شاعرہ،افسانہ نگاراورمصورہ شبہ طراز سے گفتگو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابنِ عاصی

Share

s taraz شبہجذبات کے معقول اظہار کے لیے عورت اور مرد کو یکساں سہولتیں ہونی چاہئیں۔
معروف شاعرہ،افسانہ نگاراورمصورہ شبہ طراز کی کھٹی میٹھی باتیں

ٰنٹرویو: ابنِ عاصی
جھنگ ۔ پاکستان

علمی،ادبی ،سماجی اور ثقافتی حلقوں میں شبہ طراز کا نام خوبصورت شاعرہ،با کمال افسانہ نگار،منفرد مصورہ اور ذہین مدیرہ کی حیثیت سے
جانا پہچانا جاتا ہے ان کی انہی خصوصیات کی وجہ سے ہم نے ان سے مختلف ادبی معاملات پر سیر حاصل گفتگو کی ہے جو کہ ہم اپنے قارئین کے لیے یہاں پیش کر رہے ہیں۔
سوال:پہلے تو اپنے بارے میں کچھ بتائیے۔۔؟

شبہ طراز: ’’ تو ہم اس کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائیں گے‘‘ ۔۔ لفظ کو ایجاد کرنے کی قوت اسی کی عطا کردہ ہے ۔ ہم اس کو دیکھ کر اس کا احساس نہیں کرتے بلکہ اس کے ہونے کے احساس کو لفظوں میں بیان کرنے کی قوت رکھتے ہیں ۔ انسان کی انفرادی خصوصیات کی نفی کرنے والے کچھ شیطانی ذہن ہوتے ہیں جو مسلسل اپنے منفی رویوں سے خصوصاً ذہنی ارتقاء کے عمل میں رکاوٹیں کھڑی کرتے رہتے ہیں ۔۔۔ پھر بھی کوئی ’’ شبِہ طراز ‘‘ زندگی کے پیش منظر میں سے ہٹا دیے جانے کے باوجوداپنی شناخت کرواتی ہے ۔
میَں شکر گزار ہوں اُن منفی رویوں کی جنہوں نے معاشرے میں جائز مقام ملنے میں رکاوٹیں کھڑی کیں ۔۔۔کہ میَں معاشرے میں پہچان کی اس منزل پر ہوں جہاں پہنچنے کے لیے لوگوں کی عمریں ڈھل جاتی ہیں ۔ میَں شکر گزار ہوں مجھے نظر انداز کرنے والوں کی ۔۔۔ کہ میَں اپنی قامت میں مکمل کھڑی ہوں ۔ میَں شکر گزار ہوں اُن سب پابندیوں کی جو مجھ پر لگائی گئیں۔۔۔ کہ میَں ایک آزاد ذہن کے ساتھ زندگی کرنے میں مصروف ہوں اور اپنے جذبات ، اپنے احساسات کی ترسیل میں خود مختار ہوں ۔ میَں ممنون ہوں بے قدری کرنے والوں کی ۔۔۔کہ مجھے قدر شناسوں کی پہچان میں دّقت نہیں اٹھانا پڑی ۔ ۔۔ اب میَں ایک شاعرہ ، ایک افسانہ نگار ، ایک تجزیہ نگار اور ایک مدیرہ کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہوں ۔ مصوری میرا شوق ہے۔ بی ۔ ایس ۔ سی تک سائنس کی تعلیم اّبو کی خواہش پر حاصل کی ۔ میرے افسانوں میں موجود سائنسی آگہی ( اگر ہے ) اسی علم کی مرہونِ منّت ہے ۔ فائن آرٹسٹ بننا میرا بچپن کا خواب تھامِنتیں کر کر کے نیشنل کالج آف آرٹس داخلہ لیالیکن شومئی قسمت کہ وہاں تین سال تعلیم حاصل کر سکی اور پھر بہ قول شفیق الرحمٰن شادی کے لیے دو چیزیں ضروری ہیں ایک جلد باز ماں اور ایک بے قرار عاشق ۔۔۔ جونہی مجھے یہ دونوں حیزیں میسر آئیں شادی ہو گئی اور یوں میرا آرٹسٹ بننے کا خواب چکنا چور ہو کر محض شوق تک محدود رہ گیا ۔ نوکری کا سلسلہ شوہر کی نا پسند ید گی کی وجہ سے نہ بنا ، پرائیوٹ امتحان دینے پر پابندی نہیں تھی ، سو جو کچھ پرائیویٹ کر سکتی تھی، کیا ۔ ایم ۔ اے اردو کیا ، ڈی۔ ایچ ۔ ایم ۔ ایس کیا ، کمپیوٹر کی کچھ بنیادی تعلیم حاصل کی ۔ ڈرائی پیسٹل میں مصوری سیکھی ، فیبرک پینٹنگ کی ، اور ۔۔لکھا ۔۔۔ چونکہ لکھنا میری اماں کا شوق تھا اور انہیں اپنا جریدہ نکالنے کے لئے میری مدد کی ضرورت تھی سو تقریباً زبردستی ادب میں وارد ہوگئی۔ شاعری کی چار اور نثر کی دوکتابیں شائع ہوئیں ۔ ’’ جگنو ہنستے ہیں ‘‘ ( ہائیکو اور ماہیے ) ، ’’ جھیل جھیل اداسی ‘‘ ( نظمیں ) ، ’’ چاندنی میں رقص ‘‘ ( ہائیکو تراجم ) ، درد کا لمس ( افسانے ) ، ریپنزل ( نظمیں ، غزلیں ) اور آدھا خواب ( افسانے )۔ ادب سے وابستگی مجبوری تب بنی جب والدین کے کراچی چلے جانے پر ماہ نامہ تجدیدِ نو کو سہ ماہی جریدے میں بدل کر اس کا دوبارہ اجراء کرنا پڑا۔ پانچ سال کامیابی سے شائع ہونے والے اس جریدے کو بند کرنے میں کچھ ذاتی مجبوریاں آڑے آئیں اور کچھ ادب و ادیب کی بد دیانتی کی وجہ سے مایوسی ہوئی پھر بھی رسالے کے لئے تعریفی کلمات کی باز گشت کبھی کبھی سنائی دیتی ہے تو بہت خوشی ہوتی ہے ۔
سوال: ادب میں ،صنفی امتیاز، کی کہانیاں بھی بہت سی زبانوں پر ہیں آپ کے خیال میں ایسا رجحان کس وجہ سے ہے؟تخلیق کی بجائے لکھنے والے کی ،جنس، کو دیکھنا اور پھر کوئی فیصلہ سنانا۔۔۔۔یہ کہاں کی منطق ہے؟ویسے آپ کے ساتھ کبھی کہیں ایسا ،امتیاز، برتا گیا۔۔؟
ِ شبہ طراز:جہانِ ادب میں نہیں ،میرے خیال میں خصوصاً پاکستانی اردو ادب میں اس صنفی امتیاز کو با آسانی محسوس کیا جا سکتا ہے اور اس کی سادہ سی وجہ یہاں کے مرد کی بالا دستی کا یعنی پدر سری معاشرہ ہے ۔ نہ صرف ادب میں بلکہ ہر ادارے اور زندگی کے ہر میدان میں عورت کو یہی رویہ دیکھنے اور سہنے کو ملتا ہے ۔ ادبی محفلوں میں عورتوں کی انتہائی کم تعداد ، مشاعروں میں اکا دکا عورتوں کی شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ ابھی تک یہاں کے مرد نے عورت کو بحیثیت فرد قبول نہیں کیا ۔ عام عورت زندگی کی حیوانی سطح سے اوپر اٹھنا ہی نہیں چاہتی یا اٹھنے نہیں دی جاتی ، وہ دو وقت کی روٹی کو ہی زندگی سمجھتی ہے ۔ پہلے باپ اور بھائیوں کی سختیاں برداشت کرتی ہے پھر شوہر اور بیٹوں کی ،اسی لئے چند با ہمت عورتوں کی جد و جہد آدھی ادھوری رہ جاتی ہے ۔ جہاں تک تعلق ہے میرے ساتھ اس رویے کا تو بھی میرا جواب ہاں ہی ہے کیونکہ پاکستانی مرد اب تو لا شعوری طور پر اس رویے کا عادی ہو چکا ہے ۔ یہاں کے مرد کو عورت زیادہ سے زیادہ محبوبہ کے روپ میں قبول ہوتی ہے ۔ ایسی صورت میں وہ اسے بوقتِ ضرورت آسمان کی بلندیو ں تک لے جاتا ہے اور بعض مرتبہ تو وہیں سے چھوڑ دیتا ہے ۔ اب ایسے میں اگر مَیں منظر نامے میں نہ ہونے کے برابر ہوں تو اس کو بھی مَیں اپنی خوش قسمتی سمجھتی ہوں ۔
