مسلم پرسنل لابورڈ۔تعارف اور خدمات
مفتی امانت علی قاسمیؔ
استاذ دار العلوم حیدرآباد
E-mail:
Mob: 07207326738
ہندوستان میں جن تحریکات اور تنظیموں نے مسلمانوں کے ایمان و عقائد اور اسلامی قوانین کی حفاظت اور نازک حالات میں مسلمانوں میں جوش و ہمت ،عزم و استقامت اور فکر وتدبر پیدا کرنے کا فریضہ انجام دیا ہے اس میں ایک اہم نام مسلم پرسنل لا بورڈکا ہے جس نے مشکل حالات میں امت کی رہبری کی ، مسلمانوں کے عائلی مسائل کے تحفظ میں اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کیا اور مسلم قوم کی گرتی دیوار کو سنبھالا دے کر ان میں استحکام کی مضبوط کوشش کی ہے ذیل میں مسلم پرسنل لا کے قیام ،اہمیت اور خدمات کا سرسری جائزہ پیش کیا جاتا ہے ۔
قیام اور پس منظر
ہندوستان میں قدیم زمانے سے مسلمانوں کی حکومت قائم تھی اور اسلام اور مسلمانوں کو کسی قسم کے خطرات لاحق نہیں تھے مسلم حکمراں اگرچہ اسلام اور اسلامی احکام پر بہت زیادہ عمل پیرا نہیں تھے ؛لیکن ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے اسلامی قوانین کوتحفظ ضرور حاصل تھا ،برٹش گورنمنٹ کے قیام و استحکام کے بعد انہوں نے دھیرے دھیرے اسلامی قانون کو ختم کرنے کی کوشش کی چنانچہ ۱۸۶۶ء میں اسلام کا قانون فوجداری ختم کیا گیا اس کے بعد قانون شہادت اور قانون معاہدات منسوخ کئے گئے اور نوبت معاشرتی وعائلی قوانین نکاح ،خلع ،طلاق ،میراث وغیرہ میں غور و فکر تک پہونچ گئی اس کے لئے حکومت برطانیہ نے رائل کمیشن (royal commission)مقرر کیا اور اس کمیشن نے یہ رپورٹ پیش کی کہ معاشرتی قوانین میں تبدیلی براہ راست مذہبی امور میں مداخلت کے مترادف ہے جسے مسلمان برداشت نہیں کریں گے اور حکومت کے استحکام کو خطرہ لاحق ہوجائیگا ، چناچہ انگریزوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ان مسائل میں مسلمان قانون شریعت پر اور ہندو شاستر پر عمل کریں گے ۔
شریعت اپلیکیشن ایکٹ
لیکن اسی دوران ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ ایک لڑکی نے اپنے باپ کی میراث کے لئے عدالت میں مقدمہ دائر کیا کہ میرے بھائی نے مجھے باپ کی میراث سے محروم کر دیا ہے جبکہ اسلام میں بہن کو بھائی کا نصف حصہ ملتا ہے اس پر بھائی نے عدالت میں بیان دیا کہ ہم نسلی طور پر فلاں ہندو قوم سے ہیں جس میں لڑکیوں کو باپ کی میراث میں حصہ نہیں ملتا ہے یہی رواج ہمارے خاندان میں چلا آرہا ہے ،برطانوی قانون میں رواج کو بڑی اہمیت حاصل تھی اس لئے لڑکے کے حق میں فیصلہ کر دیا گیا یہ فیصلہ اسلامی نقطہ نظر سے عورتوں کے سے ساتھ ظلم اور شریعت اسلامی میں بے جا ترمیم تھا اس لئے علماء اور دانشوروں نے مشترکہ جد و جہد کی اور اس فیصلے کے خلاف آواز بلند کیا ،قوم وملت کی سر آوردہ شخصیات کی متحدہ آواز کے سامنے حکومت کو جھکنا پڑا اور علما ومشائخ کی مشترکہ کو ششوں سے ۱۹۳۷ء میں شریعت ایپلیکیشن ایکٹ بنا جس کا حاصل یہ تھا کہ نکاح ،طلاق ،خلع ،ظہار ،مباراۃ،فسخ نکاح ،حق پرورش ،ولایت ،حق میراث ، وصیت ،ہبہ ، اور شفعہ سے متعلق معاملات میں اگر دونوں فریق مسلمان ہوں تو شریعت محمدی کے مطابق ان کا فیصلہ ہوگا خواہ عرف و رواج کچھ بھی ہو۔
