حضرت فی الحالؔ
(بارہویں صدی ہجری کے ایک صاحبِ طرز دکنی صوفی شاعر)
پروفیسرابوالفضل سید محمود قادری
سابق صدر شعبہ اردو
عثمانیہ یونیورسٹی پی جی کالج حیدرآباد
حضرت سید شاہ عبدالقادر قادری فی الحالؔ دکن میں بارھویں صدی ہجری کے ایک باکمال اور صاحبِ طرز شاعر گذرے ہیں۔ اُردو ادب کے اکثر محققین اور تذکرہ نگار حضرات نے ان کے بارے میں مختلف اور متضاد خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ڈاکٹر سید محی الدین قادری زورؔ ’’تذکرہ مخطوطات ادارۂ ادبیات اُردو (جلددوم)‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’ فی الحال تخلص کے کوئی صوفی بزرگ غالباً میسور کے علاقے میں گذرے ہیں، جو کسی اور بزرگ سید قدرت اللہ شاہ قادری کے خلیفہ اور مرید تھے، چنانچہ ان کے دیوان کی اکثر غزلوں کے مقطعوں میں ان قدرت اللہ عارف باللہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ فی الحالؔ صاحب کا کلام زیادہ ترتصوف اور عالم جدب کی پیداوار معلوم ہوتا ہے۔ بعض بعض جگہ شعر تقطیع سے گر بھی گئے ہیں۔ پورا دیوان معمولی نستعلیق خط میں لکھا گیا ہے۔ اور غالباً یہہ نسخہ ۱۲۶۳ ہجری میں ’’ مقالۂ پارسی‘‘ کے ساتھ لکھا گیا ہے‘‘
ایک اور جگہ ’’ مقالۂ پارسی‘‘ کے بارے میں ڈاکٹر زورؔ نے تحریر فرمایا ہے کہ :
’’ مقالۂ پارسی مصنفۂ محمد سعید مہمند المتخلص بہ مستمندؔ قواعد فارسی کا یہہ رسالہ معمولی نستعلیق خط میں ۱۲۶۳ ہجری میں نقل کیا گیا ، یہہ نسخہ اور اس کے ساتھ چند اور قلمی اور مطبوعہ کتب محمد اباسیٹھ صاحب میسور کی عطیہ ہیں‘‘
شاید خارجی شواہد کی بناء پر ڈاکٹر زورؔ نے حضرت فی الحالؔ کو میسور کے علاقہ کا شاعر قراردے دیا۔ ڈاکٹر زورؔ کی غلط فہمی کی ایک وجہ غالباً یہہ بھی ہوسکتی ہے کہ حضرت فی الحالؔ کا دیوان انھیں ایک ایسے صاحب سے ہمدست ہوا جن کا تعلق میسور سے تھا۔
جناب نصیر الدین ہاشمی نے کتب خانۂ سالار جنگ کی وضاحتی فہرست میں بہ عنوانِ تصوف و اخلاق اس طرح تحریر فرمایا ہے کہ:
’’ چکی نامہ اور شادی نامہ کے مصنف غوثیؔ ، تاریخ تصنیف مابعد ۱۱۰۰ ہجری ان تصانیف کے مصنف کا نام غوثیؔ معلوم ہوتا ہے، اور یہہ بھی واضح ہوتا ہے کہ سید قدرت اللہ ان کے مرشد تھے۔ لیکن تذکرۂ اولیائے دکن میں کسی قدرت اللہ کا ذکر نہیں ہے‘‘
جناب نصیر الدین ہاشمی نے اس مثنوی کی داخلی شہادتوں کے باوجود بھی شاید سہو نظری کی وجہ سے اس کے مصنف کا نام غوثیؔ قرار دے دیا ، جبکہ خود حضرت فی الحالؔ نے اپنی مثنوی ’’ چکی نامہ‘‘ کا ایک اور نام غوثی نامہ تحریر کیا ہے ، یعنی یہہ دو الگ الگ مثنویاں نہیں ہیں بلکہ ایک ہی مثنوی کی دو نام ہیں، اور اس مثنوی کے اختتام پر یہہ شعر موجود ہیں۔
فی الحالؔ صاحب قادری غلام ہو کر آیا
کامل پیرکے کو نشان سر پو آن پنچہ لایا
قدرت اللہ کامل پیر مرشد میرا
