دنیا کا پراسرار ترین جانور
اونٹ Camel
ڈاکٹرعزیزاحمدعُرسی، ورنگل
موبائل : 09866971375
افلا ینظرون الی الابل کیف خلقت ۔ ( الغاشیہ۔۱۷)
( یہ لوگ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے (عجیب) پیدا کئے گئے ہیں )
اونٹ کوحیوانی عجوبوں کی فہرست میں نمبر ایک درجہ دینے کی وجہہ مندرجہ بالا آیت ہے جس میں واضح طور پر بتادیا گیا ہے کہ یہ غیر معمولی خصوصیات رکھنے والا جاندار ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کیونکہ اونٹ کے جسم کی ساخت اور اس کے عادات و اطوار سے ہٹ اس میں کئی چیزیں ایسی ہیں جو تمام عالم انسانیت کے لئے فائدہ مندہیں، دور حاضر میں سائنس جیسے جیسے اس جاندار کے متعلق تحقیقات کرتی جارہی ہے اس کے متعلق نئی نئی باتیں معلوم ہوتی جارہی ہیں۔مثال کے طور پر صرف اس کے دودھ ہی کو لیجئے جس میں حیرت انگیز خصوصیات پائی جاتی ہیں،اس کے دودھ میں کینسر، شوگر اور کئی اعصابی بیماریوں کا قدرتی علاج موجود ہے ۔اس کے گوشت میں پروٹین زیادہ پایا جاتا ہے لیکن اس میں کولیسٹرال کم ہوتاہے-
اسی لئے دور حاضر میں سائنسدانوں کی جانب سے انسانوں کواونٹ کا گوشت استعمال کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے ۔ اونٹ کی بعض نسلوں کا اون(Wool) نوعیت کے اعتبار سے دنیا کا بہترین اون ہے، اس کے علاوہ بھی بہت ساری ایسی خصوصیات ہیں جس نے مجھے اس جاندار کو نمبر ایک درجہ دینے پر مجبور کیا ،جس کا ذکر آگے مضمون میں اجمالاً آئے گا۔میں جب کبھی مندرجہ بالا آیت پر غور کرتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اس مضمون میں بیان کردہ حقائق ہی نہیں بلکہ اس میں بہت کچھ اور ہے جس کا انکشاف و اظہار آے والے دور میں ہونے والا ہے،کیونکہ خدا نے اس کی تخلیق کو ایک چیالنج کے طور پر پیش کیا ہے کہ ’’ کیا یہ نہیں دیکھتے اونٹ کو کہ اسے کیسے تخلیق کیا گیا‘‘۔
عربی زبان میں اونٹ کو اُبل بھی کہا جاتا ہے جس کا ذکرقرآن میں الانعام اور الغاشیہ میں موجود ہے۔اسی طرح لفظ جمل الاعراف اور المرسلات میں استعمال ہوا ہے۔اونٹ کو عربی میں’’ ناقہ ‘‘ کہا جاتا ہے ۔جوسورۃ الاعراف (دومرتبہ) ،سورہ ھود،سورہ بنی اسرائیل، سورۃ الشعراسورۃ القمر اورسورۃ الشمس میں استعمال ہوا ہے ۔ باربرداری کے لئے استعمال ہونے والے اونٹ کو بعیرجس کا ذکرسورہ یوسف میں ہے۔ سورہ المائدہ میں بحیرہ لفظ استعمال ہوا جسکے معنی کان پھٹی ہوئی اونٹنی کے ہیں۔ قربانی کے اونٹ کو ’بدن‘ کہا جاتا ہے۔ جو سورہ الحج میں موجود ہے دس مہینے کی گابھن اونٹنی کے لئے لفظ’ عشار‘ استعمال ہوتا ہے جس کا ذکر سورہ التکویر میں ہے ، اونٹ کی کونچیں کاٹنے کیلئے عربی میں’’ عقر‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتاہے ۔ جوالاعراف،الشعرا ، ھود، الشمس اور القمر میں موجود ہے۔
