش کمار شاد، احمد جمال پاشاہ ، تخلص بھوپالی، حیات اللہ انصاری، نصرت ظہیر اور جعفر عباس وغیرہ بھی مزاحیہ کالم نگاری کی روایت کو مستحکم بنایا۔
شاہد صدیقی نے روزنامہ سیاست میں شیشہ و تیشہ کے نام سے طنزیہ و مزاحیہ کالم لکھے ان کی وفات کے بعد مجتبیٰ حسین نے تقریباً پندرہ برس تک یہ کالم لکھا ان کے دہلی منتقل ہوجانے کے بعد یہ سلسلہ کچھ عرصے کے لیے منقطع ہوگیا۔ لیکن ۱۹۹۵ ء سے مجتبیٰ حسین دوبارہ روزنامہ سیاست کے ہفتہ وار ادبی ایڈیشن میں ’’ ہمارا کالم‘‘ کے عنوان سے فکاہیہ کالم لکھ رہے ہیں، اسی طرح حیات اللہ انصاری نے ’’ قومی آواز لکھنو، میں ’’ گلوریاں‘‘ کے عنوان کے تحت ’’ میزبان‘‘ کے قلمی نام سے مستقل مزاحیہ کالم لکھے بعد اذاں یہی کالم احمد جمال پاشاہ نے بھی لکھا، اسی اخبار کے ہفتہ وار ادبی ایڈیشن میں دلیپ سنگھ نے بھی ’’ گل گفت‘‘ کے عنوان سے مزاحیہ کالم لکھے۔
فکر تونسوی نے ’’ اردو اخبار’’ملاپ‘‘ میں پیاز کے چھلکے‘‘ کے عنوان سے طنزیہ کالم لکھے یوسف ناظم انقلاب بمبئی میں ’’ اتواریہ‘‘ کے عنوان سے مزاحیہ کالم لکھتے رہے، اسی طرح جعفر عباس نے’’ نئی دنیا‘‘ دہلی میں مزاحیہ کالم لکھا اور ظ۔ انصاری نے بھی اپنے مخصوص انداز میں کچھ طنزیہ و مزاحیہ کالم ادبی موضوعات پر لکھے ہیں۔
تقسیم ہند کے بعد مزاحیہ کالم نگاری کو ہندوستان سے کہیں زیادہ پاکستان میں فروغ حاصل ہوا کیونکہ وہاں کے جبریہ سیاسی نظام کی وجہہ سے کھل کر بات کہنے میں قید و بند کی صعوبتوں کا خطرہ تھا، اسی لیے ادیبوں اور دانشوروں نے حکومت کی پالیسیوں اور اعمال و حکام کی بے راہ رویوں پر طنزیہ و مزاحیہ کالموں کے توسط سے نہ صرف نکتہ چینی کی بلکہ اس کی مضحک صورتوں کو اجاگر کیا۔ پاکستان کے اخباروں میں شائع ہونے والے مزاحیہ کالم قارئین کی ذہنی تربیت کے علاوہ ان کی فکر و نظر کو روشنی بھی دی ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے اخبارات و رسائل میں مزاحیہ کالم نگاری کو مستقل حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ پاکستان میں شوکت تھانوی ابراہیم جلیس مجید لاہوری اور ابن انشاء جیسے پرانے مشاق کالم نگاروں کے علاوہ نئے کالم نگار بھی اس میدان میں سرگرم رہے ہیں۔ جیسے انتظار حسین، مشفق خواجہ ، منو بھائی، عطا الحق قاسمی، اختر امان ، انجم اعظمی ، شبنم رومانی، محسن بھوپالی، وغیرہ ان کالم نگاروں نے مزاحیہ کالم نگاری میں نہ صرف اپنی حیثیت منوالی ہے بلکہ ان میں بعض کالم نگار، مثلاً عطاء الحق قاسمی اور مشفق خواجہ نے ادبی کالم نگاری کو بام عروج تک پہنچادیا ہے۔ عطاء الحق قاسمی گزشتہ تیس برس سے بھی زائد عرصے سے روزنامہ ’’ نوائے وقت اور جنگ‘‘ میں کالم نگاری کر رہے ہیں، انہوں نے اپنے کالموں میں ادب، صحافت، سیاست ، مذہب اور فنون لطیفہ سے متعلقہ تقریباً ہر موضوع پر اپنے شوخ و شنگ اسلوب میں خامہ فرسائی کی ہے۔ اب تک عطاء الحق قاسمی کے کالموں کے کئی انتخاب شائع ہوچکے ہیں۔