ُسوال:اردو میں داستان،کہانی،ناول،افسا نہ اور افسانچہ کے بعد اب ساؤتھ افریقہ میں بیٹھے کچھ دوست ،مائکروف،کی صنف کو سامنے لا کر نئے سے نئے ،تجربے، کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔۔۔آپ کے نزدیک داستان سے مائکروف تک کے سفر میں اردو ادب نے کیا حاصل کیا۔۔؟اور یہ بھی بتائیے گا کہ کیا نئی صنف اس لیے وجود میں آتی ہے کہ پرانی میں اظہار کی کوئی ،بندش، ہوتی ہے یا یار لوگوں نے اپنے طور پر ،نئی اصناف، ایسے ہی کسی ،کریڈٹ ،وغیرہ کے چکر وں میں ،متعارف، کرانا شروع کی ہوئی ہیں۔۔؟
شبہ طراز:جہاں تک اردو ادب کے کچھ حاصل کرنے کا تعلق ہے تو معاف کیجیے گا اردو ادب نے ابھی عالمی سطح پر تو کچھ بھی حاصل نہیں کیا خصوصاً پاکستان کے اردو ادب نے ۔ اور یہ جو میں بار بار پاکستانی ادب کہہ رہی ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو پاکستان کے علاوہ بھارت میں اس حد تک بولی جاتی ہے کہ وہاں بھی اردو ادب کی ایک باقاعدہ تاریخ ہے ۔ ان کے پاس پھر بھی گنوانے کو کچھ نام ہیں ہمارے پاس بین الاقوامی معیار پر بس لے دے کر ایک انتظار حسین کا نام ہی لیا جا سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ انگلستان اور امریکہ وغیرہ میں چند ٹوٹی پھوٹی تنظیمیں اردو کے نام پر قائم ہیں لیکن اگر اُنہوں نے اردو ادب میں کوئی جھنڈے گاڑے ہوتے تو وہ پاکستان آ کر اپنے تخلیقی کام شائع نہ کرواتے ۔ مجھے لگتا ہے اردو ادب مشغلے سے زیادہ کچھ بھی نہیں ۔اب اس مشغلے میں کوئی اپنی تخلیقات کو نیا نام دے کر خوش ہو رہا ہے تو اس میں مضائقہ بھی کیا ہے ، پرانے نام نے کیا تیر مار لیا جو نیا نام مارے گا ۔ اردو کے ادیب کنوئیں کے مینڈکوں کی طرح اپنی ٹرٹر میں خوش ہیں ۔ اور متعارف بھی یہ کوئی چیز کہاں کراتے ہیں ؟ اپنے گروپ میں ایک شور و غوغا مچاتے ہیں جیسے ساکت پانی میں پتھر گرے تو چھپاکا ہو اور پھر وہی گونگی خاموشی ۔
سوال:افسانچہ سے یاد آیا۔۔۔انگلینڈ میں مقیم جناب مقصود الہی شیخ اس کو ،پوپ کہانی، کا نام دے کر اس کے بانی ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں لیکن ان کے مخالفین کا خیال ہے کہ ،وہ پرانا چورن، ہی ،نئے مصالحے ،کے ساتھ بیچنے کا جتن کر رہے ہیں اور اب اسی افسانچہ کو کچھ لوگ ،مائکروف، بھی کہنے لگ گئے ہیں ۔۔۔آپ کے نزدیک یہ سب کیا ہے۔۔؟افسانچہ نام لوگوں کو اتنا برا کیوں لگ رہا ہے؟
شبہ طراز:دیکھیں اس سوال کا جواب اوپر دیا جا چکا ہے ۔ اضافی طور پر مقصود الٰہی شیخ صاحب کے حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس عمر تک پہنچنے پر بھی اگر کوئی شناخت نہ ملے تو ایک ادیب بے چارہ اس طرح کی کوشش کرنے کا حقدار تو ہے ۔ اس نے بہر حال ایک عمر اس دشت کی سیاحی میں صرف کی ہوتی ہے ۔ جہاں تک رہ گئی مخالفین کی بات ،تو وہ نہ ہوں تو کچھ جیتنے میں مزہ بھی تو نہیں آتا ۔
