شاعرِمہر و ماہ: مسعود عابد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرسید اسرارالحق سبیلی

Share

asrarشاعرِمہر و ماہ: مسعود عابد

ڈاکٹرسید اسرارالحق سبیلی
اسسٹنٹ پروفیسر‘گورنمنٹ ڈگری کالج
سدی پیٹ ۔ تلنگانہ (موبائل : 09346651710)

جدید و عصری لب ولہجہ کے خوش فکر رو مانوی شاعرسید علی مسعود عابد اکیلوی ظہیر آبادی مرحوم (1947ء ۔2010ء)کی نعتوں ،غزلوں اور نظموں کا مجموعہ مارچ 2014ء میں جواں سال اسکالر ڈاکٹر نوید عبدالجلیل نے مرتب کرکے شائع کیا ہے ۔مسعود عابد نے 1983ء میں اپنا مجموعہ مرتب کرکے ’’سورج پگھلے لفظوں میں‘‘ کے نام سے شا ئع کیا تھا جو ان کی شاعرانہ زندگی کے تقریباًنصف حصہ پر مشتمل ہے ،مذکورہ مجموعہ پوراچاند اورآدھی رات ان کی پچاس سالہ شعری زندگی کا منتخب اور دستیاب شدہ مجموعہ ہے ،یہ نام مرتب نے ان کی ایک غزل کی ردیف سے اخذ کیا ہے :

میرے جزبوں کا سرما یہ ،پورا چاند اور آدھی رات
ساتھ تیرا سونے پہ سہاگہ پورا چاند اور آدھی رات

چمپا صندل اور رات کی رانی کا جادو کیا کہئے
سامنے ہو جب تہر چہرہ،پورا چاند اور آدھی رات
مذکورہ اشعار کو پوری کتاب کا خلاصہ کا درجہ دیا جا سکتا ہے ،کیونکہ ان میں جو خوب صورت جھلک پیش کی گئی ہے وہ پوری کتاب کے اوراق میں چمکتی اور نکھرتی نظر آتی ہے ، جیسے :جذبوں کی صداقت وحرارت ، مطالعہء کائنات و فطرت ،رومانیت اور حسین و نادرتشبیہات و استعارات وغیرہ ۔
مسعود کا کلام فکری و فنی اعتبار سے اہل ادب و نقد کی توجہ اور مطالعہ کا مستحق ہے، انھوں نے لفظی عبو معا نوی اعتبار سے فکر و فن کی کسوٹی پر پرکھ کر شاعری کی ہے اور خالص شاعرانہ انداز اختیار کیا ہے اور عامیانہ انداز سے گریز کیا ہے، فساحت و بلاغت ، حسین و نادر تشبیہات و استعارات ، نا زک خیالی ، عربی و فارسی کے فصیح الفاظ کے علاوہ ہندی و دیوناگری کے سبک و ملائم الفاظ کے ملاپ سے انھوں نے ایک الگ اسلوب وضع کیا ہے جس میں ترقی پسند شعراء کے رنگ وآہنگ ،موسقییت اور رومانیت پسندی کے ساتھ جدید فکر و مسائل ،جدید الفاظ و تعبیر اور جدید خیالات حسن و خوبی اور پر کاری کے ساتھ شامل کئے گئے ہیں:
کہیں پہ بم ہے کہیں دھما کہ ،کہیں یہ بارود کی سرنگیں
عجب کھلونے ہیں آج کل کے،کہ جن سے انساں بہل رہا ہے

کسی کے گھر کو جلا کے کوئی بسائے ہے قہقہوں کی دنیا
کسی کی دنیا اجڑ رہی ہے ، کسی کا ارماں نکل رہا ہے

مندرجہ ذیل اشعار میں ہندی الفاظ کا استعمال بہت خوبی سے کیا گیا ہے :
شیتل شیتل بوندیں من کی گہرائی میں ٹپکی ہیں
نین میں امرت گھول گیا ہے گوری کا بلور بدن

پورنیما ہے یا امبر پر دودھ کی گاگر ٹوٹ گئی ہے
بھیگ چکا ہے رات کا آنچل دھلا دھلا ہے نیل گگن

ہردے کے سونے آنگن میں کتنی چتائیں جلتی ہیں
رات کا منہ چیر تا ہے جب انگارے برساتا راگ

اور مذکورہ ذیل غزل کے شعر پر دوہے کا شبہ ہوتا ہے :
بندیا، کنگن جھاجھن سب کو آیا ہے یہ دھیان
اپنا بھی ہونے والا ہے پھولوں سا انجام

جب کہ مندرجہ ذیل اشعار میں فارسی و عربی کہ فصیح و بلیغ الفاظ کا استعمال بڑے سلیقے سے کیا گیا ہے :
درِقفس سے شمیمِ اسیر نکللی ہے
شگفتہ غنچوں کو پھر کیوں فتح بات کہوں

