احکام و مسائل قربانی
محمد رضی الدین معظم
حیدرآباد ۔2
مخصوص دنوں میں مخصوص جانوروں کے ذبح کرنے کا نام قربانی ہے۔ قربانی کی احادیث میں کئی با رثروت و فضیلت بیان کی گئی ہے۔ قربانی کرنے سے جوں ہی قربانی کے ذریعہ خون کا پہلا خطرہ زمین پر گرتا ہے تو بفضل سبحانہ تعالیٰ صاحب قربانی (یعنی جس کی طرف سے قربانی کی جائے) کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور قربانی کے ایک ایک بال بلکہ ہر ہر رونگٹے کے عوض ایک ایک نیکی نامۂ اعمال میں لکھی جاتی ہے۔ جس گھر یا حصہ میں قربانی کی جاتی ہے وہ گھر یا حصہ صاحب قربانی کے لئے دعا کرتا ہے۔ جس کی بدولت گھر میں امن و امان ‘ راحت و فرحت‘ مسرت‘ صحت ‘ و عافیت اور صاحب خانہ کے مال و متاع میں خیر و برکت ،فضل و عافیت بفضل ربی ہوتی ہے ۔
قربانی کرنا واجب ہے :
قربانی کرنا ہر آزاد‘ مقیم اور صاحب نصاب مسلمان ( مرد و عورت ) پر واجب ہے۔ لیکن غلام ‘ مسافر اور محتاج پر واجب نہیں ہے۔ صاحب نصاب سے مراد مسلمان مرد و عورت جن کی اصلی ضروریات یعنی سکونتی رہائشی مکان و اسباب خانہ داری کے علاوہ اگر سونا چاندی کسی حال میں ہوں ( سونا ‘ چاندی ‘ زیور ‘ برتن وغیرہ ) موجود ہوں۔ سونے کا نصاب ۲۰ مثقال یعنی ۵ تولے ڈھائی ماشے اور چاندی کانصاب ( ۲۰۰ ) درھم یعنی ۳۶ تولے ساڑھے پانچ ماشے ہو قربانی کرنا واجب ہے۔ ہاں سکونتی مکان کے سوا ء زائد مکان ‘ مکانات‘ زمین ‘ زمینات‘ باغ ‘ جائداد وغیرہ ہوں ‘تب ان پر قربانی واجب ہے۔ قربانی کے نصاب پر بھی صدقۂ فطر کی طرح سال کا گزرنا ضروری نہیں جس طرح صدقۂ فطر واجب ہوتا ہے‘ اسی طرح قربانی بھی واجب ہوتی ہے۔ قربانی اپنی ذات کی طرف سے کرنا واجب ہے ۔ بیوی ‘ بچوں وغیرہ کی طرف سے کرنا واجب نہیں۔ اگر بچہ مالدار ہو تو باپ پر لازم ہے کہ اس کی طرف سے اس کے مال سے قربانی کرے۔ یاد رہے کہ بالغ اور نابالغ کی جانبسے قربانی میں اتنا فرق ہے کہ نابالغ کی قربانی کا گوشت وہی کھائے گا اور جو بچ جائے وہ ایسی چیز کے ساتھ بدلا جائے جو بذاتہ آئندہ اس کے استعمال میں رہ سکے۔
قربانی کے لئے ماہ ذی الحجۃ الحرام کے صرف تین روز دسویں‘ گیارہویں اور بارہویں تاریخیں ہی مخصوص ہیں۔ اگر ان تواریخ میں کسی وجہ سے قربانی نہ کی جاسکی تو قربانی کا جانور خیرات کردیں اور اگر جانور خریدا ہی نہ گیا ہو تو اس کی قیمت خیرات کرنا واجب ہے۔ ہاں! قربانی واجب ہونے کے لئے بارہویں ذی حجۃ الحرام کے غروب آفتاب سے کچھ پہلے تک کے وقت کا اعتبار ہے‘ جیسے جو کوئی بارہویں تاریخ کے آخر تک مالدار رہا یا ایک شخص پہلے محتاج تھا پھر بارہویں تاریخ کے آخر میں مالدار یا غنی ہوگیا یا پہلے پیدا نہ ہوا تھا بارہویں تاریخ کے آخر میں پیدا ہو تو ان پر قربانی واجب ہے۔ برخلاف اس کے اگر کوئی پہلے مالدار تھا‘ پھر بارہویں تاریخ کے آخر میں محتاج ہوگیا یا پہلے زندہ تھا اور بارہویں تاریخ کے آخر میں انتقال کرجائے تو ایسے شخص پر قربانی واجب نہیں۔ مسافر اور غریب پر قربانی واجب نہیں ہے‘ اگر کرلیں تو ثواب ہے اور خوش حال زندگی کے لئے مشرف تاباں اعجاز ہے۔ اگر کسی غریب محتاج نے قربانی کی نیت سے جانور خریدا تو اب اس پر قربانی واجب ہوجاتی ہے‘ لہٰذا اس کو وہ فروخت نہیں کرسکتا۔ قربانی کرنا واجب ہے اور اگر وہ گم ہوجائے یا مرجائے وغیرہ البتہ قربانی ساقط ہوجاتی ہے اور اگر مل گیا تو اس کی قربانی کرنا واجب ہے‘ جبکہ ایام قربانی ہوں اور اگر ایام قربانی گزر جائیں تو ذبح کرکے قربانی کی طرح تقسیم کرلے۔ اسی طرح اگر مالدار یا غنی کا خریدا ہوا جانور کھو جائے یا مرجائے وغیرہ تو ایسی صورت میں دوسرا جانور خرید کر قربانی کرنا واجب ہے اور اگر ایام قربانی گزر جائیں اور قربانی نہ کرے تو انہیں دوسرا جانور خرید کر صدقہ کردینا چاہئے۔ بیوی اگر صاحب نصاب ہے تو اس پر علیحدہ قربانی واجب ہے۔ گائے یا اونٹ کی قربانی میں شرکاء نے جانور خریدا اگر ان میں کسی کا انتقال ہوجائے اگر ان کے ورثاء مرحوم کی قربانی کے لئے اجازت دیں تو قربانی درست ورنہ ورثہ ناراض ہوں تو کسی کی بھی قربانی درست نہیں۔ البتہ شرکاء مسلمان بھی شریک ہوں تو قربانی درست ہے۔
قربانی کے اوقات:
قربانی کا وقت دسویں ذی الحجہ کو نماز و خطبۂ عیدالاضحی کے بعد سے بارہویں ذی الحجہ کو قربانی کرنا افضل ہے۔ جس گاؤں ‘ مقام و قصبہ دیہات وغیرہ میں عیدالاضحی نہ ہوتی ہو وہاں کے لوگ دسویں ذی الحجہ کو طلوع آفتاب کے ساتھ ہی قربانی کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ یاد رکھیں کہ جہاں پنچ وقتہ نماز ہوتی ہو وہاں نماز عید الاضحی سے قبل قربانی کرنا درست نہیں۔ قربانی دن کے وقت کرنا چاہئے رات میں کرنا مکروہ ہے ۔
قربانی کے لئے جانور: شرع شریف میں قربانی کے لئے بکرا ‘ بکری ‘ مینڈھا ‘ بھیڑ کی عمر ایک سال بیل‘ کھلگا‘ بھینس‘ گائے کی عمر دو سال اور اونٹ ‘ اونٹنی کی عمر پانچ سال ہونی چاہئے۔ اس سے کم عمر کے جانور قربانی کے لئے درست نہیں اور اگر زیادہ عمر ہو تو افضل ہے۔ مینڈھا جس کو دنبہ کہا جاتا ہے‘ چھ ماہ کا بھی درست رہتا ہے‘ جو دیکھنے میں لحیم شحیم بڑا معلوم ہوتا ہو۔ یعنی سال بھر والے بکروں کے مندے میں چھوڑا جائے تو دیکھنے والوں کو دور سے برابر کا نظر آئے۔ قربانی کے جانور کو صحیح و سالم تندرست ہونا بھی ضروری ہے۔ یعنی اس کے کسی عضو میں کسی قسم کا عیب ‘ نقص‘ خوابی‘ نہ ہو‘ لہٰذا اس قسم کے جانور قربانی کے لائق نہیں۔ اندھے‘ کانے‘ لنگڑے‘ نہایت لاغرو دبلے‘ کمزور جو قربان گاہ تک نہ چل سکیں‘ تہائی سے زیادہ کان‘ دم یا سرین کٹے ہوئے ہوں یا پھر تہائی سے زیادہ بینائی جاتی رہے۔ بینائی کا اندازہ جانور کے سامنے چارہ ڈال کر کر سکتے ہیں۔ بغیر دانت والے اور گائے بیل وغیرہ جن کی سینگیں جڑ سے ٹوٹے ہوں اور اگر ماں کے پیٹ سے ہی جن کی سینگیں نہ رہی ہوں ان کی قربانی درست ہے۔
