اُردوکی ابتدائی نشوونما میں ترکوں کا حصہ – – – – – – ڈاکٹر سلیم محی الدین

Share
saleem mohi ترکوں
ڈاکٹر سلیم محی الدین

اُردوکی ابتدائی نشوونما میں ترکوں کا حصہ

ڈاکٹر سلیم محی الدین
اسوسی ایٹ پروفیسر و صدر شعبۂ اُردو
شری شیواجی کالج، پربھنی

دُنیا کی کسی زبان میں اس کی تاریخ پیدائش اور جائے ولادت کے متعلق ایسے اختلافات نہیں ہونگے جیسے کہ اردو کے متعلق ہیں یہی وجہ ہے کہ آج تک کوئی پنڈت اس کی جنم کنڈلی مرتب نہیں کرپایا۔ کہتے ہیں کہ جنم کنڈلی صحیح ہو تو کوئی بھی پنڈت چاہے وہ کیسا ہی پونگا کیوں نہ ہو کسی انسان یا شئے کا ماضی، حال او ر مستقبل پڑھ سکتا ہے۔ اردو کی تاریخ پیدائش یعنی جنم تتھی سے لے کر جنم استھان یعنی جائے ولادت تک اتنے اختلافات ہیں کہ کوئی پنڈت چاہے وہ کیسا ہی سیانا کیوں نہ ہو اس کی جنم کنڈلی مرتب نہیں کرسکتا۔ اردو کے آغاز کے نظریات کے مباحث میں ’’ بھارت میں مسلمانوں کی آمد‘‘ ہی قدر مشترک ہے۔

ہر نظریہ میں اس ایک امر پر اتفاق ملتا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی آمد اور ان کے ذریعے بولی جانے والی زبانوں کا اختلاط ہی اردو کے آغاز و ارتقاء کا باعث ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو محمد بن قاسم(۷۱۲ ؁) اور محمود غزنوی (۱۰۰۱ ؁ ) کی ہندوستان آمد کو حددرجہ اہمیت حاصل ہوجاتی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت کہ ہندوستان کے جنوب مغربی ساحل پر مسلمان آٹھویں صدی عیسوی میں ہی پہنچ گئے تھے جس کے شواہد ملتے ہیں۔ ایسے شواہد جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ ان علاقوں میں عرب نہ صرف آباد تھے بلکہ اپنے دین کی تبلیغ بھی کررہے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ میل جول تہذیبی و لسانی سطح پر نتائج کا حامل رہا ہوگا۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ جو اثر و نفوذ ترکوں کا رہا ہے وہ کسی بیرونی طاقت کے حصے میں نہیں آیا۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی رہی ہوکہ عرب تو یہاں بطور تاجر آئے اور محمد بن قاسم کا سندھ تک پہنچنا تو گویا دروازے پر دستک دے کر لوٹ جانا تھا۔ لیکن ہندوستان کا پہلا سلطان محمود غزنوی تھا جو کشمیر، گجرات سے لے کر شمالی ہند میں قنوج اور متھرا اور نگر کوٹ تک پہنچا۔ اس کا دور اقتدار ۳۳ برسوں پر محیط ہے ۔اس کے انتقال کے بعد بھی اس کی اولادوں نے تقریباً ۱۹۵؍ سال حکومت کی ۔یہ عرصہ تہذیبی ولسانی میل جول اور لین دین کے لئے کافی عرصہ تھا۔
دُنیا کی کسی زبان میں اس کی تاریخ پیدائش اور جائے ولادت کے متعلق ایسے اختلافات نہیں ہونگے جیسے کہ اردو کے متعلق ہیں یہی وجہ ہے کہ آج تک کوئی پنڈت اس کی جنم کنڈلی مرتب نہیں کرپایا۔ کہتے ہیں کہ جنم کنڈلی صحیح ہو تو کوئی بھی پنڈت چاہے وہ کیسا ہی پونگا کیوں نہ ہو کسی انسان یا شئے کا ماضی، حال او ر مستقبل پڑھ سکتا ہے۔ اردو کی تاریخ پیدائش یعنی جنم تتھی سے لے کر جنم استھان یعنی جائے ولادت تک اتنے اختلافات ہیں کہ کوئی پنڈت چاہے وہ کیسا ہی سیانا کیوں نہ ہو اس کی جنم کنڈلی مرتب نہیں کرسکتا۔ اردو کے آغاز کے نظریات کے مباحث میں ’’ بھارت میں مسلمانوں کی آمد‘‘ ہی قدر مشترک ہے۔ ہر نظریہ میں اس ایک امر پر اتفاق ملتا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی آمد اور ان کے ذریعے بولی جانے والی زبانوں کا اختلاط ہی اردو کے آغاز و ارتقاء کا باعث ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو محمد بن قاسم(۷۱۲ ؁) اور محمود غزنوی (۱۰۰۱ ؁ ) کی ہندوستان آمد کو حددرجہ اہمیت حاصل ہوجاتی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت کہ ہندوستان کے جنوب مغربی ساحل پر مسلمان آٹھویں صدی عیسوی میں ہی پہنچ گئے تھے جس کے شواہد ملتے ہیں۔ ایسے شواہد جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ ان علاقوں میں عرب نہ صرف آباد تھے بلکہ اپنے دین کی تبلیغ بھی کررہے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ میل جول تہذیبی و لسانی سطح پر نتائج کا حامل رہا ہوگا۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ جو اثر و نفوذ ترکوں کا رہا ہے وہ کسی بیرونی طاقت کے حصے میں نہیں آیا۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی رہی ہوکہ عرب تو یہاں بطور تاجر آئے اور محمد بن قاسم کا سندھ تک پہنچنا تو گویا دروازے پر دستک دے کر لوٹ جانا تھا۔ لیکن ہندوستان کا پہلا سلطان محمود غزنوی تھا جو کشمیر، گجرات سے لے کر شمالی ہند میں قنوج اور متھرا اور نگر کوٹ تک پہنچا۔ اس کا دور اقتدار ۳۳ برسوں پر محیط ہے ۔اس کے انتقال کے بعد بھی اس کی اولادوں نے تقریباً ۱۹۵؍ سال حکومت کی ۔یہ عرصہ تہذیبی ولسانی میل جول اور لین دین کے لئے کافی عرصہ تھا۔
محمود غزنوی نسلاً ترک تھا اور علم و ادب کا شیدائی تھا مشہور ہے کہ اس کے دربار میں چا رسو شاعر تھے جن میں فردوسی کے علاوہ اسد طوسی،عسجدی،منو چہری اور حکیم سینائی جیسے اہم نام شامل تھے۔ اس کے عہد میں لسانی اختلاط کا سب سے اہم ثبوت اس کے سکے ہیں جن پرایک جانب عربی میں کلمہ طیبہ اور دوسری جانب سے سنسکرت میں اس کا ترجمہ عدد اور چند سکوں پر مقدس نندی بیل کی تصویر کندہ ہے۔(۱) محمود کو اصل مسابقت کا سامنا وسط ایشیاء سے تھا اور وہ وہیں مصروف رہا لیکن ہند پر حکمرانی ا س کے غلام ایاز کے حوالے تھی وہی ایاز جو اقبال کے شعر کے حوالے سے اسلامی مساوات کی علامت بن گیا کہ
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
ویسے محمود غزنوی کو مذہب سے زیادہ اقتدار اور دولت سے رغبت تھی۔ وہ ایک زیرک سیاستداں اور قابل حکمراں تھا اس کی حکومت اور افواج میں مقامی ہندوستانی بھی بڑے اہم عہدوں اور اعزازات کے حامل تھے۔خوداُس کی افواج کا سپہ سالار ایک ہندوستانی سوبند رائے تھا۔ ۱۰۳۰ ؁ء میں محمود غزنوی کے انتقال کے بعد اس کے جانشینوں مسعود، مودود، ابراہیم، بہرام اور ملک خسرو نے ۱۱۹۲ ؁ء تک غزنوی سلطنت کا چراغ جالئے رکھا۔(۲) محمود غزنوی ہی کے عہد میں ایرانیوں اور ایرانی تہذیب سے متاثر ترکوں کی آمد و رفت کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ ان میں کچھ قلم کے تو کچھ تلوار کے دھنی تھے۔ گو حکمرانوں کو مذہب کی تبلیغ سے دلچسپی نہیں تھی لیکن وہ خلیفہ وقت سے ارادت ضرور رکھتے تھے۔ اسی حوالے سے علماء و مبلغین بھی اپنی کوششوں میں لگے رہتے گویا حکمراں زمینوں پر تصرف حاصل کرتے تو علماء و صلحاء لوگوں کے دلوں کو تسخیر کرتے ۔ ان مبلغین کے ذریعے اسلام قبول کرنے والے افراد ہی دراصل ہندوستان میں ایک نئی تہذیب اور نئی زبان کی داغ بیل ڈالتے ہیں بقول پروفیسر عبدالقادر سروری
’’ یہ نو مسلم ہندوستان کے آئندہ تہذیب و شائستگی کے ڈھریّ کو اٹھانے اور لسانی نقشے کو بنانے میں بہت اہم ذریعہ ثابت ہوئے۔ ان کی زبان ظاہر ہے کہ قدیم پنجابی تھی لیکن ان کو تہذیب اور شائستگی میں ایرانی، ترکی اور عرب مسلمانوں سے قریب تر آنا تھا قریب تر آنے کے اسی ذہنی او رفطری رجحان نے ہند لمانی تہذیب اور زبان کے لئے راہ ہموار کردی‘‘(۳)
یہی وہ دور تھا جب جدید ہند آریائی زبانوں کا انکھوا پھوٹ رہا تھا۔ ان کی شکل تو واضح نہیں تھی لیکن بیج پڑچکا تھا۔ بیرونی حکمرانوں ان کی افواج اور نو مسلموں کے ساتھ ساتھ علماء، مبلغین حتٰی کے دانشور بھی سرزمین ہند پر ایک نئی مشترکہ تہذیب کے قیام میں برابر کے شریک تھے۔ یہی وہ وقت تھا جب البیروانی جیسا دانشور ہندوستان پہنچتا ہے اور یہاں کی زبان سنسکرت بھی سیکھتا ہے ۔ اس کی تصنیف ’’کتاب التاریخ الہند‘‘ ہندوستان کی تہذیب و معاشرت ، علوم و فنون، مذہب و عقائد اور زبانوں سے دنیا کو روشناس کراتی ہے۔ اسی کتاب میں ہمیں پہلی بار یہاں کی زبان کے لئے ہندی کا لفظ ملتا ہے جو اردو کے ابتدائی ناموں ہندی، ہندوی یا ہندوستانی میں سے ایک ہے۔۱۱۹۲ ؁ء تا ۱۲۹۰ ؁ء سو سال کا عرصہ مملوک سلاطین کی حکومت عرصہ ہے۔ آخری غزنوی حکمراں ملک خسرو کو شکست دے کر شہاب الدین غوری نے ۱۱۹۲ ؁ء میں ہندوستان کے تختپر قبضہ کرلیا۔ غوریوں کے عہد میں یہ حکومت وسطی ہند سے نکل کر مشرق میں بنگالہ تک پہنچ گئی۔ قطب الدین ایبک، شمس الدین التمش، رضیہ سلطان ،ناصر الدین محمود اور غیاث الدین بلبن نے مملوک سلاطین کا پرچم لہرایا۔ سیاسی اتھل پتھل اور اقتدار کی منتقلی سرزمین ہند پر جاری تہذیبی و لسانی ارتباط اور ارتقاء کے اس عمل کو متاثر نہیں کرسکی جس کا آغاز دیڑھ صدی قبل محمود غزنوی کے عہد میں ہوا تھا۔ اس کے برخلاف مملوک سلاطین کی علم دوستی او ررعایا پرستی کی وجہ سے اس میں تیزی ہی آئی۔ بقول عبدالقادر سروری ’’ مملوک سلاطین کا عہد ہندوستان کی نئی تہذیب روایات کے ساتھ ساتھ اردو کی تشکیل اور ابتدائی نشوونما کے اعتبار سے بھی بہت اہم ہے۔ مملوک سلاطین عام طور پر علم و فضل کے دلدادہ تھے۔ ان میں بھی التمش بلبن اور ناصر الدین خصوصیت رکھتے ہیں۔اشاعت علوم کی جو تحریک خود ایبک کے زمانے سے شروع ہوئی تھی وہ ناصر الدین کے عہد میں ترقی پر پہنچ گئی تھی اس لئے اس عہد کو ’’ خیرالاعصار‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ بلبن کے عہد تک تبلیغ، رشد و ہدایت کے و ہ سارے عناصر جو ملتان اور لاہور میں جمع تھے کھینچ کر دہلی چلے آئے تھے۔‘‘(۴)
کہا جاتا ہے کہ بلبن نے شیخ سعدی ؒ کو بھی ہندوستان آنے کی دعوت دی تھی۔ دہلی میں علماء کی ایک کثیر تعداد کی موجودگی سے علمی و ادبی فضاء بن گئی تھی۔ ان ترک حکمرانوں کی حکومت کا انتظامی ڈھانچہ بڑا مضبوط اور منظم تھا جس سے مقامی عوام اور چھوٹے چھوٹے دیسی حکمران پہلی مرتبہ روبرو ہوئے تھے۔ بادشاہ کی حیثیت مختار کل کی ہوا کرتی تھی اور اس کے احکام وزیروں کے ذریعے روبہ عمل لائے جاتے تھے۔ حکومت کے کئی شعبے تھے اور ہر شعبہ اپنے آپ میں خود مختار۔ عدالتوں کا نظام انتہائی مربوط اور عدل کا حصول نہایت آسان تھا ۔برید یعنی ڈاک کا نظام ہندوستان میں انہی مملوک ترک سلاطین کے دور میں متعارف ہوا۔ دراصل سرزمین ہند پر حکومت کا ایک منظم اور مربوط ڈھانچہ ترکوں ہی کی دین ہے۔ اس ڈھانچے میں سب سے زیادہ اہمیت فوج کی تھی او دوسرے نمبر پر علماء آتے تھے۔ فوج کی طاقت جہاں بیرونی طاقتوں سے نمٹنے کے کام آتی تھی وہیں اس کا دبدبہ اندرون ملک امن کے لئے بھی کارآمد ثابت ہوتا تھا۔ اسی طرح علمائے کرام ان بادشاہوں کو جو مذہب سے زیادہ ملک گیری کے خواہشمند تھے انھیں مذہبی و اخلاقی ہدایات دیتے اور ساتھ ہی عوام میں اپنے دین کی تبلیغ بھی کرتے تھے۔ ابتدائی تصادم کے بعد ہندوستان کی عوام اور ترکی افواج جو ترکی، افغانی اور ایرانی نسل فوجیوں پرمشتمل تھی کے درمیان مفاہمت کی فضاء پیدا ہوگئی۔ مفاہمت کے اس عمل کو تیز کرنے میں نو مسلموں نے ایک تماسی عامل کا کام کیا۔ یہی فضاء ایک نئی زبان اردو کے آغاز کے لئے سب سے زیادہ کار آمد ثابت ہوئی۔
ترکوں نے بلا شبہ ہندوستان کو فتح کیا لیکن ہندوستان کی دھرتی نے ترکوں کے دلوں کو تسخیر کرلیا۔ وہ یہاں کی آب و ہوا، تہذیب و معاشرت ، قدرتی وسائل کی فراوانی اور عوام سے ایسے مانوس ہوئے کہ بیشتر نے ہندوستان ہی کو اپنا وطن ثانی بنالیا۔ اس کی ایک عمدہ مثال امیر خسرو ہیں جو نسلاً ترک تھے لیکن ان کے کلام اور ان کی زندگی سے ہندوستان ، یہاں کی معاشرت، زبان، عوام، موسم، پھل، پھول،خوشبو ہرہر شئے سے ان کی والہانہ محبت کا اظہار ہوتے ہے انھیں اردو کے پہلے شاعر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔مملوک سلاطین کے فوری بعد خلجی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔مملوک سلاطین کی طرح ہی خلجیوں کی حکومت بھی شمالی ہند پر محیط تھی ۔لیکن اس کا حقیقی بھتیجہ اور داماد علاؤ الدین خلجی مہم پسند اور بے پناہ خواہشات کا حامل تھا۔ وہ کڑہ(موجودہ الہٰ آباد) کا صوبیدار تھا اس کی نظر یں دہلی کے تخت پر تھیں۔ اپنے اس مقصد کے حصول کے لئے اسے دولت کی ضرورت تھی اور اسے پتہ چلا کہ ہندوستان کی اصل دولت تو وندھیاچل کے پہاڑوں کے اس پار جنوبی ہند کی حکومتوں کے پاس ہے ۔ لہٰذا علاؤ الدین نے دیوگیر( دولت آباد) پر حملے کا منصوبہ بنایا۔
