افسانہ : شیطان
محمد نواز
کمالیہ ۔ پاکستان
’’ یہ انسان نہیں شیطان ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے جتنا مار سکتے ہو مارو ‘‘ مجمع سے ایک گرج دار آواز ابھری ،پھر لاتوں ،مکوں ،ٹانگوں اور تھپڑوں کا آزادانہ استعمال ہونے لگا ۔’’ مجھے تو اس مولوی پر پہلے ہی شک تھا کہ یہ ملاں نہیں شیطان ہے ‘‘ دوسری مردانہ آواز آئی اور ساتھ ہی ایک زور دار تھپڑ بھی ’’ تجھے اس داڑھی کا خیال بھی نہ آیا اس طرح کی حرکت کرتے ہوئے‘‘ ایک اور آدمی نے گھونسہ مارا جیسے یہ کوئی ثواب کا کام ہو ۔ لوگوں کے درمیان گھرا مار کھاتا یہ مولوی عزیز تھا ۔آج سے پہلے مولوی عزیز سب کا عزیز تھا ،لیکن محلے کے وہی لوگ آج مولوی عزیز کو عبرت کا نشان بنانے پر تلے تھے ۔
بیس سال قبل محلے میں مولوی عزیز نے ایک خالی پلاٹ پر اللہ کا گھر بنانے کا ارادہ کیا۔ محلے کے لوگوں نے اللہ کا گھر بنانے میں اپنی اپنی استطاعت کے مطابق حصہ ڈالا اور اللہ کا گھر بنتے بنتے بن گیا ۔ اللہ کے گھر میں پانچ وقت کی نماز کے ساتھ ساتھ مولوی عزیز نے محلے کی گلیوں میں صبح سے شام تک آوارہ گردی کرتے بچوں کیلئے دینی تعلیم کا بھی بندو بست کر دیا ۔ اب اللہ کے گھر میں صبح شام دین کی تعلیم کیلئے محلے کے بچے اور بچیاں آنے لگے ۔مولوی عزیز اکثر ان سے ایک ہی بات کہتا ۔ شیطانوں،دین کے احکام سیکھ لو تمھارے کام آئیں گے اس دنیا میں بھی اور اگلی دنیا میں بھی ۔ کل تمھارے ماں باپ جب فوت ہو جائیں گے تو ان کا جنازہ کیسے پڑھو گے،سارا دن گلیوں میں ،ٹائر چلاتے ہو۔بنٹے کھیلتے ہو ،یہ سب شیطانی کھیل ہیں ،انسان بن جاؤ ،سب کے سب ۔شیطان نہیں چاہتا تم سدھرو ،لیکن میں تم کو ضرور سدھاروں گا ‘‘۔
کڑی جوانی تھی مولوی عزیز پر جب اس نے، محلے کے بچوں کو شیطان سے بچانے کیلئے اللہ کا گھر بنایا تھا ۔ اللہ کا گھر بناتے بناتے اپنا گھر بنانا اور بسانا دونوں بھول گئے۔ باپ کا سائیہ بچپن میں سر سے اٹھ گیا ،باپ بھی ایک مسجد میں پیش امام تھا ، ماں نے اولاد کی کثرت کے باعث ایک مدرسہ میں ڈال دیا جہاں سے قرآن پاک حفظ کیا ،ابھی مدرسہ سے فارغ نہ ہوا تھا کہ ماں بھی دار فانی سے رخصت ہو گئی ۔امامت آبائی پیشہ تھا اسی کو وسیلہ روز گار بنایا۔اللہ کا گھر بنایا اور اس کے ساتھ ہی ایک چھوٹا کمرہ بھی رہنے کو بنا ڈالا ۔ایک ایک کر کے بہن بھائیوں کی شادیاں کیں ،سب اپنے اپنے گھروں کے ہو گئے اور مولوی عزیز صرف اللہ کے گھر کا ۔جوانی اللہ کے گھر میں ہی ریاضت و مجاہدہ میں گزار دی ۔یوں عمرکا سورج سر اور داڑھی میں چاندی لے کے ڈھلنے لگا ۔ پھر جب کسی نے گھر بسانے کی بات کی تو مولوی عزیز نے یہ کہہ کر ٹال دی کہ ’’ گھوڑا جب منہ زور تھا تو میں نے اسے باندھے رکھا اب اسے دوڑانے کا کیا فائدہ ، مولوی عزیز ہمیشہ نفس کو گھوڑے سے تشبیہ دیتا اور کہتا جس طرح گھوڑا منہ زور ہوتا ہے اسی طرح نفس بھی ۔اگر گھوڑے کو مسلسل باندھ کر رکھا جائے تووہ لاغر ہو جاتا ہے دوڑنا کیا چلنا بھی مشکل ہو جاتا ہے اسی طرح نفس کو بھی باندھ کر رکھنا چاہیے تا کہ وہ منہ زور نہ ہو ۔ مولوی عزیز یہ بھی کہا کرتا جس نے نفس کو مارا اس نے شیطان کو مارا ۔لیکن یہ شیطان بندے سے کبھی نہیں مرتا شیطان انسان کے اندر ہے ازل سے ہے،انسان کو بھٹکانے کیلئے ،سیدھی راہ سے دور لے جانے کیلئے‘‘
