منیر نیازی : عصری حسیت کا شاعر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عبدالعزیز ملک

Share

211257-MuneerNiaziPhotoFile-1388030346-280-640x480-453x340
منیر نیازی:عصری حسیت کا شاعر

عبدالعزیز ملک
لیکچراراُردو، جی سی یو نی ورسٹی، فیصل آباد

0923447575487

حقیقی رومانویت کا علمبردار منیر نیازی ،جو شاعری میں داخلی واردات کو یو ں سموتا ہے کہ وہ چلتی پھرتی تصویر بن جاتی ہے اور یہ تصویرپُر اسراریت کی فضا میں لپٹی ،خوف کا منظر پیش کرتی دکھا ئی دیتی ہے۔ ایک ایسا خوف جس نے انسان کو بستیاں بسانے اور مہذب بننے پر مجبور کیا ۔ انسان اس تہذیب اور آباد کاری میں اپنے ساتھ حیوانی درندگی بھی لایا ۔یہ درندگی تہذیب کے عقب سے سر نکال کرکسی نہ کسی طرح اپنے کرتوں کا مظاہرہ کرتی رہتی ہے۔ جسے منیر نیازی نے بڑی خوب صورتی سے چڑیلوں بھوتوں اور ڈائینوں کی شکل میں مجسم کیا ہے ۔ جسے تکنیکی زبان میں تمثال نگاری (Imagism)کا نام دیا جا سکتا ہے۔