سوال:اگر آپ سے کہا جائے کہ اردو کا/کی سب سے بہترین افسانہ نگار کون ہے۔۔۔۔؟تو آپ کس کا نام لینا پسند کریں گی۔۔۔؟
شبہ طراز:میں اپنی پسند بتا سکتی ہوں میری پسند فتویٰ نہیں ہو گی یہ کام نقاد کا ہے ۔ مجھے کرشن چندر کی تحریربے حد پسند ہے ۔
سوال:اس وقت اردو ادب کی کس صنف کی طرف لکھنے والوں کی کوئی خاص توجہ نہیں ہے اور کیوں۔۔؟
شبہ طراز:اس وقت بہت سی اصناف ہیں جن کی طرف لکھنے والوں کی توجہ نہیں ہے ۔ محض غزل اور افسانے میں تجربات ہو رہے ہیں اور کسی حد تک نظم میں بھی ۔ نثر نگاری میں سفر نامہ بھی خاصہ لکھا جا رہا ہے لیکن میرے خیال میں معیار مسلسل گر رہا ہے اس کی وجہ میری نظر میں تو ریاضت کی نابودی ، راتوں رات مشہور ہونے کی خواہش اور ادیب کی ادب سے زیادہ دولت میں دلچسپی ہے ۔ہم دراصل اپنے آپ سے ہی مخلص نہیں ہیں۔
سوال:ادبی نشستوں میں پیش کئے گئے مواداور تنقید کے معیار کو کس نظر سے دیکھتی ہیں۔۔؟کہنے والے کہتے ہیں کہ ایسی نشستیں ،بس مل بیٹھنے کا بہانہ، ہوتی ہیں ادب اور تنقید کو توایک سائیڈ پر رکھیں ناں آپ۔۔۔کیا واقعی۔۔۔؟
شبہ طراز:مجھے بہت سی ادبی نشستوں میں شرکت کا موقع ملتا رہتا ہے اور آج سے نہیں یہ سلسلہ بچپن سے جاری ہے کیونکہ والدین کا تعلق ادب سے ہی ہے اور میں بچپن سے گھر میں ہونے والی دعوتوں میں بھی شریک رہی ہوں اور اکثر والدین کے ساتھ مختلف ادبی نشستوں میں بھی جانا ہوتا رہا ہے ۔ حلقۂ اربابِ ذوق کی بھی ممبر ہوں ۔ خود بھی بزمِ تجدید کے نام سے ایک تنظیم چلائی ہے اس کے علاوہ مشہور افسانہ نگار سائرہ ہاشمی کی معروف تنظیم بزمِ ہم نفساں میں بھی کافی فعال رہی ہوں اور بہت سی نجی ادبی محفلوں میں جانا ہوتا رہتا ہے ۔ پہلی بات تو یہ کہ آج کا ماحول آج سے دس سال پہلے والے ماحول سے بھی بہت تبدیل ہو گیا ہے۔ میرا تاثر یہ ہے کہ آج سے دس سال پہلے بھی ایسی محفلیں سنجیدہ اور ان میں پیش ہونے والا ادبی مواد معیاری ہوتا تھا ، بحثیں بھی زیادہ تر مثبت اور کھری تنقید پر مشتمل تھیں ۔ پچھلے برسوں میں جس رفتار سے ملک میں بد امنی ، رشوت ، سفارش اور سستی شہرت کی طلب جیسی وباؤں کی ہاہاکار مچی ہے اسی رفتار سے ادب بھی اس کی زد میں آیا ہے ۔ سوچیں جب ادبی ادارے بھی سیاست کی نذر ہوں گے تو کس نوعیت کا ادب تخلیق ہو گا ، جب اندھا ریوڑیاں اپنوں کو بانٹے گا تو کیا یہی صورت پیدا نہیں ہو گی جو آج موجود ہے ؟
سوال:اس وقت کون سا ادبی پرچہ سب سے بہترین،جامع اور اعلیٰ معیار کا قرار دیا جا سکتا ہے؟