آزاد ہندوستان میں پرسنل لا پر پہلا حملہ شریعت اپلیکیشن ایکٹ ایک اہم اور دور رس نتائج کا حامل قانون تھا ،جو ہندوستان میں مسلمانوں کو پرسنلا کا تحفظ فراہم کرتا تھا ،ملک کے آزاد ہونے کے بعد اس ملک کا دستور جمہوری قرار پایا جس میں اس بات کی آزادی تھی کہ ہر شخص اورہر قوم و طبقہ کو مذہبی و تہذیبی آزادی ہوگی ، ہندوستان کے دستور میں عقیدہ و ضمیر کی آزادی مسلم پرسنل لا کے تحفظ کی ضمانت دیتی ہے ،لیکن بد قسمتی سے ہندوستان کے رہنما اصول میں ایک دفعہ (دفعہ۴۴) یکساں سول کوڈ سے متعلق رکھی گئی اور دستور کے نفاذ کے کچھ ہی سالوں بعد یکساں سول کوڈ کی بات اٹھنے لگی
متبنی بل
بالآخر ۱۹۷۲ء میں متبنی بل پاس ہوا جس کے رو سے بلا تفریق مذہب وملت ،ملک کی تمام قوموں کے لئے متبنی کو اولاد کا درجہ دے دیا گیا اور منھ بولے بیٹے کو مرد و عورت کے ترکہ میں حقیقی بیٹے کی طرح وارث قرار دیا گیا ظاہر ہے کہ یہ قانون نہ صرف اسلام کے خلاف تھا ؛بلکہ عقل وخرد کے مغائر تھا ،کیوں کہ اولاد کا رشتہ ایسا نہیں ہے جو صرف زبان سے وجود میں آجائے ؛بلکہ یہ رشتہ خون اور نسب کی بنیاد پر وجود میں آتا ہے چناچہ اس بل نے پورے ہندوستانی مسلمانوں کو بے چین کر دیا یہ پرسنل لاپر پہلا حملاتھا اور یہیں سے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی ابتدائی کوشش شروع ہوتی ہے اس نازک اور مشکل حالات میں جس ادارہ اور تحریک نے سب سے پہلے قدم اٹھایا اور ہند وستان کی جس درد مند اور ہوش مند شخصیت نے سب سے آگے بڑھ کر اپنا رہنمائی کا فریضہ انجام دیاوہ امارت شرعیہ کے میر کارواں مولانا منت اللہ رحمانی ؒ تھے انہوں نے ۲۸ /جولائی ۱۹۶۳ء کو انجمن اسلامیہ ہال پٹنہ میں ایک کنونشن منعقد کیا اور حکومت کو مسلم پرسنلا میں تبدیلی نہ کرنے کا سخت انتباہ دیا، اس سلسلے کی دوسری بڑی کوشش بر صغیر کی مشہور دینی درسگاہ اور ملت اسلامیہ کی بھر پور قیادت کرنے کرنے والی دینی تعلیم گاہ دارالعلوم دیوبند نے اپنے خداترس مہتمم حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب ؒ کی سرپرستی میں انجام دیا اور ایک مؤثر اجلاس دارالعلوم کے احاطے میں منعقد کیا گیا، اس اجلاس میں مولانا منت اللہ رحمانی ؒ نے حکومت کے بدلتے تیور اور مستقبل کے خطرات سے لوگوں کو واقف کرایا، اس اجلاس میں کئی اہم فیصلے بھی کئے گئے اس میں ایک فیصلہ یہ تھا کہ بمبئی میں ایک عظیم الشان کنونشن منعقد کیا جائے چناچہ ۲۸ /دسمبر ۱۹۷۲ء کو بمبئی کے مہارشٹر کالج میں ایک زبردست اور مؤثر کنونشن کا انعقاد ہوا جس میں ملک کے تمام اہم مکاتب فکر کے علماء اور ملی دانشوروں اور سماجی کارکن نے ملی غیرت وحمیت اور عظیم اتحاد کا ثبوت دے کر اس اجلاس کو کامیاب بنایا، اسی اجلاس میں مسلم پرسنل لا بورڈ کا قیام عمل میں آیا اور حکومت سے متبنی بل سے مسلمانوں کو مستثنی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ۔