وحدت کے پھولاں کا جس کے ہے سر سہرا
اسی طرح حضرت فی الحالؔ کی ایک اور مثنوی ’’ شادی نامہ‘‘ کے اختتام پر بھی مصنف کے تخلص فی الحالؔ کا صاف پتہ چلتا ہے اور اس کے بعد کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ مصنف نام بجا فی الحاؔ ل کے غوثیؔ قرار دیا جائے۔
جناب سید غوث محی الدین رضوی شرفی مؤلف ’’ شرف الانساب‘‘ حضرت فی الحالؔ کے بارے میں یوں تحریر فرماتے ہیں ۔۔۔
’’ غلام عبدالقادر عرف فی الحالؔ شاہ فاروقی قادری کرنول کا سلسلہ نسب حضرت شیخ فریدالدین گنج شکرؒ فاروقی کو ملکر امیرالمومنین حضرت عمرفاروق ؒ کو پہنچا ہے‘‘
’’ شرف الانساب‘‘ کی تالیف ۱۳۳۲ ہجری میں ہوئی جو ایک طرح سے حال کا زمانہ ہے ، اس کے مؤلف کی نظر سے شائد تاریخ اولیائے کرنول اور بیجاپور کے اولیائے کرام کے حالات نہیں گذرے، اس کے علاوہ یہہ بات بھی واضح تھی کہ حضرت فی الحالؔ کرنول کی کوئی گمنام اور غیر معروف شخصیت نہیں تھے اور ان کا خاندان آج بھی کرنول کے باوقار ساداتِ کرام میں گنا جاتا ہے۔ مؤلف شرف الانساب کی غلطی فہمی کی ایک وجہ شائد حضرت فی الحالؔ کی حضرت نورالدین چشتی بیجاپوری سے بیعت سے ارادت، ان کے ہاں سکونت و قیام اور کچھ عرصہ اپنے والد کے ترک وطن کے بعد بھی بیجاپور میں فروگتی ہوسکتی ہے۔ حضرت نور الدین چشتی کا سلسہ نسب ضرور حضرت شیخ فرید گنج شکر ؒ سے ملتا ہے اور حضرت فی الحالؔ کا سلسلہ نسب بالکل دوسرا ہی ہے، یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ حضرت فی الحالؔ اپنے خاندانی سلسلۂ قادریہ میں بیعت و خلافت رکھنے کے باوجود حضرت نورالدین کے سلسلۂ چشتیہ سے بھی منسلک ہوگئے تھے اور شاید اس کی وجہ سے بھی بات اس حد تک پیچیدہ ہوگئی کہ سلسلہ اردت کو سلسلۂ نسب سمجھ لیا گیا۔
حضرت فی الحالؔ کا اسم گرامی سید شاہ عبدالقادر قادری ہے اور یہہ حسنی سادات سے ہیں۔ ان کا خاندان گیارہویں صدی ہجری سے آج تک کرنول میں آباد ہے۔ حضرت فی الحالؔ کے والد بزرگوار اور پ یر طریقت حضرت سید شاہ قدرت اللہ قادری المعروف بہ کنگال شاہ کا شمارکرنول کے اولیائے کبار میں ہوتا ہے۔ ان کا مزار کرنول کے شمال مغرب میں سات میل کے فاصلہ پر دریائے تنگبھدرا کے کنارے بام پور میں واقع ہے اور جو آج بھی مرجع خلائق ہے۔ اور جن کا سالانہ عرس بڑے اہتمام سے ۲؍جمادی الثانی کو ہوتا ہے۔
حضرت سید شاہ قدرت اللہ قادری کنکال میں پیدا ہوئے۔ یہہ مقام بیجاپور سے چودہ کوس کے فاصلہ پر واقع ہے۔ ان کا سلسلہ بیعت حضرت سید شاہ ظہیر الدین قادری سے ملتا ہے، جو ان کے والد بزرگوار اور صاحبِ عرفان بزرگ تھے اور بیجاپور کے صوفی بزرگ حضرت سید شاہ امین الدین اعلیٰ کے ہم عصر بھی تھے۔