شبہ طراز:زیادہ تر ادبی پرچے اوسط درجے کے ہی ہیں جن میں ایک آدھ کمال کی تحریر ، چند ایک قابلِ قبول اور باقی سب کچرا ہوتا ہے ۔ کچرا تحریروں کے ساتھ عموماًمالی امداد بھی ہوتی ہے سو اس ادب کو قبول کرنا کسی حد تک مدیر کی مجبوری بن جاتا ہے ۔ کچھ پرچے ایسے ہیں جو کم تعداد میں شائع ہوتے ہیں ان میں لکھنے والے چیدہ چیدہ ہوتے ہیں جو بزعمِ خود بڑے لکھاری ہوتے ہیں اور یہ پرچے بزعمِ خود اعلیٰ معیار کے ہوتے ہیں ۔ ان تک عام ادیبوں کی رسائی نہیں ہوتی چونکہ یہ خاص خاص لوگوں کو بھیجے جاتے ہیں ۔میرے خیال میں وہ دور فی الحال تعطل کا شکار ہے جس میں معیاری ادب ہر خاص و عام کو پڑھنے کے لئے ملے ۔
سوال:خواتین افسانہ نگاروں کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ ان کا مشاہدہ اعلیٰ پائے کا نہیں ہوتا ہے ان کی ،تخلیقی حِس، بھی کمزورسی ہوتی ہے ا س لیے مردوں کے مقابلے میں ان کا کام ذرا کم سطح کا ،غیر معیاری اور ،ڈنگ ٹپاؤٹائپ،ہو تا ہے۔۔۔؟کیا آپ اس سے اتفاق کریں گی۔۔؟
؁شبہ طراز:یہاں کچھ باتوں سے اختلاف اور کچھ سے اتفاق کروں گی ۔مشاہدے کے سلسلے میں لفظ ’’ خواتین‘‘ سے اختلاف ہے ۔ مشاہدہ کرنا مردانہ وصف نہیں ہے ، عورت بھی چاہے تو عمیق مشاہدہ کر سکتی ہے ۔ یہی بات’’ تخلیقی حس‘‘ کے بارے میں بھی درست نہیں ، کیونکہ تخلیقی حس بھی اللہ کی دین ہے عورت اور مرد کی تخصیص نہیں کرتا رب اس میں ۔ دوسری اہم بات یہ کہ کیا ہر مرد کا تخلیقی کام انتہائی معیاری ہوتا ہے ؟ پھر تو ہر مرد افسانہ نگار کو منٹو اور ہر شاعر کو غالب یا مجید امجد ہونا چاہیے ۔ دراصل بات یہ ہے کہ ہمارے پدرسری معاشرے میں عورت کے پاس وسائل بھی کم ہیں ، اظہار کی سہولتیں بھی محدود ، معاشرتی بندشیں ، سماجی پابندیاں ضرورت سے زیادہ ۔ ایسی صورت میں اکثر عورت بے باک اظہار سے گھبراتی ہے ۔ ہمارے معاشرے میں مرد خصوصاً شریف مرد بھی سنبھل کر لکھتے ہیں ، ہمارے ہاں فلمیں بھی خاندان کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنے والی بنتی ہیں ( تھیٹر میں اسی لئے صرف مرد جاتے ہیں ) ۔ میں اس اخلاقی بندش کے خلاف تو بالکل بھی نہیں چونکہ میرے خیال میں قانون یا بندش انسان کو حیوانی جبلتوں سے محفوظ رکھنے کے لئے ہی بنائے جاتے ہیں اور اس کی پاسداری انسان پر فرض ہے ۔ لیکن جذبات کے معقول اظہار کے لئے عورت اور مرد کو یکساں سہولتیں ہونی چاہئیں جس کے لئے مرد ذہنیت کو ابھی بہت تربیت کی ضرورت ہے ۔
سوال:ادبی ایوارڈز کا رواج اب بہت بڑھ گیاہے لیکن اس دوران نا انصافی اور میرٹ کی پامالی کا ذکر بھی تواتر سے ہو تا دکھائی دیتا ہے حکومت کی جانب سے ،کمالِ فن ایوارڈ، کا سلسلہ چلا تھا تو اس پر بھی سفارش سفارش کا شور پڑ گیا تھا چلو دینے والے تو ادب ناشناس لوگ ہوتے ہیں لیکن لینے والوں کو تو علم ہوتا ہے نہ کہ وہ غلط کر رہے ہیں؟ادب میں موجود ایسے لوگوں کے بارے کیا کہیں گی۔۔؟