محلے کی ایک نسل مولوی عزیز کے ہاتھوں میں جوان ہوئی ۔مولوی عزیز نے ان کو اس قابل کر دیا تھا کہ وہ اب اپنے بزرگوں کا جنازہ پڑھ سکتے تھے ۔اپنے مرے ہوئے عزیزوں کی قبروں پر فاتحہ خوانی کیلئے قبرستان جا سکتے تھے اور شائد یہی مولوی عزیز کا بھی مقصد تھا جو پورا ہو چکا تھا ۔ محلے میں شادی بیاہ ،نکاح اور مرگ پر ہونے والی مذہبی رسومات کی ادائیگی کیلئے مولوی عزیز کی خدمات لی جاتیں۔ مولوی عزیز نے متعدد نکاح پڑھائے تھے لیکن کبھی اپنے نکاح کے بارے میں نہ سوچا ۔شائد مولوی عزیز نے اپنے اندر کا نفس مار لیا تھا ۔اس نے منہ زور گھوڑے کو باندھ کر لاغر کر دیا تھا جو نہ دوڑ سکتا تھا نہ چل سکتا تھا ۔
ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ ’’ شیطان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ مولوی عزیز نے اپنے سامنے بیٹھے سات آٹھ سالہ بچے کے کان کھنچتے ہوئے کہا ’’ تم پڑھتے نہیں ،شرارتیں زیادہ کرتے ہو ، تمھاری امی نے کل میرے سے تیری شکایت کی تھی ،تم اپنی امی کو بہت تنگ کرتے ہو اور ساتھ اپنی دادی کو بھی ‘‘ ’’ مولوی جی ،کان چھوڑ دیں بہت درد ہو رہا ہے ‘‘ بچے نے درد کی دوہائی دیتے کہا اور مولوی عزیز کا ہاتھ زور سے پکڑ لیا جیسے کان مولوی کی سخت گرفت سے آزاد کرانا چاہتا ہو،مولوی عزیز کی کان پر پکڑ اتنی سخت تھی کہ درد سے کراہنے لگا ’’ بتا اب تنگ کرے گا اپنی ماں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘’’ آآآآآ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولوی صاحب کان چھوڑ دیں ،اللہ قسم تنگ نہیں کروں گا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ آآآآآ ‘‘بچہ پھر درد سے کراہنے لگا ۔ ’’ مولوی جی ،اب اس شیطان کو چھوڑ دیں اگر اس نے آئندہ مجھے تنگ کیا تو میں آپ کو پھر اس کی شکایت کروں گی ‘‘’’ مولوی عزیز نے نسوانی آواز پر بچے کاکان چھوڑ دیا ۔بچہ کان مسلنے لگا ’’ اب اگر یہ شیطان آپ لوگوں کو تنگ کرے تو مجھے ضرور بتانا میں اس کا دوسرا کان بھی کھینچوں گا ،بلکہ کھینچ کر اس کی ہتھیلی پر رکھ دوں گا ‘‘ خاتون نے چائے مولوی عزیز کو پکڑانا چاہی تو اس کاہاتھ بادنخواستہ مولوی عزیز کے ہاتھ سے چھو گیا دونوں کی نظریں چار ہوئیں ،اک واجبی سی مسکرہٹ کے ساتھ خاتون کرسی پر بیٹھ گئی ۔ ’’ آپ فکر نہیں کریں ،میں اس شیطان کو انسان بنا دوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے محلے کے بڑے بڑے شیطانوں کو انسان بنا دیا ہے ،یہ تو ابھی چھوٹا ہے ‘‘ ’’ مولوی جی ، آپ اسے انسان بنا دیں ،آپ کی بہت مہربانی ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر اس کا باپ گھر ہوتا تو مجھے اس کی چنداں فکر نہ ہوتی ،اب ساری ذمہ داری میرے پر ہے اور میں نہیں چاہتی،اس کا باپ کل کلاں مجھ سے آکر گلا کرے ‘‘ مولوی عزیز نے خاتون کو یقین دلایا اور یہ کہہ کر مسجد چلا آیا کہ اذان کا وقت ہوا جاتا ہے ،اسے وقت پر اذان پڑھنی ہے ۔