سید شاہ قدرت اللہ قادری کو اپنے خاندانی سلسلہ قادریہ کے علاوہ چشتیہ سلسلے میں بیجاپور کے صوفی بزرگ حضرت نورالدین چشتی سے بھی بیعت و خلافت حاصل تھی۔ حضرت کنگال شاہ اپنی ایلیہ کے انتقال کے بعد ترکِ وطن کرکے تنہا کنکال سے واردِ کرنول ہوئے اور بام پور میں سکونت پذیر ہوئے اور اپنے روحانی اور باطنی فیوض سے اہل کرنول کو فیضیاب فرماتے رہے ۔ انہوں نے ۱۱۸۰ء ہجری میں انتقال فرمایا ۔ کتبۂ مزار سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ :
قدرت اللہ قادری رحلت نمود
عرف اُو کنگال شاہ مشہور بود
عارفِ حق واقف عین الیقیں
کاشف اسرار آن رب الودود
سال فوتش صوری و معنوی از حساب
سن ہزار یک صد بجو ہشتاد بود
حضرت سید شاہ عبدالقادر قادری فی الحالؔ بھی کنکال بیجاپور میں پیدا ہوئے یہہ وہ زمانہہے جبکہ سلطان سکندر عادل شاہ بیجاپور پر حکمران تھا اور یہہ کم و بیش وہی دور ہے جبکہ گولکنڈہ میں سلطان عبداللہ قطب شاہ مسند آرائے سریر حکومت تھا۔ جب ان کے والد بزرگوار نے اشاعتِ دین کی خاطر ترکِ وطن فرمایا تو یہہ اپنے چشتیہ پیر طریقت حضرت نورالدین چشتی کے یہاں کچھ عرصہ ٹھیر گئے۔ اور بعد کو اپنے والد کی ایماء پر کرنول چلے آئے اور پھر یہیں کے ہورہے ۔ اپنے خاندانی سلسلۂ رشد و ہدایت اور تعلیم و تعلم کو باقی رکھا اور اپنے والد بزرگوار کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے سلسلہ بیعت کے فیضان کو جاری رہنے دیا، حضرت فی الحالؔ کا انتقال ۱۲۱۲ ہجری میں کرنول میں ہوا، ان کا مزار اپنے والد کے مزار سے پانچ میل کے فاصلہ پر کرنول کے شمائل مغرب میں دریائے تنگبھدرا کے کنارے ماں صاحبہ مسجد کے قریب واقع ہے۔ ان کا سالانہ عرس ۱۰؍شوال کو ہوتا ہے۔
حضرت فی الحالؔ پایہ کے صوفی اور صاحبِ طرز شاعر گذرے ہیں جبکہ اسی دور میں بیجاپور میں ان کے ہم عصر شعرأ میں مختارؔ مصنف معراج نامہ و معجزۂ خاتونِ جنتؓ اور معظمؔ مصنف گلزارش جنت جیسے باکمال شاعر ملتے ہیں اور ان سارے شعرأ کے کلام کے مطالعہ سے یہہ بات واضح ہے کہ اس پورے عہد پر ایک طرح سے مذہب اور تصوف کی گہری چھاپ موجود ہے اور یہی بات حضرت فی الحالؔ کے ہاں بھی نمایا ں ہے۔ اسی طرح اگر ہم حضرت فی الحالؔ کے گولکنڈے کے ہم عصر شعرأ محبؔ مصنف معجزۂ فاطمہؓ، کبیرؔ مصنف قصۂ تمیم انصاری، اولیاؔ ء مصنف قصۂ ابو شحمہ ، خواصؔ مصنف قصۂ حسینی ، فایزؔ مصنف رضوان شاہ و روح افزأ ، افضل مصنف محی الدین نامہ ، اور فتاحیؔ مصنف مفید الیقین اور شعب الایمان کے کلام کا مطالعہ کریں تو یہہ بات قدرِ مشترک کی حیثیت سے واضح ہے کہ دکن کے اس سارے علاقے کی شاعری پر یعنی بیجاپور سے گولکنڈہ تک مذہب اور تصوف کا رنگ چڑھا ہوا ہے اور اسی ایک رنگ کے زیر اثر اس دور کی دکنی شاعری پروانچڑھتی رہی ہے۔