علاؤ الدین خلجی کا یہ حملہ دکن بالخصوص مراٹھواڑہ کی تاریخ کا ایک نیا موڑ ثابت ہوا ۔ یہ حملہ جہاں دو مختلف تہذیبوں کا ٹکراؤ اور بعدازاں ملن ثابت ہوا وہیں ایک نئی لسانی تہذیب کے ارتقاء کا پیش خیمہ بھی بنا۔ خلجی نے گویا شمال والوں پر دکن کے دروازے کھول دیئے یہاں سے دکن کی سیاسی تاریخ ایک نیا رُخ اختیار کرتی ہے۔ خلجی تو حملے کے فوری بعددیوگیر کی دولت لوٹ کر او ر یہاں کے راجا رامچندر یادو کو اپنا باجگزار بنا کر دہلی لوٹ گیا لیکن اُس نے پختہ سیاسی انتظامیہ کے طور پر ہر سو گاؤں پر ایک امیر کا تقرر کیا۔ جو حکومت دہلی کے سیاسی نمائندوں کے طور پر کام کرتے تھے۔ان امیراں صدہ نے انتہائی سرعت نے اپنی جڑیں مضبوط کرلیں علاؤ الدین خلجی کے بعد محمد تغلق دہلی کا دوسرا حکمراں تھا، جس نے جنوب کا رُخ کیا۔خلجیوں کے بعد دہلی میں تغلق حکومت قائم ہوئی تغلق سلطنت کا بانی غیاث الدین تغلق تھا۔ اس کا والد ملک سلطان ، غیاث الدین بلبن ترکی غلام تھا۔ غیاث الدین تغلق کی ماں ایک کشمیری بھٹ خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ (۵) تغلق خاندان سے عدم دستیاب ہیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ عادل شاہی حکمران ابراہیم علی عادل شاہ کے عہد میں جب دلی پر جہانگیر کی حکومت تھی مشہور زمانہ سیاح محمد قاسم فرشتہ ہندوستان آیا تو ابراہیم عادل شاہ نے اس سے تغلق خاندان سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے کہا تھا۔ فرشتہ کی تحقیق کے مطابق
’’ جیسا کہ ’’ ملحقات ناصری‘‘ میں بیان کیا گیا ہے کہ لفظ ’’ تغلق‘‘ترکی لفظ قتلغ سے نکلا ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ہندوستانیوں نے کثرت استعمال سے قتلغ لفظ کو توڑ مروڑ کر تغلق بنادیا۔‘‘(۶)
غیاث الدین تغلق کے بعد اس کا بیٹا محمد بن تغلق دلی کے تخت پر بیٹھا ۔ محمد بن تغلق اپنے غیر معمولی فیصلوں اور اقدامات کی وجہ سے تاریخ میں جانا جاتا ہے۔ دلی سے پایہ تخت کو دولت آباد منتقل کرنے کا اس کا فیصلہ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وہ اپنے اس فیصلہ پر زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ سکا لیکن اس کے اس فیصلے نے دکن کی سیاسی ، تہذیبی اور لسانی تاریخ کا رخ ہی موڑ کر رکھ دیا۔ بقول محمد حسن۔
’تغلقوں کے عہد کا سب سے بڑا واقعہ دارالسطنت کی تبدیلی ہے ۔ محمد تغلق کا یہ فیصلہ سیاسی طور پر صحیح ہو یا غلط مگر اس کے تہذیبی اور لسانی نتائج خاصے دوررس تھے۔ دہلی کی آبادی کی اکثریت دولت آباد منتقل ہوگئی اور اپنے ساتھ وہ نو تشکیل زبان لیتی گئی جو شمالی ہند میں پنجاب سے لے کر بہار تک کے علاقے میں نشوونما پارہی تھی اور جس پر پنجابی، ہریانی،کھڑی بولی اور دیگر مقامی زبانوں کے اثرات پڑ رہے تھے۔ دولت آباد ہندوستان کی راجدھانی نہ رہ سکا لیکن جو لوگ دہلی سے دولت آباد گئے تھے ان میں بہت سے ایسے بھی تھے جو واپس نہیں آئے اور وہیں کے ہورہے ۔ ان کے زیر اثر اس نئی نویلی زبان کا پودا جنوبی ہندوستان میں بھی پروان چڑھنے لگا ۔ تغلقوں کے زوال کے بعد دہلی سے دولت آباد کا تعلق ٹوٹنے لگا اور آہستہ آہستہ اس کی حیثیت ایک علاحدہ سیاسی اکائی سی ہوگئی۔ اس نواح میں زبان ریختہ کی جو نشوونما ہوئی اس پر شمالی ہندوستان کے لسانی ارتقا کا اثر نہیں پڑا اور اس نے اپنی ان قدیم خصوصیات کو برقرار رکھا جنھیں لے کر وہ یہاں آئی تھی جب کہ شمالی ہند میں اس کے ارتقا نے مختلف راہیں و منازل طے کرلیں اور زبان اردو کی شکل اختیار کرلی۔‘‘(۷)