منیر نیازی کے ہاں اس طرزکے تجربات کی فراوانی ہے جس سے وہ اپنے اجتہادی خیالات کی ترسیل کا کام لیتے ہیں اور عصری صورتِ حال کو بے دھڑک اپنی شاعری میں منعکس کرتے چلے جاتے ہیں ۔اس مقصد کے لیے انھوں نے علامتوں اور استعاروں کا سہارا لیا ہے ۔مثال کے طور پرمنیر نیازی نے صنعتی شہر کے لیے ’’جنگل ‘‘کی علامت کو استعمال کیا ہے اور اس کی ہولناکیوں کوتاریک رات اور ڈرا دینے والی آوازوں سے ظاہر کیا ہے۔اس ضمن میں اُن کی پنجابی شاعری کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔
گھر دیاں کندھاں اُتے دِسن چھِٹاں لال پھوار دیاں
اَدھی راتیں بوہے کھڑکن ،ڈیناں چیکاں ماردیاں
سَپ دی شوکر گونجے جیویں گلا ں گجھے پیار دیاں
ایدھر اودھرلُک لُک ہسن شکلاں شہروں پار دیاں
روحاں وانگوں کولوں لنگھن مہکاں باسی ہار دیاں
قبرستان دے رستے دسن کوکاں پہرے دار دیاں
اسی طرح کی صورتِ حال کی عکاسی ان کی اردو نظم’’جنگل میں زندگی‘‘ میں بھی ہوئی ہے ۔اس صورتِ حال کو منعکس کرنے کے لیے منیر نیازی امیجز تخلیق کرتا ہے ۔ اگرچہ یہ امیجز(Images) ہماری روایتی شاعری میں بھی موجود تھے لیکن کلاسیکی شعرا کے ہاں یہ مقصد(Objective) یا منزل نہیں بلکہ وسیلہ(Medium) تھے،جب کہ جدید شعرا کے ہاں یہ میڈیم کی بجائے مقصد کا درجہ اختیار کر گئے ہیں۔اگر دیکھا جائے تو منیر نیازی ہمارے عہد کے ان معدودے چند شعرا میں سے ہیں جنھوں نے شعری کشف کو کمال کامیابی سے پیش کیا ہے۔اور اس شعری کشف کے اظہارکے لیے امیجز کا سہارا لیا ہے۔ ان کی تمثال نگاری اور علامتی نظام کے حوالے سے ان کی نظم’’جنگل میں زندگی‘‘سے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
پُراسرار بلاؤں والا
سارا جنگل دشمن ہے
شام کی بارش کی ٹپ ٹپ
اور میرے گھر کا آنگن ہے
ہاتھ میں ایک ہتھیار نہیں ہے
باہر جاتے ڈرتا ہوں
رات کے بھوکے شیروں سے
بچنے کی کوشش کرتا ہوں (جنگل میں زندگی)
منیر نیازی نے تمثال نگاری اور علامت سازی کے ساتھ ساتھ روایت کی پاس داری کرتے ہوئے جدت کو بھی اپنا شعار بنایاہے ۔ ان کی شاعری لطیف جذ بات ، عمدہ تراکیب اور ہندی دیو مالا سے سجی ایسی مالا ہے جس کا ہر مو تی قاری پر نئے افق رو شن کرتا ہے۔ لفظوں کی تہہ میں چھپے معانی یکے بعد دیگرے بالائی سطح پر ابھرتے ہو ئے قاری کو ایک خوش گوار حیرت میں مبتلا کرتے چلے جاتے ہیں ۔ منیر نیازی نے جن احساسات و جذبات سے لبریز ہو کر اپنی فکر کو شا عری میں ڈھالا ہے ان کا تعلق کسی ماورائی دنیا سے نہیں بلکہ زندگی کی حقیقتوں سے ہے۔اوراگر کہیں ماورائی دنیا کا نقش پیش بھی کیا ہے تو اسے حقیقی دنیا سے ممزوج کر دکھایا ہے یہی وجہ ہے کہ منیر نیازی کی غزلوں اور نظموں کے بہت سارے اشعارخود بخود قاری کے دل و دما غ میں گھر کر جاتے ہیں ۔ اور ایک طویل عرصے بعد بھی جب وہ انھیں ذہن کے نہاں گو شو ں سے شعور میں لاتا ہے تو تا ثر زائل نہیں ہو تابلکہ اُ سی آب وتاب سے برقرار ہو تا ہے جو پہلی بار سننے سے پیدا ہو اتھا ۔بغور دیکھیں تو ان کی شاعری میں یہ خصوصیت افسانے اور ڈرامے کے اجزا یکجا ہو جانے سے صورت پذیر ہوئی ہے۔وہ اس خصوصیت کی بنیاد پر ارفع بات انتہائی اختصار سے کر جاتے ہیں اور قاری دیر تک محوِ حیرت رہتا ہے۔ اس ضمن میں چند اشعار ملا حظہ ہو ں ۔
بادِ بہارِ غم میں وہ آرام بھی نہ تھا
وہ شوخ آج شام لبِ بام بھی نہ تھا
دردِ فراق ہی میں گئی ساری عمر
گر چہ ترا وصال بڑا کام بھی نہ تھا
شاعری ،افسانے اور ڈرامے کی خصوصیات کی یکجائی نے ان کے اسلوب کو انفرادیت بخشی ہے۔منیر نے ایک نئی فضا ،ایک نیا لہجہ اورنیا طریقِ کار وضع کر کے اپنے عصر کی شعری روایت کو بدل ڈالا اور جدید شاعری کے رحجانات متعارف کروانے میں اپنا کردار ادا کیا ۔منیر نیازی نے اس عمل کے تحت نا قابلِ بیان کے لیے نئے لسانی پیکر تراشے جو قابلِ بیان کو بھی ایک نئی وسعت کے ساتھ پیش کرتے ہیں ۔سیاسی اداروں کے جبر کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے نئی علامتوں اور استعاروں کی تخلیق کی اور امیجزکو وسیلہ بنانے کی بجائے مقصدبنانے کا رویہ عام کیا ۔یوں ان کی شاعری میں بعض لفظ ایسے بھی داخل ہوئے جن کو نئے سیاق و سباق میں دیکھنے سے معنی کی تفہیم ممکن ہوتی ہے۔