صفیہ ،ادھیڑ عمر کی خوبصورت خاتون تھی ،ایک بچے اور ساس کے ساتھ چند ماہ پہلے اس محلے میں آکر رہائش پذیر ہوئی تھی ۔شوہر روزگار کے سلسلہ میں بیرون ملک مقیم تھا ۔ شوہر ایسا گیا کہ کبھی پلٹ کر خبر نہ لی،ہر ماہ باقاعدگی سے خرچ بھیج دیتا، مکان خریدنے اور بچے کی تعلیم و تربیت کیلئے اضافی روپے بھی بھیج دیتا تا کہ صفیہ بچے کو پڑھا لکھا سکے ۔ صفیہ نے مولوی عزیز کو گھر پر ہی بچے کی تعلیم و تربیت کی درخواست کی جسے مولوی عزیز نے پس و پشت کے بعد بچے کو گھر پڑھانے کی حامی بھر لی۔صفیہ جب اس محلے میں آئی تھی تو ا س نے مولوی عزیز کو اللہ کے گھر کی تعمیر کیلئے ایک خطیر رقم دی تھی جو اس کے شوہر نے خاص اللہ کے گھر کی تعمیر کیلئے بھیجی تھی ۔صفیہ کی ساس بڑھاپے کی دہلیز پر قدم جما چکی تھی ، جائے نماز ٹھکانہ اور اللہ اللہ معمول بنا لیا، جیسے شیر جب بوڑھا ہو جاتاہے تو کچار کے دہانے پر پاؤں پھیلا لیتا ہے اور ہر گزرنے والے جانور کو نیکی کی تلقین کرتا ہے ۔ یہی حال ہمارے ہاں عمر رسیدہ لوگوں کا ہے ۔جوانی میں رب یاد آتا نہیں اور بڑھاپے میں رب بھولتا نہیں ،توبہ و استغفار زیر لب جاری رہتا ہے ۔تسبیع ہاتھ میں پکڑے دنیا سے کامل ایمان کے ساتھ جانے کی فکر میں مالا جبتے نظر آتے ہیں ۔
عصر کی نماز سے پہلے مولوی عزیز کا معمول تھا وہ صفیہ کے گھر اس کے بچے کو قرآن پاک پڑھانے چلا جاتا۔پہلے پہل صفیہ مولوی عزیز سے پردہ کرتی ،بچے کے متعلق جو بات کہنا ہوتی ساس کے ہاتھ پیغام بھجوا دیتی یا دروازے کی اوٹ میں کھڑے ہو کر کہہ دیتی ۔لیکن آہستہ آہستہ صفیہ اور مولوی عزیز میں حائل سارے پردے اٹھ گئے، صفیہ اور مولوی عزیز آمنے سامنے بیٹھ کر بچے کی تعلیم و تربیت پر گفتگو کرنے لگے۔ پہلی بار مولوی عزیز نے صفیہ کو برہنہ آنکھ اور نقاب کی بندشوں کے بغیر دیکھا تو اس کی آنکھیں صفیہ کے چہرے پرٹھہر نہ سکیں،فوراً نظریں جھکا لیں ،لیکن جھکتے جھکتے صفیہ کے جسم کا طواف کر گئیں۔
’’ لا حولا وقوۃ ، عورت شیطان کا دوسرا روپ ہے ۔۔۔۔۔۔۔شیطان خوبصورت عورت کے روپ میں مومن بندے کے سامنے سج سنور کر آتا ہے اور بہکانے کی کوشش کرتا ہے ‘‘ نماز کے بعد ایک نمازی نے مولوی عزیز سے اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے پوچھا کہ ایک
لڑکی مسلسل اس کے خواب میں آتی ہے ،نفس بے قابو ہوجاتا ہے ۔اسے آئے روز غسل کر کے نماز کیلئے آنا پڑتا ہے ۔نمازی نے مولوی عزیز کو بتایا کہ اسے عورت سے کوئی خاص رغبت نہیں،وہ اللہ کا نیک اور برگزیدہ بندہ بننا چاہتا ہے ‘‘ مولوی عزیز نے اس نمازی سے کہا کہ ’’ اس کے خواب میں آنے والی کوئی لڑکی نہیں بلکہ شیطان ہے جو اسے ورغلانہ چاہتا ہے اب خواب میں لڑکی بن کر آتا ہے کل حقیقت بن کر سامنے آئے گا ۔۔۔۔۔
شیطان سے بچنے کے طریقے پر مولوی عزیز نے بتایا کہ رات کو تعوذاور چاروں قل پڑھ کے دائیں طرف کروٹ لے کر سو جایا کرو اس سے شیطان نہیں آئے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نمازی اٹھ کر جانے لگا تو بولا ’’ مولوی صاحب ، شیطان کی جنس کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔؟ ‘‘ مولوی عزیز سوالیہ نظروں سے نمازی کی طرف دیکھنے لگا ’’ میرا مطلب ہے ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شیطان مذکر ہے یا مونث ؟ اس سے پہلے کہ مولوی عزیز کوئی جواب دیتا وہ نمازی خود ہی بول پڑا ’’ اگر شیطان مذکر ہے تو عورت کا روپ کیسے دھار لیتا ہے اور اگر مونث ہے تو مرد بن کر کیوں گمراہ کرتا ہے ؟‘‘