بائیبل اورتوریت میں بھی اونٹ کا ذکرموجود ہے۔ Genesis 24:10; Leviticus 11:4; Isaiah 30:6; Matthew 3:4; 19:24; 23:24 دور حاضر کی بعض کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ ’’توریت میں اونٹ کھانے کی ممانعت ہے‘‘اس بات میں کہاں تک حقیقت ہے یہ کہنا مشکل ہے ۔ہندو مذہب کی بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ لارڈ ہنو مانؔ نے اونٹ کی سواری کی تھی۔دنیا کی دوسری اقوام بھی اونٹ کو اہمیت دیا کرتے تھے آتش پرست مذہب ’زردشت‘ ی مذہبی کتاب کا نام Avesta ہے جس کے معنی خود ’’سنہرے اونٹ کا مالک ‘‘ہے ۔
ہندوؤں کی ایک مقدس کتاب ’’اتھر ویدا‘‘ Kuntap Suktas کے منتر نمبر دو میں لکھ اہے کہ ’’ایک رشی آئے گا جو اونٹ پر سوار ہوگا اس کا رتھ جنت کی اونچائی کو چھورہا ہوگا ‘‘ اس منتر کا مطلب اس منتر کی شرح کرنے والے مفسرین نے یہ سمجھایا ہے کہ یہ رشی سرزمین عرب سے تعلق رکھنے والے ہونگے ،مفسرین نے ہندوستانی رشی کے امکانات کو اس لئے نکار دیا کیونکہ Manu pg. 472 Laws of جلد 25میں لکھا ہے کہ ’’برہمن اونٹ اور گدھے کی سواری نہ کرے‘‘ یعنی یہ رشی کوئی دوسرے نہیں بلکہ ہمارے بنی حضور ﷺ ہی ہیں ۔اس طرح اونٹ کا تذکرہ ہندوؤں کی مقدس کتابوں میں بھی موجود ہے ۔ ہمارے رسول ﷺ اونٹ کی سواری کو پسند فرماتے تھے خصوصاً قصوا اونٹ کو بہت پسند تھا، قصوا کے علاوہ آپؑ کے استعمال میں رہنے والے اونٹوں کے نام عضاء اور جدعاء تھے۔
اونٹ ایک پستانیہ ہے جو Camelidae خاندان سے تعلق رکھتا ہے، سائنسی اعتبار سے یہ خاندان جملہ چھ جانداروں پر مشتمل ہوتا ہے ان چھ کے منجملہ صرف دو صحیح معنوں میں اونٹ ہیں جبکہ بقیہ چار اونٹ نما جاندار ہیں جو صفات کے لحاظ سے ان اونٹوں سے قربت بلکہ بہت حد تک مماثلت رکھتے ہیں۔یہ چار اونٹ جنوبی امریکہ کے متوطن ہیں جو عام اونٹ سے قدرے چھوٹے ہوتے ہیں۔ ان پر کوہان نہیں پایا جاتا۔ بلکہ جسم پر بکثرت بال پائے جاتے ہیں ، اونٹ کے بالوں سے کئی مصنوعات بنائی جاتی ہیں۔ یہ پہاڑی علاقوں میں رہتے ہیں۔ ان علاقوں میں پہاڑوں کی اونچائی پر انسان کی بود و باش ان ہی جانوروں کی وجہ سے ممکن
ہے۔عام طور پر ان کی عمر 40 تا 50برس ہوتی ہے، یہ چار اونٹ حسب ذیل ہیں۔
(۱)۔ Llama: یہ سماجی جاندار ہے جو تربیت دینے پر بآسانی سیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس جاندار کو مال برداری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اس جاندار کو اونٹ کی مخصوس پہچان ’’کوہان‘‘نہیں ہوتا۔تقریباً چھ فٹ اونچے اس جاندار کا وزن 200 کلو ہوتا ہے۔ جو ھمہ رنگ ہوتے ہیں ،اس جاندار کا گوشت اور دودھ استعمال کیاجاتا ہے ۔