شبہ طراز:صرف ادب میں نہیں اب تو ہر طرف ایسے ہی لوگ ہیں جو دولت اور شہرت کے بھوکے ہیں ۔ اس سلسلے میں اقدار کی پامالی ہو یا اخلاقیات کا بیڑا غرق ہو ، کون سوچتا ہے ۔ جب حکومت ، علماء ، اساتذہ ، فرد اور ادارے سبھی کرپٹ ہو جائیں تو یہی ہوتا ہے جو پاکستان میں ہو رہا ہے ۔ اب تو ہم پر اور ہمارے ادب پر کوئی تھوکنا بھی پسند نہیں کرتا ۔ ہم خود ہی اپنا ڈھول پیٹ پیٹ کر خوش ہو رہے ہیں ۔
سوال:لاہور،اسلام آباد اور کراچی میں سے کس شہر کی ادبی خدمات سراہے جانے لائق قرار دیں گی۔۔۔؟یا کوئی چوتھاشہر، بھی ہے۔۔۔؟
شبہ طراز:درجہ بندی کرنا ضروری ہی ہے تومیری نظر میں ادبی خدمات میں کراچی سرِ فہرست ہے ، پھر اسلام آباد اور تیسرے نمبر پر لاہور ہے ۔ میرا تعلق لاہور سے بہت پرانا ہے شاید اس لئے لاہور کے جعلی اور جینوئن لوگوں کو میں، کم از کم ،جانتی ضرور ہوں۔ کراچی اور اسلام آباد دونوں شہروں میں ادبی سرگرمیوں میں شرکت کا اتفاق ہوا ہے ، جتنی سنجیدگی کراچی کے ادیبوں میں نظر آئی ہے اور کہیں نہیں ۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ ان بڑے شہروں کے علاوہ چھوٹے شہروں کے ادیب زیادہ با صلاحیت اور ادب سے کہیں زیادہ کمیٹڈ ہیں اور بہت اعلیٰ ادب تخلیق کر رہے ہیں پر ان کو مین سٹریم میں آنے کے لئے اضافی محنت درکار ہوتی ہے ۔
سوال:ہائیکو کی صنف اردو میں آکر کس درجہ تک پہنچی ہے؟اسے اردو ادب میں کس نے متعارف کروایا تھا اور اس کی ،ضرورت، کیوں محسوس کی گئی تھی؟کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر خواجہ زکریا نے اسے اردو میں ،متعارف، کروایا تھا۔۔۔؟
شبہ طراز: اس بحث کا تو کوئی فائدہ نہیں کہ کس فردِ واحد نے کوئی بھی صنف متعارف کرائی کیونکہ ہر صنف کی ترویج کے لئے ایک گروپ عمل پیرا ہوتا ہے ۔ کسی کا کام زیادہ کسی کا ذرا کم ہوتا ہے ، کسی کو مواقع زیادہ مل جاتے ہیں کسی کو کم ، عام لوگوں میں کسی بھی خاص صنف کا چرچا ہونے میں وقت لگتا ہے ۔ ویسے تو اردو ادب میں ماہیا اور سہ حرفی کے ہوتے ہوئے ہائیکو کی ضرورت نہیں تھی لیکن ایک تو شاعری چونکہ ضرورت کے تحت نہیں کی جاتی یہ اظہار کا ذریعہ ہے کسی بھی انداز میں کسی بھی زبان میں کسی بھی فارمیٹ میں ہو سکتی ہے ۔ نئی نئی اصناف میں تجربہ ارتقاء کی نوید ہوتا ہے، دوسرے ہائیکو کا مزاج اوپر ذکر کی گئی اصناف سے مختلف ہے ، جنہوں نے اس مزاج کو سمجھ لیا انہوں نے بہت اچھے ہائیکو کہے اور جو صرف شہرت کے چکر میں تھے انہوں نے گھسیٹ گھساٹ کر اسے کبھی شعر کے نزدیک کر دیا کبھی ماہیے کے ۔ لیکن اس سے ہائیکو کی صنف پر کوئی حرف نہیں آیاشاعر کی اہلیت ضرور کھُل گئی۔ اب بات رہ جاتی ہے کسی صنف کے قبولِ عام اور اردو ادب میں اس کی درجہ بندی کی ۔۔ تو میرے نزدیک یہ بھی ضروری نہیں کہ کسی صنف میں تجربہ محض اسے قبولِ عام کا درجہ دلوانے کے لئے کیا جائے۔ یہ تو روحانی مسرت کے حصول کے لئے کیا جاتا ہے اور اگر اس تجربے سے شاعر کو وہ روحانی مسرت مل جاتی ہے تو میں اسے کامیاب تجربہ کہوں گی ۔