’’ دیکھو میرے بھائی ، شیطان ہر مردو زن کے ساتھ چپکا ہوا ہے ،مرد کو گمراہ کرنا ہو تو عورت کا روپ دھار لیتا ہے اور اگر عورت کو گمراہ کرناہو تو مرد کا اس نے اسی بات کی اللہ سے مہلت لی ہوئی ہے کہ وہ ہر مردو زن کو بہکائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کامقصد انسان کو گمراہ کرنا ہے اور انسان میں مردو زن دونوں شامل ہیں ۔ شیطان کل ہمارے باپ کا دشمن تھا اور آج ہمارا ہے ہمیں اس سے ہر وقت پناہ مانگتے رہنا چاہیے ‘‘
نمازی چلا گیا تو مولوی عزیز کو خیال آیا کہ اس نے صفیہ کے بچے کو پڑھانے کیلئے بھی جانا ہے ۔ صفیہ کا خیال آتے ہی مولوی عزیز کے جسم میں ایک سرد لہر سرائیت کر گئی ۔مولوی عزیز نے دروازے پر دستک دی، صفیہ نے دروازہ کھولا،مولوی عزیز کی نظریں چہرے سے ،صفیہ کی نسوانیت پر آکر ٹھہر گئیں ،صفیہ بنا ڈوپٹہ کے مولوی عزیز کے سامنے کھڑی تھی جلد ہی اسے اس بات کا احساس ہوا تو بولی ’’ اند ر آ جائیے مولوی جی ،اب آپ سے کیا پردہ ۔۔۔۔؟ آپ تو ہمارے گھر کے ہی فرد ہیں ‘‘ مولوی عزیز ،صفیہ کے پیچھے اس کمرہ میںآ بیٹھا جہاں وہ بچے کو پڑھایا کرتا تھا ۔اس کی نظروں میں صفیہ کے خدوخال یوں چبھنے لگے تھے جیسے ہر جمعہ کے دن کڑوے سرمہ کی تین تین سلائیاں آنکھوں میں ڈالنے کے بعد چبھن محسوس کیا کرتا تھا ۔محلے کے بچوں کو قرآن پاک پڑھاتے پڑھاتے اس کی نظر کمزور ہو گئی تھی ،آنکھوں میں الفاظ تیرنے لگے تھے ،دھندلاہٹ نے اپنا رنگ جمانا چاہا تو مولوی عزیز ایک حکیم سے سرمہ لے آیا ۔ بقول حکیم کے سرمہ آنکھوں میں چبھن پیدا کرے گا اور چبھن ہی آنکھوں کی بیماری کی تریاق ہے ۔ صفیہ کے خدوخال کو دیکھا تو وہی چبھن آنکھوں میں محسوس ہونے لگی ۔مولوی عزیز نے کندھے پر رکھے اس رومال سے آنکھوں کی چبھن کو کم کرنے کی کوشش کی جو ایک حاجی نے اسے حرم شریف کے تحفہ کے طور پر دیا تھا۔ ’’ استغفراللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ مولوی عزیز کے لبوں نے جنبش کی ۔’’آج کل کی عورتیں اس قدر بہودہ لباس پہنتی ہیں اللہ کی پناہ ،قرب قیامت کی نشانی ہے ۔اگر کوئی عورت میری منقوحہ ہوتی تو میں اسے مکمل پردے کا حکم دیتا‘‘
’’ مولوی جی ،منا اپنی دادی کے ساتھ دوکان پر گیا ہے ابھی آتا ہی ہوگا ،جب تک آپ چائے پئیں ۔ اب کی بار صفیہ چائے لیئے اند ر آئی تو سینہ دوپٹہ سے ڈھکا تھا ۔رگوں میں تیزی سے دوڑتا خون اعتدال پر آیا ۔اس پہلے مولوی عزیز کو اپنی رگوں میں خون کے ساتھ کثیف سی چیز دوڑتی محسوس ہوئی ۔’’ شیطان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘ اس نے دل میں خیال کیا اور اللہ اللہ کا ورد کرنے لگا ۔ صفیہ نے ایک لفافہ جس میں وہ پیسے تھے جن کے عوض مولوی عزیز، صفیہ کے منے کو پڑھایا کرتاتھا ،دیا اور دوسرا اللہ کے گھر کی تعمیر کیلئے جو اس کے شوہر نے بیرون ملک سے بھیجا تھا، تھمادیا ۔ مولوی عزیز نے جزاک اللہ کے ساتھ دونوں لفافے اپنی ویس کوٹ کی اندر والی جیب میں رکھ لیئے ۔’’ اللہ آپ کو اس کا اجراس دنیا میں دس گنا اور آخرت میں ستر گنا کر کے دے گا یہ رب کا وعدہ ہے ،جو بھی اس کے دین کیلئے خرچ کرتا ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ جزاک اللہ ‘‘ ’’ مولوی جی ،سنا ہے آپ دین کے احکام بھی بتاتے ہیں ؟ ‘‘ ’’ میں کوئی عالم یا مفتی نہیں صرف کوشش کرتا ہوں اللہ کی مخلوق کو شیطان کے شرسے بچنے کیلئے وہ باتیں بتا سکوں جس سے لوگ گمراہ ہو رہے ہیں ‘‘ مولوی عزیز نے چائے کا گھونٹ اپنے اندر انڈیلا ۔بادنخواستہ اس کی نظر صفیہ کی طرف اٹھ گئی ۔کھلے گلے والی قمیص سے دوپٹہ سرک کر نیچے آ گیا تھا اور گلے میں مانگ بناتے مخروطی اعضا ء باہر کی طرف جھانک رہے تھے۔ خون کی گردش بڑھنے لگی ۔مولوی عزیز کو یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے منہ زور گھوڑا جس پر وہ گزشتہ کئی سالوں سے سوار ہے ،ہاتھ سے نکلتا ہوا دیکھائی دے رہا ہے ۔ آہستہ آہستہ گھوڑا اپنی رفتار بڑھاتا جا رہا ہے ’’ میں بھی آپ سے دین کے احکام سیکھنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔آپ مردوں کو تودین کے احکا م بتا دیتے ہیں ،لیکن میرے جیسی عورت جوہر وقت گھر پر مقید رہتی ہے وہ دین کے احکام کہاں سے سیکھے ‘‘ اس سے پہلے کہ مولوی عزیز سرپٹ دوڑتے گھوڑے سے زمین بوس ہوتا صفیہ کی آواز نے اپنی طرف متوجہ کیا ۔ ’’ احکام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی ضرور ‘‘ پسینے کے چند قطرے ماتھے پر تیرنے لگے ۔جس کو صفیہ نے بھی محسوس کر لیا ، وہ مسلسل مولوی عزیز کو گھور رہی تھی اور مولوی عزیز اپنے اندر ہونے والی ٹوٹ پھوٹ میں الجھا تھا ۔ ’’ پنکھا چلا دوں مولوی جی ،اگر آپ کو گرمی محسوس ہو رہی ہے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ ’’ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولوی عزیز نے رومال سے پسینہ صاف کیا ‘‘
’’ مولوی جی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نماز ،روزہ کے احکام کو میں نے بچپن ہی میں پڑھ بھی لیئے تھے اور سیکھ بھی ‘‘ سوالیہ نظروں نے ایک بار پھر صفیہ کے چہرہ کو دیکھاتو صفیہ کی نظروں میں ایک جھیل تھی ،ایک دریا تھااور ایک سمندر تھا ’’ ان شوہروں کے بارے میں دین کیا کہتا ہے مولوی جی جو اپنی بیویوں کو شادی کرنے کے بعد چھوڑ کر بیرون ملک پیسہ کمانے چلے جاتے ہیں اور پھر سالہا سال تک بیوی کی خبر ہی نہیں لیتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘یہ ایک ایسا سوال تھا جو مولوی عزیز سے کسی نے آج تک نہ پوچھا تھا ۔وہ تو لوگوں کونماز ،روزہ ،زکوۃ اور زیادہ سے زیادہ نماز جنازہ کے ہی احکام سمجھاتے آیا تھا ۔پہلی بار کسی نے اس سے ازدواجی مسائل کے بارے میں پوچھا تھا اور وہ بھی ایک ایسی عورت نے جس کا خاوند کئی سالوں سے بیرون ملک مقیم تھا ۔مولوی عزیز کی دانست میں صفیہ کے پوچھے گئے سوال کا فی الحال کوئی جواب نہ تھا ۔منا اپنی دادی کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا تو صفیہ ساس پر برس پڑی ’’ مولوی جی کتنی دیر سے منے کا انتظار کر رہے ہیں اور آپ جا کر دکان پر بیٹھ ہی گئی ‘‘ منا کھیلنے لگ گیا تھا اس لیئے دیر ہو گئی ۔۔۔۔‘‘ ساس نے جواز بناتے ہوئے کہا ۔