شرابِ سرخ سہی ، آتشیں لب وعارض
شرابِ سرخ سے لیکن مرا دہن تو جلے

شرربن کے لپک ،کوند بجلیوں کی طرح
نگاہِ اہلِ جنوں سے روئے اہرمن تو جلے

غزل کے شعر تو کندن کی طرح دمکیں گے
بس ایک پل کے لئے شمعِ فکرو فن توجلے

مندرجہ ذیل اشعار میں حسیں تشبیہات واستعارات ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں:
پسینہ بن کے کبھی ،اشک بن کے ڈھلتا ہے
ندامتوں کی طرح انفعال سا کوئی

کسی ایک کا تبسم ازال افسانے
کھلے ہیں داستاں در داستاں گلاب کے پھول

من کا موم پگھلتا جائے دھیمی دھیمی آہوں سے
رخساروں پہ رنگ ہیں کتنے دہکے ہوئے انگاروں کے

شاعر نے ’’ریبیکا‘‘کے مجسمہ کی طرح پتھر سے پھول سا مجسمہ تراشا ہے ،نازک پیکر تراشی ملاحظہ ہو:
جسم ہے پھول ،انداز بھی پھولوں جیسا
پھول ہی پھول نظر آتا و ہ ترشا پتھر

اور انھوں نے پھول جیسے جسم پر حیا کی شبنمی چادر اڑھا ئی ہے:
رنگِ دل بدلے اڑتے ہوئے گالوں کا گلال
پھول سے جسم پہ برسے ہے حیا کی شبنم

شاعر کے ذہن پر رومانیت غالب ہے ،غزلوں اور نظموں کا بیشتر صفحہ رومانیت کی خوشبوؤں سے معطر ہے ،بطورِ خاص یہ اشعار ملاحظہ ہوں:
پھر ساجن کی یاد دلائیں کالے بادل آنگن میں
اشکوں کی برسات بہائے گہرا کاجل آنگن میں

