نام کتاب : بچوں کی باتیں
مصنف : ڈاکٹرسید اسرارالحق سبیلیؔ
موبائل : 09346651710
تبصرہ نگار: عطیہ پروین
موبائل : 09870821886
ڈاکٹر سید اسرارالحق سبیلی بے شمار صلاحیتوں کے حامل شخصیت ہیں۔ اعلیٰ دینی و دنیاوی تعلیمی قابلیت کے علاوہ اطفالِ ادب اور بحیثیت مفتی شرعی مسائل حل کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ بحیثیت اردو لکچرر‘ ڈگری کالج سدی پیٹ ‘ تلنگانہ میں طلبا کو تعلیم سے آراستہ کر کے ان کے اخلاق کو سنوارتے ہیں۔ کیونکہ آپ ’’بچوں کے ادب‘‘ کے ماہر ہیں۔ اس طرح بچوں کی نفسیات سے بحیثیت ماہراطفالِ ادب اور بحیثیت ماہر معلم واقفیت رکھتے ہیں۔ اس طرح مصنّف بچوں کے ادب سے متعلق صحیح شعور رکھتے ہیں۔ اوراکثر بچوں کے ادب پر مختلف رسائل و اخبارات میں بچوں سے متعلق اخلاقی مضامین و کہانیاں لکھ کر بچوں کے اخلاقی معیارکو پروان چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
مصّنف بچوں کے تئیں نہایت مشفق ہیں۔ چونکہ آپ فرداً فرداً بچوں سے متعلق کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے ہیں۔ درسی کتابو ں میں بے شمار غلطیاں اور کوتاہیوں نے مصّنف کو ’’بچوں کے ادب‘‘ پر پی۔ایچ۔ڈی کرنے پر آمادہ کیا ہے۔ بقول مصنف 2015ء میں مقالہ کا ایک حصّہ ’’بچوں کا ادب ا ور اخلاق ایک تجزیہ‘‘ شائع ہو چکا ہے۔ مقالہ کا دوسرا حصّہ بچوں کے ادب کی تاریخ‘‘ کے نام سے ان شاء اللہ 2016ء کے آخر تک شائع ہونے کی اللہ تعالیٰ سے امید کرتے ہیں۔ جون 2016ء میں بچوں کی کہانیوں پر مشتمل کتاب ’’بچوں کی باتیں‘‘ شائع ہوئی۔ یہ کہانیاں آپ کی حقیقی زندگی سے رابطہ رکھنے والے سچّے واقعات پر مشتمل ہیں۔
یقیناًیہ کہانیاں بچوں کے اخلاق و عادات کو سنوارنے‘ نکھارنے کاذریعہ ثابت ہوں گی۔ کہانی ’’آفیسر کا بیٹا‘‘ میں مادری زبان کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا۔ مادری زبان کا اثر انسان کے خون میں شامل ہوتا ہے۔ کوئی انسان سوٹ بوٹ پہن کر انگیزی اسکول میں تعلیم حاصل کرنے سے آفیسر نہیں بنتا‘ سرکاری ہو یا خانگی اسکول بچہ کی تعلیم اپنی ماں کی گود سے شروع ہوکر گھر تک رہتی ہے اور مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے سے وہ علم و ادب سے بہ خوبی واقف ہوتا ہے۔ اور علم میں مہارت حاصل کرتاہے۔ اور یقیناًیہی مہارتیں مستقبل میں عالم صاحب کے بچوں کو ان کی توقع کا مطابق اعلیٰ آفیسر کے عہدوں پر پہنچاتے ہیں۔اور بالآ خر ان کی بیوی کے احساس کمتری کا خاتمہ بھی اس وقت ہوتا ہے‘ جب ایک چپراسی کا بچہ اعلیٰ انگریزی اسکول میں سوٹ بوٹ میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود کامیاب نہیں ہوتا اور بالآ خر آٹو چلانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
کہانی ’’ ماں کی اجازت‘‘ میں ماں کی عظمت و خدمت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ حج جیسے مقدم فریضہ کے لیے بھی ماں کی اجازت و خدمت کو مقدم قرار دیا گیا ہے۔
کہانی ’’تین دوست‘‘ میں معاشرتی اخلاقی پہلو شامل ہے ۔ جس میں برے کام اور برے دوستوں سے اجتناب‘ مخلص و متحد رہنے اور غلطی پر معافی مانگ لینے کو ترجیح دی گئی۔ کہانی ’’ لنگڑی بکری‘‘ میں اخلاقی اثرات کو ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی۔ لنگڑی بکری جس کا سب مذاق اڑاتے تھے۔ خلوص نیت کے ساتھ جب اس نے ملکہ شیرنی کی مدد کی تو شیرنی نے ہاتھی کو حکم دیا کہ روزانہ بکری کو اپنی پیٹھ پر بٹھاکر چرا گاہ لائے اور لے جائے۔ جو اعلیٰ ظرف کے ساتھ احسان کا بدلہ تھا۔ اس طرح چیل نے بکری کو دیکھا دیکھی چوہے کو پانی سے نکالا تو اس نے اس کا بدلہ برائی سے دیا۔ جو کم ظرف کے ساتھ عزت کے لالچ میں دلدل کانتیجہ تھا۔