نماز پڑھاتے مولوی عزیز دو ،تین بار بھول گیا ،جس پر اسے سجدہ سہو کرنا پڑھنا ،دوران قرآت متعدد بار اس کے ذہین میں صفیہ کا خیال آیا ۔جس نے اسے بھولنے پر مجبور کر دیا ۔ اس کی ساری توجہ صفیہ کے مخروطی جسم پر تھی ۔اسے یوں لگا جیسے صفیہ اپنی ظاہری وجود کے ساتھ اس کے سامنے آن کھڑی ہوئی ہے اور اس سے ہم کلام ہونا چاہتی ہے ۔نماز پڑھاتے پڑھاتے مولوی عزیز کا دھیان بٹنے لگا ،قراٗ ت کومختصر کر کے جلدی سے نماز مکمل کی اور دعا مانگنے لگا ’’ یا اللہ شیطان کے شر سے محفوظ فرما ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا اللہ شیطان کے شر سے محفوظ فرما ‘‘سب نمازی دعا پر آمین کہنے لگے ۔
’’ شیطان کا آسان حدف عورت ہے۔وہ عور ت کے روپ میں ہی لوگوں کو بھٹکاتا ہے ‘‘ مولوی عزیز چار پائی پر لیٹا آسمان کی طرف نظریں لگائے ہوئے تھا ۔ اس کا دل اور دماغ کئی طرح کے وسوسوں سے بھرا تھا ۔اسے ایک بزرگ کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ یاد آگیا بزرگ عبادت میں مشغول تھے ۔شیطان عورت کے روپ میں بزرگ کے پاس آیا ،بزرگ اللہ کی یادسے غافل ہوا ،اللہ نے تمام عبادت و ریاضت زائل کر دی ۔ مولوی عزیز کو دور آسمان میں ایک ٹوٹا ہوا تارہ جس کی شباہت تیز رفتار گھوڑے کی طرح تھی اپنی طرف آتا ہوادیکھائی دیا ۔ چند ثانیہ کے بعد فضا میں تحلیل ہو تے ہوتے صفیہ کی شکل و صورت میں نمایاں ہونے لگا ’’ یہ شائد میرا نفس ہے ،جسے میں نے اپنی جوانی میں باندھے رکھا ،اب جب کہ نفس کو اپنی پسندیدہ نسوانی غذا ملی ہے تو پھر سے منہ زور ہو گیا ہے ‘‘۔مولوی عزیز نے سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔
’’ تم بہک رہے ہو مولوی عزیز ،تمھارا نفس تمہارے قابو میں نہیں رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ عین اسی لمحے مولوی عزیز کو ایک دباؤ سا محسوس ہوا ،ایسا ہی دباؤ وہ نوجوانی کی عمر میں محسوس کیا کرتا تھا ۔دباؤ تھوڑی دیررہتا اس کے بعد اسے ٹانگوں اور کمر میں شدید درد محسوس ہوتا ۔حکیم نے اس کیلئے شادی کا نسخہ تجویز کیا۔جسے وہ کبھی بھی استعمال نہ کر سکا ۔ ذکر الہی سے دردمیں آفاقہ ہوتا چلا گیا پھر مولوی عزیز بھی اس درد کے بارے میں بھول گیا ۔ پرانا درد آج پھر اس کی ٹانگوں میں محسوس ہو رہا تھا اسے پھر ذکر الہی کی ضرورت تھی ۔
’’ منے اگر تو نے مولوی جی کو سبق سنا دیا ہے تو دوسرے کمرے میں چلا جا ،مجھے ان سے دین کے چند ضروری احکام پوچھنا ہیں ‘ ‘ صفیہ سفید لباس میں ملبوس کمرے میں داخل ہوئی تو اس کے گیلے بالوں سے پانی کے قطرے کندھوں پر پھیلائے تولیئے میں جذب ہو رہے تھے ۔سر پر سفید دوپٹہ بھی گیلا ہو چکا تھاجس سے بالوں کی سیاہ رنگت کالے بادلوں کی طرح جھلک رہی تھی بلکہ گرج رہی تھی ،بادلوں کے گرجنے کی آواز وہ اپنے دل کی دھڑکن کے ساتھ سن رہا تھا ۔