سوال:اس وقت ایک عجیب سی بات ہو رہی ہے کہ یورپ یا دیگر غیر ممالک سے مردوخواتین پاکستان آتے ہیں اور ،صاحبِ کتاب، ہو کر اپنے اعزاز میں شاندار تقاریب کروا کر لوٹ جاتے ہیں اس روش کا خاتمہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔۔؟ان کے خلاف اہلِ قلم آگے آکرکوئی مہم کیوں نہیں چلاتے ہیں۔۔؟ادب کی ان ،کالی بھیڑوں، کا قلع قمع کون کرے گا۔۔؟
شبہ طراز:پہلے تو یہ بتائیے کہ کالی بھیڑ آپ کسے کہہ رہے ہیں؟ غیر ملکی ادیبوں کو یا ملکی پبلشرز کو ؟دیکھیں اردو لکھنے والے بیرون ممالک میں بھی موجود ہیں لیکن باہر اردو پڑھنے اور سمجھنے والے نہیں ہیں لا محالہ قاری کی تلاش میں لکھاری اپنے ملک میں آئے گا اس میں تو کوئی بری بات نہیں ۔ جیسے اپنے ملک میں اچھے معیاری لکھنے والوں کے ساتھ ساتھ غیر معیاری ادیب بھی بدرجہ اتم موجود ہیں اسی طرح باہر بھی اچھے برے ہر طرح کے ادیب موجود ہیں ۔ دراصل ہمارے پبلشر بے ایمان ہیں چونکہ ادبی کتابیں شائع کرنے والے زیادہ تر خود بھی ادیب ہیں اس لئے انہیں جاہل کہنا مناسب نہیں۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کونسا ادب معیاری ہے اور کونسا نہیں۔ وہ پیسے کے چکر میں اندرون اور بیرون ملک ہر جگہ کے غیر معیاری ادب کو شائع کر کے ادب کے ساتھ بے ایمانی اور زیادتی کے مرتکب ہورہے ہیں ۔ قومی اداروں کا بھی یہی حال ہے کہ اپنی کرسی اور اپنے نام کے علاوہ ان کرسی نشینوں کو کسی ادب ودب سے دلچسپی نہیں تو پھر کتنے اہلِ قلم بچتے ہیں جو احتجاج کریں اور اس نقار خانے میں طوطی کی آواز سنے گا کون ؟؟؟
سوال:پاکستان میں لکھنے والوں کی مالی حالت دگرگوں ہے پبلشرز ان کی کتب شائع کر کے کوٹھیوں ،کاروں اور لمبے چوڑے بنک بیلنس کے مالک بن گئے ہیں لیکن لکھنے والوں کو رائیلٹی دینے کی بات یہاں ہے ہی نہیں۔۔۔اس کا نوٹس کون لے گا؟اگر پبلشرز گھاٹے میں جا رہے ہیں تو وہ اپنا کاروبار کیسے چلائے جا رہے ہیں۔۔؟ان کے رہن سہن شاہانہ کیسے ہیں۔۔؟ان پبلشرز کا ،احتساب، کس نے کرنا ہے؟
شبہ طراز:آپ ایک سوال میں کئی سوال کرنے کے عادی ہیں اور یوں ایک سوال کے جواب میں کتاب لکھی جا سکتی ہے ۔ اب اسی سوال میں بہت سے مسائل کا تذکرہ ہے ۔ پاکستان میں آج سب لکھنے والوں کی حالت دگرگوں نہیں ۔ دوست نوازی کی وجہ سے بھی بہت سے غیر معیاری ادب تخلیق کرنے والے بھی اچھا کما رہے ہیں ، معیاری ادب تخلیق کرنے والوں کی اہمیت بھی پبلشر کی نظر میں زیادہ ہے ۔سب پبلشر بھی مالدار نہیں زیادہ تر نصابی کتب شائع کرنے والے کوٹھیوں کے مالک ہیں ۔ ادبی کتب شائع کرکے پیسہ بنانے والے پبلشرز کم ہیں ان میں سے بھی اکثر ،بڑے ادیبوں کو رائلٹی بھی دیتے ہیں ہاں چھوٹے ادیبوں سے شہرت کا لالچ دے کر وہ پیسہ بٹورتے ہیں۔ لیکن نوٹس کوئی بھی نہیں لے سکتا ۔ جس ملک میں حکمران کا احتساب نہیں ہو سکتا وہاں عام انسان کے احتساب کا سوچنے کا فائدہ ہی نہیں۔ دراصل ہم انفرادی طور پر بھی کرپٹ ہیں اور اجتماعی طور پر بھی کرپٹ قوم ہیں ۔ آپ کو اس قوم سے کوئی امید ہو تو ہو مجھے بالکل بھی نہیں ہے ۔