قربانی کے شرکاء یا حصہ دار: قربانی کے لئے صرف ایک شخص کی طرف سے ایک ہی جانور بکرا یا بکری یا مینڈھا (دنبہ) ہونا چاہئے۔ اور بیل‘ گائے‘ کھلگا‘ بھینس‘ اونٹ‘ اونٹنی میں زیادہ سے زیادہ سات آدمی تک شریک ہوسکے ہیں۔ بشرطیکہ ان کی نیت صرف اور صرف قربانی کی ہی ہو‘ بلکہ ساتوں آدمی برابر ساتواں حصہ قیمت بھی ادا کریں اور سب کے سب کا جانور کی خریدی کے وقت شریک ہونا مستحب عمل ہے ورنہ اگر ایک شخص جانور خریدے اور چھ افراد قربانی کی نیت سے شریک ہوں تو بھی صحیحہے‘ مگر حضرت امام اعظمؒ کے نزدیک ایک روایت میں مکروہ کہا گیا ہے۔ حتی الامکان کو شش کریں کہ سب کے سب شریک ہوں ‘ لیکن چونکہ خواتین کا شریک ہونا بہتر نہیں سمجھا جاتا ‘ لہٰذا ایسی صورت میں درست ہے۔ اس طرح قربانی کا گوشت بھی برابر تقسیم کرلینا بھی شرط ہے‘ اگر کسی ایک نے بھی قربانی کی نیت سے نہیں کی ‘ بلکہ صرف گوشت کھانے یا فروخت کرنے کی نیت رکھی یا پھر کسی ایک نے بھی قیمت برابر نہیں کی ‘ یعنی قربانی ہوجانے کے بعد یہ کہے کہ میرا حصہ یہاں بہت مہینگا پڑ رہا ہے۔ دوسری جگہ اس سے سستا مل رہا تھا وغیرہ وغیرہ ‘ کہہ کر کم ادا کی یا برابر نہیں کی یا ایک بھی شخص جانور کی خریدی کے وقت شریک نہیں ہوا یا باہم گوشت کی تقسیم میں بھی اعتراض و بحث و تکرار ہوجائے تو کسی کی بھی قربانی درست نہیں۔ لہٰذا سات آدمی شریک ہوتے وقت قیمت تقسیم وغیرہ میں کسی قسم کا شک و شبہ دل میں نہ لائیں اور انتہائی صاف و کھلے دل سے قربانی کے حصوں میں شریک رہیں تاکہ ایک یا زائد افراد کی بدنیتی سے دوسروں کی قربانیاں ضائع نہ ہوجائے۔ خدانخواستہ اگر کسی کو قیمت میں فرق بھی محسوس ہو توکھلے دل سے درگزر کرکے قربانی کو قبول کرلیں۔ یہ بھولے سے بھی مت سمجھئے کہ خواہ مخواہ قربانی میں یہاں تھوڑے سے پیسے زائد چلے گئے‘ صرف اور صرف قربانی کے اجر عظیم اور اعجاز کا خیال رہے۔ وما تو فیقی الا باللّٰہ۔ ہا ں قربانی کے لئے سات شرکاء میں سے کسی نے بجائے قربانی کے صرف ایصال ثواب کی نیت سے پیسے دیدیئے تو بھی قربانی درست نہیں‘ تمام شرکاء کا صرف اور صرف قربانی ہی کی نیت سے کرنا ضروری ہے۔ البتہ مرحومین کی جانب سے قربانی کی نیت سے ورثہ شریک رہیں‘ تب قربانی درست ہے۔ (افضل یہ ہے کہ تمام مرحومین کی جانب سے ایک سالم جانور کے شرکاء بنیں اور بقید حیات افراد ایک دوسرے جانور میں شریک رہیں‘ اس قسم کی ذمہ داریاں قبول کرنے والے افراد بھی قربانی کے معاملہ میں کم سے کم منافع کو ملحوظ رکھتے ہوئے قربانی کے جانوروں میں شرکاء بنائیں۔ ان کے لئے یہ دینی خدمت لائق تحسین ہوگی۔