منیر نیازی اردو شعری روایت میں ایک ایسا شاعر ہے جس کی شاعری ہوا کے ایسے جھونکے کی طرح ہے جو پیلے اور مرجھائے پتوں کو گرا کر نئی کونپلوں کی بالیدگی کا سامان کرتی ہے۔ ان کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے محمد سلیم الرحمان ، تین علا متوں ہوا ،شام اور موت کا ذکر کرتے ہیں ۔ان کے خیال میں منیر نیازی کی شاعری آنے والے وقت کا پتا دیتی ہے، اس کی وضاحت کے لیے انھوں نے شمالی جرمنی کے دیوتا ’’اوڈن‘‘ کی مثال پیش کی ہے۔ اس کے ساتھ ہمیشہ دو کوّے اُڑتے رہتے تھے اور کوّے کے بارے میں تصور کیا جاتا ہے کہ وہ مستقبل کی خبر دیتا ہے۔ منیر نیازی کی شاعری میں بھی مستقبل کی پیش گویاں کرنے کا رحجان موجود ہے۔
صبحِ کاذب کی ہوا میں کتنا درد تھا منیر
ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا
یہاں ریل کی سیٹی سفر کی علامت ہے جو رختِ سفر باندھنے کی خبر دے رہی ہے۔ علامتوں کی زبان میں بات کرنے کا رحجان منیر نیازی کی شاعری کا ہر اچھے شاعر کی طرح خاصا ہے۔بقول اشفاق احمد منیر نیازی کی شاعری میں ڈائنیں ، چڑیلیں ، خنجر بکف حبشنیں ، رنگ و بو میں بسی ہوئی دوشیزائیں اور ایک دفعہ جا کر لوٹ آنے والے لوگ بکثرت موجود ہیں ۔ جن کی وضا حت خود منیر نیازی ہی کر سکتا ہے۔ یہ سارے کردار تراشتے ہوئے منیر نیازی اپنے ما حول سے نا آشنا نہیں ہے۔ وہ سیماب طبیعت شاعر صدیوں تک نامعلوم کی جستجو میں سر گرداں ایک ایسے شخص کی تلاش میں محو رہا ہے جس میں اسے اپنائیت محسوس ہو ۔وہ مطلوبہ شخص کو پالینے کے بعد اس کے سامنے چپ چاپ اور حیران کھڑا دکھائی دیتا ہے۔اس کی آنکھیں اس سے سوال کرتی ہیں ۔۔۔کون ہے ؟
روزِ ازل سے وہ بھی مجھ تک آنے کی کوشش میں ہے
روزِ ازل سے میں بھی اس سے ملنے کی کو شش میں ہوں
لیکن میں اور وہ ۔۔۔ ہم دونوں
اپنی اپنی شکلوں جیسے لاکھوں گورکھ دھندوں میں
چپ چاپ اور حیران کھڑے ہیں
کون ہے ؟۔۔۔ ’’میں ‘‘
اور کون ہے ؟۔۔۔’’تو‘‘
بس اسی دور میں کھوئے ہوئے ہیں
صبح کو ملنے والے سمجھیں
جیسے یہ تو روئے ہوئے ہیں
منیر نیازی نہ صرف فطرت کا شاعر ہے بلکہ وہ مایوسی اور بے بسی کی منظر کشی کرنے والا ، جادوئی اور واہموں بھری نظمیں تخلیق کرنے والا ،اجڑی بستیوں ، ما ضی کے حسین خوابوں کو تجربات کی کسوٹی پر پرکھ کر لفظوں کا روپ دینے والا شاعر بھی ہے۔ اس نے ’’ جنگل کا جادو ‘‘، ’’ جادو کا کھیل ‘‘، ’’ جادو گھر ‘‘ ، ’’طلسم خیال ‘‘ ،’’بھوتوں کی بستی ‘‘ اور ’’ شام ،خوف، رنگ ‘‘ایسی نظمیں تخلیق کیں جو ان کی طلسماتی اور واہموں سے لبریز زندگی کی آئینہ دار ہیں۔ اسی طرح ’’ موسم نے ہم کو منظر کی طرح پریشان کر دیا ‘‘، ’’درخت بارش میں بھیگتے ہیں ‘‘، ’’ایک پتے سے خطاب ‘‘،’’ بادِ بہارِ دیگر ‘‘ ، ’’نئی رت ‘‘ ، ’’ موسم سرما کی بارش کا پہلا روز ہے‘‘ اور ’’فصلِ بہاراں میں شہر کی فکر ‘‘ایسی نظمیں ہیں جو منیر نیازی کی فطرت سے محبت کی آئینہ دارہیں ۔جن میں اس نے فطرت کی پیش کش کے پسِ پردہ اپنی ذات کا اظہار ہی نہیں کیا بلکہ اس میں اس چیز ، خیال یا تجربے کو بھی شامل کیا ہے جس پر اس نے طبع آزمائی کی ہے۔ اس طرح منیر نیازی نے ان تجربات اور خیالات سے مخصوص معنی الگ کر کے ان میں نئی معنویت اور نئے امکانات کو ذاتی وابستگی کے حوالے سے روشن کیا ہے ۔ اس طرح ان کی شاعری بصارت اور بصیرت دو نو ں کی عکاس ٹھہرتی ہے۔
