ڈاکٹرمحی الدین قادری زورؔ کی تنقیدی بصیرت ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرنکہیت آرا شاہین

Share

 Qaudri Zore زورؔ

ڈاکٹرمحی الدین قادری زورؔ کی تنقیدی بصیرت

ڈاکٹرنکہیت آرا شاہین
انچارج پرنسپل‘ اورینٹل اُردوکالج‘ حمایت نگر‘حیدرآباد
فون:09959632384
ای میل :

تنقید کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی تخلیق کی ہے ۔ہر آرٹ کی تخلیق سے قبل تنقید کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ اُردو میں تنقید مغرب کے زیر اثر آئی۔ ابتداء میں دیباچوں اور تذکروں میں تنقیدی شعور پایا گیا۔ شعرأ نے اپنی مثنویوں میں ’’بابِ سخن‘‘ کے عنوان سے جن خیالات کااظہار کیا ہے اس میں ایک طرف انکا تنقیدی شعور جھلکتا ہے تو دوسری طرف اس عہد کے معیار حسن و قبح کا پتہ چلتا ہے۔ اس طرح اُردو تنقید کا قدیم دور الفاظ کے انتخاب ‘تشبہات واستعارات کی ندرت‘ ترکیب کی جستجو محاورہ‘ ضرف الامثال‘ محب ردیف و قافیہ کی بندش اور اسکی خوبیوں اور خامیوں کی حدتک محدود تھا۔