مسلم پرسنل لا اور یکساں سول کوڈ کا مطلب
یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مسلم پرسنل لا اور یکساں سول کوڈ کا مفہوم واضح کر دیا جائے تاکہ دونوں کے درمیان فرق اور پرسنل لا کی اہمیت اور یکساں سول کوڈکے نقصانات معلوم ہوجائیں مفکراسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی صاحب ؒ مسلم پرسنل لا اور یکساں سول کوڈ کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں
ملکی دستور سے تھوڑے بہت واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ ملک میں رائج قوانین کی دو اہم قسمیں ہیں سول کوڈ(CIVIL CODE)اور کریمنل کوڈ (CRIMIN CODE)دوسری قسم کے اندر جرائم کی سزائیں اور بعض انتظامی امور آتے ہیں ظاہر ہے کہ اس قسم کے قوانین تمام اہل ملک کے لئے یکساں ہیں اس میں کسی نوعیت کی تفریق نسل اور مذہب کی بنیاد پر از روئے دستور نہیں کی گئی ہے پہلی قسم کے دائرے میں وہ قوانین آتے ہیں جن کا تعلق معاشرتی ،تمدنی اور معاملاتی مسائل سے ہیں اس قسم کے بیشتر قوانین بھی تمام اہل ملک کے لئے یکساں ہیں ،البتہ اس قسم کا ایک حصہ جسے پرسنل لا کہتے ہیں ملک کی بعض اقلیتوں کو جن میں مسلمان بھی ہیں ان کے مذاہب کے لحاظ سے کچھ خصوصی شعبوں میں الگ مذہبی قوانین پر عمل کرنے کا اختیار دیا گیا ہے اسی کو پرسنل لا کی آزادی کا نام دیا جاتا ہے اسی کے تحت مسلمانوں کو بھی یہ اختیار دیا گیا ہے کہ نکاح، طلاق ، ایلاء، ظہار، لعان ، خلع مبارات ،فسخ نکاح ،عدت ، نفقہ ، وراثت ، وصیت ، ہبہ ، ولایت ، رضاعت ، حضانت ،اور وقف سے متعلق مقدمات اگر سرکاری عدالت میں دائر کئے جائیں اور دونوں فریق مسلمان ہوں تو سرکاری عدالتیں اسلامی شریعت کے مطابق ہی مذکورہ معاملات میں فیصلہ کریں گی ،ان ہی قوانین کا مجموعہ مسلم پرسنل لا کہلاتا ہے ۔(مقدمہ مجموعہ قوانین اسلامی ص:۲۳)
مختصر الفاظ میں قاضی مجاہد الاسلام صاحب نے مسلم پرسنل لا کی یہ تعریف کی ہے
اللہ تعالی نے اپنی کتاب قرآن مجید اور اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جو قانون ہمیں عطا فرمایا ہے اس کے مختلف شعبے ہیں ان میں سے ایک شعبہ اس قانون کا ہے جو انسانی سماج اور معاشرہ سے متعلق ہے جس پر خاندانی نظام کی بنیاد ہے جو سماجی تعلقات کے اصول بتاتا ہے ،جس میں خاندان کے مختلف افراد کے حقوق اور انکی ذمہ داریوں کو متعین کیا ہے انہی قوانین کو آج عرب علماء قوانین احوال شخصیۃ یا اردو میں عائلی قوانین اور انگریزی میں پرسنل لا کہتے ہیں( مسلم پرسنل لا کا مسئلہ :تعارف و تجزیہ ص۱۲)
مسلم پرسنل لا جس کا ذکر قرآن میں ہے اسے ختم کرکے ملک کے تمام شہریوں کے لئے ایک ہی معاشرتی قانون نافذ کرنا یکساں سول کوڈکہلاتا ہے ظاہر ہے کہ اگر یکساں سول کوڈ پر عمل ہوتا ہے تو قرآن کریم کی بہت سی آیتوں اور احادیث کے ایک ذخیرہ سے جبرا مسلمانوں کو محروم ہونا پڑیگا مولانا علی میاں ندویؒ نے لکھا ہے ایسی چالیس آیتیں اور سینکڑوں احادیث ہیں جس سے مسلمانوں کو دست بردار ہونا پڑ یگا جب کہ مسلمان ایک آیت سے بھی دست بردار نہیں ہوسکتے ہیں اس لئے کہ یہ قانون خدائے وحدہ لاشریک لہ کا عطا کردہ وہ تحفہ ہے اور خدائی قانون میں تبدیلی کا اختیار کسی انسانی گروہ کو نہیں دیا گیا ہے ۔
