یوم عرفہ ( یوم الحج) منہ مانگی مراد پانے کا دن
محمد رضی الدین معظم
حیدرآباد ۔
نویں ذی الحجۃ الحرام عرفہ کا دن یعنی یوم الحج ۔ میدان عرفات میں جہاں بندے خدا کی بندگی پر ناز کرتے ہیں‘ اِدھر حجاج کرام کا ٹھا ٹھیں مارتا ہوا سمندر اُدھر آسمان پر ملائکہ کے صف در صف موجود ہیں‘ جو حجاج کرام کی آہ و زاری ‘ خشوع و خضوع مخلصانہ و والہانہ جذبات کا نظارہ کرنے جمع ہیں اور صدائیں بلند کررہے ہیں‘ حاجیو! خوب دل کھو ل کر بارگاہ رب العزت میں آہ وزاری کرو اور جی بھر مرادیں مانگ لو‘ آج وہ اقبال مسعود یوم ہے کہ عمر بھر کی خطائیں منٹوں میں معاف ہوجاتی ہیں۔
عرفہ کا دن ایک طرف روز محشر کی یاد دلاتا ہے تو دوسری طرف طہورۂ تقدیس آفریں مذہب اسلام کے ممتاز معظم اجتماعات و اتحاد کا روح پر ور نظارہ پیش کرتا ہے۔ بوجہ ادائی فریضۂ حج ہرایک شریک لباسِ احرام میں ملبوس ایک مرکز عرفات میں جمع ہیں۔ یہ وہ وسیع عریض میدان ہے‘ جس پر انقلابات روزگار اور تغیرات عالم کا کچھ بھی اثر نہ ہوسکا‘ آج تک اسی حالت میں موجود ہے‘ جو انسانی آبادی سے پیشتر دنیاکی حالت تھی‘ روایات میں ہے کہ میدان عرفات میں حجاج کرام کو ایسا یوم مبارک حاصل ہے۔ جہاں حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی تھی‘ لہٰذا آج اولاد آدم کی تاقیامت نویں ذی حجہ کو ہر سال صرف قدم رکھنے پر خطائیں معاف ہوجائیں گی۔ یہاں اس امر کی جانب بھی اشارہ ملتا ہے کہ حضرت انسان اپنے غلطی و قصور کے بعد جب حضور قلب و توجہ کا مل اور عجزہ و انکساری کے ساتھ بارگاہ رب العزت میں رجوع ہوتا ہے۔ گناہ کا اعتراف کرلینا ،اپنی لغزشوں و غلط کاریوں کو نقصان زدہ خسران رسیدہ تصور کرنا اولاد آدم کا شیوہ و شعار ہے۔ بالفرض اگر حضرت آدمؑ سے گناہ کا ارتکاب نہ ہوگا تو وہ اپنی اولاد کے لئے عفو و ذنوب کا روز بھی ورثہ میں نہ چھوڑتے۔ کیا عجب ہے‘ حضرت آدمؑ کی خطا میں یہ حکمت مضمر ہوکہ جس طرح گناہ فطرت انسانی کا خاصہ ہے‘ اسی طرح توبہ ازگناہ عین فطرت انسانی ہے‘ توبہ اور پھر منہ مانگی مراد پانے کے لئے یوم عرفہ عطیہ اکرم ہے کہ دریائے رحمت جوش میں ہے۔ رب العالمین کی رحمت گناہگاروں سے قریب ہے کہ جب رب العالمین لبیک کی صدائے گونج میں برہنہ سرگرد و غبار سے آئے ہوئے دور دراز اہل و عیال کی محبت سے محروم بندگان خدا کو ملا حظہ فرماتا ہے تو ملائکہ سے خطاب عام کے ذریعہ ارشاد خداوندی ہوتا ہے۔ فرشتو! گواہ رہنا میں نے انہیں بخش دیا۔ حضور نبی ممتاز معظم المرسلین کا ارشاد ہے کہ یوم عرفہ یا یوم الحج شیطان کے لئے مایوسی اور ذلت وخواری کا دن ہے۔ وہ دیکھتا ہی رہ گیا کہ آغوش رحمت رب العالمین میں حجاج کرام کی غلطیاں معاف ہوگئیں اور ماں پیٹ سے جنم لینے والے دن کی طرح فرزند آدم بن گئے۔اس مختصر تحریر کے بعد بندۂ عاجز عاصی پر معاصی محمد رضی الدین معظم بھی دعائے خیر کا طالب ہے۔ روز جزاء کے بعد اگر کوئی دن کی اہمیت ہے تو وہ ہے یوم الحج یا عرفہ کا دن۔ یوم الحج کو یوم الدین پر ایک حیثیت سے فوقیت بھی حاصل ہے کہ یوم الدین میں عدل و انصاف ‘ سزا و جزاء کا عمل ہوگا اور آج کا دن یوم الحج میں بخشش عام عفو و درگذر رحمت ہی رحمت ہے۔ پرسش اعمال یا مواخذہ کو مطلق دخل نہیں۔ یوم الدین سے قبل یوم الحج اُس لئے مقرر ہے کہ اس دن کی دارو گیر سے دستگاری نصیب ہو۔
اے اللہ ذوالجلال! آج میدان عرفات میں یوم الحج کے موقع پر آپ نوشۂ بزم عالم ہیں ۔اس بے پناہ فرحت افزا لمحات میں حجاج کرام کو بکمال عجز وانکسار بصد خلوص مبارکباد پیش کرتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ تاقیامت آج کے حضار محفل کی بے پناہ خوشیوں میں مبارکبادی باقی رہے اور قبول ہوئے ۔ برتوایں محفل شاہانہ مبارک باشد (آمین)
عہد عتیق سے یہ رواج ہے کہ ۹ ذی حجہ عرفہ کا دن سے موسوم ہے‘ ہر مسلمان امیر غریب آج کے دن اپنے اپنے گھروں میں فاتحہ کا اہتمام کرتے ہیں۔ غریب لوگ کم از کم اپنے گھروں میں بگھارا کھانا دالچہ ضرور پکاتے ہیں اور قبرستانوں میں فاتحہ خوانی کے لئے بکثرت لوگ گل افشانی سے ایصال ثواب کرتے ہیں۔ صاحب نصاب حضرات دوسرے دن یوم عیدالضحیٰ کی تیاری میں بکروں کی خریدی میں مصروف و سرگرداں رہتے ہیں۔ آج ہی کے دن فجر سے تیرہویں ذی حجہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد تکبیر تشریق اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر و للّٰہ الحمد مردوں کے لیے جہراً بآواز بلند ایک بار کہنا واجب ہے اور تین بار کہنا افضل ہے۔ تکبیر تشریق کا فرض نماز کے سلام پھیرنے کے فوراً بعد کہنا واجب ہے۔ جہاں تک ممکن ہوسکے آج کا دن لہو و لعب یعنی ٹی وی‘ ویڈیو‘ کرکٹ‘ فضول بکواس سے اپنے آپ کو محفوظ رکھے۔
محمد رضی الدین معظم
مکان نمبر 20-3-866 ’’رحیم منزل ‘‘
، شاہ گنج ، حیدرآباد ۔2
سیل: +914069990266, 09848615340