‌‌الطاف حسین حالیؔ نے ’’ مقدمہ وشعرو شاعری کے ذریعہ اُردو میں با ضابطہ تنقید نگاری کا آغاز کیا۔ مقدمہ شعر وشاعری میں پیش کردہ اپنے تنقیدی خیالات کے سبب جدید اُردو تنقید نگاری کے بانی قرار پائے ۔حالیؔ نے تنقید کی جو راہ نکالی اس پر آگے چل کر اُردو تنقید نے طویل فاصلہ طئے کیا۔ حالیؔ کے بعد اُردو نقادوں کا ایک سلسلہ چل پڑا جن میں اہم نام شبلیؔ ‘ عبدالحق‘ نیاز فتح پوری‘ مجنوں گورکھپوری ‘آل احمد سرور‘ احتشام حسین‘ احسن فاروقی ‘وزیر آغا‘ قمر رئیس وغیرہ ہیں۔
قاری اور نقاد کی پسند کے اعتبار سے جب تخلیق کو قبول یا رد کیا جانے لگا تو ادب میں تنقید کے دبستان وجود میں آئے۔ تنقید کے ابتدائی نظر ئے تعریف ‘تشریح توضیح اور تجزیہ کی شکل میں ہیں۔ تنقید کا تعلق تحقیق اور تخلیق سے بھی ہے۔ تینوں میں فضلیت کا معاملہ زیر بحث رہتا ہے تو میں یہی کہوں گی کہ تحقیق کے بغیر تنقید ممکن نہیں اور تنقید کے لئے تخلیق ضروری ہے اور اچھی تخلیق کے لئے سلجھے ہوئے تنقیدی بصیرت کی ضرورت ہے۔
حالیؔ کو اُردو تنقید کی تاریخ میں اولیت حاصل ہے۔ لیکن ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ اردو ادب کے پہلے نقاد ہیں جنھوں نے جدید تنقیدی اصولوں اور مبادہات سے ہمیں واقف کرایا اور تنقید کے موضوع پر بلند پایہ علمی کتابیں پیش کیں۔ انھوں نے مغربی تنقیدی تصوارت سے براہ راست استفادہ کرکے جدید اصولِ تنقید کی بنیاد اس قت رکھی جبکہ ابھی اس موضوع پر ابہام یا انتشارپایاجاتا تھا۔ ڈاکٹر زورؔ کی تنقیدی بصیرت کا مفصل طورپر جائزہ لینا مختصر مقالے میں ممکن نہیں اس لئے مختصر اََ ان کی تنقیدی تصانیف کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
روح تنقید:
1925ء میں شائع ہوئی۔ یہ تنقید پر ایک معرکتہ الآرا تصنیف ہے۔ اس کتاب کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ مبادیات تنقید سے متعلق ہے جس میں تنقید وادب کی تعریف‘ ادب کی پیدائش ‘ادب کا مقصد‘ تنقید کا مقصد اصولِ تنقید‘ میر حسن اور ان کی مثنوی سحرالبیان پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ اس کتاب کا دوسرا حصہ ارتقائے تنقید سے متعلق ہے ۔ اس حصے میں مشہور یونانی اور روم کے فلاسفر کے تنقیدی تصورات کو پیش کرتے ہوئے فرانس اور انگلستان میں تنقید کے ارتقاء کو پیش کیا ہے۔
18 ویں صدی کے بعد تنقید کی ترقی پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ کولرج‘ ورڈ سورتھ‘ میاتھو آرنلڈ جیسے مشہور نقادوں کی تنقیدی تصورات کو پیش کیا ہے۔ روحِ تنقیدمیں ڈاکٹر زورؔ نے اُردو داں طبقہ کو مغربی اصولِ تنقید سے واقف کرکرایا اور اس کے ساتھ ساتھ عربی ادب میں بھی تنقیدی تصورات کا سرانح لگایا۔ انھوں نے تنقید کے چند اصول واضح کئے جو یہ ہیں۔
۱۔ کتاب ظاہری شکل کے لحاظ سے جس صنف ادب سے تعلق رکھتی ہے وہ اس کی تمام خصوصیات پر حاوی ہے یا نہیں ہے۔ اس کا اندازہ گائیں۔
۲۔ کتاب معانی ومطالب کے لحاظ سے اپنے موضوع کی تمام خوبیوں سے منصف ہے یا نہیں۔
۳۔ کسی ادبی کا رنامے کی زبان اور اسلوب بیان کی نگہداشت بھی ضروری ہے۔
۴۔ مصنف کی ذات اس کے ماحول اورا س کی تصنیفات کے ماخذوں کا گہرا مطالعہ کیا جائے۔
ادب اور تنقید کے مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اُرد ادب کا مقصد صداقت کی ترجمانی ہے ۔اس کو سمجھنا اور سمجھانا تنقید کا کام ہے۔ ادب کی گہرائیوں تک پہنچنا اور اُن پیش بہا موتیوں کو نکال لانا جو عام نظروں سے مختص ہیں تنقید کا بہترین مقصد ہے۔
انھوں نے تنقید کے کئی کام واضح کئے جن میں تنقید کا ایک اہم مقصد عوام کے مصنف کی طرف متوجہ کرے۔عوام یا مصنف کی کمزوریوں کو در کرے۔ ڈاکٹر زورؔ کہتے ہیں:
’’تنقید میں نہ صرف تقریظی پہلو ہوتا ہے بلکہ تخلیقی بھی۔ اس کا کام نہ صرف بُرائی کی مذمت کرنا ہے بلکہ اچھا ئیوں کی بھی صحیح طورپر ترجمانی کرکے ان میں ترقی دینا ہوگا‘‘۔
نقاد کے تعلق سے کہتے ہیں:
’’ایک زبردست نقاد شاعربھی بن سکتا ہے اور ایک بہت بڑا انشاء پرداز بھی‘ تنقید کا کارنامہ خود تخلیقی پیداوار ہوسکتا ہے اور ممکن ہے کہ جس کا رنامے میں تنقید کی گئی ہو اس سے بھی زیادہ اہمیت حاصل کرلے‘‘
( ڈاکٹر زورؔ ۔ رو ح تنقید ص ‘۱۴۔۱۵)