منیر نیازی کے عہد کے اکثرشعرانظریات سے وابستہ شعرا ہیں لیکن منیر نیازی ایک ایسا شاعر ہے جو کسی تحریک ، گروہ یا نظریے سے وابستہ نہیں ہے ۔وہ صرف اور صرف شاعر ہے اس کے سوا کچھ نہیں ۔ اس کی وابستگی اگر ہے بھی سہی تو وہ شاعری کے اصل یا با الفاظِ دیگر شاعری کے جو ہر سے ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود وہ اپنے عہد کے غم سے نا آشنا بھی نہیں ہے،وہ عصری حسیت کو بڑی کامیابی سے اپنی شاعری کا حصہ بناتا چلا جاتا ہے۔اسی لیے انتظار حسین نے منیر نیازی کو عہد کی شاعری کرنے والوں سے زیادہ عہد کا شاعر کہا ہے۔
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
وہ کس کرب یا اذیت میں مبتلا ہے ؟وہ اپنے عہد یا حالات سے کتنا اثر قبول کررہا ہے؟ وہ اپنی ذات میں چھپے دکھ کا کتنا پر چار کر رہا ہے؟ان چیزوں سے وہ اپنی شاعری کو متا ثر نہیں ہو نے دیتا ۔ اس کی شاعری اپنے فطری حسن کوبرقرار رکھتی ہے ۔وہ وسعت کا قائل ہے اور سوچ کو خانوں میں بند نہیں ہونے دیتا ۔ اس بات کا اندازہ اس کی شاعری میں استعمال ہو نے والی علا مات و استعارات سے بھی لگایا جا سکتا ہے ۔ چاند ،ستارے ، فلک ، صحرا ،میدان سورج اور خلا ایسے الفاظ اس کی شاعری کو نئی معنویت عطا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی سوچ اور تفکر کی وسعت کے آئینہ دار بھی ہیں ۔
وہ ویرانوں میں جا کر
چاند نکلتا دیکھتے ہیں
جب مشرق پر روشنی کا
اک تیز نشان چمکتا ہے
وہ سر گوشی کے لہجے میں
کچھ منتر پڑھنے لگتے ہیں
(ایک رسم )
منیر نیازی کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے قاری کی آنکھوں کے سامنے نادیدہ بستیاں گھوم جاتی ہیں جن کی دیواروں پر حسین مور بیٹھے ہیں ،با غوں میں کو ئلوں کا شور سنائی دینے لگتا ہے ، سیاہ گھٹائیں بال پھیلائے محوِ رقص نظر آتی ہیں اور گاؤں کی پگڈنڈیو ں پر حسین دو شیزائیں اپنے گھر کا سفر کرتی دکھائی دیتی ہیں ۔ جس سے قاری کے لیے ذہن و روح کی مسرت اور طمانیت کا ساماں مہیا ہو تا ہے اور ایک ان جانا لطف اسے اپنے گھیرے میں لے لیتا ہے جس سے باہر آنا قاری کے لیے ناممکن دکھائی دیتا ہے ۔ اور یکسانیت اور اکتاہٹ کا وہ ہا لہ ٹوٹ جا تا ہے جو کئی برسو ں سے اردو شاعری کو اپنی گرفت میں لیے ہو ئے ہے ۔ یہ یکسانیت جو نفرتوں اور کدورتوں کا شا خسانہ ہے ،اس سے جان چھوٹ جاتی ہے ۔
سر تے گھُپ ہنیر تے دھرتی اُتے کال
پیریں کنڈھے زہردے لہو وچ بھِجے وال
جتن کرہ کجھ دوستو تو ڑو موت دا جال
پھڑ مرلی اوئے رانجھیا کڈھ کو ئی تکھی تان
مار کوئی تیر او مرزیا کھچ کے ول آ سمان
انتظار حسین کے افسانوں اور میرا جی کی نظموں کی طرح منیر نیازی کی شاعری میں ہندی اسا طیرکا اثر بھی نمایاں نظر آتا ہے۔ جو اس دھرتی سے ان کی بے لو ث محبت کا ثبوت ہے ۔ منیر شناسی کی روایت میں ایک اہم نام ڈاکٹر سمیرا اعجازکا ہے جن کی حال ہی میں ’’منیر نیازی :شخص اور شاعر‘‘ کے عنوان سے کتاب شائع ہوئی ہے ،انھوں نے بھی ماہنامہ ’’ قومی زبان ‘‘ میں چھپنے والے اپنے ایک مضمون میں اس کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ان کے بقول منیر نیازی کی شاعری کے ابتدا میں ہندی دیو مالا جب کہ بعد میں اسلامی اساطیر سے انھوں نے بھر پور استفادہ کیا ہے۔ہندی اساطیر کے حوالے سے ان کے ہاں پانچ کردار وں کا ذکر نمایاں ہے، رادھا، شیام ، پاروتی ، شِوّ اور کام دیو۔
کیسے اس کے دل سے میں یہ گہری بات بھلاؤں گا
کیا منہ لے کر میں اپنی رادھا کے سامنے جاؤں گا
۔۔۔
کام دیو کی دھنش سے نکلے موہن تیکھے بان
سکھ ساگر کی لہریں آئیں چڑھتے چندر سمان (نظم ،بسنت رت)
منیر نیازی نے ان کرداروں کو وسیع تر معنوں میں استعمال کرتے ہوئے موجودہ عہد سے ہم آہنگ بھی کیا ہے اور ان علامتوں سے نئے مفاہیم وا بستہ کر کے انھیں عصری حسیت کا آئینہ دار بنا یا ہے ۔ ہندی اسا طیر کا استعما ل اور اُن سے نئے مفاہیم کا ابلاغ جو انھیں روایتی شعرا سے ممیز کرتاہے، ان کے رومانوی رحجان کاعکاس ہونے کے ساتھ ساتھ جدید عصری رحجانات سے ہم آہنگ کرتا دکھائی دیتا ہے۔
– – – – – – – – –
Article : Muneer Niyazi : Contemporary sensitivity of a Poet
Writer: Abdul Aziz Malik
aziz

Share
Share
Share