چودہ وھویں صدی کی تیسری دہائی میں اُس نے اپنی راجدھانی دہلی سے دیوگیری منتقل کی۔ اور دیوگیری کو دولت آباد کا نام دیا۔ جلد ہی تغلق کو اپنے منصوبے کے ناقابل عمل ہونے کا احساس ہوگیا اور وہ بھی خلجی ہی کی طرح فوری دہلی واپس چلا گیا۔ تغلق کے دہلی لوٹتے ہی امیرانِ صدہ جو یہاں کے سیاسی نظام میں اپنی جڑیں گہرائی تک پیوست کرچکے تھے ابھر آئے۔ ان تمام نے ملکر حسن گنگوہمنی کی قیادت میں بہمنی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ سلطنت کی بنیاد دولت آباد میں پڑی۔یہ بہمنی سلاطین نسلاً ترک تھے لیکن اپنے آپ کو فخر سے دکنی ترک کہتے تھے۔ بہمنوں کا معاملہ بالکل اس طرح تھا جیسے کوئی گھر میں داخل ہوکر کواڑاندر سے بندکرلے۔ یہ اس علاقے کی آب و ہوا میں رچ بس گئے تھے اور انھوں نے اسی خاک کا پیوند ہونے کا تہہ کرلیا تھا، جس کے نتیجے میں ریاست کی اندرونی سیاسی اتھل پتھل اور ٹکراؤ حکومت کے بکھرنے کا باعث نہیں بن سکا ۔بہمنی سلطنت کا قیام(۱۴۹۰)اولاً سرزمین مراٹھواڑہ ہی میں عمل میں آیا اور دولت آباد کو اُس کی پہلی راجدھانی ہونے کا شرف حاصل ہوا لیکن جلد ہی سیاسی وجوہات کی بنیاد پر اس کا صدر مقام گلبرگہ منتقل ہوگیا۔ علاؤ الدین حسن بہمنی نے گلبرگہ کو اپنے نام پر حسن آباد کا نام دیا۔ بہمنی حکومت کا ایک کارنامہ یہ بھی تھا کہ اُس نے ایک ایسے علاقے کو جو تین مختلف تہذیبوں اور تین مختلف زبانوں کی آماجگاہ تھا، ایک ایسی اکائی میں تبدیل کردیا جو ایک نئی مشترکہ تہذیب و تمدن اور نئی زبان کی نشوونما کا باعث بنی۔ اس وسیع تر سلطنت میں مراٹھی، تلگو، او ر کنڑ علاقے شامل تھے جہاں کی زبان و تہذیب ایک دوسرے سے بالکل جدا گانہ تھی۔ بقول ڈاکٹر محمد علی اثر:
’’ اس نئی حکومت کا بانی ایک ایسا بادشاہ تھا جس نے دہلی کے بادشاہ کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا۔ شمال دُشمنی کی وجہ سے وہ ترک ہونے کے باوجود خود کو دکنی کہنا قابل فخر سمجھتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نئی سلطنت کی بنیاد میں شمالی ہند کے رجحانات و روایات سے انحراف کے جذبات نشوونما پانے لگے۔ شمالی ہند ایرانی اور عربی کلچر سے متاثر تھا مگر دکن اس سے بڑی حد تک مبرّا تھا۔ بہمنیوں نے سیاسی لائحہ عمل کے طور پر سرزمین دکن کے تعلق سے اُن تمام مقامی عناصر کو ابھارا جو شمال
سے مختلف تھے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کا مقامی زبانوں ، رسم و رواج اور رہن سہن کے طور طریقوں ، میلوں ٹھیلوں اور تہواروں کی خوب حوصلہ افزائی کی جانے لگی۔‘‘(۸)
بہمنی عہد میں ہند کا بیشتر علاقہ ایک نئے تہذیبی دھاگے میں پرودیا گیا۔ بہمنی سلاطین کا سیاسی کارنامہ اُس وقت ایک تہذیبی و لسانی کارنامہ میں تبدیل ہوگیا۔جب شمالی ہند میں محض بولی حیثیت رکھنے والی ایک زبان یہاں پہنچ کر ادبی و تخلیقی زبان کا درجہ پاگئی۔ اس زبان کو کبھی دکنی ، تو کبھی ہندوی اور کبھی اُردو ئے قدیم کہا گیا اس زبان اور اس کے پیغام نے عوام کو اپنا گرویدہ بنالیا اور سماجی مساوات و انسانی اخوت جیسے عظیم تصورات جو اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہیں جنوبی ہند میں بسنے والی اقوام میں اشاعت کی۔ اس طرح اس پسماندہ علاقے میں علوم و فنون کی روشنی پھیلائی۔ نصیر الدین ہاشمی’’دکن میں اُردو‘‘ میں رقمطراز ہیں۔
’’ محمد شاہ کے زمانے میں بہمنی سلطنت کے بڑے بڑے شہروں، مثلاً گلبرگہ، بیدر ، قندھار، دولت آباد، ایلچ پور، وغیرہ میں مدرسے قائم کئے۔ جہاں قابل اساتذہ طلباء کو درس دیا کرتے تھے۔ طلباء کے وظائف جاری تھے۔‘‘ (۹)
نصیر الدین ہاشمی کے اس بیان سے جہاں بہمنی سلاطین کی علم پروری کا اظہا ر ہوتا ہے وہیں یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مراٹھواڑہ کے دو شہر قندھار اور دولت آباد بہمنی سلطنت کے اہم علمی و ادبی مرکز تھے۔بہمنی سلاطین اصل میں وہی امیران صدہ تھے جنہیں خلجی عہد میں اپنے اپنے علاقوں کا منتظم مقرر کیاگیا تھا۔ یہ نسلاً ترک تھے اور دراوڑی زبانوں کے علاقوں کے حکمراں تھے۔ اسی لئے ان لوگوں کو ’’ ترک ماٹ‘‘ کہا جاتا تھا۔ دکن کے بعض علاقوں میں اب بھی اردو بولنے والوں کے لئے کبھی کبھار یہی نام ’’ ترک ماٹ‘‘ آج بھی سننے میں آجاتا ہے۔