بادل برسیں گے اور اس کا خاکی وجود پانی میں گھل کر بہہ جائے گا ،بادل ابھی برسے کہ ابھی برسے ۔کمر تک قمیض بھیگا ہونے کی وجہ سے جسم پر پڑھنے والی سلوٹیں ،مولوی عزیزچشم بینا سے کن سکتا تھا ۔’’ میں نے سوچا مولوی جی ،انسان کو پاک صاف ہو کر دین کے احکام سیکھنے چاہیں ،اسی لیئے میں نے نہا لیا ۔۔۔۔۔۔آپ کچھ سوچ رہے ہیں مولوی جی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘ مولوی عزیز جی کے جواب سے صفیہ کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا ’’ دین اس بارے میں کیا کہتا ہے مولوی جی ۔۔۔۔۔۔‘‘ ؟ کس بارے میں ۔۔۔۔۔۔۔؟ مولوی عزیز نظریں جھکالیں ۔ ’’ ایک عورت اپنے خاوند کا کب تک انتظار کرے ،اگر وہ ایک ہی رات اپنی نئی نویلی دلہن کے ساتھ گزار کر ،پیسے کمانے بیرون ملک چلا جائے اور پھر لوٹ کر کبھی واپس ہی نہ آئے ‘‘؟ ابھی صفیہ کی سیاہ آنکھیں جو چند لمحے پہلے شیطان کی آماج گاہ تھیں ،بھر آئیں ۔’’ نئی نویلی،دلہن ،پہلی رات ،بیرون ملک ،پیسہ کے ‘‘ ان پانچ لفظوں نے مولوی عزیز کے سامنے صفیہ کی کہانی کھول کر بیان کر دی تھی ۔ وہ جان گیا کہ صفیہ ہمارے معاشرے کا وہ نسوانی کردار ہے ۔جس سے مرد ہمیشہ توقع رکھتا ہے کہ وہ اپنی خواہشات کے برعکس،مرد کی انا کے سامنے ہمیشہ جھکی رہے ۔ہمیشہ سجدہ ریز رہے ۔ ہمیشہ سر تسلیم خم رکھے۔
’’ مولوی جی،میرے دل میں کئی سوال ہیں ،جن کا میں جواب جاننا چاہتی ہوں،مجھے آپ سے بہتر اس محلے میں کوئی نظر نہیں آیا اور نہ ہی میری کسی دوسرے مرد تک رسائی ہے ،جس سے میں اپنے دل کی بات کہہ سکتی ۔شادی کے ان آٹھ سالوں میں ،میں نے پہلے سال منے کو جنم دیا اور باقی سات سالوں میں ان سوالوں کو جو میرے دل میں مخفی ہیں ۔ اللہ کا گھر بنانا زیادہ افضل ہے یا بیوی کے حقوق پورے کرنا ؟ میرا نام نہاد خاوند اللہ کے گھر کی تعمیر کیلئے رقم بھیج کر سمجھتا ہے اسے جنت میں محل مل جائے گا ۔وہ مجھے باقاعدگی سے نان نفقہ بھیج کر کہتا ہو گا میری ساری ضرورتیں پوری ہو گئیں۔ مرد جنت کا پھل ہے جسے کھانے کو عورت کا بار بار دل چاہتا ہے لیکن پھر بھی جی نہیں بھرتا ،میں نے یہ پھل ایک بار کھایا ہے اور میرے رگو وپے میں سرائیت کر گیا ہے یہ لذت مجھے بار بار پھل کھانے پر مجبور کرتی ہے۔۔۔۔۔۔ جبکہ میرا شوہر بیرون ملک غیر ملکی خاتون کے ساتھ روز یہ پھل کھاتا ہے اور میں آٹھ سال سے دو بولوں کا بول پال رہی ہوں ۔ کل ماں باپ کی عزت کا پاس رکھنا تھا آج سسرال کی لاج ۔۔۔۔۔۔۔۔
مولوی جی میں جنت کا پھل کھانا چاہتی ہوں ،میں خود کو اس جنت میں مقید نہیں رکھنا نہیں چاہتی ۔ میں اس جنت سے باہر نکلنا چاہتی ہوں ۔مجھے انتظار ہے ایک شیطان کا جو مجھے یہ پھل کھانے پر اکسائے ،میں بھی دوشی کہلائی جاؤں اور جنت سے نکال دی جاؤں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
پچھلے ایک ہفتہ سے مولوی عزیز منے کو پڑھانے نہیں گیا تھا ،وجہ صفیہ کے دل میں چبھتے سوال تھے یا آنکھوں میں اٹکے صفیہ کے تیکھے نین نقش ،مولوی عزیز کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا ۔اس سے فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا کہ وہ صفیہ کے بارے میں اپنے دل میں کیا رائے قائم کرے ۔