قربانی کے جانور کا ذبح کرنا: قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کا بھی وہی طریقہ ہے جو عام جانوروں کے ذبح کرنے کا ہے۔ البتہ قربانی کے جانور کو صاحب قربانی خود ذبح کرے تو مستحب و افضل ہے۔اگر از خود ذبح نہ کریں تو ذبح کے وقت ضرور سامنے رہیں۔ مگر یاد رہے کہ کافر ذبح کرے تو قربانی درست نہیں اور یہودی و نصرانی سے ذبح کروانا مکروہ ہے۔
جانور کے ذبح کے وقت یہ دعا پڑھیں: اللھم ھذہ الاضحیۃ تقبل منی کما تقبلت من ابراھیم خلیل ومن محمد نبیک وحبیبک علیھما الصلوٰۃ و السلام ۔ پھربسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر ذبح کردیجئے ہاں! جب آپ کسی دوسروں کی جانب سے جانور ذبح کررہے ہوں تو الفاظ تقبل منی کے بجائے صاحب قربانی کا اور ان کے والد محترم کا نام لیجئے۔ جیسے اللھم ھذہ الاضحیۃ تقبل من محمد رضی الدین معظم بن محمد رحیم الدین یا نا جیہ معظم بنت محمد رضی الدین معظم کما تقبلت من ابراھیم خلیلک ومن محمد نبیک وحبیبک علیھما الصلوٰۃ والسلام ۔ قربانی کرنے سے پہلے متذکرہ دعا سے قبل یہ دعا بھی پڑھنا افضل ہے۔ انی وجھت وجھی للذی فطر السموت والارض حنیفا وما انا من المشرکین۔ انی صلوٰتی و نسکی ومحیایٰ ومماتی للہ رب العالمین لا شریک لہ وبذلک امرت و انا من المسلمین۔ ہاں ! اگر دعائیں نہ پڑھ سکیں تو کم از کم دل میں صاحب قربانی اور ان کے والد محترم کا نام یا پھر خود کی جانب سے قربانی کی طرف دل میں خیال کرکے صرف بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر ذبح کردیں تو ذبیحہ درست ہوجاتا ہے‘ مگر دعاؤں کے ثواب سے محروم رہتے ہیں اگر بسم اللہ اللہ اکبر نہ کہا گیا تو پھر ذبیحہ درست نہیں۔ جانور کو ذبح کرتے وقت یہ ذہن نشین رکھیں کہ سب سے پہلے جانور کو تین بار تھوڑا تھوڑا پانی پلائیں ‘ پھر جانور کو شمالاًجنوباً لٹا کر سر کو قبلہ رخ کریں۔ بعض اوقات ذبح کے وقت جانور کا سر جسم سے بالکل الگ ہوجاتا ہے۔ یہ عمل مکروہ ہے لیکن قربانی ہوجائے گی‘ یہ بھی یاد رکھیں کے قربانی کے ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح نہ کریں۔ ہاں اگر ذبح کے بعد جانور کے پیٹ سے بچہ نکلے تو اس سے قربانی پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور اگر بچہ زندہ ہو تو اس کو بھی ذبح کردیں۔ جانور کو ذبح کے بعد جانور کو چھیلنے میں عجلت یا جلدی کرنا بھی درست نہیں۔ جانور کی مکمل روح پروازی تک انتظار کرنا مستحب و افضل ہے۔ قربانی کے ذبیحہ کیمسنونات و مکروہات بھی وہی ہیں جو عام جانوروں کے ذبح کرنے کے ہیں۔ البتہ قربانی کے جانور سے بہ نیت قربانی قبل از قبل جانور خرید لیں تو قربانی تک اس سے کسی قسم کا بھی نفع حاصل کرنا یعنی دودھ نکالنا‘ بوجھ لادنا‘ سواری کرنا یا سواری میں لگانا‘ کرایہ پر دینا وغیرہ سب کے سب امور مکروہ ہیں۔
قربانی کے گوشت کی تقسیم:
قربانی کے گوشت کی تقسیم کے لیے تین حصے کیجئے ایک حصہ محتاجوں اور فقیروں کو خیرات کردیں‘ دوسرا حصہ عزیز و اقارب رشتہ داروں و ہمسایوں پڑوسیوں ‘ دوست احباب کو اور تیسرا حصہ خود اپنے اہل و عیال کے لئے استعمال کریں۔ دوسروں کے حصے تقسیم کرتے وقت کچا گوشت ہی تقسیم کردیں یا پکا کر تقسیم کریں دونوں بھی درست ہیں اور خود کا حصہ اسی وقت استعمال کرلیں یا خشک کرکے اٹھاکر رکھیں۔ دونوں صورتیں جائز ہیں۔ کچھ خواتین و حضرات عموماً عزیز و محتاجوں کے دو حصے تقسیم کرنے میں تھوڑی نااہلی کا ثبوت دیتے ہیں وہ یہ کہ دو برابر حصوں کو تقسیم کرنے میں کنجوسی برتتے ہیں۔ ایسا کرنا درست نہیں ہے‘ یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اپنے لئے صرف اتنا تھوڑا حصہ باقی رہ گیا ہے وغیرہ۔ اس قسم کا خیال قربانی کے بے پناہ اجر عظیم سے محروم کردیتا ہے۔ یہ اللہ رب العزت کا کروڑ ہا احسان ہے کہ قربانی کے عوض نہ صرف ہم گناہ گاروں کو اجر عظیم سے ممتاز فرمایا بلکہ اب گوشت کو بھی استعمال کرنے کے لئے شریک بناکر بے پناہ ثواب کے ساتھ ہماری غذا کو پر لطف بنادیا۔
خواتین‘ حضرات اس مسئلہ کی باریک بینی کی وضاحت کے بارے میں اپنے تئیں کوئی خیال نہ کریں اور میری بات شاق گذرے تو بندہ عاصی پر معاصی محمد رضی الدین معظم کو ضرور معاف فرمائیے۔ جب سات حصوں والے جانور کی شرکت کی صورت میں تمام شرکاء قربانی کا گوشت اندازہ سے نہیں بلکہ تول کر برابر تقسیم کرلیں‘ ہاں اگر گوشت کے ساتھ پیٹ کے سارے اعضاء کلیجی‘ بوٹی‘ دل‘ گردہ‘ سرا‘ پائے وغیرہ کے بھی تکڑے بھی شامل کرلیئے جائیں تو ایسی صورت میں اندازے سے تقسیم کرلینا درست ہے۔ ہاں! یہاں یہ بات ذہن نشین رکھئے کہ اگر قربانی نذر ماننے کے بعد کی گئی تو ہو توپھر اس کا گوشت استعمال کرنا یا عزیز و ہمسایوں میں تقسیم کرنا درست نہیں‘ بلکہ سب کا سب گوشت وغیرہ محتاجوں‘ غریبوں میں بانٹ دیں۔ اس لئے کہ نذر کے لئے صدقہ لازم ہے۔
چرم قربانی:
چرم قربانی یعنی جانوروں کے چمڑوں کو اپنے مصرف میں لانا درست ہے‘ یعنی‘ ڈولی بستر وغیرہ بنالینا ۔ اگر چمڑا فروخت کردیا جائے تو اس کی قیمت صدقہ کردینا واجب ہے‘ لیکن قصاب کی اجرت میں دینا بھی درست نہیں۔ چرم قربانی یا اس کی قیمت مسجد‘ پل‘ کنواں‘ کفن یا امام‘ موذن وغیرہ کی تنخواہ وغیرہ میں استعمال کرنا بھی درست نہیں۔ اس کے مستحق صرف حاجت مند محتاج و غریب ہی ہیں۔ غیر مستحق کو دینابھی درست نہیں۔ البتہ علم دین سیکھنے والوں کو دینا فی زمانہ جامعہ نظامیہ حیدرآباد ‘ مدرسہ درارالعوم الغمانیہ شاہ علی روڈ حیدرآباد علاوہ کے جملہ دینی مدراس و فلاحی اداروں کو دینا درست ہے۔
واللہ اعلم بالصواب۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد رضی الدین معظم
مکان نمبر 20-3-866 ’’رحیم منزل ‘‘ ، شاہ گنج ، حیدرآباد ۔2
سیل: +914069990266, 09848615340