شعرالہند ۔ میری اردو شاعری کی بیاض ۔ قسط 7
(شعراء کے دواوین اور سوانح سے کشید کیا ہواآب حیات )
انشاء اللہ خان انشاءؔ
پروفیسرمحسن عثمانی ندوی
ای میل :
– – – – – –
میری اردو شاعری کی بیاض قسط ۔ 6 ۔ کے لیے کلک کریں
– – – – – –
انشاء اللہ خان انشاءؔ (۱۷۵۶۔۱۸۷۱ء)
سید انشاء اللہ خاں کے آباء واجداد نجف (عراق)سے ہندوستان تشریف لائے تھے، انشاء کے والد حکیم میر ماشاء اللہ خان مرشد آباد (بنگال )میں نواب سراج الدولۃ کے دربار سے وابستہ تھے اور وہ شاہی طبیب تھے،ا نشاء اللہ خاں کی پیدائش مرشد آبادمیں ہوئی، ان کے والد نے تعلیم وتربیت کا بہترین انتظام کیا، وہ بہت ذہین لیکن شرارت پسند طبیعت کے مالک تھے، انھوں نے طبابت کا پیشہ اختیار نہیں کیا، کیوں کہ یہ ان کی طبیعت کے موافق نہ تھا۔ سولہ برس کی عمر میں مرشد آبادسے لکھنؤ آگئے اور نواب شجاع الدولہ کے دربارسے منسلک ہوگئے۔ نواب شجاع الدولہ کے انتقال کے بعد دہلی چلے آئے اور بادشاہ شاہ عالم کے دربار تک پہونچ گئے۔
دہلی میں ان کی قدر دانی میں کوئی کمی نہ ہوئی، لیکن ان کا دل لکھنؤ میں لگا ہوا تھا اور وہاں کی صحبتیں ان کو یاد آتی تھیں، چنانچہ وہ لکھنؤ کے لئے پا بہ رکاب ہوئے، وہاں مزرا سلیمان شکوہ نے ان کا پر جوش استقبال کیا، لکھنؤ میں حکومت نواب سعادت علی خاں کی تھی، اور وہ شعراء اور اربابِ ادب کی قدر دانی میں کوئی کمی نہیں کرتے تھے، انشاء اللہ خان انشاء بہت تیز دماغ ، حاضر جواب ، اور بات میں بات پیدا کرنے والے تھے، ان کی زبان سے بے خیالی میں اور زور زبان آوری میں ایسا جملہ نکل گیا جو نواب کی مزاج طبع کے خلاف تھا، نواب نے دی ہوئی مراعات ایک ایک کرکے واپس لے لیں، زبان کی تیزی، زہر ناکی اور دل شکنی تک پہونچ گئی تھی، دہلی میں بھی وہ شعراء اور ادباء سے الجھتے رہے، اور لکھنؤ میں بھی انھوں نے یہی کام کیا، اور اس کام میں بہت نام کیا ، لکھنؤ میں ان کی چھیڑ چھاڑ مصحفی سے ہوتی رہی اور اس چشمک سے جو شاعر ی وجود میں آئی اس میں سطحیت اور عامیانہ پن کا عنصر تھا، وہ اچھے شاعر تھے، لیکن ان کی نثری تصنیفات بھی ہیں، جو اہل ادب کی توجہ کو مرکوز کرتی ہیں جیسے ’’رانی کیتکی ، دریائے لطافت‘‘، رانی کیتکی ایک عشقیہداستان ہے جو بہت سادہ اور خوبصور زبان میں ہے، جس میں عربی اور فارسی کے الفاظ بھی نہیں ہیں، اور ہندی والے اسے ہندی ادب میں شمار کرتے ہیں، اور دوسری کتاب دریائے لطافت اردو لسانیات کے موضوع پر ہے، جس میں ان کی علمی قابلیت اور زبان دانی کے جوہر کھلتے ہیں، انشاء اللہ خان انشاء کے بہت سے اشعار آج تک ادبی حلقوں میں زبان زد ہیں، جیسے یہ اشعار :
نزاکت اس گل رعنا کی دیکھیو انشاء
نسیم صبح جو چھو جائے رنگ ہو میلا
یہ عجیب ماجرہ ہے کہ بروز عید قرباں
وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا
ان کی ایک غزل بھی بہت مشہور ہے، جس کے چند شعر یہ ہیں:
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
نہ چھیڑے اے نکہتِ باد بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں
تصور عرش پر ہے اور سر ہے پائے ساقی پر
غرض کچھ اور دھن میں اس گھڑی مے خوار بیٹھے ہیں
یہ اپنی چال ہے افتادگی سے اب کے پہروں تک
نظر آیا جہاں پر سایہ دیوار بیٹھے ہیں
بھلا گردش فلک کی چین دیتی ہے کسے انشاء
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں
– – – – – –
Article : Inshallah Khan Insha
Writer : Mohsin Usmani Nadvi