مسلم پرسنل لا کی اہمیت
یہیں سے مسلم پرسنل لا کی اہمیت بھی معلوم ہوجاتی ہے کہ مسلم پرسنل لا کا تحفظ در حقیقت قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کا تحفظ ہے اور ادنی سے ادنی مسلمان ہر طرح کی تکلیف برداشت کرسکتا ہے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرسکتا ہے، لیکن قرآن کی کسی آیت سے دستبردار نہیں ہو سکتا ہے مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحبؒ مسلم پرسنلا کی اہمیت کے تعلق سے لکھتے ہیں
آج مسلمانوں سے جس یونیفارم سول کوڈکا مطالبہ کیا جارہا ہے یہ قانون کس طرح کا ہوگا ؟اسپیشل میرج ایکٹ اور انڈین سیکشین ایکٹ کے تحت اس کی تصویر دیکھی جاسکتی ہے جس کے تحت بین المذاہب شادیاں ہوسکتی ہیں، اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت نکاح کرنے والوں پر شریعت کا قانون میراث لاگونہیں ہوگا اسی طرح انڈین سیکشین ایکٹ کی پہلی دفعہ میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ہر شخص کو وصیت کرنے کا حق ہوگا چاہے جس کے لئے وصیت کرے اور جتنی مقدار میں کرے ،لے پالک کے قانون سے مسلمانوں کو مستثنی کیا گیا ہے لیکن دوسری قوموں کے لئے یہی قانون نافذ ہے کہ متبنی کی حیثیت اصل اولاد کی ہوگی تو ظاہر ہے یکساں سول کوڈ میں بھی اسی طرح کی بات آئے گی ظاہر ہے کہ یہ تمام احکام قرآن کے صریح احکام کے خلاف ہیں اس لئے یکساں سول کوڈ ایک مسلمان کے لئے قطعا نا قابل قبول ہے ۔
اور اس سے ان قوانین کا مطالبہ کرنا نہ صرف مذہب پرعمل کرنے کی آزادی میں مداخلت ہے بلکہ ان کو عقیدہ و ضمیر کی آزادی سے بھی محروم کرنے کے مرادف ہے اور درحقیقت جمہوریت کا قتل اور ملک کے سیکولر کردار کو مسخ کردینے کی نہایت مذموم اور ناپسندیدہ کوشش ہے ان سطور سے یہ بات سمجھی جاسکتی کہ مسلم پرسنل لا کی کیا اہمیت ہے (مسلم پرسنل لا کا مسئلہ ،تعارف و تجزیہ ص۴۸)
مسلم پرسنل لا بورڈ کے اہداف و مقاصد
مسلم پرسنل لا کا تحفظ اور شریعت ایکٹ کے نفاذ کو باقی رکھنا اور اس کے لئے مؤثر تدابیر اختیار کرنا بورڈ کے اہم مقاصد میں شامل ہے اس کے علاوہ مسلمانوں میں اصلاح معاشرہ کی کوششوں کو فروغ دینا اور مسلمانوں کے تمام فقہی مسلکوں اور تمام مکاتب فکر کے درمیان خیر سگالی اخوت اور باہمی اشتراک و تعاون کو فروغ دینا اور پرسنل لا کے بقاء و تحفظ کے مشترکہ مقاصدکو حاصل کرنے کے لئے ان کے درمیان ربط و اتحاد کو پروان چڑھانا بورڈ کے اہداف میں شامل ہے ۔
بورڈکے نظماء اور صدور