اس کی ذات کو کونسا روپ دے ،انسان کا یا شیطان کا ،ظالم کا یا مظلوم کا ۔چائے پکڑتے ہوئے جب مولوی عزیز کا ہاتھ صفیہ کے ہاتھ سے چھو گیا تھا تو
۔ہاتھ کو چھو جانے کا لمس وہ کئی دنوں تک اپنے ہاتھ میں محسوس کرتا رہا تھا ۔ کسی عورت کو چھونے کا یہ پہلا احساس تھا ۔ پہلی بار مولوی عزیز نے عورت کو اپنے اندر اترتے محسوس کیا تھا ۔اسے اپنے وجود میں کوئی چیز دوڑتی ہوئی محسوس ہونے لگی تھی ۔صفیہ کے باور کرانے پر کہ وہ اب بھی نوجوان دیکھائی دیتے ہیں ،سفید بالوں کو خزاب لگانے لگا تھا ۔خود کا آئینے میں جائزہ لینے کے بعد مولوی عزیز نے بھی اس بات کو محسوس کیا تھا۔
’’ مولوی جی ،آپ منے کو کئی دنوں سے پڑھانے نہیں آئے ،منا بڑا شیطان ہو گیا ہے،اپنی دادی اور مجھے بہت تنگ کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔‘‘ صفیہ نے مولوی عزیز کے کمرے میں داخل ہوتے ہی چہرے سے نقاب اتارتے ہوئے کہا ۔ یوں صفیہ کا کمرے میں اکیلے چلے آنا مولوی عزیز کی توقع کے برعکس تھا ،وہ حیران و ششدر دیکھنے لگا ’’ مجھے آپ کے سوالوں کے جواب مل گئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟شجر ممنوعہ کا پھل کھانے کی پاداش میںآدم و حوا دونوں کو اللہ نے جنت سے بے دخل کر دیا تھا،دونوں کرداروں کے ساتھ تیسر ا کردار شیطان کاتھا ،اگر مثل حوا تم جنت سے نکلو گی تو آدم کی طرح بے دخلی کی سزا مجھے بھی ملے گی ‘‘ ’’اور تیسرا شیطان۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا کیا ہو گا ‘‘؟ صفیہ نے سوال کیا ۔’’ وہ ہم دونوں کو جنت سے نکال کر خوش ہو گا ‘‘ ’’ مولوی جی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر جنت سے نکلنا ہی ہے تو کیوں نا پھل کھا کر نکلیں ۔۔۔۔۔۔‘‘ صفیہ نے پھل توڑنے کیلئے شجر ممنوعہ کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
زور سے کمرے کا دروازہ کھلا دس بارہ لوگوں کا جتھہ اندر داخل ہوا ’’ بھائیو ۔۔۔۔! اپنی آنکھوں سے دیکھ لو ،یہ ہے مولوی جی کا اصل روپ ۔‘‘ صفیہ کو ایک نینگر نے مولوی جی کے کمرے میں آتے دیکھ لیا۔یہ وہی نینگر تھا جس کو بدفعلی کے الزام میں مولوی جی نے شیطان کہہ کر محلے کے لوگوں کے سامنے رسوا کیا تھا ،آج مولوی جی کی سفید چادر پربدنامی کا داغ لگانے لوگوں کو اکٹھا کر کے لے آیا تھا ۔ ’’ مولوی جی ۔۔۔۔ اب آپ بتائیں ،شیطان میں ہوں یا آپ ،بڑے پارسا بنے پھرتے تھے تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ ’’ آپ سب غلط سمجھ رہے ہیں،میں تو ۔۔۔۔۔۔‘‘
صفیہ نے اپنے یہاں آنے کی وضاحت دینا چاہی تو ایک آدمی بولا ’’ محترمہ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ہم جانتے ہیں آپ نہایت شریف فیملی سے تعلق رکھتی ہیں ،شیطان صفت مولوی نے آپ کو یہاں آنے پر ورغلایا ہو گا،آپ چپ چاپ یہاں سے چلی جائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ہم جانیں اور یہ شیطان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ ْ ْ
– – – – – – –
Short Story : Satan
Writer : Mohammed Nawaz