حضرت فی الحالؔ کے ہمیں دو دیوان دستیاب ہوتے ہیں جن میں ایک فارسی ہے اور دوسرا اُردو ، جو ان کے صوفیانہ مذہبی اندازِ فکر کے ترجمان ہیں، ایک طرح سے انہوں نے اپنے عہد کی شاعرانہ روش کی نمائندگی کی ہے، وہ غزل کے بھی ایک پایہ کے شاعر معلوم ہوتے ہیں، ہمیں ان کی چار مثنویاں بھی ملتی ہیں۔ جن کے نام یہہ ہیں ، (۱) چکی نامہ یا غوث نامہ (۲) شادی نامہ (۳) پیت نامہ (۴) ارشاد نامہ ، ان کے علاوہ مخمس کے طرز میں ایک طویل نظم اٹھارہ (۱۸) بند پر مشتمل ملتی ہے، جس کا ہر چوتھا اور پانچواں مصرعہ ہربند میں اس طرح سے موجود ہے کہ :
جاگیو جاگنا بھلا ہے گا
جاگنے سے خدا ملا ہے
حضرت فی الحالؔ اپنے والدین کی اکلوتی نرینہ اولاد تھے۔ یہہ بھی حسن اتفاق ہے کہ انہیں بھی ایک ہی نرینہ اولاد تھی، جن کا نام سید شاہ قدرت اللہ قادری ثانی تھا، وہ بھی ایک اچھے اور صاحبِ دیوان شاعر گذرے ہیں، ان کا تخلص فی الفور تھا، ہمیں ان کے ایک دیوان کے علاوہ مثنوی ’’جھوجھو نامہ‘‘ میں ملتی ہے جو تصوف کے موضوع پر ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس خاندان کو شاعری کا ذوق ورثہ میں ملا ہے، چنانچہ اس خاندان کے سلسلے میں ہمیں بہت سے ایسے شعرأ ملتے ہیں جو نسلاًبعد نسل کرتے چلے آرہے ہیں۔ حضرت سیدشاہ قدرت اللہ ثانی فی الفورؔ کے ایک فرزند سید شاہ عطاء اللہ قادری تھے، جو عطاؔ تخلص کرتے تھے اور انہوں نے بھی اپنا ایک دیوان یادگار چھوڑا ہے ۔ ان کا مزار بھی حیدرآباد میں اپنے والد بزرگوار ہی کے پہلو میں واقع ہے۔ ان کے حقیقی بڑے بھائی کے ایک فرزند سید شاہ ظہیر الدین قادری بھی صاحبِ دیوان شاعر گذرے ہیں۔ ان کا تخلص ظہور تھا ۔ اسی خاندان کے ایکاور کہنہ مشق شاعر الحاج سید امین الدین قادری امینؔ اس وقت موجود ہیں اور آج کل بجائے کرنول کے کملا پور، ہاسپیٹ، علاقۂ میسور میں فروکش ہیں اور ان دنوں اپنے دیوان کی ترتیب و تدوین میں مصروف ہیں۔ یہہ نہ صرف کہنہ مشق غزل گو ہیں بلکہ ایک اچھے نعت گو شاعر بھی ہیں، ان کے ایک اور چھوٹے بھائی سید وحید الدین قادری ہیں جنہوں نے حال ہی میں وینکٹیشورا یونیورسٹی سے اُردو میں ایم۔اے کیا ہے، یہہ بھی ایک ابھرتے ہوئے سلیقہ کے شاعر ہیں اور کوثرؔ تخلص کرتے ہیں۔
غرض اس خاندان میں حضرت فی الحالؔ سے لے کر کوثرؔ تک کے سارے شعرأ کا کلام اور ان کی تصانیف کے قلمی نسخے اس خاندان کا ادبی ورثہ ہیں، جو جناب سید احمد محی الدین قادری سجادہ نشین آستانۂ بام پور کے پاس محفوظ حالت میں موجود ہیں۔ اب یہہ کام نہ صرف اس خاندان کا ہے بلکہ اُن حضرات کا بھی ہے جو اُردو زبان و ادب کی تحقیق و تدقیق میں مصروف ہیں اور اس کے ساتھ اُردو والوں پر بھی اس کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ دورِ قدیم کے ان شعرأ پر ریسرچ کریں اور ان کی زندگی کے حالات اور ان کے علمی اور ادبی کارناموں کو بعد تحقیق شائع کریں تاکہ اِن بزرگوں کے شاہکار اپنا صحیح ادبی مقام حاصل کرلیں۔
(مشمولہ مقالات محمود قادری ۔ مرتب : ڈاکٹرعطااللہ خان)