بہمنی حکومت کا قیام ۱۳۴۷ ؁ء میں علاؤ الدین حسن بہمنی شاہ کے عہد میں عمل میں آیا۔ علاؤ الدین حسن اور اس کے بیٹے محمد شاہ کے عہد میں حضرت زین الدین اور حضرت عین الدین گنج العلم جیسے بزرگ، عالم ومبلغ دکن میں موجود تھے۔ حضرت گنج العلم سے منسوب رسالے اردو میں ملتے ہیں ۔فیروز شاہ کے عہد میں خواجہ محمد گیسودراز ؒ گلبرگہ تشریف لائے جن سے منسوب کچھ رسالے بھی ملتے ہیں۔ انہی میں سے ایک رسالہ’’ معراج العاشقین‘‘ کو ایک عرصے تک اردو کی پہلی نثری کتاب تصور کیا جاتا رہا ہے لیکن بعد کی تحقیق میں یہ تصور غلط ثابت ہوا۔ اسی عہد میں نظامی کی ایک اردو مثنوی ’’ کدم راؤ پدم راؤ‘‘ ملتی ہے ۔جسے اردو کی پہلی مثنوی مانا جاتا ہے۔ بہمنی سلطنت ۱۵۶۷ ؁ء تک یعنی تقریباً دوسو سال قائم رہی ۔ اسی عہد میں دکنی کے کئی نثری و شعری کارنامے دستیاب ہوتے ہیں لیکن یہ تمام آج بھی تحقیق کے طلبگار ہیں۔
بہمنی سلطنت کے خاتمے کا سبب بھی ایک ترکی سردار قاسم برید بنا۔ جس نے بہمنی حکومت کے خاتمے پر بیدر میں برید شاہی کے نام سے اپنی خود مختار حکومت قائم کی۔ بیجاپور میں عادل شاہی، احمد نگر میں نظام شاہی، برار میں عماد شاہی اور گولکنڈہ میں قطب شاہی اس طرح پانچ آزاد اور خود مختار سلطنتوں کا قیام ہوا۔ ان میں سے بیجاپور کی عادل شاہی اور گولکنڈہ کی قطب شاہی نے اردو زبان و ادب کی بیش بہا خدمات انجام دیں۔
بیجاپور کی عادل شاہی کا بانی یوسف عادل خان ترک تھا۔ یوسف اپنی صلاحیتوں کی بناء پر ترقی کرکے اس مرتبے کو پہنا تھا۔ وہ قلم اور تلوار دونوں کا دھنی تھا اور اپنے عہد میں اس نے زبان و ادب اور علم و فضل کی خوب سرپرستی کی بقول عبدالقادر سروری ؂
’’ یوسف عادل کے خاندان نے بیجاپور پر تقریباً دوسو برس حکومت کی اُس خاندان کے نوبادشاہ ہوئے۔ یوسف کو علم وفضل سے بھی اچھا لگاؤ تھا۔ وہ فارسی میں شعر بھی کہتا تھا۔ عادل شاہی سلطنت کے قیام سے پہلے ہی عرب، عراق اور ایران کے علاوہ اکناف ہند سے بھی بہت سے عالم فاضل اور صوفی بیجاپور آگئے تھے۔ ان میں حضرت حاجی رومی، شیخ نصیر الدین، نصر اﷲ ولی، پیر جمنا، حضرت پیر مقصود وغیرہ شامل ہیں۔‘‘ (۱۰)
عادل شاہی سلطنت کے بانی ترک تھے۔ خود یوسف عادل شاہ کو ہندوستان آئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا لیکن اس کی فکر اور شخصیت میں ہندوستانیت بلکہ دکنیت ایسی رچ بس گئی تھی کہ اس کی عوام بھی اسے دکنی ہی تصور کرتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے محلوں کے نام بھی خالص ہندوستانی بلکہ دکنی رکھے۔ آنند محل او ر چمپا محل اس کی خوبصورت مثال ہیں۔ یہی نہیں اپنی بیٹی کا نام بھی اس نے بی بی ستی رکھا جو احمد شاہ سے بیاہی گئی تھی۔ دربار میں اس کی خدمت کے لئے جو نوجوان منتخب کئے جاتے انھیں شاہی چیلے کہا جاتا۔
یوسف عادل شاہ کے نسب کی تحقیق کا ایک دلچسپ واقعہ محمد قاسم فرشتہ نے تاریخ فرشتہ میں بیان کیا ہے ۔واقعہ کے مطابق ایک مرثیہ خواتین کی ایک محفل میں یوسف عادل شاہ کی بیٹی بی بی ستی نے بیان کیا کہ اس کے اجداد روم (یعنی ترکی) کے بادشاہ ہیں جب یہ بیان امیر قاسم برید تک پہنچا جو خود ایک ترک تھا تو اس نے اس کی تحقیق کرنے کی ٹھانی ۔ فرشتہ کے مطابق۔
’’ امیر قاسم برید نے اپنے ایک قابلِ اعتبار شخص کو تجارت کے بہانے سے روم روانہ کیا تاکہ وہ ملکہ جہاں کے بیان کی تحقیق کرے۔ یہ شخص قسطنطنیہ پہنچا اور اس نے شاہی حرم سرا کی ضعیف العمر عورتوں سے سلطان محمد کے بھائیوں کے بارے میں پوچھا۔ ان تمام عورتوں نے جو کچھ کہا اس سے بی بی ستی کے بیان کی لفظ بہ لفظ تصدیق ہوتی تھی اس طرح یہ بات ثابت ہوگئی کہ یوسف عادل شاہ سلطان مراد کا بیٹا ہے۔ ان تمام روائیتوں کے علاوہ یوسف کے رومی النسل ہونے کا اس امر سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اور اس کا بیٹا اسمٰعیل دونوں ہی رومیوں کو بہت پسند کرتے تھے۔ اپنے اپنے عہد حکومت میں انھوں نے رومیوں کو بڑے بڑے عہدوں پر سرفرا ز کیا۔‘‘(۱۱)
ابراہیم عادل شاہ عادل شاہی کا تیسرا فرما نروا تھا۔ جس کے عہد میں دفاتر کی سرکاری زبان فارسی کی جگہ اردو کی گئی۔ اس عہد میں اردو کو ہندوی کہا جاتا تھا۔ اس عہد میں میراں جی شمس العشاق گزرے ہیں جو بڑے عالم اور شاعر تھے ان کے کئی رسالے اردو میں ملتے ہیں جن میں ’’ خوش نامہ‘‘ اور ’’ خوش نغز‘‘ اہم ہیں۔ عادل شاہی فرمانرواؤں میں ابراہیم عادل شاہ ثانی جو جگت گرو کے نام سے مشہور ہوا ایک اہم حکمراں رہا ہے جس کے دور میں اردو ادب بالخصوص شاعری کو بہت زیادہ فروغ ہوا۔ اسے شاعری اور موسیقی سے دلچسپی تھی۔ ’’ نورس‘‘ اس کا شعری مجموعہ ہے ۔
