میری اردو شاعری کی بیاض ۔ قسط 10- مرزا غالبؔ – – – – پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

Share

mirza ghalib  غالبؔشعرالہند ۔ میری اردو شاعری کی بیاض ۔ قسط 10
(شعراء کے دواوین اور سوانح سے کشید کیا ہواآب حیات )

پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

میری اردو شاعری کی بیاض قسط ۔9 ۔ کے لیے کلک کریں

مرزا غالبؔ (۱۷۹۷۔ ۱۸۶۹ء)

مرزا غالبؔ کا اصل نام مرزا اسد اللہ خان تھا، عرفیت مرزا نوشا تھی، تخلص شروع میں اسد تھا، بعد میں غالب ہوگیا، ان کی ولادت آگرہ میں ہوئی تھی، وہ ترک ایبک خاندان سے تعلق رکھتے تھے، غالب کے والد عبد اللہ بیک خان نواب اودھ آصف الدولہ کی سرکار میں ملازم تھے، بعد میں انھوں نے ریاست حیدرآباد دکن کے آصف جاہ دوم نواب نظام علی خاں کی ملازمت اختیار کرلی تھی، غالب کی عمر پانچ سال کی تھی کہ ان کے والد کا انتقال ہوگیا تھا، ان کے چچا نصر اللہ بیک خان نے جو آگرہ کے صوبہ دار تھے، ان کی پرورش کی اور نصر اللہ بیک کے انتقال کے بعد ان کی پینشن سات سو روپئے سالہ ۱۸۵۷ء تک غالب کو بھی ملتی رہی-

جب ہندوستان پر انگریز قابض ہوگئے تو تین سال کے لئے یہ پنشن بند ہوگئی، بہادر شاہ ظفر نے ان کو پچاس روپئے ماہانہ تنخواہ مقرر کرکے تیمور ی خاندان کی تاریخ لکھنے پر مامور کیا، ۱۸۵۴ء میں جب حضرت ذوق کا انتقال ہو گیا تو ظفر اپنا کلام غالب کو دکھانے لگے، غدر کے بعد ولی اودھ واجد علی شاہ کے یہاں سے پانچ سو روپئے سالانہ جو رقم ملتی تھی وہ بھی موقوف ہوگئی، ۱۸۵۹ء میں نواب رامپور نے سو روپئے ماہانہ وظیفہ مقرر کر دیا جو ان کی وفات تک ملتا رہا۔ غالب کچھ دن رامپور میں بھی رہے اور پنشن کی واہ گذاری کیلئے براہ بنارس کلکتہ بھی گئے، ۱۸۵۷ء کے تمام دلدوز واقعات ان کی نظروں سے گذرے او ر انھوں نے دہلی شہر کی تباہی وبربادی اپنی آنکھوں سے دیکھی، بہر حال ان کے زندگی کی شمع ۷۳ برس تک ہر رنگ میں جلتی رہی، انتقال کے بعد درگاہ نظام الدین اولیاء میں مدفون ہوئے۔
مرزا غالب کا شعری مجموعہ دیوان غالب کے نام سے معروف ہے، یہ دیوان مختصر ہے ، لیکن جتنا مختصر ہے اتناہی مقبول اور دنیائے شاعری میں معتبر ہے، غالب کی شاعری گنجینہ معانی ہے، اس میں معنی کی گہرائیاں اس قدر ہیں کہ ناقدوں نے اسے الہامی کتاب قرار دیا ہے، نظم طباطبائی سے لیکر مالک رام تک متعدد اہل دانش وادب نے کلام غالب کی شرحیں لکھی ہیں، گنجینہ معانی کے طلسم سے ہر شخص مسحور ہوجاتا ہے، گانے والوں نے اور گلو کاروں نے ان کی غزلیں گائی ہیں، اور مشہور مصور عبد الرحمن چغتائی نے دیوان غالب کو مرقع چغتائی کی شکل میں نہایت اعلی پیمانے پرشائع کیا ہے اور اشعار کی تشریح مختلف رنگوں اور تصویروں کے ذریعہ کی ہے، غالب نے بچین سے شاعری کی تھی اور مغلیہ سلطنت کی تاریخ بھی لکھی تھی، لیکن یہ تاریخ مکمل نہ ہوسکی اور مغلیہ سلطنت کا بھی خاتمہ ہوگیا، غالب کا کلام آسان بھی ہے اور مشکل بھی ہے، انسان کی عظمت کے بارے میں بھی ان کے اشعار ہیں :
جامِ ہرذرہ ہے سرشار تمنا مجھ سے
کس کا دل ہوں کہ دو عالم سے لگایا ہے مجھے
یعنی غالب ؔ یہ کہتے ہیں کہ مجھے ساری کائنات کا مرکز بنادیا گیا ہے اور ساری رونق انسان کے دم سے ہے اور اس کائنات کی ہر چیز میری ضرورت کے لئے ہے ، عالم حیوان ہو یا نباتات سب میری وجہ سے ہیں ، وہ سوال کرتے ہیں کہ مجھ میں یہ کشش کہاں سے آئی اور آخر میں کس کا دل ہوں اس طرح غالب نے اس ایک شعر کو گنجینہ معانی بنا دیا ہے، اور انسان یہ سونچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ساری کائنات اس کے لئے مسخر کردی گئی ہے، اور ہرذرہ انسان کا طلبگار ہے، اور ہر تخلیق انسان کی محتا ج ہے، غالب کے ایک ایک شعر میں موتی سموئے ہوئے ہیں، اور تین صدیوں کے گذرنے کے باوجود اور اقبال جیسے شعراء کے منظر ادب پر آنے کے باوجود غالب کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے، اور غالب پر کتابیں اور تحریریں منظر عام پر آرہی ہیں۔
غالب ؔ کا دیوان اردو ان کی زندگی ہی میں طبع ہوگیا تھا، انھوں نے بہت سے اشعار خود قلم زد کردئے تھے، لیکن غالب کا ہر شعر مقبول اور زبان زد عام وخاص ہے، غالب کے چندمشہور اشعار یہ ہیں:
آتش کدہ ہے سینہ مرا راز نہاں سے
اے وائے اگر معرض اظہار میں آوے

کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود کا پشیماں کا پشیماں ہونا

قرض کی پیتے تھے مے لیکن یہ سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائیگی ہماری فاقہ مستی ایک دن

تھی جو اک شخص کے تصور سے
اب وہ رعنائی خیال کہاں

دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جاناکہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

قید حیات وبند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی سحر ہونے تک

کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق
ہر مکرر لب ساقی پہ صلہ میر ے بعد

ہوس کو ہے نشاط کا ر کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا

رہا آباد عالم اہل ہمت کے نہ ہونے سے
بھر ے ہیں جس قدر جام و سبومے خانہ خالی ہے
غالبؔ کی طبیعت میں وضع داری اور خود داری بہت تھی، دہلی کالج ۱۸۲۵ ء میں قائم ہوا تھا، اسلامی علوم کے ساتھ یورپ کے علوم کی بھی اس میں تدریس ہوتی تھی اردو کے بہت مصنفوں او رادیبوں نے اس کالج سے تعلیم حاصل کی ۱۸۴۰ء میں انگریزی حکومت میں اس کالج کے لئے فارسی کے استاذ کی بھی ضرورت محسوس کی ، غالب کا نام تجویز ہوا ، وہ بلائے گئے غالب پالکی میں سوار ہوکر کالج گئے ، اتر کر کھڑے ہوئے ، انتظار کرنے لگے کہ سیکریٹری صاحب ان کا استقبال کریں گے ، جیسے دو دن پہلے ان کی آمد پر اور اس منصب پر بحالی کیلئے ان کا استقبال کیا گیا تھا، مگر سکریٹری صاحب اس بار نہیں آئے ، سکریٹری صاحب نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ غالب آئے تھے اور چوں کہ ان کا استقبال نہیں کیا گیا اس لئے وہ باہر ہی سے واپس چلے گئے ، سکریٹری صاحب نے کہا غالب کی بحالی ہوچکی اب وہ اساتذہ کی صف میں شامل ہوگئے ، اب انھیں خود سے آنا چاہئے تھا، غالب کو معلوم ہوا تو انھوں نے جواب میں کہا کہ نوکری کا ارادہ اس لئے کیا تھا کہ عزت اور بڑھے گی نہ کہ موجودہ وقار میں کمی ہوجائیگی:
بندگی میں بھی خودبیں وخود آرا تھے کہ ہم
الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا

Share
Share
Share