سوال:اگر آپ سے کہا جائے کہ زمانہء حال میں لکھنے والے اردو کے پانچ بہترین افسانہ نگاروں کے نام بتائیں تو۔۔؟
شبہ طراز:اپنے پسندیدہ افسانہ نگاروں کے نام بتا سکتی ہوں یہ ضروری نہیں کہ سب میری رائے سے متفق ہوں ۔ کراچی کے شمشاد احمد ، چشمہ بیراج کے محمد حامد سراج ، بھارت کے صدیق عالم راولپنڈی کے رشید امجداور فیصل آباد کی طاہرہ اقبال ۔
سوال:فسادات کا ادب آ ج بھی دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے حالانکہ شاید اس سے بڑی ٹریجڈیز ہو چکیں ۔۔لیکن اس جیسا ادب نہیں لکھا جا سکا۔۔۔کیوں۔۔؟کیا آج کا لکھنے والا نااہل اور نا لائق ہے؟یا تقسیمِ ہندکے لیول کی ٹریجڈی اس کے بعد تو ہو ہی نہیں سکی۔۔؟
شبہ طراز:کہانی کار جب تک خود کہانی میں اتر کر کہانی کا ٹریٹ منٹ نہ کرے کہانی میں جان پڑ ہی نہیں سکتی اور یہ تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب کہانی ، کہانی کار پر بیتی ہو یعنی محض مشاہدے پر مبنی کہانی مصنوعی پن لئے ہوتی ہے ۔ میں اگر آج تفسیمِ ہند پر کوئی کہانی لکھوں تو وہ اتنی اثر انگیز نہیں ہو گی جتنی اس سانحے کو براہِ راست جھیلنے والے کی لکھی ہوئی کہانی ہو گی ۔ اگر ٹریٹ منٹ میں تجریدیت کو شامل کر دیا جائے تب بات اور ہو گی ۔ یہ تو ایک حقیقت ہے کہ تقسیمِ ہند میں اجتماعی طور پر جو درد ہم نے سہا اس درجے کا سانحہ قومی سطح پر واقع نہیں ہوا ۔ انفرادی لحاظ سے شعیہ جینوسائیڈ ، ٹارگٹ کلنگ ، غیرت کے نام پر حقوقِ نسواں اور عورتوں کا قتل اور بہت ساری ٹریجڈیز ہیں لیکن کچھ پر لکھنے کی اجازت نہیں اور کچھ کو ہم انفرادی طور پر اہمیت نہیں دیتے ۔ دوسری اہم وجہ وہی محض نام و نمود کی خاطربغیر ریاضت ادب تخلیق کرنا ہے جس کا سبب نا اہلی بھی ہے اور سُستی بھی ۔
سوال:آپ کی دلچسپی ان دنوں کس صنف کی طرف زیادہ ہے؟اور اس کی وجہ بھی ضرور بتائیے گا۔۔۔؟
شبہ طراز:کسی صنف کی طرف بھی نہیں اور وجہ ہے نا امیدی ۔ !
سوال:کوئی نئی کتاب سامنے آرہی ہے۔۔؟
شبہ طراز:فی الحال نہیں سوچاِ ہاں اگر ہوئی تو سفر نامے پر مبنی ہو سکتی ہے ۔
ُسوال:۔مسقتبل کی کیا پلاننگ کر رہی ہیں۔۔۔؟کن موضوعات پر کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔۔؟
شبہ طراز: پلاننگ تو کچھ نہیں ہاں لکھنے کے سلسلے میں سفر نامے اور ناول نگاری کی طرف ملتفت ہو سکتی ہوں اور کچھ سنجیدہ موضوعات پر بھی لکھنا چاہتی ہوں ۔ دیکھئے اللہ کو کیا منظور ہوتا ہے ۔
– – – – – –

Share
Share
Share