۱۹۷۲ء میں جب پرسنل لا کا قیام عمل میں آیا تو بااتفاق رائے حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ کو پرسنل لا کا پہلا صدر اور حضرت مولانا منت اللہ صاحب رحمانیؒ کو جنرل سکریٹری منتخب کیا گیا ۱۹۸۳ء میں حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب ؒ کے انتقال کے بعد مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی صاحب ؒ کو بورڈ کا دوسرا صدر چن لیا گیا اور ۲۰۰۰ء میں مولانا علی میاں راہی دار البقاء ہو گئے اس وقت قاضی مجاہد الاسلام صاحب ؒ کو بورڈ کا صدر منتخب کیاگیا اور ۲۰۰۸ء میں مولانا محمد رابع صاحب کا بورڈ کے چوتھے صدر کی حیثیت سے انتخاب عمل میں آیا جو اب تک اس منصب پر فائز ہیں ،۱۹۹۱ء میں بورڈ کے پہلے جنرل سکریٹری مولانا منت اللہ رحمانی کا انتقال ہوگیا اور ۸ /مئی۱۹۹۱ء کو بورڈ کی عاملہ نے مولانا نظام الدین صاحب نے ایک طویل عرصے تک بورڈ کی خدمت کی اور اکتوبر ۲۰۱۵ء میں ان کا انتقال ہوگیا اور ان کی جگہ اپریل ۲۰۱۶ء کو مفکر ملت مولانا ولی رحمانی صاحب کے کاندھوں پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے
مسلم پرسنل لا بورڈکی خدمات
مسلم پرسن لا بورڈ نے مختلف جہتوں سے ملی و قومی خدمت کا فریضہ انجام دیا ہے بالخصوص پرسنلا کے تحفظ و بقا ء کی جد و جہد میں ان کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے اسی طرح اصلاح معاشرہ کے سلسلے میں بورڈ کی خدمات لائق تحسین ہیں ذیل میں بورڈ کی بعض اہم خدمات کا تذکرہ کیا جاتا ہے ۔
۱۹۷۲ء میں راجیہ سبھا میں متبنی بل پاس ہوا اور وزیر قانون گوکھلے نے اعلان کیا کہ یہ یکساں شہری قانون کی حیثیت سے تمام شہریوں پر نافذ ہوگا ،اس مسودہ کو انہوں نے یکساں سول کوڈ کی طرف پہلا قدم قرار دیا یہ قانون اسلامی قانون وراثت اور نکاح کو بے اثر کردینے والاتھا بورڈنے حکومت سے مطالبہ کیا کہ مسلمانوں کو اس قانون سے مستثنی قرار دیا جائے اس بل کے خلاف بورڈ کی جد و جہد نے حکومت کو مجبور کیا کہ وہ اس قانون پر رائے عامہ حاصل کرینے کے لئے پارلیمنٹ کی جوائنٹ سلیکٹ کمیٹی کے حوالے کر دے بالآخر ۱۹/جولائی ۱۹۷۸ء کو جنتا حکومت نے مسلمانوں کے متفقہ مطالبہ کو تسلیم کرتے ہوئے بل واپس لے لیا اور وزیرقانون نے پارلیمنٹ میں یہ اعلان کیا کہ اسلامی فقہ متبنی کو وراثتی حقوق نہیں دیتی ہے اس لئے اس بل کو واپس لیا جاتا ہے بعد میں ۱۹۸۰ء میں کانگریس نے دوبارہ اس بل کو پارلینٹ میں پیش کیا لیکن بورڈکی جد و حہد سے مسلمانوں کو قانون تبنیت سے مستثنی کر دیا گیا ۔
اکتوبر ۱۹۷۸ء میں الہ آباد ہائی کورٹ نے مساجد و مقابر کے سلسلے میں ایک فیصلہ سنایا اس کے تحت لکھنؤ کی دو مسجدوں اور قبرستان نیز جے پور کی ایک مسجد کو وہاں کی کارپوریشن نے ایکوائر کر لیا اور مساجد و مقابر کی حرمت ختم کر دی بورڈ نے اس فیصلے سے ملک کو آگاہ کیا اور حکومت کے ذمہ داروں کو اس کے خلاف تجاویز او رٹیلی گرام بھیجنے کا مشورہ دیا چنانچہ پورے ملک میں اس فیصلے کے خلاف اجتماعات ہوئے بالآخر یوپی اور راجستھان کے وزراء اعلی نے بورڈ کو لکھا کہ ضروری کاروائی کا حکم دے دیا گیا ہے اور سرکار کا مسجد ایکوائر کر نے کا کوئی ارادہ نہیں ہے بالآخرمسجدیں مسلمانوں کو واپس مل گئیں اور آئندہ کے لئے مداخلت کا دروازہ بند ہو گیا ۔