بیکل من میں آگ لگائے شیتل شیتل پروائی
جب بھی مہکے رات کی رانی ،چمپا ،صندل آنگن میں
عابد صاحب کی شاعری جذبات و احساسات کی سچی ترجمان ہے،کائنات ،فطرت اور شخص کا گہرا مطالعہ و مشاہدہ شاعری کی چکّی میں پس کرکبھی شہر کی نفسا نفسی بیان کرتے ہیں ،تو کبھی گاؤں کی سادگی ،خلوص ، بھول پن اور بانک پن پر مر مٹتے ہیں ،کبھی ہفت اقلیم سجے جنگل میں گیان حاصل کرنے کی دعوت دیتے ہیں تو کبھی زندگی کا تماشہ دکھاتے ہیں کبھی دنیا کو ٹھوکر مارکرخدا کی ذات سے رشتہ جوڑتے ہیں ،تو کبھی خود آگہی کی دعوت دیتے ہیں اور ان سب پر عابد صاحب کا جادوسر چڑھ کربولتا ہے :
عابد صاحب سر چڑھ کر خود اس کا جادو بولے گا
دل میں اتر کر جب اس کی پھولوں جیسی یاد
غزلوں کی طرح ان کی نظموں میں بھی جذبوں کی صداقت ،والہانہ پن، زندگی کے کربناک لمحات ،تنہائی کا زخم ،پاکیزہ رومانیت اور فطرت کا نئے زاویہ سے مطالعہ شامل ہے ، ان کے یہاں زیادہ ترآزاد نظمیں ہیں ،البتہ کچھ پابند نظمیں بھی ہیں ، فکری و فنی اعتبارسے مندرجہ ذیل نظمیں اپنے رومانوی طرزِ نگارش کی بنا پر غیر معمولی کشش رکھتی ہیں :
جذبوں کی آنچ ،فکرِ صحرا،سوچ کا المیہ ،منجمد لمحے ،نئی الجھن ،قدرِزر اور حسن ، کاتبِ تقدیر،لمحوں کی غذا،انتقام ، واپسی ، ہجر کادشت اور اجنبی خواہش ۔
ان کی پابند نظموں میں بلا کی شوخی ،بے ساختگی ، جدت اور رومانیت ہے:
بدر کی شکل میں پھر رات کی رانی نکلی
پاؤں میں باندھے ہوئے کاہکشاں کی پائل
رقص کرتی تھی کسی شو خ تبسم کی طرح
دیکھ کر رقص میری یا د نے انگڑائی لی
ذہنِ تاریک میں تاروں کی طرح کھل اٹھے
رقص کرتی ہوئی راتیں ،وہی گاتے ہوئے دن
کھل گئی آنکھ مری ، ہوک سی دل میں اٹھی
ہجر کے دشت میں ہے دور تلک سناٹا
ایک مدت سے رہِ شوق ہے سونی سونی
کوئی آہٹ کوئی پازیب کی جھنکا رنہیں
شب ہے تاریک کوئی شعلہء رخسار نہیں
(ہجر کا دشت)
ان کی آزاد نظمیں زیادہ تر تاثراتی اثر لئے ہوئے ہیں ، ان میں بلا کی دل آویزی اور رعنائی ہے ،تاثراتِ حج ملاحظہ ہوں:
یہ کیسی وادی میں آگئے ہم
جہان پہ ساری حقیقتیں بھی
عبادتوں اور عقیدتوں سے جڑی ہوئی ہیں
ہیں ہے سمتوں کا کچھ تعین
شمال ہے نہ جنوب کوئی
نہیں ہے کوئی دشا نہیں ہے
ہر ایک سجدہ
ہے لاکھ سجدہ کا ایک سجدہ
کوئی گدا ہے نہ شاہ کوئی
نہ کوئی نسل و نسب کا جھگڑا
زبانیں رکھ کر بھی لوگ
گونگے بنے ہوئے ہیں
لرزتے ہونٹ اور چھلکتی آنکھوں کے پاک آنسوں
انہی سے دھلی دعائیں
وہی دعائیں شفق میں مل کر
حسین شاموں میں مل گئی ہیں ……
(یہ کونسا دیا ر ہے ؟)
بیٹی کی رخصتی پر ان کی تاثراتی نظم اندرونی کیفیات کی پوری ترجمانی کرتی ہے اور خوشی و غم کے ملے جلے جذبات کی حسین عکاسی کرتی ہے :
مری بچی
دلہن بن کر تو میرے گھر سے جب نکلی
تو مجھ کو یوں لگا
کہ میرا گھر تو جیسے ایک سرائے تھا
گھنا ایک پیڑ تھا
کہ جس کہ سائے میں
چہکتی گنگناتی تھی تو
ملن کے گیت گاتی تھی
مری بلبل
مگر گیتوں میں جذبے تھے
تڑپتے ہجر کے دور کے جذبے
وہ جذبے قرب میں بدلے
کہ تیری آرزوئیں
ہوگئیں پوری
مگر میں جب کبھی محراب میں
یا کھڑکیوں میں دیکھتا ہوں
تری گڑیاں
تری ٹانک کی شیشی ،ڈائری
تو لگتا ہے تری یادوں کے سائے
اب بھی مجھ سے بات کرتے ہیں
یہ کہتے ہیں
کہ بیٹی کوئی
ماں باپ کی وہ زندگی ہے
بھلا کیا زندگی بھی ساتھ دیتی ہے ابد تک ؟
یقیناوہ بچھڑ جائے گی
بن کر یاد تڑپائے گی اک دن……
(یہی تو زندگی ہے )
ان کی دو نظمیں بچوں کے ادب میں شمار کئے جانے کی لائق ہیں :(۱)ماں (۲) املی کا ذائقہ بچپن۔
پہلی نظم میں ماں کی عظمت بیان کی گئی ہے اور اس کی بے لوث محبت ، ایثار اور محنت کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہے ،دوسری نظم میں بچپن کی حسین یادوں اور ماصوم ہرکتوں میں بڑے دل کش انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
مسعود صاحب نے عابد تخلص اختیار کرکے اپنے عبادت گزار ہونے کا اقرار کیا ہے ، وجیہ،با ریش چہرہ ، سر پر ٹوپی یا پگڑی دیکھ کر سلسلہ ء مشائخ کا گماں ہوتا تھا، وضع داری ، والہانہ پن ،خلوصِ بے پایاں ، دوستوں اور عزیزوں سے حد درجہ محبت و لگاؤ ان کی شخصیت کی نما یاں خصوصیات تھیں ، ان کی شخصیت کا عکس کہیں کہیں ان کے اشعار میں جھلک جاتا ہے :
خزاں کے موسم کے زرد پتے گزرتے لمحوں کے ترجماں ہیں
بکھرتے اوراق کی کہانی میرا وجود آج کل رہا ہے
وہ تازگی سی کوئی چیز بانٹتا عابد ؔ
سنا ہے یہ کہ وہ ہے خوش خصال سا کوئی
محمد قلی قطب شاہ کی طرز پر مناجات ، نعتیں ، اور سفر حج کے تاثرات ان کی مذاہب سے وابستگی کے مظاہر ہیں۔
میری خواہش تھی کہ ان کی وفات کے بعد ان کا بکھرا ہو ا کلام یکجا ہو جائے ، میں نے نوید عبدالجلیل کو توجہ بھی دلائی تھی ، مجموعہ شائع ہونے پر مجھے دلی مسرت ہوئی ، میں مرتب کو مبارک باد دیتا ہون کہ انہوں نے پھر ایک بار مسعود عابد کی خوابدہ بادوں کو جگانے اور انہیں خراجِ تحسین پیش کرنے کا موقع فراہم کیا ۔

Share
Share
Share