عادل شاہی کا آٹھواں حکمراں علی عادل شاہ اردو کا ایک اچھا شاعر تھا اور شاہی تخلص کرتا تھا۔ اس کے دربار کے ملک الشعراء نصرتی نے ’’ علی نامہ‘‘ لکھ کر اس کی شخصیت اور عہد کو جاوداں کردیاہے۔علی عادل شاہ کے دربار کا ملک الشعراء نصرتی ایک قادر الکلام شاعر تھا اور قصیدہ ، مرثیہ، مثنوی اور غزل غرض تمام اصناف میں طبع آزمائی کی۔ اس کی مثنوی ’’ گلشن عشق‘‘ اردو ادب کا اہم سرمایہ ہے۔
دوسری جانب گولکنڈہ میں قائم قطب شاہی سلطنت نے بھی اردو شعر و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کابانی سلطان قلی تھا جس کا تعلق ہمدان (ایران) سے تھا۔ اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ اسی قطب شاہی کاچوتھا فرمانروا تھا۔ قطب شاہی کے اہم شعراء میں فیروز ،سیّد محمود، وجہی، ابن نشاطی اور غواصی شمار کئے جاتے ہیں ۔
قطب شاہی کا بانی سلطان قلی اگرچیکہ ہمدان میں پیدا ہوا تھا لیکن ترک نژاد تھا۔ (۱۲) جمیل جالبی اور خود محمد قاسم فرشتہ بھی ان الفاظ میں اس امر کی تصدیق کرتے ہے کہ’’ سلطان قلی میر علی ترکوں کے مشہور قبیلے بھارلو سے تعلق رکھتا ہے۔ اس خاندان کے بعض افراد کا یہ دعویٰ ہے کہ سلطان قلی ، میراز جہاں شاہ مقتول کی اولاد میں سے تھا۔(۱۳) قطب شاہی کا قیام ۱۵۱۸ ؁ء میں گولکنڈہ میں ہوا اور اس کا خاتمہ ۱۶۸۷ ؁ء میں ابوالحسن تانا شاہ پر ہوا۔ تقریباً دیڑھ صدی کے اس عرصے میں کل آٹھ بادشاہ ہوئے یہ سلطنت اپنے حسن انتظام ، امن و سکون میں گزرا لیکن علم و فن سے اس کے لگاؤ کا ثبوت اس کا خاص محل ’’آش خانہ‘‘ تھا جہاں شعراء ادیب و دانشور جمع ہوتے تھے اور ان نشستوں شعر و ادب اور علوم و فنون پر مباحثے ہوتے تھے۔(۱۴)
قطب شاہی کے عروج کا زمانہ اس کے چوتھے فرمانروا ابراہیم قلی سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے عہد میں قطب شاہی سلطنت امن و آشتی اور علم و فنون کا گہوارہ تھی۔ اس کا دور فکری، علمی، ادبی اور تعمیری ترقی کا دور تھا ۔قطب شاہی سلاطین نے علم و ادب کے حوالے سے دکن کی تہذیب و ثقافت پر گہرے بلکہ انمٹ نقوش مرتب کئے جمیل جالبی کے مطابق تو انھوں نے یہاں ایک تیسرے کلچر کی بنیاد رکھی۔
’’ قطب شاہی بادشاہوں کی ایک مشترکہ خصوصیت یہ تھی کہ وہ سب کے سب اعلیٰ تعلیم سے بہرہ ور تھے۔ انھوں نے ایک طرف اپنے نسلی خصائل باقی رکھے اور اسلامی علوم کو ترقی دی اور دوسری طرف اپنے ملک کے تہذیب و تمدن کو اپنا کر ایک ’’ تیسرا کلچر‘‘ پیدا کیا جس میں دونوں کلچروں کے صحت مند عناصر موجود تھے۔‘‘(۱۵)
ابراہیم نے علم و فن کے جو چراغ جلائے تھے اس کے جانشین محمد قلی قطب شاہ نے اس چراغ سے اپنا چراغ جلایا ۔قلی قطب شاہ کا عہد دکن میں دکنی تہذیب اور دکنی زبان کے عروج کا عہد ہے۔ حیرت انگیز طور پر ادھر بیجاپور میں اسی سال علم و فن کا پروردہ ابراہیم عادل شاہ تخت نشین ہوتا ہے۔ جس سال محمد قلی قطب شاہ گولکنڈہ میں تخت نشین ہوا یہ دور عادل شاہی اور قطب شاہی کے درمیان پرامن اور دوستانہ تعلقات کا بھی سنہری دور ہے کیونکہ محمد قلی قطب شاہ نے دونوں حکومتوں کے درمیان ہوئے صلح و امن کے معاہدے کو مزید استحکام بخشنے کی خاطر اپنی بہن چاند سلطانہ کا عقد ابراہیم عادل شاہ سے کروادیا۔ محمد قلی قطب شاہ کے دور کا ایک نقشہ نصیر الدین ہاشمی کے الفاظ میں کچھ یوں ہے ؂