کہانی ’’جیسے کو تیسا‘‘ میں احسان کا بدلہ احسان سے دینے کو ترجیح دی گئی۔ احسان کابدلہ برائی سے دینے پر سامنے والا بھی براکر سکتاہے۔کہانی ’’ اور کتّے کی دم کٹ گئی ‘‘ حقیقی واقعہ پر مشتمل ہے جو مصنف کے ساتھ کالج میں واقع ہوا۔ لیکن کتے کی بے بسی کی تصویر کشی کی گئی۔ انسان سے وفادار ہوتا ہے اپنی ہی کتّا برادری سے بے وفا و بے مروت ہوتا ہے۔ انسان نے کتّے کی وفاداری کو تو نہیں اپنایا بلکہ کتّے کی اپنی برادری سے بے وفائی و بے مروتی کو اپنا لیا ہے۔ جس کی بنا پر معاشرہ بگڑتا جارہا ہے۔
کہانی ’’ناداں دوست‘‘ میں مصنف نے ایک اچھی نصیحت کی ہے۔ اکثر بچے چھٹیوں میں مرغی کے چوزے پالتے ہیں اور ان کی اچھی طرح دیکھ بھال نہیں کرتے۔ نتیجتاً چوزوں کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ لہٰذا کوئی بھی کام کرنے سے قبل اس تعلق سے جانکاری و احتیاطی تدابیر سے واقف ہونا چاہیے تاکہ افسوس و بچھتاوا نہ ہو۔
کہانی ’’تدریس کی برکت‘‘ میں پیشہ تدریس کی اہمیت و مقبولیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ دورانِ تعلیم اور تعلیم حاصل کرنے کے کئی سال بعد بھی طلبہ اپنے اساتذہ سے خلوص و محبت سے پیش آتے ہیں اور اپنے اساتذہ کا وقتِ ضرورت خیال رکھتے ہیں۔ بے شک یہ تدریس کی برکت ہے۔
کہانی ’’پہلی اڈلی‘‘ میں غلط مذہبی عقیدے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ جس میں اڈلی والا پہلی اڈلی اور پہلا دوشہ بنڈی میں لٹکی ہوئی مورتی کے فریم کے سامنے رکھ دیتا۔ بے جان مورتی تو کھاتی نہیں۔ اس طرح شام تک اڈلی دوشہ خراب ہو جاتا۔ صحیح عقیدہ یہ ہوتا کہ کسی غریب انسان کو اڈلی دوشہ کھلاکر ثواب حاصل کرتا ہے۔
کہانی ’’سالگرہ کے چاکلیٹ‘‘ میں ایک استاد نے بہت خوبصورت پیرائے میں یہ سمجھانے کی کوشش کی ہیکہ سالگرہ یا برسی منانا عیسائیوں اور غیر ملکوں کا طریقہ ہے۔ عمر بڑھنے پر خوشی نہیں بلکہ اپنی زندگی کا احتساب کرنا چاہیے کہ اس سال ہم نے کیا اچھے و برے کام کیے۔
کہانی ’’فاکیہ کا پری ڈریس‘‘ میں مصنّف نے معصوم بچی کا رمضان ڈریس سے انتہائی لگاؤ کو ظاہر کیا ہے۔پری ڈریس فاکیہ کی کمزوری بن گئی۔ جب کسی چیز سے بے حد لگاؤ ہوجاتا ہے تو اس کے گم ہونے کے ڈر سے خوف ہونے لگتا ہے۔ فاکیہ بہت ضد کرتی تو الماس اس سے کہتی تم ضد کر رہی ہونا۔ کالا جھوجھو (کتّا) تمہارا پری ڈریس لے کر چلا جائے گا۔ الماس اس سے توبہ کراتی کہ اب ضد نہیں کروگی۔ اس طرح فاکیہ اپنے قیمتی پری ڈریس کو بچانے کی خاطر ضد جیسی بری عادت سے چھٹکارا پا لیتی ہے۔ کہانی ’’ نیا گاؤں‘‘ میں مصنّف نے بچوں کا ننھیال ہے ۔ مصنّف کے بچپن کے دور میں جو قدیم طرز پر مشتمل تھا آج ان کے بچوں کے دور میں یہ گاؤں نئے طرز کی ٹیکنالوجی سے معمور ہے۔
کہانی ’’ کھیل کھیل میں‘‘ کو مصنّف نے ڈرامہ کی شکل میں پیش کیا ہے۔ ڈرامہ میں مصنّف اور ان کی پیاری لڑکیوں نے کردار اداکیا ہے۔ کھیل کھیل میں اردو زبان سے محبت‘ ملک کے سنگین حالات‘ دوسرے بین الاقوامی ممالک کو پیغام امن دیا گیا ہے کہ وہ ہمارے ملک میں بے جا تشدد نہ پھیلائیں۔ اس طرح کھیل کھیل میں بچوں کو تقریر کے فن سے واقف کرایا گیا ہے۔
آخر میں مصنّف نے مضمون ’’ آپ بھی قلم کار بن سکتے ہیں‘‘ میں بچوں کو اچھے قلمکار‘ فن کار بننے کا راز بتایا ہے کہ کس طرح مختلف رسائل و اخبارات بچوں کی شاعری‘ کہانیاں‘ ناول‘ ڈرامے اور معلوماتی کتب کا مطالعہ کر کے ننھے قلمکار بن سکتے ہیں۔
اس طرح مصنّف نے ( بچوں کے لیے دلچسپ کہانیاں)’’ بچوں کی باتیں‘‘ میں ادب کے ہر پہلو کو اجاگر کیا ہے۔ بڑے بڑے جامع جامع انداز میں بچوں کے اخلاق و کردار کو سنوار نے کی کوشش کی ہے۔ ہر کہانی میں ایک سبق اور کچھ مزاح کے پہلو بھی نظر آتے ہیں۔۴۶ صفحات پر مبنی کتاب کی قیمت چالیس روپیے رکھی گئی ہے۔
کتاب ملنے کا پتہ :
رحمانی پبلی کیشنز‘ اسلام پورہ‘ مالی گاؤں
ضلع ناسک مہارشٹرا 423203
موبائل نمبر09890801886