اس کے جسم پر گھنے بال پائے جاتے ہیں ،ان کے بالوں سے اونی کپڑے بنائے جاتے ہیں جو ہلکے اور پائیدار ہوتے ہیں، اس جاندار کو عام طور پر میدانوں میں چرنے والی بکریوں کی حفاظت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ مختلف آوازیں نکال سکتا ہے اورجذبات کے اظہار کے لئے کبھی کبھی شور بھی مچاتا ہے، ان میں تھوکنے کی صلاحیت ہوتی ہے جب یہ ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں تو تھوکتے ہیں۔یہ انسانوں کے ساتھ رہتے ہیں لیکن انسانوں پر تھوکنے کے واقعات عموماًسامنے نہیں آتے لیکن جب انسان کسی بات پر اس کو مارنے لگتا ہے تو یہ نفرت کا اظہار کرتے ہوئے اس پر تھوک دیتے ہیں۔
(۲) Alpaca : یہ لاما سے چھوٹا ہوتا ہے ، یہ وزن اٹھانے کے مناسب نہیں ہوتا بلکہ اس کی پرورش اون کے لئے کی جاتی ہے جس سے بلانکٹ، سویٹرس وغیرہ بنائے جاتے ہیں۔اس کے بالوں میں بو نہیں ہوتی اور یہ مضبوط بھی ہوتے ہیں تجارتی اعتبار سے ان کی کافی زیادہ اہمیت ہے۔
(۳) Vicuna : اونٹ کا یہ رشتہ دار اپنے قیمتی اور بہترین نوعیت کے بالوں کے لئے مشہور ہے،بلکہ بعض لوگوں کے نزدیک اس کا اون گرم لباس بنانے کے لئے دنیا کا بہترین اون ہے، یہ جاندار پانچ فٹ لمبا اور تقریباً تین فٹ اونچا ہوتا ہے۔
(۴) Guanaco : یہ اونچائی پر رہنے والا جاندار ہے اس قدر اونچائی پر عموماًً اکسیجن کی سطح کم ہوتی ہے اسی لئے ان میں سرخ جسیموں کی تعداد انسان کے مقابلے چار گنا زیادہ ہوتی ہے، 100کلو وزنی یہ جاندار تین فٹ اونچا ہوتا ہے۔
ایک عام تصور ہے کہ ریگستان میں انسانوں نے اسی وقت بود و باش اختیار کی جب کہ وہ اونٹ کی نسل کو پالتو بنائے جانے کے فن سے واقف ہوئے۔ تاریخ عالم کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اونٹ نے ایشیا اور افریقہ کی اقوام کے درمیان روابط کو پیدا کرنے اور انہیں استوار رکھنے میں بڑی ذمہ داری نبھائی ہے۔ زمانہ قدیم میں ایرانی اور عرب تجار نے ان جانوروں کا کثرت سے استعمال کیا۔ نہ صرف تجارت بلکہ جنگوں میں بھی انکا استعمال ہوا کرتا تھا۔ قبل مسیح میں ایک ایرانی بادشاہ Cyrus II نے محض اونٹوں کی وجہ سے جنگ جیتی تھی۔ اہل فارس اونٹ کی بڑی قدر کرتے تھے۔ اور اپنے بچوں کے نام ’’فراشوطرا‘‘ رکھتے ہیں۔جسکے معنی اونٹ کے مالک کے ہیں۔
Article : Camel
Writer : Dr.Aziz Ahmed Ursi
One thought on “اونٹ Camel – – – – – ڈاکٹرعزیزاحمدعُرسی”
اچھا تفصیلی مضمون لیکن تشنگی باقی رہ گئی. دودھ اور گوشت میں موجود غذائی کیمکلس کی تفصیلات بھی لکھ دی جاتیں تو بہتر رہتا تھا. ویسے مسلمانوں کو اونٹ سے خاص انسیت ہے جسکی وجہہ ایک تو عرب میں کثرت سے ہونا بلکہ عربی ہی گردانا جاسکتا ہے. دوسرے حضور صل اللہ علیہ و سلم کو پسند ہونا، تیسرے قرآن میں ذکر کیا جانا خاص ہیں. قرآن مجید میں بیان کردہ ناموں کا بھی تفصیل سے ذکر فاضل مصنف نے کیا ہے جو ان کے گہرے مطالعہ کا ثبوت ہے. ڈاکٹر عرسی صاحب سے گزارش ہے کہ اونٹ کے سلسلے میں جدید دریافتوں سے آگاہ رکھیں تو ہم سب کے لئے کارآمد ثابت ہو سکتا ہے.