’’ سلطان کے دربار میں علامّہ میر محمد مومن کے علاوہ قاضی محمد سمانی میرک معین الدین سبزواری، مرزا محمد امین جیسے اصحاب علم و فن موجود تھے۔مرزا محمد امین نے خمسہ نظامی کے جواب میں چار مثنویاں ، شیریں خسرو ، لیلیٰ مجنوں فلک البروج اور مطمح الاشعار لکھ کر اپنی قابلیت کا مظاہرہ کیا جیسا کہ تذکرہ کیا گیا سلطان محمد قلی نے شہر حیدرآباد کو آباد کیا اور اس کو عالی شان عمارتوں، خوبصورت ایوان، سرسبز اور شاداب خوش نما باغوں، نہروں سے آراستہ کیا اور اس شہر کے عمرانی لوازم کو نہایت سلیقہ اور ہنر مندی کے ساتھ جمع کردیا تھا اور تلنگانہ کے طول وعرض میں بہترین اجتماعی زندگی کی بنیاد ڈالی، اس کو فنونِ لطیفہ کی ہر شاخ سے دل چسپی تھی جس کی وجہ سے زندگی میں شگفتگی پیدا کرنے کے اسباب جمع کیے۔ شاعری، موسیقی، مصوّری سے دل چسپی تھی اور ان کو ترقی دینے میں پوری کوشش کرتا رہا۔‘‘(۱۶)
اس کے عہد میں ترکی اور ہندوی کلچر میں اختلاط و امتزاج کا عمل تیز تر اور نتیجہ خیز ہوا۔ اسی تہذیبی اختلاط اور امتزاج کے نتیجے میں ایک نوخیز زبان ادبی زبان کے مرتبے کو پہنچی ہے۔دکنی کے نام سے جانے جانے والی اس زبان کا خمیر عربی، فارسی اور ترکی کے علاوہ مراٹھی تلگو اور کنڑ زبانوں سے اٹھتا ہے۔ ان مقامی زبانوں میں مراٹھی ایک جدید ہند آریائی زبان ہے جس سے اختلاط کوئی عجب نہیں ۔ لیکن تلگو اور کنڑ خالص دراوڑی خاندان سے متعلق زبانیں ہیں۔ ان سے اختلاط ایک غیر معمولی امر رہے ۔ یہی دکنی زبان کی خصوصیت ہے جو اسے اردو سے مختلف کرتی ہے۔ محمد قلی قطب شاہ نے دکنی اور تلگو زبان میں شاعری کی اسے اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے ۔ اس کی کلیات میں مثنوی، قصیدہ، مرثیہ غزل کے علاوہ نوحے اور سلام بھی ملتے ہیں۔ اس کی شاعری میں مقامی رسوم و رواج، عید، نوروز، بسنت اور قدرتی
مناظر پر بھی نظمیں ملتی ہیں۔ اس کے کلام سادگی، سلاست و روانی کے ساتھ ساتھ تشبیہ و استارہ اور وصف نگاری کا عنصر پایا جاتا ہے۔ قطب شاہوں میں محمد قلی کے بعد اس کا جانشین اس کا نواسہ عبداﷲ قطب شاہ ہوا عبداﷲ قطب شاہ کے بھی اردو و فارسی دیوان ملتے ہیں۔
یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان اور بالخصوص دکن میں اولاً بہمنی سلطنت اور بعد ازاں عادل شاہی اور قطب شاہی کے تحت ترکوں نے اردو زبان و ادب کی نشوونما اور ترویج و ترقی میں نہ صرف غیر معمولی کردار ادا کیا ہے بلکہ اردو کو ادبی زبان کی حیثیت دلانے میں تاریخی کردار ادا کیا ہے۔

حوالہ جات
۱): http//coinindia.com/gallaries-ghaznavid.html
۲): محمد قاسم فرشتہ۔تاریخ فرشتہ(جلد اوّل) مترجم عبدالحئی خواجہ۔ مکتبہ دیوبند۔۱۹۸۳ ؁ء ص۲۰۳۔۹۹
۳): پروفیسر عبدالقادر سروری۔اردو کی ادبی تاریخ۔دوسرا ایڈیشن ۱۹۷۵ ؁ء ۔ شیخ محمد عثمان اینڈ سنز ۔ سری نگر۔ص ۵۲
۴): پروفیسر عبدالقادر سروری۔اردو کی ادبی تاریخ۔دوسرا ایڈیشن ۱۹۷۵ ؁ء ۔ شیخ محمد عثمان اینڈ سنز ۔ سری نگر۔ص ۶۱
۵): محمد قاسم فرشتہ۔تاریخ فرشتہ(جلد اوّل) مترجم عبدالحئی خواجہ۔ مکتبہ دیوبند۔۱۹۸۳ ؁ء ص۴۱۷
۶): محمد قاسم فرشتہ۔تاریخ فرشتہ(جلد اوّل) مترجم عبدالحئی خواجہ۔ مکتبہ دیوبند۔۱۹۸۳ ؁ء ص۴۱۸
۷): محمد حسن ۔ قدیم اردو ادب کی تنقیدی تاریخ۔ اتر پردیش اردو اکادمی لکھنو۔۱۹۸۶ ؁ء۔ص۵۵
۸): ڈاکٹر محمد علی اثر۔ دکنی شاعری۔ حسامی بک ڈپو حیدرآباد۔۱۹۹۵ ؁ء۔ ص ۱۳
۹): نصیر الدین ہاشمی۔ دکن میں اُردو۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان۔۱۹۷۵ ؁ء۔ص ۴۶
۱۰): پروفیسر عبدالقادر سروری۔اردو کی ادبی تاریخ۔دوسرا ایڈیشن ۱۹۷۵ ؁ء ۔ شیخ محمد عثمان اینڈ سنز ۔ سری نگر۔ص ۹۶
۱۱): محمد قاسم فرشتہ۔تاریخ فرشتہ(جلد دوّم) مترجم عبدالحئی خواجہ۔ مکتبہ دیوبند۔۱۹۸۳ ؁ء ص۸۶
۱۲): جمیل جالبی۔ تاریخ ادب اردو۔ جلد اوّل۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی۔۱۹۷۷ ؁ء۔ص۳۸۱
۱۳): محمد قاسم فرشتہ۔تاریخ فرشتہ(جلد دوّم) مترجم عبدالحئی خواجہ۔ مکتبہ دیوبند۔۱۹۸۳ ؁ء ص۴۵۷
۱۴): محی الدین قادری زور۔ اردو شہ پارے۔ ادارہ ادبیات اردو۔ص ۸۰
۱۵): جمیل جالبی۔ تاریخ ادب اردو۔ جلد اوّل۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی۔۱۹۷۷ ؁ء۔ص۳۸۲
۱۶): نصیر الدین ہاشمی۔ دکن میں اُردو۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان۔۱۹۷۵ ؁ء۔ص
– – – – – –
Article : The Role of Turks for the development of Urdu Language
Writer : Dr.Saleem Mohiuddin

Share
Share
Share