۱۹۸۵ء میں سپریم کورٹ کے جسٹس محمد احمد خان نے شاہ بانو کیس میں مطلقہ کے لئے تا حیات یا تا نکاح ثانی شوہر پرنفقہ لازم قرار دیا بورڈ نے اس کا سخت نوٹس لیا اور پورے ملک میں تاریخ ساز تحریک چلائی اور ۳۰ /جولائی ۱۹۸۵ء کو بورڈ کے صدر کی قیادت میں ایک وفد وزیر اعظم سے ملا ،بلکہ بورڈ نے اس سلسلے میں کئی بار نمائندگی کی او روزیر اعظم کو مطمئن کرنے کی کوشش کی بالآخر ۶/مئی ۱۹۸۶ء کو حکومت نے مسلم مطلقہ قانون پاس کر کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو رد کر دیا ،یہ بورڈ کی بڑی کامیابی تھی ۔
۱۹۸۰ء میں حکومت نے ایک بل پاس کیا جس کی رو سے اوقاف کی آمدنی پر بھی انکم ٹیکس کو لازم قرار دیا گیا مولانا منت اللہ رحمانی اور ڈاکٹر یوسف نجم الدین نے دہلی آکر فضا ہموار کی اور اندرا گاندھی سے مل کر اس بل کو ختم کرانے میں کامیابی حاصل کی ۔
۱۹۸۶ء میں بابری مسجد کا تالا غلط طریقے سے کھولنے کے نتیجے میں مسجد میں کھلے عام پوجاپاٹ ہونے لگی اس وقت بورڈ نے ۳/دسمبر ۱۹۹۰ء کو دہلی میں اپنی مجلس اعلی کا ایک اجلاس منعقد کیا اور یہ اعلان کیا کہ بابری مسجد نہ تو غصب شدہ زمین پر واقع ہے اور نہ ہی مندر توڑ کر اس کی جگہ مسجد بنائی گئی ہے یہ مسجد ہی ہے اس لئے نہ اسے منتقل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی فروخت کیا جاسکتا ہے اورنہ منہدم کیا جا سکتا ہے اور آج تک بورڈ اپنے اس موقف پر قائم ہے اور اس کا مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر بحث ہے ۔
اس کے علاوہ بورڈ نے مختلف مقامات میں اسلام کی صحیح ترجمانی کی ہے ،بورڈنے اصلاح معاشرہ کے لئے باقاعدہ ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جس کے تحت پورے ہندوستان میں پروگرام کرائے جاتے ہیں ،دارلاقضاء کا نظام قائم کرکے مسلمانوں کو اپنے مسائل شرعی عدالتوں میں حل کرانے کی سفارش کی ہے ۔
مسلم پرسنلا کی مطبوعات
مسلم پرسنلا نے مختلف مواقع پر متعدد کتابوں او رکتابچوں کے ذریعہ مسئلہ کی صحیح نوعیت کو لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی ہے مسلم پرسنلا بورڈ کی بعض اہم مطبوعات کا یہاں تذکرہ کیا جاتا ہے
(۱)مسلم پرسنلا/مولانا منت اللہ رحمانی (۲)متبنی بل ۱۹۷۲ء ایک جائزہ /مولانا منت اللہ رحمانی (۳)خاندانی منصوبہ بندی /مولانا منت اللہ رحمانی(۴)یونیفارم سول کوڈ /مولانا منت اللہ رحمانی(۵)مسلم پرسنلا کا مسئلہ: تعارف و تجزیہ /قاضی مجاہد الاسلام صاحب (۶)اسلامی پردہ کیا اور کیوں /ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی (۷)اسلام کا نظام میراث /مولانا عتیق الرحمان صاحب (۸)طلاق کے استعمال کا طریقہ /صغیر احمد رحمانی (۹)اصلاح معاشرہ /مولانا برہان الدین سنبھلی (۱۰) تعددازدواج حقیقت کے آیئنہ میں /نورالحق رحمانی (۱۱)اسلام نے عورت کو کیا دیا ہے /مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی (۱۲)امت مسلمہ کی دو امتیازی خصوصیات /مولانا سیدمحمد رابع حسنی صاحب ۔