انھوں نے تنقید کے دو طریقے بتائے ہیں ایک وہ تنقید جس میں کسی ادبی تخلیق کی عظمت پر کوئی فیصلہ صادر نہیں کیا جاتا بلکہ آزادانہ رائے ظاہر کی جاتی ہے۔
روح تنقید کے دوسرے حصے میں تنقید کے آغاز و ارتقاء پر روشنی ڈالی ہے۔ اس سلسلے میں وہ اقوام عالم کے مطالعے کی روشنی میں اپنی بات پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ افلا طون‘ ارسطو‘ تھیو فراسطسن‘ ارسکاکزی سن‘ ارسطارکس ‘زائے کمس‘ ڈیونی سی اس لانگی نس‘ سسرو ‘ہوریش‘ بلاطارقی‘ پیطراک‘ ڈانٹی اور دیگر فرانس کے نقادوں کی تنقیدی رائے کو اپنے زاویہ نگاہ سے جانچ کرنتائج اخذ کرنے کی کوشش کی ہے۔
اُردو کے اسالیب بیان
اس میں ڈاکٹر زورؔ نے ’’ اُردو نثر‘‘ کے سوسال کے ارتقاء کی ایک مختصر تاریخ رقم کی ہے۔ اس میں قدیم دکنی‘ شمالی ہند کی نثری نشو ونما کے ابتدائی مراحل لے کر دور جدید کے رحجانات تک کا جائزہ لینے کی کا میاب کو شش کی ہے ۔اس کے مطالعہ سے قدیم اُردو بولنے والوں کا معاشرتی اور سماجی پس منظر ہمارے سامنے آجائے گا۔ اس کے علاوہ انھوں نے اُردو کے ادباء کا مغربی ادباء سے موازنہ اور تقابل کیاہے اور مختلف اسالیب کا تجزیہ تفصیل سے کیا ہے۔
اس تصنیف میں رشید احمد صدیقی اور عظمت اللہ خاں کے اسالیب کا تقابلی مطالعہ ڈاکٹر زورؔ کی تنقیدی بصیرت کا واضح ثبوت ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔
’’ رشید احمد صدیقی کی تحریروں میں عربی وفارسی کا زیادہ اثر پایا جاتا ہے اور عظمت اللہ خاں کی اکثر عبادتیں بلندی بھاشا کے مشتقات سے معمور ہوتی ہیں۔ اول الذکر علامہ شبلیؔ کے دبستان کے پیر ونظر آتے ہیں اور موخر الذکر خواجہ حالی کے متبع‘‘
(ڈاکٹر زورؔ اُردو کے اسالیب بیان ۔ ص‘۱۰۱)
تین شاعر:
تین شاعر ڈاکٹرزورؔ کی تنقیدی مباحث پر مشتمل تصنیف ہے ۔اس کتاب میں انھوں نے میر تقی میرؔ ‘ میر انیسؔ اور ہوریس اسمتھ پر تنقید ی نظر ڈالی ہے۔ اور میر تقی میرؔ کی مثنوی نگاری پر خصوصی تبصر ہ کیا ہے۔
جواہر سخن:
یہ ڈاکٹر زورؔ کا مختصر کتابچہ ہے یہ تصنیف بھی تنقیدی مضامین پر مشتمل ہے۔ یہ دراصل مولوی مبین عباسی چریا کوٹی نے چار جلدوں میں اُردو شاعری کا انتخاب مرتب کیا تھا جس پر ڈاکٹر زورؔ نے طویل تبصرہ کیا۔ تھاجسے بعد میں کتابی شکل میں شائع کیا گیا۔
ادبی تاثرات:
یہ تصنیف ڈاکٹر زورؔ کے تبصروں پر مشتمل ہے۔ انھوں نے نہ صرف دوسروں کی تصانیف بلکہ خود اپنی کتابوں پر جو تبصرے اور مقدمات لکھے تھے انھیں مرزا قدرت اللہ بیگ نے ترتیب دے کر شائع کیا۔دنیائے افسانہ ‘کلام احسان‘ متاع اقبال اور باغ وبہار پر جو تبصرہ کئے ہیں ان سے ڈاکٹر زورؔ کی تنقیدی بصیرت کا پتہ چلتا ہے۔
ادبی تحریریں:
یہ تیرہ مضامین کا مجموعہ ہے۔ ڈاکٹر زورؔ گوپی چند نارنگ نے ان مضامین کوترتیب دے کر شائع کیا تمام مضامین میں تنقیدی وتحقیقی رحجانات ملتے ہیں۔
اُردو کے بیشتر نقادں نے ڈاکٹر زورؔ کی تنقیدی صلاحیتوں کا اعتراف کیا ہے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی کہتے ہیں:
’’ ڈاکٹر زورؔ نے تنقید کے لئے جن اصولوں کو ضروری قرار دیا وہ بڑی حدتک سائنٹفک ہیں۔ اگر ان کو سامنے رکھ کر تنقید کی جائے تو ان کی تصانیف کے تمام پہلو پڑھنے والے کے سامنے آسکے ہیں۔ ان کی عملی تنقید میں یہ پہلو سب سے زیادہ نمایاں ہے۔
(ڈاکٹر عبادت بریلوی۔ اُردو تنقید کا ارتقاء ۔ص‘ ۳۲۰)
پروفیسر عبدالمغی ڈاکٹر زورؔ کا اُردو تنقید میں مقام متعین کرتے ہوئے لکھتے ہیں:-
’’ عبدالحق اور رشید احمد صدیقی کے بعد جدید اُردو تنقید کا جو دور شروع ہوتا ہے۔ اس کی پہلی معتبر آواز محی الدین قادری زورؔ کی ہے۔ وہ پہلے اُرد ناقد ہیں جنھوں نے مغرب کے تنقیدی تصورات ومطالعات پیش کئے۔ انھوں نے جدید اصول تنقید پر اُس وقت بحث کی جب تنقید کی ماہیت اور حدود تک کاتعین نہیں ہوا تھا اور بالعموم اس موضوع پر ابہام یا انتشار پایا جاتا تھا‘‘
(پروفیسر عبدالمغنی ۔محی الدین قادری زورؔ ۔ مرتبہ خلیق انجم ۔ ص ۱۱۹)
***

Article : Dr.Mohiuddin Quadri Zore ki Tanqeedi Baseerat
Writer: Dr.Nikhat Ara Shaheen
nikhat

Share

One thought on “ڈاکٹرمحی الدین قادری زورؔ کی تنقیدی بصیرت ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرنکہیت آرا شاہین”

Comments are closed.

Share
Share