مشفق خواجہ بنیادی طور پر تحقیق اور تنقیدکے آدمی ہیں لیکن اپنی اس تنقیدی بصیرت کو انہوں نے کمال ہنر مندی سے اپنے ادبی کالموں میں استعمال کیا ہے ان کی کالم نگاری کا سلسلہ 1970ء میں روزنامہ ’’ جسارت‘‘ شروع ہوا۔ ان کے فکاہیہ کالم مختلف اخباروں میں مختلف عنوانات کے علاوہ مختلف فرضی ناموں سے شائع ہوتے رہے لیکن ان کا سب سے مشہور کالم ’’ سخن در سخن‘‘کے عنوان سے ’’ خامہ بگوش‘‘ کے قلمی سے شائع ہوتا تھا۔ ان کے فکاہیہ کالموں کے موضوعات خالص ادبی ہیں۔ انہوں نے ادب، ادیب ، اور ادبی معاشرے کی ناہموار صورت حال ہی کواپنے طنز و مزاح کا نشانہ بنایا ہے۔ بقول خلیق انجم:
’’ خامہ بگوش (مشفق خواجہ) اردو دنیا کے واحد کالم نگار ہیں، جن کے کالموں کا بے چینی سے انتظار رہتا ہے۔۔۔ ہمیں کیا ہر ادیب کو رہتا ہے۔ بشرط یہ کہ کالم اس پر نہ لکھا گیا ہو‘‘۔ (کتاب نما دہلی جولا ی۱۹۹۵،ص؛۵۳ءٰ
پاکستان میں ایسے بے شمار کالم نگار گذرے ہیں جنہوں نے مزاحیہ کالم نگاری کو ایک وقار بخشا ہے اور آج بھی مزاح نگاری کی روایت کو آگے بڑھانے میں بعض قلم کار کوشاں نظر آتے ہیں۔مجتبیٰ حسین ایک جگہ پاکستان میں مزاحیہ کالم نگاری پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:
’’ ہمارے پڑوسی ملک پاکستان میں مزاحیہ کالم نگاری نہ صرف پروان چڑھی ہے بلکہ دن بدن ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے۔ پاکستان کے سارے ہی اخبارات میں مزاحیہ کالم پابندی سے شائع ہوتے ہیں۔ اگر چہ اب وہاں بھی شوکت تھانوی ، ابراہیم جلیس، مجید لاہوری، اور ابن انشاء جیسے پایہ کے کالم نگار نہیں رہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت کہ ان کی جگہ لینے کے لیے وہاں بہت سے نئے کالم نگار منظر عام پر آرہے ہیں ۔ نصر اللہ خان اور ندیم قاسمی تو خیر عرصہ سے لکھ رہے ہیں لیکن پاکستان آج کے کالم نگاروں میں مشفق خواجہ، انتظار حسین، منو بھائی ، عطاء الحق قاسمی، اختر امان انجم اعظمی، انجم رومانی ، محسن بھوپالی ایسے کالم نگار ہیں جنہوں نے مزاحیہ کالم نگاری کی روایت کو ایک نیا استحکام بخشا ہے‘‘۔ (اردو صحافت،ص:۲۲۶)
الغرض مزاحیہ کالم نگاری کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی اردو کالم نگاری کی ، کیونکہ اردو کالم نگاری کی ابتداء ہی مزاحیہ کالم نگاری سے ہوئی، اردو کالم کو فروغ دینے اور اسے مقبول بنانے میں مزاحیہ کالم نگاروں کا اہم رول رہا ہے اور آج بھی مزاحیہ کالم نگاری ہر اخبار کی زینت بنی ہوئی ہے موجودہ دور میں تقریباً ہر اخبار میں جو مزاحیہ کالم شائع ہوتا ہے۔مزاحیہ کالم کی اسی اہمیت کے پیش نظر ابتداء سے لے کر آج تک قارئین اسے کو بڑے ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں اردو میں مزاحیہ کالم کی مقبولیت و اہمیت کو دیکھتے ہوئے یہ کہاجاسکتا ہے کہ مستقبل میں بھی مزاحیہ کالم لکھے جانے کے امکانات روشن ہیں۔
Article: Urdu mein Mizahiya Column nigari ki riwayat
Writer : Dr. Md.Ismail Khan