میری اردو شاعری کی بیاض ۔ قسط 8 ۔ ۔ آتشؔ ۔ ۔ ۔ ۔ پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

Share

mohsin osmaniشعرالہند ۔ میری اردو شاعری کی بیاض ۔ قسط 8
(شعراء کے دواوین اور سوانح سے کشید کیا ہواآب حیات )
خواجہ حیدرعلی آتشؔ

پروفیسرمحسن عثمانی ندوی
ای میل :
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میری اردو شاعری کی بیاض قسط ۔ 7 ۔ کے لیے کلک کریں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

خواجہ حیدرعلی آتشؔ (۱۷۷۸ء۔۱۸۴۶ء)
آتشؔ حیدر آباد میں پیدا ہوئے ، شاعری کے فن کے ساتھ سپہ گری میں بھی کمال حاصل کیا ، ان کے کلام کی خصوصیت روز مرہ اوربول چال کی زبان ہے، تصنع اور تکلف بالکل نہیں ہے، آتش تخلص تھا تو کلام میں بھی گرمی تھی، زندگی خوداری اور قناعت کے ساتھ بسر کی ، مزاج میں تصوف کی آمیزش تھی اس لئے عشق حقیقی سے متعلق ان کے یہاں اشارے ملتے ہیں، مثال کے طور پر یہ شعر :

ظہور آدم خاکی سے ہم کو یہ یقیں آیا
تماشہ انجمن کا دیکھنے خلوت نشیں آیا
آتش کے بہت سے اشعار روز مرہ کا محاورہ بن گئے ہیں، جیسے یہ شعر:
بیاں خواب کی طرح جو کر رہا ہے
یہ قصہ ہے تب کا کہ آتش جواں تھا
اوریہ شعر :
اگر بخشے زہ رحمت نہ بخشے تو شکایت کیا
سر تسلیم خم ہے جو مزاج یا ر میں آئے
ان کے اور بھی بہت سے اشعار بہت مشہور ہیں ، جیسے:
زمین چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
اور ان کا یہ شعر بھی ہر محفل میں پڑھا اور سنا جاتا ہے:
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو ایک قطرہ خوں نہ نکلا
اور یہ اشعار :
فصل بہار آئی پیو سو پیو شراب
بس ہو چکی نماز مصلی اٹھائیے
اس کے بعد ایک شعر :
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجر سایہ راہ میں ہے
ہر شب شب برات ہے ہر روز روز عید
سوتے ہیں ہاتھ گرن مینا میں ڈال کر
خواجہ حیدر علی آتشؔ کا وطن دہلی تھا ، ان کے والد نے دہلی سے ہجرت فرما کر لکھنؤ سکونت اختیار کی، خاندانی سلسلہ پیری مریدی کا تھا، خواجہ آتش نے یہ سلسلہ موقوف کردیا، اور فقیری کے ساتھ آزادی کی زندگی گذاری اور شاعرانہ شغل اختیار کیا، وہ خود نیک ، سادہ طبیعت اور بھولے بھالے آدمی تھے، جو کچھ وظیفہ نواب آودھ کی طرف سے ملتا تھا اس میں سے تھوڑا سا لیتے تھے اور باقی سب غرباء میں تقسیم کرتے تھے، توکل پہ گذارا تھا، درباروں میں حاضری دینا ان کو پسند نہ تھا، انھوں نے زمانے نیرنگیوں کا مقابلہ دلیری سے کیا ، وہ درویش صفت اور فطرت پسند شاعر تھے، ان کے کلام میں زبان کی پختگی اور محاوروں کا حسن ہے ،ان کی ایک بہترین غزل وہ ہے جس کا شعر ہے
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا افسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا
یوں مدعی حسد سے نہ دے داد تو نہ دے
آتش غزل یہ تونے کہی عاشقانہ کیا

Share
Share
Share